تما م پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!
اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کی محبت کی مثال دی تو وہ ماں کی محبت کی۔
دنیا کا چاہے جو مذہب بھی ہو ہر مذہب میں اس رشتے کا احترام کرنے کو ملتا
ہے میں نے جب اس لفظ ماں کو مختلف زبانوں میں دیکھا تو مجھے ان تمام میں
ایک حرف مشترک نظر آیا اور وہ تھا حرف میم اور پھر میں نے اس میم سے لفظ
محبت کے میم سے ملایا تو پتہ چلا کہ واقعی یہ ہستی ہے ہی محبت کرنے والی کہ
جس کی محبت کی مثال دے کر ہی اللہ نے اپنی محبت کو بیان کیا۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ماں کو یہ احترام کیوں ملا عموماً یہ سوال جب بھی
میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے یہی جواب دیا کہ کیونکہ ماں بچے کی پیدائش تک
بہت تکالیف برداشت کرتی ہے اس لیے لیکن میرے دل کو اس جواب سے تشنگی حاصل
نہ ہو سکی۔ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے میں تاریخ کا مطالعہ کیا تو مجھے اس
کا جواب ملا کہ یہ رتبہ ماں کو چند ماؤں کے کردار اور کارناموں کی وجہ سے
ملا میں نے جب ان ماؤ ں کا کردار پڑھا تو مجھے ایسے لگا جیسے اللہ نے ان
ماؤں کے کارناموں کی وجہ سے بننے والی ہر ماں کو وہ عزت دے دی ہو۔
تو میں جب ان کے کردارا ور ان کے کارنامے پڑھے تو مجھے افسوس ہوا کہ ہم نے
ان کے ساتھ ایک بہت بڑی ناانصافی کی اور آج ہم میں اکثر لوگ ایسی ماؤں کے
شاید نام بھی نہ جانتے ہوں اسی ماؤں میں سے ایک نام ہماری تاریخ کی ایک
عظیم ماں یعنی رضیع خاتون کا ہے کہ جس نے اپنے دور میں اسلام کی خاطر جو
قربانیاں دیں شاید اگر میرا بس چلے تو میں اس ماں کی عظمت پر اپنی جان بھی
قربان کردوں اس لیے آج میں اس ماں کو اپنی تحریر کا حصہ بنا رہا ہوں شاید
میرے الفاظ اس ماں کی عظمت کو نہ پہنچ سکیں لیکن میری اندر کی روح میں ایک
اطمینان یہ ضرور پیدا ہو رہا ہے کہ میں نے اس ماں کی داستان کو آج آگے
پہنچایا شاید بہت سے تاریخ دان اور علم والے لوگ مجھ سے زیادہ ان کے بارے
میں جانتے ہوں کیوں کہ میرے پاس اتنا علم نہیں کہ میں اس علم کے ذریعے اس
ماں کی داستان بیان کرسکوں۔ تو جو داستان میں نے سنی اور پھر پڑھی تو وہی
کچھ اپنے الفاظ کے ساتھ بیان کرنا چاہوں گا۔
تاریخ میں جب بھی صلیبی جنگوں کا نام آئے گا اس کے ساتھ ساتھ دو شخصیات کا
نام بھی قیامت تک آئے گا اور وہ دو نام ہیں نورالدین زنگی(رح) اور سلطان
صلاح الدین ایوبی(رح)- جس ماں کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ ماں نورالدین زنگی
(رح)کی بیوی تھیں۔ ایک ایسی عورت کہ جس نے اپنی پوری زندگی اسلام کے نام پر
وقف کر دی آج تاریخ اس کے کارناموں اور ہم لوگ اس ماں کے کارناموں کو بھول
چکے ہیں جو ان کے ساتھ ایک بہت بڑی نا انصافی ہے اگر ایک شخص اللہ کی راہ
میں مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو ساری عمر نہ جانے کتنے لوگوں کتنی لڑکیوں
کو اسلام کی راہ میں قربان کرے تو کیا وہ شہید نہیں ہوگی۔
نورالدین زنگی (رح)کی وفات اس وقت ایک قیامت سے کم نہ تھی جب صلاح الدین
ایوبی (رح) صلیبیوں کے جال میں اکیلا پھنس گیا تھا یہی وہ وقت تھا کہ رضیع
خاتون نے اپنا حق ادا کیا اور اپنے مرحوم شوہر کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا
اللہ نے ان کو ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے نوازا تھا اور شاید یہی اولاد ان
کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش کا سبب بنی۔ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد
صلیبیوں نے ان کے بیٹے کو اپنے رنگ میں ڈھالا اور یوں ماں جو اپنے بیٹے کو
دوسرا نورالدین زنگی (رح) بنانا چاہتی تھی اپنی خواہش پوری نہ کر سکی بیٹے
کے ساتھ بیٹی بھی چلی گئی جس نے جب بھائی کے ساتھ صلیبیوں کا ماحول دیکھا
تو وہ بھی اسی رنگ میں ڈھل گئی ایک ماں کے لیے اس سے بڑھ کر کیا مصیبت ہوگی
لیکن اس ماں نے ہمت نہ ہاری اور لڑکیوں کی ایک جماعت بنائی اور انہیں
جاسوسی کی تربیت دی لیکن ایک غم جو انہیں اندر ہی اندر میں گھول رہا تھا
اور وہ یہ تھا کہ اگر کسی دن کسی ماں نے یہ کہہ دیا کہ تمھارا بیٹا خود تو
صلیبیوں کا پیروکار اور ساتھی ہے اور تم خود ہمارے بیٹے بیٹیوں کو اسلام پر
قربان کرنے کو کہتی ہو۔
پھر اسلام نے ان سے ایک اور قربانی مانگی ہو ا یہ کہ حلب کا حکمران جو
بظاہر تو مسلمان تھا لیکن درپردہ صلیبیوں کا ساتھی تھا٬ نے ان سے شادی کی
درخواست کی جو انہوں نے اس لیے قبول کر لی کہ شاید شادی کے بعد وہ ان کو
راہ راست پہ لا کر ان کو سلطان ایوبی (رح) کا مطیع بناسکیں۔ لیکن اس نے
شادی کے بعد الٹا ان پر باہر جانے کی پابندی لگا دی لیکن انہوں نے اس حالت
میں بھی ہمت نہ ہاری اور ایک دن ایک قابل شناسا چہرہ ان کے سامنے موجود تھا
جو ان کی بیٹی کا تھا لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کا کوئی استقبال نہ کیا بیٹی
نے آکر بھائی اور اپنی طرف سے معافی مانگی اور کہا کہ ماں تو اپنے بچوں کو
کبھی دکھ میں نہیں دیکھ سکتی بھائی اس وقت موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور
وہ آخری بار آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
اب جو بات میں نے شروع میں کی کہ ماں جس کی محبت کی مثال خود اللہ دیتا ہے
کہ ماں کبھی اپنے بچوں کو کبھی دکھ میں نہیں دیکھ سکتی لیکن ایک ماں یہ بھی
تھیں اب ذرا اس ماں کو دیکھئے کہ جس کے سامنے اس کی پیاری جوان بیٹی ہاتھ
باندھے کھڑی ہے اور اسے بیمار بیٹے کی داستان سنا رہی ہے اور اسے موت جیسی
المناک بات سنا رہی ہے۔ اب اس محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ماں بیٹی کو سینے
سے لگا لیتی اور فوراً بیٹے کی طرف چل پڑتی لیکن اس ماں کے چہرے پر کوئی غم
کا نشان ظاہر نہیں ہورہا تھا۔
مجھے آج کے دور کا یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ایک ماں پر ہی ہے ہمارے
ہاں ایک فیملی رہتی تھی تو اس کے بیٹا موٹر سائیکل پر کہیں جا رہا تھا اب
وہ ایک گلی سے گزر رہا تھا اس گلی میں کہیں تعمیر کا کام ہو رہا تھا تو
وہاں سے گزرتے ہوئے ایک پھٹہ سا اوپر سے گرا اور اس کے سر پر آکر لگا اب اس
کو ہسپتال لے کر گئے جہاں اس کی پٹی وغیرہ کی گئی تو میں بھی اس کی عیادت
کے لیے اس کے گھر گیا تو اس کے ماں باپ بھی بیٹھے تھے اب بیٹھے بیٹھے اس کے
ماں باپ نے اللہ سے شکوہ کرنے شروع کردئیے کہ ہم نے ایسے کون سے گناہ کیے
تھے جو ہمارے بیٹے کو تکلیف آئی اب دوسری طرف دیکھیے کہ آج تک میں نے اس کے
بیٹوں کو کبھی مسجد میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا اگر سچ کہوں تو شاید جمعہ
بھی تو میں سوچنے لگا کہ جب ہم اس اللہ کی بات نہیں مانتے اس کے احکامات کو
نہیں مانتے تو پھر جب تکلیف آتی ہے تو اس کو شکوہ کیوں کرتے ہیں خیر یہ بھی
ایک محبت تھی ان ماں باپ کی جو میں آپ کو بتانا چاہ رہا تھا تو میں آپ کو
واپس اس ماں کی داستان پر لے جاتا ہوں۔ تو اب ہوتا تو یہ کہ وہ بھی تیار ہو
جاتیں بیٹے کو دیکھنے کے لیے لیکن انہوں نے بیٹی کو کہا کہ وہ میرے لیے اسی
دن مر گیا تھا جس دن اس نے صلیبیوں کا ساتھ دیا تھا اور پھر بیٹی کے اندر
ایمان افروز باتیں کیں کہ بیٹی دنگ رہ گئی اس بیچاری کا بھی کیا قصور تھا
جو ساری عمر بھائی کے پاس ہی رہی تھی لیکن جب ممتا کے منہ سے ایمان کی
باتیں سنیں تو اس نے وعدہ کیا کہ واپس آئے گی اور آپ کو وہی بیٹا بن کر
دکھائے گی جس کا آپ نے خواب دیکھا ہے۔
اور پھر واقعی تاریخ نے دیکھا کہ اس بیٹی نے وہ سب کر کے دکھایا رضیع
خاتون(رح) نے آخری دم تک اسلام کے لیے کام کیا حتی ٰ کہ سلطان ایوبی (رح)
لشکر کے ساتھ بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کرنے والا تھا تو اسے ایک لشکر
آتا دکھائی دیا جب قریب آیا تو وہ لڑکیوں کا لشکر تھا جن کی کمان انہیں کی
بیٹی کے ہاتھ میں تھی اور پھر خود ایوبی (رح)کے سامنے آکر انہیں ایک منبر
پیش کیا اور کہا بھائی صلاح الدین (رح) یہ منبر میرے مرحوم شوہر نور الدین
زنگی (رح)کی نشانی ہے جو انہوں نے اس لیے بنوایا تھا کہ اگر اللہ نے انہیں
توفیق دی تو وہ یہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھیں گے لیکن ان کی یہ خواہش پوری
نہ ہو سکی لیکن اللہ نے آپ کو یہ تو فیق دی ہے تو آپ جب مسجد اقصیٰ کو
یہودیوں کے قبضے سے چھڑا لو تو میرے شوہر کا یہ خواب ضرور پورا کرنا اللہ
آپ کی مدد کرے یہ بات سن کر تمام سننے والوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
تو یہ تھا اس ماں کا کردار کہ جس نے اپنے مذہب پر اپنی اولاد کی محبت کو
بھی پیچھے چھوڑ دیا تو میں جب آج کی ماں کو دیکھتا ہوں پھر اس کے کردار اور
اس کی تربیت کو تو مجھے دل کے کسی کونے میں یہ بات سنائی دیتی ہے کہ قیامت
والے دن ہم اس ماں کا سامنا کس طرح کریں گے ہمارے پاس اتنی بڑی تاریخ ہے کہ
اگر کوئی آج بھی دیکھنا چاہے کہ زندگی کیا ہے اور اسے کس طرح گزارنا ہے تو
وہ تاریخ کا ایک پہلو بھی پڑھ لے تو وہ آج کے دور میں کامیاب ترین انسان بن
جائے تو میرے بھی دل نے مجھ سے کہا کہ اس ماں کا کردار بتانا اب تیرا بھی
کام ہے کہ تو اسے آج کی ماؤں تک پہنچا کہ شاید کوئی اور رضیع خاتون بھی
چھپی ہو میں جانتا ہوں کہ میں ان کے کردار ان کے کارنامے کو صحیح طرح سے
نہیں بتا سکا ہوں کہ جس طرح ان کا حق تھا میں نے پہلے ہی کہا کہ میں کوئی
تاریخ دان نہیں لفظ بالفظ ان کی تاریخ کو بتا سکتا لیکن اتنی سی دل کو تسلی
ہے کہ شاید کل کوئی اس قوم کی بیٹی پڑھ کر خود اس ماں کی تاریخ کو تاریخ کے
ان اوراق سے ڈھونڈ نکالے کہ جن اوراق کو آج ردی سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیا
ہے۔ تو میں آج اس ماں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں کہ جس کی بدولت ہمارا قبلہ
اول یہودیوں کے ہاتھوں سے نکل کر واپس مسلمانوں کے ہاتھ میں آیا یہ الگ بات
کہ ہم نے پھر اسے انہیں کے ہاتھ تھما دیا یہ ہونا تھا کیونکہ جس طرح میں نے
پہلے آپ کو ایک موضوع پہ بتایا کہ جب کوئی قوم شہیدوں کو بھولتی ہے تو اس
کا یہی انجام ہوتا ہے۔
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان ماؤں بہنوں کی داستان اپنی ان ماؤں بہنوں کو
پڑھائیں کہ جو نہیں جانتیں کہ کئی مائیں تھیں جنہوں نے خون کے دیے جلا کر
اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا کہ آج کی ماں اور بہن بھی وہ دیا جلا سکے کہ جس
کی روشنی سے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اور اور دنیا کے آخری کونے تک اسلام کا
نام روشن ہو سکے۔ اللہ آپ دیے سے دیا جلانے کی توفیق دے۔﴿آمین﴾
|