"شجاع یہ کیا حرکت ہے؟"
اور چائے پیتے شجاع کو زبردست اچھو لگا۔ ڈیوٹی ٹائم کے دوران میز پہ
ٹانگیں جمائے وہ مزےکر رہا تھا۔ "کیا ہوگیا اسلم بھائی صرف چائے ہی تو پی
رہا ہوں" بڑی لاپروائی سے کہتے وہ ایک بار پھر چائے کا گھونٹ بھرنے
لگا۔"شجاع تم کسی ہوٹل میں نہیں بیٹھے ۔ تھانے میں موجود ہو اور وہ بھی
کانسٹیبل کی وردی میں ۔ اپنے کام سرانجام دو تو بہتر ہوگا ورنہ ابھی سر کے
آتے ہی تمھاری بتی گل ہوجائے گی" ۔اسلم رکا نہیں اور اپنی ٹیبل کی طرف بڑھ
گیا۔ اور شجاع فوراً کپ چھوڑ کر اپنا کام کرنے لگا۔ یہ تو اس تھانے کے اے
ایس پی کا کمال ہےکہ اس تھانے کے لوگ خواہ وہ آفیسر ہو ، کانسٹیبل یا کوئی
اور عہدے پہ رائج انسان سب اپنے کام کی اہمیت جان کر دل سے کام کرنے لگے
تھے۔ رشوت وغیرہ کا چکر تو اس تھانے میں پھانسی کا پھندا خود گلے میں ڈالنے
کے برابر تھا۔
ایک دفعہ پولیس آفیسر تنویر نے چوری کے چکر میں پھنسے آدمی کے بھائی سے
کچھ دانا پانی لیا ۔ جوان پولیس آفیسر تھا سوچا عیاشی ہو جائے۔ ہونا کیا
تھا پیسہ پیٹ میں اور آدمی جیل سے باہر ۔ لیکن ہوا سب کچھ اس کے برعکس ہی۔
ابھی اسے باہرنہیں نکالا گیا تھا۔ اے ایس پی جب اس بات سے واقف ہوا تو ایک
کلو مٹھائی کا ڈبہ لے آیا اور عین پولیس سٹیشن میں سب پولیس آفیسرز کے
سامنے اسے یہ ڈبہ ختم کرنے کو کہا۔
ٹیبل کے ایک طرف بیٹھا تنویر حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے سر کو دیکھنے لگا۔
اے ایس پی نے گن نکال کر میز پہ رکھی اور ایک نظر تنویر کو دیکھ کر ٹیک
لگا کر بیٹھ گیا۔ جس کا مطلب تھا " مٹھائی کھاؤ ورنہ گولی کھلاؤں گا" ۔
تنویر سمجھ نا سکا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بحر حال بندوق جیسی نظریں اس پر
ابھی تک جمیں تھیں۔
وہ خاموشی سے سر کو دیکھتا رہا جب ایک بار پھر اس نے نظریں مٹھائی کے ڈبے
پر ڈالی اور دوبارہ تنویر کو دیکھا ۔اب تو اسے کھانا ہی تھا۔تنویر نے تھوک
نگل کر پہلا گلاب جامن اٹھایا اور کھانے لگا۔ ایک گلاب جامن کھانے کے بعد
سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو سینے پہ ہاتھ باندھے ابھی اسے ہی گھور رہا
تھا۔
"سر ۔۔" پہلا گلاب جامن کھا کر اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن وہ بات کاٹ کر
نرم لہجے میں بولا "مسٹر تنویر ابھی صرف ایک گلاب جامن کھایا ہے آپ نے اور
تقریباً پورا ڈبہ آپ کا منتظر ہے" باقی آفیسرز حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہے
تھے۔
"لیکن سر میں۔۔۔" تنویر نے دوبارہ کچھ کہنا چاہا ۔
"مسٹر تنویر اسے کھائیے" آواز ابھی بھی نرم ہی تھی۔
"سر۔۔" ایک بار پھر احتجاجاً اس نے کچھ کہنا چاہا۔
"میں نے کہا اسے کھاؤ" آواز اب اونچی تھی اور ریوالور بھی ہاتھ میں آگیا
تھا۔
وہ منع کر سکتا تھا وہ کیوں کھائے آخر لیکن وہ عہدے میں اس سے اوپر تھا
،چہرے پہ غصہ ہاتھ میں گن۔ایک نظر سامنے بیٹھے شخص پر ڈال کر اس نے دوسرا
گلاب جامن اٌٹھایا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا ۔دسویں گلاب جامن پہ اس کی بس
ہوگئی۔
"ارے مسٹر تنویر بہت مبارک ہو آپ کو" چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے اس نے
پانے کی بوتل آگے بڑھائی۔
تنویر نے اطمینان کا سانس لیا۔ اوہ وہ پکڑا نہیں گیا تھا۔
"کس بات کی سر؟" قدرے مسکرا کر پانی کا گھونٹ بھرا۔
"دراصل آپ کے بھائی کو میری سفارش پر اس کے کالج سے نکال دیا گیا ہے اور
میں اسے جھوٹےچوری کے کیس میں گرفتار کروں گا" ۔ سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے
وہ بڑے اطمینان سے کھڑا ہوا اور سن گلاسس پہنتے ہوئے ایک نظر تنویر پہ ڈالی
جس کے چہرے کی ہوایاں اٌڑھ چکی تھی۔
"پر کیوں سر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟" کچھ سمبھل کر تنویر نے دوبارہ سوال
کیا۔
"اب ایک غلط طریقے سے جائے گا تو دوسرے کو غلط طریقے سے لانا پڑے گا نا"
بڑی لاپروائی سے کہتے ہوئے وہ اپنے کیبن میں چلاگیا اور پیچھے سب کو حیران
اور تنویر کو پریشان چھوڑ گیا۔
اگلے دن واقعی اس کے بھائی کو سکول سے نکال دیا گیا۔تنویر کی تو جیسے
کائنات تباہ ہوگئی تھی۔ پورا دن وہ اس کے آفس میں کھڑا معافی مانگتا رہا
تھا۔ اور اے ایس پی اس سے بے نیاز اپنے کام میں مگن تھا۔ بہرحال کافی محنت
کے بعد وہ مان ہی گیا۔ "اپنے کام میں خیانت کرنے والوں سے میں سخت نفرت
کرتا ہوں۔ پہلی غلطی تھی تو معاف کیا۔ آئندہ اس غلطی کو دہرایا تو گناہ کا
عذاب تیار ہوگا تمھارے لئے" سردمہری سے دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئےتنویر کو
بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پانے کا گلاس اسے تھماتے ہوئے وہ نرمی سی دوبارہ
مخاطب ہوا "اپنے بھائی کو کہہ دینا کل سے کالج دوبارہ شروع کردے" تنویر نے
اطمینان کا سانس لیا "تھینک یو سر"
"تھینک یو مجھے نہیں خود کو کہو" وہی سنجیدہ لہجہ دوبارہ اختیار کرتے ہوئے
میز سے اپنی چیزیں اٹھاتے ہوئے وہ باہر نکل گیا۔تنویر حیرانی سے گلاس تھامے
اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ کیا چیز ہے یہ انسان۔۔۔
※※※※
"Yes" بیٹ نیچے گرا کر وہ اچھل پڑا۔
"اوہ نو!" ماتھا پیٹتے ہوئے وہ سامنے کھڑے اپنے دوست بیٹزمین کو گھورنے
لگا "جاؤ لے کر آؤ اب بال"
"بھئی میں کیوں لاؤ بالر خود لے کر آئے" کندھےاچکاتے ہوئے وہ بیٹ کو ہوا
میں ہلا رہا تھا۔
"اوہو! یہ آفریدی جیسے شاٹ مارنے کو کس نے کہا تھا ۔ جب پتا ہے سب جا چکے
ہیں اور صرف ہم دونوں کھیل رہے ہیں تو کون کرےگا اتنے دور کھڑے ہو کر
فلڈنگ" منہ بسور بسور کر اپنے مخصوص انداز میں کھڑا وہ کہہ رہا تھا۔
"کبھی ایسی شکل بنا کر خود کو شیشے میں دیکھنا ایمان سے کبھی فنی شو
دیکنھے کی ضرورت نہیں پڑے گی احمد" وہ ہنستے ہوئے زمین پر ہی بیٹھ کر احمد
کا دھوپ اور غصے کے بائث سرخ چہرہ دیکھنے لگا۔
"رعیم تم۔۔۔" احمد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی رعیم اٹھ کھڑا ہوا۔
"اچھا چھوڑو یار وہ دیکھو بچہ کھڑا ہے وہاں اس سے کہو بال لادے" رعیم نے
فوراً مشورہ دیا۔
"ہاں یہ صحیح ہے" احمد کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
"اے بچے۔۔۔" ابھی وہ چیخا ہی تھا کہ رعیم نے اسکے منہ پر زور سے ہاتھ
رکھا۔
"پیار سے بلاؤ گے تو لاکر دے گا نا"
احمد منہ بسورتے ہوئے کچھ بڑبڑایا اور دوبارہ چیخ اٹھا "پیارے بچےوہ بال
تو لادو" لیکن وہ ٹس سے مس نا ہوا۔
"پیارے مٌنے لاکر نہیں دینی تو پھینک ہی دو"بڑی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ
رعیم کو دیکھا جو پیٹ پکڑ کر ہنستا ہی جا رہا تھا۔ مجال ہے جو بچے نے مڑ کر
بھے دیکھا ہو۔
"میں خود ہی لے آتا ہو" مسکراتے ہوئے رعیم آگے بڑھ گیا۔
بچے سے دو قدم دور کھڑے ہو کر اس کا جائزہ لیا۔ وہ دوسری طرف رخ کیے کھڑا
تھا۔احمد بھی قدم اٹھاتا اس طرف آرہا تھا۔
بلو جینز اوپر سیاہ شرٹ جسے کہنیوں تک موڑا ہوا تھا۔ سر پہ کیپ جس میں سے
بوائے کٹنگ میں کٹے بال تھوڑے بہت نظر آرہے تھے۔ لگ رہا تھا کوئی لڑکا کھڑا
ہے۔ رعیم بال لینے کے لیے نیچےجھکا اور سامنے کھڑی شخصیت نے رخ موڑا۔ جھکے
جھکے ہی اس نے اوپر دیکھا اور۔۔۔ سامنے والا مڑا نہیں مٌڑی تھی۔ بالکل
لڑکوں جیسے حلیے میں کیوٹ سی بچی۔
رعیم آنکھیں پھاڑے اسے تک رہا تھا ۔ پیچھے سے آتے احمد نے اسے دکھا دیا
"فریز ہو گئے ہو کیا" رعیم سیدھا ہوا اور احمد نے اسکی نظروں کے تعقب میں
دیکھا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ کڑے تیوروں سے انہیں کو دیکھ رہی
تھی۔ احمد کو بہت زور سے ہنسی آئی جسے اس نے روکنے کے بالکل کوشش نہیں کی
اور زور دار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ رعیم کے قہقہہ بھی ساتھ شامل ہوگئے۔
"اوئے! جوک سنایا ہے کیا میں نے؟" اس لڑکی نے تھوڑے غصے سے کہا تو احمد کی
ہنسی میں روانی آگئی جبکہ رعیم ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
"تم جوک سے کم ہو کیا۔ کیوں حلیہ بگاڑا ہوا ہے اپنا۔ " احمد نے ہنسی روک کر
طنزیہ انداز میں کہا۔ رعیم کو منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی ضرورت پڑ
گئی۔ وہ جانتا تھا احمد کی باتونی زبان اب کتنا بولے گی۔
"اچھی خاصی کیوٹ بچی ہو اویں لڑکا بننے کا شوق چڑھا ہوا ہے"
"اوئے تمیز ! جانتے نہیں ہو کیا مجھے؟" وہ بھی اونچی آواز میں مخاطب ہوئی۔
"کیوں تم کیا ڈون ہو۔ نہیں جانتے ہم"
"جو مرضی سمجھو"
"ارے منا بھائی! آپ کو کون نئیں پہچانتا " احمد ہاتھ جوڑتے ہوئے نیچے بیٹھ
گیا۔اور رعیم کو بھی اشارہ کیا جو تب سے صرف ہنس رہا تھا ۔ دونوں ہاتھ جوڑے
بیٹھے تھے ۔ احمد معصوم چہرہ بنائے مکمل ایکٹنگ کر رہا تھا اور رعیم دانت
نکالے سامنے سرخ چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
"زیادہ ڈرامے مت کرو ۔ تم لوگوں کو تو میں دیکھ لوں گی" وہ غصے میں پیر
پٹختے ہوئے ہوئی پلٹ گئی۔ احمد نے فوراً آواز دی "منا بھائی۔۔۔منی" لیکن وہ
دندناتی ہوئی جا رہی تھی۔ دونوں ہنسی سے نڈھال ہوتے وہیں بیٹھ گئے۔
※※※
"اور تم کہہ رہے تھے لڑکے ذرا بال تو پکڑانا۔ منے بال تو دینا ذرا" رعیم
لان میں کھڑا احمد کی نقل اتار رہا تھا۔
"اور وہ بھی کم نہیں تھی۔ 'مجھے جانتے نہیں ہو کیا'" رعیم جو تب چپ شاہ کا
روزو رکھے ہنس رہا تھا اب ہر ڈائلاگ کو دونوں کے انداز میں دہرا کر دوبارہ
لطف اٹھا رہا تھا۔
اندر کام کرتیں رعیم کی ماما شازیہ کافی دیر سے دونوں کو پاگلوں کی طرح
ہنستے دیکھ رہی تھیں۔
"منا بھائی کہہ کر گئے تھے کہ ہمیں دیکھ لیں گیں۔ رعیم اس کا نام ہم منی
رکھ لیتے ہیں" اپنی بات سے خود ہی محظوظ ہوتے ہوئے احمد گھاس پر چت لیٹ کر
ہنسنے لگا۔
وہ دونوں لیٹے کسی بات پر ہنس کر تالی مار رہے تھے جب شازیہ لان میں آئیں۔
"خیریت ہے ؟"
"احمد فوراً ہنسی روک کے بولا " آنٹی مت پوچھیں آپ جوانی میں ہنس ہنس کر
بےحال ہو جائنگیں"
"پاگل ہو تم دونوں تو۔ چلو کھانا لگا رہی ہوں آجاؤ دونوں" وہ واپس مڑ رہی
تھیں تب ہی احمد بھی کھڑا ہوگیا۔ "نہیں آنٹی آج عاصم بھائی آرہے ہیں چلتا
ہوں" وہ سر ہلاتے ہوئے اندر مڑ گئی۔
"منّی!" احمد نے رعیم کے کان کے پاس سرگوشی کی اور ہنستے ہوئے باہر نکل گیا
جبکہ رعیم ہنسی قابو کرتے ہوئے اندر بڑھ گیا۔
رعیم اور احمد بیسٹ فرینڈز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اطھے ہمسائے بھی تھے۔
دونوں کی فیملیز کی آپس میں کافی دوستی اور میل جول تھا۔ کافی عرصے سے ساتھ
رہنے سے تعلقات گہرے ہوگئے تھے۔ رعیم اپنے والدین کا اکلوتا تھا جبکہ احمد
سے بڑا ایک بھائی اور بہن تھی۔ عاصم (بھائی) دوسرے شہر میں دادا کے ساتھ
رہتا تھا اور وہیں پڑھائی کرتا تھا ۔ بڑی بہن اینی اور احمد والدین کے ساتھ
یہ رہتے تھے۔
"ساتھ والے گھر میں کل ہی نئی فیملی شفٹ ہوئی ہے" کھانے کے دوران شازیہ
رعیم کے والد سے مخاطب تھیں۔
"چلو شکر! بائیں طرف بھی رونق آئی۔ تم لگا آنا انکی طرف چکر" بریانی کا چمچ
منہ میں ڈالتے ہوئے جواب آیا۔
ان کے گھر کے دائیں طرف احمد لوگوں کا گھر تھا جبکہ بائیں طرف کا گھر پچھلے
کچھ مہینوں سے خالی تھا۔
"ریمو! تم چلوگے؟" وہ خاموشی سے بریانی کے ساتھ انصاف کر رہا تھا ، چونک کر
ماما کو دیکھا۔
"ماما ! مجھے نک نیم نہیں پسند" دبے دبے غصے کے ساتھ وہ گویا ہوا۔
"بیٹا ماما پیار سے بلاتی ہیں" والد صاحب نے سمجھایا تو وہ خاموش ہوگیا۔
"نہیں کل میں نے اور احمد نے گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرنی ہے۔ کل کے بہت
پلینز ہیں ہمارے۔ سوری" وہ ایکسائٹڈ ہوکر بتا رہا تھا۔
"اوکے ٹھیک ہے" شازیہ نے مسکراتے اور سر ہلایا اور کھانا کھانے لگیں۔
※※※
برف اور ٹھنڈے پانی کی الگ بالٹی کو سیڑھیوں میں رکھ (چھپا) کر وہ چھت پر
آیا۔
"ہوگیا سب سیٹ؟" سویمنگ پول سیٹ کرتے احمد سے مخاطب ہوا۔
"یس! پانی بھر رہا ہے بس" بڑی فرمانبرداری سے جواب آیا تھا۔ دونوں رعیم کے
گھر کی چھت پر گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ سب سے
پہلے تو دونوں نے سویمنگ پول مین خوب تماشے کرنے تھے اور اس کے بعد واٹر
فائٹنگ۔
" لو تب تک جوس پیو" احمد اپنے گھر سے جوس لے آیا تھا۔ ان تین گھروں کی
چھتیں بالکل ساتھ ساتھ تھیں۔ اور ادھر سے ادھر آنے جانے کا راستہ بھی تھا۔
او گاڈ! آج تو بڑا مزا آئےگا" ایک سانس میں آدھے سے زیادہ جوس پی کر احمد
اپنے مخصوص "سر ہلا ہلا کر او گاڈ او گاش " والے انداز میں بولا۔
"بھر گیا پانی" اور دونوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ سویمنگ پول میں چھلانگ لگادی۔
سویمنگ پول وہ والا تھا جس میں ہوا بھری جاتی ہے تو زیادہ بڑا نہیں تھا ۔
پانی گھٹنوں تک ہی بمشکل پہنچتا تھا۔
"او ہو! اب میں ہیرو کی طرح ہاتھ مار مار کر سویمنگ کیسے کروں گا" منہ بسور
احمد نے رعیم کو دیکھا ۔ دونوں تھوڑے تھوڑے بھیگ چکے تھے۔
"ایکٹر ہو تم پورے۔ نکالتا ہوں سویمنگ تمہاری ابھی۔۔" احمد کو ٹانگوں سے
پکڑا اور گرا دیا۔ بے چارا اوندھے منہ گر پڑا۔
"رعیم۔۔۔" وہ مکمل بھیگ چکا تھا۔ جیسے ہی اٹھا جوش میں آکر رعیم کو بھی
دھکا دیا۔
دونوں کے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ سمیت وہ مکمل بھیگ چکے تھے۔ آدھا گھنٹہ وہ یوں
ہی "تماشے" کرتے رہے۔
احمد واٹر گن اٹھا لایا اور پانی بھرنے لگا۔ تبھی اسے ساتھ والی چھت پر کچھ
نظر آیا۔
ڈارک بلو جینز اور اوپر چیک والی شرٹ اور وہی کیپ۔
"رعیم" احمد فوراً رعیم کے پاس گیا جو کھڑا ٹراؤزر کے پانچے فولڈ کر رہا
تھا۔
"وہ دیکھو۔ منّی"
رعیم نے چونک کر فوراً سامنے دیکھا۔ اس کی پشت اس طرف تھی ۔ وہ چھت کے
دروازے میں کھڑی تھی۔
"او گاڈ! لگتا ہے بہت مزا آنے والا ہے" احمد نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
"لگتا ہے آج جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے" رعیم ہنسنے کے لیے تیار ہوتے ہوئے
بولا۔
"منّی!" احمد حلق پھاڑ کر چلّایا۔ وہ فوراً پلٹی ۔ چہرے کے تاثرات انہیں
دیکھ کر فوراً بدلے۔
"منّی منّی!" وہ پھر چلّایا۔
اس کا چہرہ لال ہورہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھ کر راستہ ڈھونڈا اور فوراً
دندناتے ہوئے اس راستے سے اس چھت تک آئی۔
دونوں کھڑے مسکرا رہے تھے یہ سوچ کر کہ "اب آئےگا مزا"۔
دونوں سے سامنے کھڑی ہوکر وہ اونچی آواز میں بولی "منی کس کو بولا ؟"
احمد نے معصوم سی شکل بنا کر دائیں طرف دیکھا پھر بائیں طرف پھر اسے
معصومیت سے جواب دیا " یہاں ایک تم ہی لڑکی کھڑی ہوں تو تمہیں ہی کہوں گا
نا منی"
"سوری منا بھائی۔ آپ نے تو لڑکوں والے کپڑے پہنے ہیں غلطی ہوگئی" فوراً
اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے۔
"معاف کردیں ہمیں" رعیم کیوں چپ رہتا تھا آخر وہ بھی احمد کا دوست تھا۔
اس نے کھا جانے والی نظروں سے رعیم کو دیکھا کہ " تمہارے منہ میں بھی زبان
آگئی"
"بد تمیز! لحاظ نہیں کرتی میں کسی کا" کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور احمد کو
دکھا دیا ۔وہ حملے کے لیے تیار نہیں تھا تو بوکھلا کر پانی میں گرگیا۔ رعیم
کی سب سے پہلے ہنسی چھوٹی ۔ وہ بچی کھڑی مسکرا رہی تھی ۔ فخریہ مسکراہٹ۔
رعیم نے ہنسی روک کر ہاتھ بڑھایا اور احمد کو نکالا۔ احمد بھی کم نا تھا۔
فوراً سامنے کھڑا ہوا "جنگل! تمہیں تو جنگلی کہنا بھی کم ہے" اور اس کی کیپ
اتار کر پانی میں پھینکی۔ "اوئے ! یہ کیا کیا۔۔" وہ غصے سے آگے بڑھی اور
پیچھے سے احمد نے اسے دکھا دیا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر باہر گرا۔ "احمد!"
رعیم چینخا۔
وہ بھیگی ہوئی بمشکل اٹھنے کی کوشش کر پائی تھی کہ پانی میں پاؤں پھسلا اور
پھر گر گئی۔ رعیم نے فوراً آگے بڑھ اسے باہر نکالا اور کیپ پکڑائی۔ وہ
غصیلی نظر احمد پہ ڈالتے ہوئے کھانستی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ اپنے چھت سے تھوڑی
سے فاصلے پر رک کر مڑی ۔ وہ دونوں اسی کو دیکھ رہے تھے۔احمد فوراً بولا "اف
دشمن آگئے ہمسائے گھر میں۔ صحیح مزا آئےگا" ۔ اس نے چونک کر دیکھا پھر
افسوس سے سر جھٹکا۔ "چھوڑوں گی نہیں" اور اپنی چھت پہ چلی گئی۔
احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"یار احمد تھوڑا زیادہ ہوگیا تھا۔ بے چاری بچی ہے"
"گاڈ! کچھ نہیں ہوتا۔ چلو ہماپنا انجوائے کریں" وہ گن میں پانی بھرنے لگا۔
رعیم مسکراتے ہوئے سیڑھیوں سے پانی کی بالٹی اٹھا لیا اور احمد پر انڈیل
دیا۔ وہ بے چارا تلملا کر چیختا ہوا اٹھا۔ "رعیم تمہاری خیر نہیں اب" واٹر
گن اٹھاتا وہ اسکے پیچھے بھاگا اور وہ ہنستا ہوا آگے بھاگ رہا تھا۔
※※※
دو روز پہلے جب شازیہ اور احمد کی والدہ نئے ہمسائیوں کی طرف گئی تھیں تب
سے ان کا چرچہ دونوں گھروں میں ہو رہا تھا۔
"بہت اچھے لوگ ہے ۔ خوب جمے گی ہماری"
"بہت اچھی فیملی ہے بیٹا دوسرے شہر میں ہوتا ہے کام کے سلسلے میں"
ان دو دنوں ان کی آپس میں اتنی ملاقاتیں اور فون پر باتیں ہو چکی تھیں کہ
پورے خاندان کی خبریں موصول ہوگئی تھی۔ نیازی کی پہلی بیوی وفات پاچکی تھی
اور چھوٹے بیٹے کی وجہ سے دوسری شادی کرنی پڑی۔ سوتیلوں والا کوئی سلوک
نہیں تھا لیکن سلمان اپنی سوتیلی بہن سے کچھ خاص اچھا سلوک نہیں کرتا تھا
لیکن والدین اس پیاری بچی سے بہت محبت کرتے تھے۔
بقول مسز نیازی "میری بیٹی بڑے بھائی کی طرف دیکھ دیکھ کر لڑکا بننے کے شوق
اپنا رہی ہے"
اور یہ واحد چیز تھی جس سے اس کی والدہ بہت چڑتی تھی جبکہ والد صاحب فرماتے
"کرنے دو جو کرتی ہے بڑی ہو کر ٹھیک ہوجائےگی" والد صاحب مطمئین ہو کر
کہتے۔
روز کی طرح وہ دونوں آج بھی چھت پر ہی "تماشے" کر رہے تھے۔ شام ہونے کو تھی
اسی کئے دھوپ قدرے کم تھی۔لیکن آج احمد لوگوں کی چھت کی شامت آئی ہوئی تھی۔
وہ آرام آرام سے چلتی آرہی تھی۔ پہلے رعیم کے گھر کی چھت عبور کی اور اب
احمد کے گھر کی طرف رخ تھا۔ وہ دونوں چھاؤں میں بیٹھے غباروں میں پانی بھر
انہیں پھلا رہے تھے۔ (غالباً جو انہوں نے چھت سے نیچے پھینکنے تھے)۔ "اسلام
علیکم" بڑے میٹھے لہجے میں مسکرا کر سلام کیا گیا تھا۔ دونوںنے چونک کر
دیکھا۔ "یہ سورج آج کہاں سے نکل آیا"
"چلو جی! ستیاناس اب میرے پیٹ کا" رعیم سوچ کر رہ گیا پھر سر جھٹک کر کھڑا
ہوا۔
"وعلیکم اسلام" اس کو پہلی بار مسکراتا دیکھ کر دونوں کا ہمیشہ سے بتیسی
دکھاتا چہرہ خاموش تھا۔
"کیا حال ہے آپ لوگوں کا؟" احمد کو کھانسی آگئی۔ رعیم منہ کھولے دیکھ رہا
تھا۔ یہ 'تم' سے 'آپ'۔۔؟
"کیا کر رہےہیں آپ لوگ؟" وہ اب بھی مسکرا رہی تھی۔ احمد کے دماغ کی گھنٹی
فوراً بجی۔ "Bomb بنا رہے ہیں۔ تمہارےاوپر پھینکنے کے لیے" سنجیدہ لہجہ۔ وہ
بغور احمد کو دیکھ رہی تھی ۔ اتنا گورا پٹھان ہی ہوگا یہ تو۔ اور پھر احمد
کو دیکھا صاف رنگت لیکن پٹھان تو نہیں ہوگا۔ دونوں ماشاءاللہ پیارے بچے
تھے۔
"بک بک بعد میں کرنا یہ لیجیے ماما نے کھیر بنائی تھی تو آپ لوگوں کے لئے
کے آئی۔ پلیز نیو پڑھوسیوں کی لائی پہلی چیز سے انکار مت کرنا" اتنا میٹھہ
لہجا وہ بھی اس منی کے منہ پر۔ احمد کے دماغ کی گھنٹیاں بج رہی تھی۔ رعیم
نے مسکرا کر اس کے ہاتھ سے ایک چمچ پکڑا دوسرا احمد کو دیا تو اسے پکڑنا
پڑا۔ ایک پلیٹ دو چمچ وہ ساتھ ہی لائی تھی۔
ہوں پورا بندوبست کیا ہے مارنے کا ۔ احمد کا دماغ فوراً بولا۔
"کتنے چمچ زہر ملایا ہے اس میں؟" احمد بغور اس پلیٹ کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی
مسکراہٹ سکڑی۔ شکل روہانسی ہوگئی ۔ رعیم فوراً بولا "ارے تھینجس اس تکلف کے
لیے چلو احمد کھاؤ" احمد نے اسے گھورتے ہوئے چمچ کھیر میں ڈالا اور آنکھوں
کہ پاس لے گیا۔"دیکھنے میں تو مزے کی ہے" سوچتے ہوئے منہ میں چمچ رکھا
اور۔۔۔۔۔۔
رعیم جو پہلے منہ میں ڈال چکا تھا بت بنا سامنے اس بچی کو دیکھ رہا تگا جس
کی مسکراہٹ گہری ہوچکی تھی۔اور احمد نے فوراً منہ سے چمچ نکال کر نیچے
پھینکا اور بھاگتا ہوا نیچے گیا ۔ رعیم نے خاموشی سے چمچ واپس رکھا اور جو
کھیر منہ میں جا چکی تھی خاموشی سی کھا (نگل) لی۔ احمد پانی پیتا ہوا آیا
اور رعیم کو بھی بوتل دی۔
دونوں کو اس چھٹانک بھر لڑکی سے اس بات کی توقع نہیں تھی جو کھیر میں نمک
اور سرکہ ملا کر لائی تھی۔
"تمھاری یہ ہمت۔۔ چڑیل ! منی! " احمد کی زبان کا تالا کھل چکا تھا۔ رعیم نے
آگی بڑھ اسکا بازو تھاما تو وہ خود کو قابو کرتے ہوئے بولا "بہت مزے کی
کھیر تھی منی!" لہجہ طنزیہ تھا مگر نرم۔
"یاد رکھو میں کسی کم نہیں" فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ بول رہی تھی۔ "اب مجھ
سے پنگا مت لینا" انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے واپس جانے کے لیے مڑی۔
"ارے کھیر تو کھاتی جاؤ منی" احمد اسے یہی کھیر کھلا کر مزا چکھانا چاہتا
تھا لیکن وہ تیز تیز قدم اٹھاتی جا رہی تھی۔
"منہ کا ذائقہ خراب کردیا اس منی نے" احمد نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا تو
رعیم جو کب سے خاموش کھڑا تھا ہنس پڑا۔
"چلو نیچے چل کر کچھ کھائیں" وہ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور رعیم مسکراتا
ہوا پیچھے چل دیا۔
نیچے آتے ہی وہ سیدھا کچن میں گھسے۔ سامنے اپنی ماں کو کھیر کھاتا دیکھ
احمد اس طرف لپکا اور کھیر کا باؤل سائڈ پر رکھا۔ "ماما یہ نا کھائیں خراب
ہے"
"کا بک رہے ہوں اتنی مزیدار ہے کہ چمچ چاٹتے رہ جاؤگے۔ خالدہ (منی کی ماما)
دے کر گئی ہے" دونوں حیرت سے انئیں دیکھ رہے تھے ۔ اوہ وہ مزیدار کھیر خاص
ہمارے لیے تھی۔ "اچھا ہمیں کچھ کھانے کو دیں پلیز" دونوں کیچن میں موجود
ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
"کھانا پک رہا ہے ۔ ابھی صرف یہ کھیر ہے اس سے گزارا کرو" انہوں نے باؤل
دونوں کے سامنے رکھ دیا۔ دونوں نے باؤل کو دیکھا پھر ایک دوسرے کو پھر نفی
میں سر ہلایا۔ احمد کی مما جا چکی تھی۔ دونوں ابھی تک باؤل کو دیکھ رہے
تھے، جس قدر بھوک انہیں لگی تھی وہ تو دشمن کو بھی کھا جاتے ۔اوپر سے منہ
کا خراب ذائقہ سامنے لذیذ کھیر۔۔۔
"بھاڑ میں گئی منی۔ یہ تو اسکی ماما نے بھیجی ہے چلو کھاتے ہیں" اگلے پل
دونوں کھیر سے انصاف کر رہے تھے۔ "یار بہت مزے کی ہے" ۔ دونوں مطمئین ہو کر
کھیر کھانے میں مصروف تھے۔
※※※
دو سال۔ پورے دو سال اسے اسی طرح محنت کرنا پڑی تھی۔ پہلے خود پر محنت کرکے
خود کو بنایا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ اس کے آفس کا ہر فرد اپنے فرض سے
واقف ہو۔ ایک پولیس آفوسر سے لوگوں کی اتنی امیدیں وابستہ ہوتی ہے اور اگر
وہ اپنے شغل میں لگا رہے تو عوام جرائم اور نقصانات تلے ڈوب جائنگے۔ شروع
میں تو تھانے میں لوگوں کو اس بات کا احساس دلانا ناممکن تھا لیکن دو سال
کم عرصہ نہیں ہوتا کسی کو بدلنے کے لیے۔
وہ اسی طرح سنجیدگی سے، لوگوں کی کمزوریوں سے، خوف سے انہیں سکھاتا رہا اور
اس طرح اس تھانے میں موجود سب لوگ پورے دل سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے
تھے۔آسان تو کچھ نہیں ہوتا۔ بس یہ کچھ کرنے کی لگن ہی اسے آسان بنا دیتی
ہے۔
نو بج رہے تھے۔ سارا شہر دھوپ کی شدت سے تپ رہا تھا۔ جیپ تھانے کے باہر روک
کر وہ اترا۔
ایک قدم وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ شور کسی شور کی وجہ سے چونک کر مڑا۔ لڑکیوں
کا گروپ جو اچھلتا ہوا ادھر ہر ہی آرہا تھا۔ اس کے قریب آکر رکیں تو خوشی
سے چیخنے لگیں۔
"سر آپ کے بارے میں بہت سنا ہے۔ آپ کو دیکھنے کا شوق تھا بہت آج وہ بھی
پورا ہو گیا۔"ان میں سے ایک خوشی بولی تھی۔ باقی کھڑی مسکرا رہی تھیں۔
وہ اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔ "سر آپ بہت کمال کے انسان ہے" دوسری بھی بولی
تھی۔ اب بیزار ہوکر اسنے آگے بڑھنا چاہا لیکن وہ تو اسے گھیرے کھڑی تھیں۔
"اتنا ہینڈسم اے ایس پی ہے اس شہر کا" بہت ہی منہ پھٹ لڑکی تھی۔ کوئی لحاظ
ہی نہیں۔ اسنے ایک اگوار نظر اس پر ڈالی اسے دیر ہو رہی تھی۔ لیکن وہ تو
اسکا مکمل جائزہ لے رہی تھیں۔
سیاہ گھنے بال، صاف چہرے پہ لگی سن گلاسس اور ہلکی ہلکی شیو، فخر سے اٹھا
سر، پولیس وردی میں وہ بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔
"Excuse me please" وہ آگے بڑھنا چاہ رہا تھا لیکن یہ لڑکیاں۔۔۔
"سر آپ جیسے جانثار لوگوں پر ہم بہت فخر کرتے ہیں اور پورا وطن آپ سے محبت
کرتا ہے" ایک لڑکی نے فخریہ انداز میں کہا اور مسکرائی تو وہ ہلکا سا
مسکرایا۔ "بہت شکریہ۔"
وہ ساری لڑکیاں مسکرا دی۔ اتنی خوبصورت مسکراہٹ۔
"مجھے کام ہے پلیز راستہ دیجیے" شائستہ اور سنجیدہ لہجے میں اسنے کہا تو
انہوں نے راستہ چھوڑا وہ فوراً آگے بڑھ گیا۔
تھانے میں داخل ہوتے ہی فوراً سب چوکنے ہوگئے۔ ادھر ادھر نظر ڈالتا وہ
اندھر داخل ہو رہا تھا۔ سلام کا جواب دیتا اور اپنے سے عمر میں بڑوں کو خود
سلام کرتا۔ خود کو لاپروا ظاہر کرتے ہوئے بھی وہ ہر چیز سے واقف تھا۔ شجاع
نے سلام کرنے کے بعد ساتھ کھڑے علی کے کان میں کچھ کہا تھا۔ تنویر اسے کل
کے کیس کو ڈسکس کر رہا تھا۔ چلتے چلتے ہو آفس میں آبیٹھے۔
"ہوں تو سلمان باز نہیں آیا" وہ جانتا تھا وہ باز آنے والی چیز نہیں ہے۔
"اب کی بار ہمیں بڑا جال بچھانا پڑے گا" تنویر نے گویا مشورہ دیا۔
"اس بار وہ خود اپنے جال میں پھنسے گا" سنجیدگی سے کہتا وہ "سلمان نیازی"
کی فائل ڈھونڈنے لگا۔ تنویر جاچکا تھا۔ وہ بیٹھا فائل میں اسکے متعلق ملنے
والی انفارمیشن کا مطالعہ کر رہا تھا تھبی دروازے پر دستک ہوئی۔
"سر فاروقی ! میں اندر آجاؤں؟"
"یس آفیسر علی"
"سر مجھے کچھ کہنا تھا"
"کہو" علی اب بھی اسکی نظروں کے حصار میں تھا۔ وہ یوں دیکھتا تھا جیسے
آنکھوں سے ہی پوسٹ ماٹم کرلے گا۔
"سر ایمان سے صرف شجاع نے یہ کہا تھا کہ "سر ایسے چلتے ہوئے کتنے خوبصورت
لگتے ہیں" اور میں نے کہا تھا اور کیا" اس نے چونک کر علی کو مصنوعی غصے سے
دیکھا۔ میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔
"میں نے کچھ کہا کیا؟"
"ہی ہی سر! کوئی یقین نہیں آپ کب کس کو چماٹ لگادیں یا مٹھائی کھلا دیں یا
اکیلے جنگل میں چھوڑ آئیں۔۔۔" اور اے ایس پی یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہ رہا
ہو "منہ پھٹ کہی کہ بس کردو" علی اسکی شکل دیکھ کر چپ ہوگیا ۔ پھر ہنسنے
لگا۔
"کام کی بات کرو علی" ۔ علی کہ منہ سے بمشکل "سڑیل" ادا ہوتے ہوتے رکا۔
"سر میں بتانے آیا تھا کہ ایک عورت آئیں تھی میں نے بہت پیار سے ان کا کیس
نپٹایا" علی نے مسکرا کر کہا تھا تو اس سارے میں پہلی بار اے ایس پی بھی
مسکرا دیا۔
ایک پرانے واقع کا منظر ان کی آنکھوں کے آگے سے گزرا۔
وہ قدم قدم اٹھاتا تھانے میں سے گزر رہا تھا ۔ تبھی کسی کی اونچی آواز پر
وہ اس سمت گیا اور ٹھٹک کر رک گیا۔
"بی بی نوکر نہیں ہوں تمھارا جو تمھارے بیٹے کی خاطر بھاری کمپنی کے مالک
سے پنگا لوں" انتہائی بدتمیز لہجے میں علی اس عورت سے مخاطب تھا۔
"بیٹا! تم لوگوں سے نہیں کہوگی تو کس کہ پاس لو کر جاؤں شکایت۔ " وہ اپنے
پلو سے آنسو پونچھتے ہوئی کہہ رہی تھیں۔
"کہا نا نہیں کر سکتے کچھ ۔ جائیں اب" علی چلا کر کھڑا ہوا۔ وہ بھی بے بسی
سے کھڑی ہوئیں۔
"اماں آپ آرام سے بیٹھے آپ ایف آئی آر لکھوائیں آج ہی کام ہو جائے گا آپکا"
اے ایس نے داخل ہوتے ہی اس عورت کو بٹھایا اور یقین دلوایا۔
اور اس عورت نے سارا مدعا کہہ سنایا۔ اس کے بیٹے کو بمشکل نوکری ملی تھی
کسی بڑی کمپنی میں لیکن اس کا مالک کچھ دو نمبر اور حرام کام کرتا تھا۔ اس
نے نوکری چھوڑنی چاہی تو کمپنی والو نے نکالنے سے منع کر دیا اور مار پٹائی
کی۔ اسکے علاوہ وہ وہاں بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہے۔اماں انصاف
چاہتی تھی تو تھانے پہنچ گئیں۔
وہ ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھا ایک غصیلی نظر آفسر علی پر ڈالی اور دو
آفیسرز کے ساتھ باہر نکل گیا۔ کمپنی کے مالک سے مک مکا کرکے
آیا تو علی کو اپنے آفس میں بلایا۔
"جی سر؟" اللہ خیر میں تو گیا۔ ماں میں آرہا ہوں تیرے پاس۔ یا اللہ یہ بلا
ٹال دے۔ اس کی بکتی سوچوں کو ایک زوردار تھپڑ نے توڑا۔ سامنے شدید غصے میں
وہ کھڑا تھا۔
"اگر آج تم ایک پولیس آفیسر ہو تو شکر کرو تمہیں ایک نیک کام کرنے کا عہدہ
دیا گیا ہے۔ لوگ تمہیں تب یاد کرتے ہیں جب انہیں پریشانی ہوتی ہے اور اللہ
ہم جیسو کے ہاتھوں ان کی مشکلات دور کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کرکے کس کو خوشی
نہیں ہوگی؟ لیکن تم جیسے لوگ اس خوشی کو اپنا کی بجائے لوگوں کی تکلیف کو
بوجھ سمجھ کر رد کر دیتے ہو" اور آدھا گھنٹہ علی کھڑا لیکچر سنتا رہا۔ اسے
احساس ہوا اگر اسکی ماں اس عورت کی جگہ ہوتی تو؟ ۔ شکر تیرا خدا مجھے عقل
آئی۔ اگلے دن اماں شکریہ کہہ کہہ کر اسے شرمندہ کر رہیں تھیں۔
※※※
"شازیہ یہ دیکھو نیا جوڑا سلوایا ہے میں نے "
"بہت اچھا ہے سمینا باجی"
ان دونوں کو باتوں میں مگن دیکھ کر وہ دونوں چھت پر آگئے تھے کہ شاید کوئی
جنگ کرنے کے کئے دشمن کھڑے ہو۔ مگر خالی دھوپ سے تپتی چھت دیکھ کر وہ دونوں
نیچے لان میں آگئے۔
"کیا کھچڑی پک رہی ہے؟" اسے کافی دیر سے کچھ سوچتا دیکھ رہ کر رعیم کو
پوچھنا ہی پڑا۔
"ہار اگر منی نے ہماری شکایت لگادی تو اویں چھٹیاں تباہ ہو جائے گیں ۔ ہم
خود بتا دیتے ہیں" وہ بہت سیریس تھا۔
"ہاہا! ڈرپھوک کہیں کے" رعیم ہنسا تو وہ فوراً سنجیدہ شکل بنا کر بولا "میں
سیریس ہوں یار" ۔ اس کو یوں دیکھ کر رعیم اٹھ کھڑا ہوگیا۔ "چلو سب بتا دیتے
ہیں" ۔
دونوں لاؤنج میں داخل ہوئے تو پتا نئیں کونسے جوڑے پر تبصرہ ہو رہا تھا۔
"ماما "
اور پھر الف سے ے تک سارا مدعا کہہ سنایا دونوں نے۔ خصوصاً احمد نے منی کی
باتوں بہت مرچے لگا لگا کر سنایا۔
"تم نے اتنی پیاری بچی کو پانی میں گرا دیا؟" "اچھی خاصی اچھی بچی ہے ۔ بس
کپڑوں سے خود کو بگاڑا ہوا ہے" دونوں کے تنصرے پھر شروع۔
وہ دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ "ہمارا کام تو ہوگیا"۔
لیکن اگلے ہی دن منی کو اپنے لاؤنج میں ماما کے ساتھ صبح صبح بیٹھا دیکھ وہ
فوراً فون کی طرف لپکا۔ "احمد ! منی آئی ہوئی ہے یہاں ۔ جلدی آجاؤ "
"او یس ! خوب مزا کرینگے۔ میں ابھی آیا" اور کھٹاک سے فون بند ہوا۔
دو منٹ بعد ہی بیل بجی تو رعیم دوڑتا ہوا گیا۔
"کدھر ہے؟ کدھر ہے؟"
"حوصلہ رکھو اندر ہے" ۔ دونوں ساتھ اندر چل دییے۔
"اسلام علیکم آنٹی! ہیلو کیوٹ گرل" احمد چہک تو ایسے رہا تھا جیسے 'کیوٹ
گرل' کہے گی 'ہائے' ۔ رعیم کو ہنسی آگئی۔
"مجھے پہلی ہی پتا تھا کہ رعیم تمہیں بلائے گا۔ آؤ بیٹھو ذرا آمنے سامنے "
۔
احمد نے رعیم کو دیکھا جو اسکے ساتھ بیٹھ رہا تھا۔ نظریں تو ایسی تھیں جیسے
کہہ رہیں ہو "یہاں تو پنچایت لگنے والی ہے"۔
"میں اسکی طرف سے بھی ساری کہانی سن چکیں ہوں اور تم لوگوں کی بھی ۔ اب تم
تینوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپس میں دوستی کرلو اور لڑائی جھگڑا بس کرو"
رعیم کی ماما تو جج بن کر فیصلہ سنا رہیں تھی۔
"آنٹی توبہ کریں ۔ ہم شریف بچے غنڈوں سے کیوں دوستی کرے بھلا؟" احمد نے تو
شرافت کے رکاڈ توڑ دیے تھے۔ البتہ رعیم چپ تھا ۔ وہ تو صلح صفائی پسند تھا
بس ہلکی پھلکی مستی کرلیتا تھا۔ ورنہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ بیٹھا یہی
سوچ رہا تھا کہ منی چینخی "جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور جل ککڑے تو مجھے
پسند ہی نہیں تو دوستی کیوں کروں" ۔ اسکے کاٹ کھانے والے انداز پر رعیم کی
ہنسی چھوٹ گئی تو احمد اسے گھورنے لگا "بدھو کہیں کے۔ بستی ہوئی ہے ہماری"۔
احمد بھی کچھ بولنے کے لیے کھڑا ہوا تو شازیہ نے فوراً ہاتھ پکڑ کر اسے
بٹھایا۔
"کان کھول کر سنو تم تینو! اگر تم لوگوں نے دوستی نا کی تو تم تینوں کا
چھٹیوں میں کھیل کود بند ۔ بس گھر بیٹھو گے۔ اور میں خالی خولی دھمکی نہیں
دیتی۔ "
احمد اور رعیم کی طرف انگلی اٹھائی اور سلسلہ وہی سے جوڑا " تم دونوں کے
والد سے کہہ کر گھر سے نکلنا بند کروادوں گی ۔ اور سارے کارنامے بتا دوں
گی۔ بیٹھے رہنا ساری چھٹیاں پھر گھر پر ہی"۔ احمد اور رعیم کا تو منہ ہی
کھل گیا۔ گویا صاف صاف سزائے قید سنائی جا رہی تھی۔
"اور آپ۔۔" وہ اب منی سے مخاطب تھیں۔ "تم یہاں نئی آئی ہو۔ دوست بناؤگی تو
فائدہ مند رہوگی۔ تمہاری امی بتا رہی تھیں تمہارے زیادہ دوست نئیں بنتے۔
لیکن یہاں لوگ بہت تیز ہوتے ہے اس لیے اب تمہاری مرضی۔ سوچ لو" ۔ نرمی سے
کہتے ہوئے وہ دوبارہ ان دونوں کی طرف مڑی۔ "تو پھر لگادوں شکایت؟"
دونوں فوراً چینخے "نہیں ماما نہیں" "نو آنٹی نو" ۔ شازیہ مسکراتے ہوئی
کھڑی ہوگئیں۔
"دس منٹ ہیں تم تینوں کے پاس۔ تب تک میں کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرلوں
اور تم لوگ اپنا تعارف کرواؤ ۔ اور خبردار جو اگر لڑے تو"
"اف یہ صلح پسند آنٹی کیسا پھنسایا ہے ہمیں" احمد سوچ کر رہ گیا۔
وہ سرجھکائے کچھ سوچ رہی تھی۔رعیم اور احمد ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ چند
لمحے ہونہی خاموشی کی نظر ہوئے۔
رعیم نے احمد کے کان میں سرگوشی کی "یار کرلیتے ہیں اویں نقصان ہمارا ہی
ہوگا"
احمد پہلے کچھ سوچتا رہا پھر سر ہلا دیا۔
رعیم کھنکارتے ہوئے کھڑا ہوا تو احمد بھی کھڑا ہوگیا۔
"ہیلو!" لو جی! احمد نے اسے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو "فون پر بات نہیں کر
رہے بدھو"
وہ بھی کھڑی ہوگئی۔ یہ والا لڑکا صحیح ہے کچھ۔ "ہائے" اس نے بس اتنا ہی کہا
اور احمد "لو جی ! فون پہ باتیں ہو رہی ہیں" سوچ کر رہ گیا تھا۔
"میرا نام رعیم ہے" اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جسے اگلے ہی لمحے اس نے تھام
لیا۔
"انیہ نیازی" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو رعیم اسے دیکھ کر رہ گیا اور پھر
خود بھی مسکرا دیا۔ شکر بلا ٹلی لیکن۔۔۔
"اور میں احمد، احمد علی خان" ۔ انیہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
زہریلا پٹھان ۔ نا احمد نے ہاتھ بڑایا نا اس نے۔
"بہت شکریہ نام بتانے کے لیے احمد " وہ جل کر بولی۔
"چھوٹی ہونا تو بھائی بولا کرو۔ احمد بھائی" احمد نے نرم لہجے میں طنز کیا۔
وہ سیر تھا تو وہ بھی سواسیر تھی۔
"نو! میں بھوتوں کو اپنا بھائی نہیں بناتی" بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ ٹوپی
سیٹ کرنے لگی۔ رعیم ہنس پڑا۔
"تمہیں کیا دورے پڑ رہے ہیں؟"
"احمد chill یار"
"اچھا تو انیہ تم کونسی کلاس میں ہو؟" رعیم نے تو باقاعدہ احمد کے منہ پر
ہاتھ رکھ دیا تھا۔
"ابھی ایڈمشن لینا ہے۔ سکس کلاس مین لوں گی"
"اچھا۔ اور اب ہم دوست ہیں تم روز ہمارے ساتھ کھیل سکتی ہو" دوستی کو بہتر
بنانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا۔
وہ بس مسکرا دی جبکہ احمد تو رعیم کا قتل کرنے والا تھا۔ ان دونوں کو آپس
میں ہوں دیکھ کر انیہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"زیادہ مت ہنسو" احمد کا تو 'بھوت' والی بات پر پارا چڑا ہوا تھا اوپر سے
ساتھ کھیلے گی اب الله توبہ۔
"آپ کو کیوں بل آرہا ہے؟" انیہ انجوائے کر رہی تھی اس لیے ہنس کر بولی تبھی
شازیہ ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔
"ہوگئی دوستی یا۔۔۔" انہوں نے خود ہی بات ادھوری چھوڑ دی۔
" ارے آنٹی پکے دوست بن گئے ہم تو " احمد نے فوراً پلٹی کھائی۔
ارے من۔۔۔۔ انیہ لو نا کیک لو آنٹی نے بنایا ہے" اس کی زبان سے تو منی پھسل
جاتا اور وہ لڑنے بیٹھ جاتی۔ اس نے ایک پیس خود اٹھایا دوسرا رعیم کو اور
تیسرا انیہ کو پکڑایا جسے اس نے گھور کر مسکراے ہوئے پکڑ لیا۔
"ماما ڈونٹ وری ۔ آہستہ آہستہ ہم بہت اچھے فرنڈز بن جائینگے" رعیم مسکراتے
ہوئے بولا تو انیہ بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی اور کیک کو دیکھنے لگی۔ فون کی
بیل پر شازیہ اٹھ کر چلیں گئی۔
"کھالو نمک اور سرکے نہیں ڈالے ہم نے" احمد تو جنگ چھیڑنے کے پورے ارادے
رکھتا تھا۔
"احمد کیک ٹھونس لو منہ میں" رعیم کیک کھاتے ہوئے بولا جس کا مطلب تھا "
بکواس بند کرو"
تینوں ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے اور جس میں احمد جل جل کر بول رہا تھا اور
انیہ نارمل انداز میں۔ ان کو بیٹھے ایک گھنٹہ ہوگیا تھا اب تک کافی بحالی
ہو چکی تھی۔ احمد بھی آرام سے ہی بات کر رہا تھا البتہ وہ تینوں نئی صحبت
سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
"آپ پٹھان ہیں؟" بڑی معصومیت سے سوال آیا تھا لیکن احمد تو تلملا اٹھا۔
"الله توبہ ! میں پشتو بولتا ہوا نظر آرہا ہوں کیا" اسکے انداز پر رعیم
ہمیشہ ہنسا کرتا تھا۔
"نہیں وہ آپ کچھ زیادہ ہی گورے ہیں اس لیے لگا۔ یہ بھی گورے ہیں لیکن آپ
کیا دودھ میں ڈبکیاں لگاتے ہیں؟" احمد تو شوخا ہونے لگا تھا۔
"بس کردو انیہ ورنہ اسے آسمان سے نیچے لانے کے لیے سیڑھیاں لگانی پڑے گی" ۔
احمد نے منہ بسورا تو وہ دونوں ہنس دیے۔ اور تو اور احمد بھی بات بھلا کر
ہنس پڑا۔
※※※
چھٹیاں اسے طرح ہنستے کھیلتے گزر گئی۔ اب تو ان میں دوستی ہوگئی تھی لیکن
احمد اور انیہ ایک دوسرے کو اب بھی زچ کرتے تھے۔ چھٹیاں ہونے پر تو وہ اس
قدر دکھی تھے کہ منہ لٹکائے آخری چھٹی پر باقاعدہ آنکھوں میں قطرہ قطرہ
پانی رکھ کر 'نقلی' آنسوں بھی بہائے ۔ ایکٹر احمد نے تو باقعدہ لان میں
بیٹھ کر اپنی امی کی دو چار چوڑیاں بھی توڑی تھی ۔ "ہماری خوشیاں ہائے" ۔
چھٹیاں کھیل کود میں ایسے گزر گئی کہ پتا ہی نہیں چلا۔انیہ کا ایڈمیشن بھی
انہیں کے سکول میں ہوگیا تھا۔
"کیا ہوا انیہ اتنی اداس کیوں ہو؟" وہ سکول سے واپس چلتی آرہی تھی۔ سکول
پاس ہی تھا تو پیدل آنا جانا آسان تھا۔
انیہ نے سر اٹھا کر دیکھا۔ سائکل ہر رعیم کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"کچھ نہیں"
"تو پھر ہمارے ساتھ کیوں نہیں آئی؟" وہ زیادہ تر اکھٹے واپس آتے تھے لیکن
آج وہ پہلے ہی آگئی۔
"ایسے ہی" انیہ دوبارہ قدم اٹھانے لگی۔ رعیم نے فوراً آگے بڑھ کر سائکل اس
کے عین سامنے کھڑی کردی۔ انیہ نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔
"بتاؤ کیا بات ہے؟" رعیم بغور اسے دیکھ رہا تھا۔انکی دوستی تھی لیکن اتنی
گہری نہیں۔ انیہ کچھ خاموش رہی پھر بولی۔ "مجھے بیڈمنٹن کھیلنا نہیں آتا
اور مجھے اتنا اچھا لگتا ہے اور یں اسپورٹ میں حصہ لینا چاہتی ہوں لیکن
نہیں لے سکتی کیونکہ مجھے کھیلنا نہیں آتا" بات ختم کرکے وہ رکی نہیں اور
تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی۔ رعیم کچھ سوچ رہا تھا اور اسے روکنے کی
بھی کوشش نہ کی۔ مرچی کو دکھ لگ گیا۔
ڈور بیل بجا کر اب وہ دروازہ کھلنے کا منتظر تھا۔ چند لمحوں بعد خالدہ نے
دروازہ کھولا۔
"اسلام علیکم آنٹی" رعیم نے مسکرا کر سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام بیٹا کیسے ہو ؟ خیریت صبح صبح؟" سنڈے کو دس بجے بچوں کے لیے
صبح ہی ہوتی ہے۔
" الحمداللة۔ انیہ ہے؟"
"ابھی تو گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے" خالدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"آنٹی وہ اٹھے تو کہنا مجھے ضروری کام ہے۔ "
"اچھا! اندر آجاؤ"
"نہیں آنٹی تھینکس ۔ انیہ اٹھے تو اسے بتا دینا۔اللة حافظ" ۔ وہ جانے کےلیے
مڑا تو خالدہ بھی خدا حافظ کہتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگی۔
کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے اسنے سامنے بیٹھے دونوں لڑکوں کو دیکھا۔جینز اور
اوپر فراک۔ ٹوپی غائب۔ شکر حلیہ بہتر ہوا۔ آنٹی نے سنائی ہونگی۔ احمد اسے
دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
"کیا کام ہے؟" جمائے روکتے ہوئے وہ رعیم سے مخاطب ہوئی۔
"تمہیں بیڈمنٹن کے مقابلے میں حصہ لینا ہے؟"
"دل تو بہت کر رہا ہے مگر مجھے کھیلنا نہیں آتا" اداس سی شکل بناتے ہوئے
انیہ نے رعیم کو جواب دیا۔ احمد بیٹھا چپس سے انصاف کر رہا تھا۔
"تم ہاں یا نا میں جواب دو"
"لیکن مجھے کھیلنا۔۔۔" اسکی بات مکمل ہونے سے پہلی ہی رعیم دوبارہ بولا۔
"ہاں یا نا؟" انیہ خاموش رہی۔ دل تو بہت کر رہا تھا مگر کھیکنا آتا ئی نہیں
تو کیا فائدہ۔
"انیہ تالیاں بجوانوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن ۔۔۔" وہ آرام سے کہہ رہی
تھی۔اور ہاتھوں سے بال ٹھیک کر رہی تھی۔
"کیا ہے منی! مرچی جیسی بچی ہو اور یہ فضول ڈائلاگ مار رہی ہو" احمد چڑکر
بولا۔
"منی؟ کتنی بار کہوں منی مت بولا کرو۔ دوست ہو اس لیے لحاظ کرلیتی ہوں
ورنہ۔۔۔" وہ اپنے منہ پھٹ انداز میں لوٹ آئی تھی۔
" او خدایا! ورنہ؟ ورنہ کیا؟ کھا جاؤ گی مجھے؟ اے میرے رب یہ ظلم و ستم
دیکھنے سے پہلے مجھے آئس کریم کیوں نصیب نہ ہوئی؟" احمد کے بھی ڈرامے شروع
ہو گئے۔ احمد کی ماما نے اردو میں ماسٹرزکر رکھا تھا تو احمد کے ڈائلاگ
کبھی کبار بہت کمال کے ہوتے تھے۔
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے ہڈیوں کا ڈھانچہ کھانے کی" بڑی بے نیازی سے کئتے
ہوئ وہ پھر سے بال سہلانے لگی۔
"کیا کہا؟۔۔۔" احمد اٹھا ہی تھا کہ رعیم جو ان کی 'چوں چڑاک' پر سر پکڑ کر
بیٹھا تھا چینخا۔
"بس کردوو! کوے کھائے ہیں کیا؟"
"احمد نے پہلے کیوں منی کہا مجھے؟"
"مجھے میرے خدا نے زبان عطا کی ہے تو استمعال نہ کروں؟"
دونوں پھر شروع ہوگیے تو رعیم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
"اف اللة ! بس" وہ ذرا زور سے چینخا تودونوں خاموش ہوگئے۔
"بہت شکریہ" رعیم نے طنزاً کہا۔
"انیہ ہم تمہیں بیڈمنٹن سکھائے گے تم اپنا نام دے دو۔ ابھی دو ہفتے ہے
سورٹس میں اچھی خاصی پریکٹس ہوجائے گی"
انیہ اچھل پڑی "سچ؟"
جبکہ احمد نے 'یم سکھائے گے' ہر برا سا منہ بنایا۔ خود میڈل جیتتا ہے اور
سکھائے گے ہم ۔ واہ رعیم۔
"ہاں ہم آج سے شروع کردینگے۔ ویسے بھی چھٹیوں کے بعد بوریت آگئی ئے زندگی
میں۔" رعیم پرسکون ہو کر بولا۔
احمد بھی خوش ہوا ۔ کھیل کود،مزا اور احمد پیچھے رہے نا بابا نا۔
"او یس! ہاں ضرور۔ بالکل زبردست فرمایا رعیم" احمد کو رعیم ہر پیار آیا۔
'ہم' اس لیے کہ میرا دوست میرے بغیر تھوڑی لطف اٹھائے گا کھیل کود سے۔
"شکر ! اب عائشہ کی بچی کو میں ہراؤں گی۔ کلاس فیلو ہے میری اسنے چیلنج کیا
تھا مجھے کہ میرے مقابل کھیلنا۔ اب دیکھنا میں اس کی ایسی کی تیسی کرتی۔
تھینک یو"
رعیم مسکرا دیا جبکہ احمد اس مرچی کی باتوں پر ہنس پڑا۔ تو یہ نہ کھیلنے کی
نہیں ہارنے کی اداسی تھی۔
※※※
"ٹھیک سے پکڑو انیہ۔" شام میں وہ دونوں لان میں کھیل رہے تھے۔ رعیم اسے
سیکھا رہا تھا۔ احمد ابھی تک نہیں آیا تھا۔
"شٹل جہاں جہاں جائے خود بھی آگے پیچھے ہونا اوکے"
"اونہوں! دھیان دو اس پر کے کتنے فاصلے سے مارو گی تو کہا جائےگا" وہ بولتا
جا رہا تھا اور انیہ اسکی تائد کرکے سر ہلاتی اور ویسے کھیلنے کی کوشش
کرتی۔
شٹل پیچھے کو ہوئی تو انیہ بھی الٹے قدموں تیزی سے پیچھے ہوئی۔ اچھل کر شٹل
کو ریکٹ مار تو دیا لیکن توازن برقرار نا رکھ پائی اور لڑکھڑا کر گر گئی۔
"آئی ماما!"
"اوہو! لگ گئی کیا؟"
"نہیں ٹھیک ہے " وہ ٹانگ کو ہلاتے ہوئے بولی۔
"آج کے کیو کافی ہے ۔ آجاؤ کچھ کھاتے ہیں" رعیم نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا۔
" واہ! صحیح ٹائم پر آنٹری ماری ہے میں نے۔ کیا کھایا جانے والا ہے؟" احمد
تو جیسے کھانے کو سونگھ کر آگیا۔
"کھپتو" انیہ بڑبڑائی۔
"کیا فرمایا محترمہ؟" اسنے ٹھیک سے سنا نئیں تھا مگر رعیم سن چکا تھا اسی
لیے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور اونچی آواز میں بولا
"جس جس کو کھانا ہے خاموشی سے مجھے فولو کرے" ۔ انیہ منہ چڑاتے ہوئے آگے
بڑھ گئی تو احمد خاموشی سے آگے ہو لیا۔
دو یفتے تک رعیم اور انیہ یونہی کھیلتے رہے جبکہ احمد اپنے میچ کی تیاری
اینی آپی (احمد کی بڑی بہن) اور عاصم کے ساتھ کرتا۔ ان دو ہفتوں میں انیہ
اور رعیم کی دوستی گہری ہوگئی تھی۔ انیہ اپنے سکول کے قصے اور پتا نہیں کیا
کیا کہانیاں سناتی اور وہ ہنس کر سنتا رہتا۔ انیہ رعیم سے ہر بات شئیر کرنے
لگی تھی سوائے ایک چیز کے۔ ایک شخص کے سلوک کے۔
※※※
"کیا کر رہی ہے میری بیٹی؟" اسے کاغذ پر رنگ بکھیرتا دیکھ نیازی صاحب اس کے
پاس بیٹھ گئے۔
"کلرنگ" اس نے مسکراتے ہوئی کہا اور سب چھوڑ چھاڑ کر ابو کے پاس بیٹھ گئی۔
"سلمان آرہا ہے" خالدہ خوشی سی کہہ رہی تھیں۔ بیٹا بیچارا دوسرے شہر نوکری
کرتا اور مہینوں بعد شکل دکھاتا تو خوشی کیوں نہ ہوتی۔ سلمان وہاں اپنے کسی
دوست کے ساتھ رہتا تھا اور والدین کو اس شہر سے دور رکھتا تھا۔ خود آجاتا
لیکن انہیں نا بلاتا۔
نیازی صاحب کی یہ دوسر شادی تھی ۔ انکی پہلی بیوی ، سلمان کی والدہ اسکے
بچپن میں انتقال کرچکی تھی تو نیازی نے دوسرے شادی کرلی۔ خالدہ کا سلوک
سلمان کے ساتھ بالکل بھی سوتیلی ماؤں والا نہیں تھا۔ البتہ سلمان کو بھی
اپنی نئی ماں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ لیکن انیہ ، اسکی بہن اسے وہ سوتیلا
ہی سمجھتا تھا۔ وہ انیہ سے روکھا اور اکھڑا رہتا تھا۔ وجہ اسکی نظر میں
شاید والدین کا پیار بٹ جانا تھا۔ وہ انیہ کو برے جملےکس کر اسے جتاتا کہ
وہ اسے پسند نہیں۔
"دفع ہوجاؤ یہاں سے"
" آئی ہی کیوں تم اس دنیا میں" "شکل گم کرلو اپنی" "مر جاؤ جا کر کہیں"
انیہ چھوٹی تھی تھوڑا ڈر جاتی لیکن سمجھ نا پاتی کہ اسکے ساتھ بھائی کا
سلوک ایسا کیوں ہے۔
لیکن اسے اپنا بائی بہت عزیز تھا۔ وہ بہانے بہانے سے اس کے پاس جاتی ،
باتیں کرنے کی کوشش کرتی اور وہ اسے 'دفع' ہوجانے کو کہتا۔ انیہ کو بڑا
بھائی بہت پیارا تھا اسی لیے وہ اسکی ہر چیز کاپی کرتی اور یہی وجہ تھی کہ
وہ بھائی کے کپڑے ہی پہنتی اور اس جیسا بننے کی کوشش کرتی۔
"بھائی آرہے ہیں؟ شکر اب میں ان کو جانے نہیں دونگی اپنے ساتھ رکھوں گی"۔
وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی تو وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ اپنے بیٹے کا رویہ ان
سے پوشیدہ نا تھا۔
※※※
"منی ٹریٹ تو بنتی ہے"
"ہاں انیہ احمد ٹھیک کہہ رہا ہے" انیہ مقابلہ جیت گئی تھی اور میدان سے
نکلتے ہی وہ سیدھا رعیم کو خوش خبری سنانے آئی تھی۔
"آج جو مانگو ملے گا۔ کیا یاد کروگے کہلو منی " وہ چہکتے ہوئی کہہ رہی تھی۔
" یہاں بھی ہوگا وہاں بھی ہوگا اب تو سارے جہاں میں ہوگا کیا؟ ہمارہ منی کا
جلوہ" احمد کرسی پر کھڑا ہوکر نعرے لگانے لگا۔ کچھ سٹوڈنٹس اس طرف متوجہ
ہوئے اور احمد کے جلوے دیکھ کر ہنستے ہوئے آگے چل دیے۔ انیہ اور رعیم احمد
کی ایکٹنگ اور تماشے دیکھ کر قہقہہ لگا رہے تھے۔
واپسی گھر کی طرف آتے ہوئی رعیم نے انیہ سے سوال کیا۔ "کیا ٹریٹ دوگی پھر؟"
انیہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ احمد بول اٹھا "یہ نا کہنا پلیز کہ 'جو آپ
لوگوں کی مرضی' تم اپنی پسند کا کچھ بھی لے آنا"
"تو پھر ٹھیک ہے ۔ احمد آپ کے گھر جب آؤں گی تو کھیر لو آؤں گی ماما سے
پکوا کر" ۔
"نا بابا نا! کھیر نا نا" احمد اور رعیم دونوں ساتھ چینخے۔ احمد نے باقاعدہ
اپنا ہاتھ گلے پر رکھ کر چیک کیا کہ اس کھیر کے بعد زندہ تھا شاید اب نا
رہے۔
"کچھ بھی نہیں ملاؤںگی" انیہ مصنوعی خفگی سے بولی۔
"ہاں پھر ٹھیک ہے۔ آنٹی بہت مزیدار کھیر بناتی ہیں" رعیم نے چسکا لیتے ہوئے
کہا۔
"آہ! کیا لذیذ، عمدہ ، ذائقہ دار کھیر بناتی ہیں آنٹی" احمد کے منہ میں
پانے بھر آیا۔
"ابھی تو کچھ لوگ کہہ رہی تھے 'نا بابا نا' اس لیے میں نہیں لا رہی اب"
انیہ لاپروائی سے کہتے ہوئے ان سے الگ ہوکر چلنے لگی۔ چہرے پر شریر مسکراہٹ
لیے وہ چلتی جا رہی تھی۔ احمد اور رعیم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور فوراً
اسکے پیچھے لپکے۔
"کسی نے کہا ہوگا ہم نے تو نہیں کہا" رعیم اس کے آگے کھڑے ہوتے ہوئے بولا ۔
"مجھے لگتا ہے میرے منہ میں کسی نے جادو کردیا اسی لیے غلط نکل گیا کچھ"
احمد نے معصوم سی شکل بنائی۔ وہ اسے منانے میں لگے تھے اور انیہ اپنی ہنسی
اور مسکراہٹ روکنے میں ناکام ہورہی تھی۔
※※※
"خبردار جو ان دو گھنٹوں مجھے آپی کہا تو۔ چمڑی ادھیڑ دونگی" سادہ کرتے کے
ساتھ تنگ پجامہ اور بالوں کی پونی ٹیل باندھے خوبصورت سی لڑکی کرسی پر
بیٹھی ان تینوں کو ڈانٹ رہی تھی۔
ابھی تو وہ کھیر سے انصاف کرکے پڑھنے بیٹھے تھے۔ احمد اور رعیم نے مل کر
انیہ کو تحفے میں گھڑی ، بیڈمنٹن کٹ اور چاکلیٹ کا ڈبہ دیا تھا۔
"میم کہا کرو جب میں پڑھا رہی ہوں تو۔ گاٹ اٹ؟" تینوں نے سر اثبات میں
ہلایا۔ پچھلے ایک ہفتے سے اینی انہیں پڑہا رہی تھی۔ اس کا کالج ختم ہوا اور
یونیورسٹی میں ایڈمشن کے لیے ابھی کچھ دن باقی تھے تو بوریت دور کرنے کے
لیے وہ ان کو پڑھانے لگی۔ ساتھ میں محلے کی اور بچی مریم بھی تھی جسکی
والدہ ڈانٹ ڈپٹ کر اسے بھیجتی تھی۔
"آپی!" انیہ نے کوئی سوال پوچھنا تھا لیکن آپی بول کر اسکی بولتی بند
ہوگئی۔
"مریم۔ مریم آپی! انیہ تم اسے بلا رہی ہونا" احمد نے فوراً مدد کی اور رعیم
کو دیکھا کہ "ڈائلاگ مارو کوئی"۔
"جی میم ۔ہم ان کو مریم آپی کہہ رہے ہیں ۔ ماشاءاللة بہت اچھا پڑھ رہی ہے"
رعیم بھی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا۔ انیہ کا سانس بحال ہوا "جی میم سچی" ۔
اول جماعت میں پڑھنے والی مریم حیرانی سے اپنے سے بڑوں کو دیکھ رہی تھی۔
"میم جی! بھائی لوگ جھو۔۔۔" مریم کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ احمد نے
کتاب یوں اٹھائی کہ اسکے منہ پر لگی۔
"مریم۔ چلو میم کو ریڈنگ کرکے سناؤ۔ بہت باتیں کرتی ہو۔ "
"مریم آپی" رعیم نے اصلاح کی۔
"ہاں آپی جاؤ" اپنے ڈراموں پر انکی ہنسی بمشکل قابو میں تھی۔ اینی آپی تو
ان دو گھنٹوں میں ایسے ہوتی کہ کچا چبا جانے کے بات پوچھتی ہاں اب بولو۔
ورنہ وہ کافی سلجھی ہوئی اور سویٹ تھی۔ان کی کمپنی میں بندہ بور نہیں ہوتا
تھا۔
" درجت ہمارے لیے بہت ۔۔۔ مفید ہیں۔ درخت اگانا شجر۔۔ کاری کہلاتا ہے" مریم
اٹکتے ہوئے پڑھ رہی تھی۔
"اوکے اب زبانی یہی لائن سناؤ" اینی نے کتاب اس کے ہاتھ سے کوکر ایک طرف
رکھی۔
"درخت کاری ہمارے لیے بہت مفید ہے۔ ۔۔۔مفید اگانا ۔۔درخت کہلاتا ہے" اس نے
بڑے آرام سے جملہ کہہ دیا۔ اختتام پر احمد کے گھر کی لائبریری قہقہوں سے
گونج اٹھی۔
" بہت اچھے۔ شاباش" اینی نے اس کا گال تھپتھپایا۔ وہ جو انکے ہنسنے پر
گڑبڑا گئی تھی سنبھل کر مسکرا دی۔
"جاؤ 'درخت کاری' کرو چھٹی ہوگئی ہے" دو گھنٹے ختم ہوئے تو اینی اپنی فورم
میں لوٹ آئی۔
وہ باہر نکلی تو اینی کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
"احمد چنّو! میرے بھائی کل سے ہم درخت کاری کرینگے ٹھیک" اینی ہنستے ہوئے
بولی۔
"ریم تم مفید اگانا اوکے" وہ ہنستے ہوئے رعیم سے مخاطب ہوئی۔ اینی رعیم کو
ریم کہتی تھی جس پر وہ بہت چڑتا تھا لیکن ابھی ہنستی ہوئے اسنے نوٹ ہی نہیں
کیا۔
"انیہ ۔۔۔۔کچھ نہیں چھوڑو" ہنسی اتنی شدت سے آرہی تھی کہ اس سے کچھ بولا نا
گیا۔
"قسمیں اب میرا دل کر رہا ہے درخت کاری کرنے کو ۔ چلو اٹھو سب" ہنسی روک کر
اینی اٹھ کھڑی ہوگئی۔
لان میں پودوں کو پانی دیتے ہوئے انکی ہنسی بے ساختہ تھی۔
"آپی آپ کیا کر رہی ہیں؟" پھولوں کو پانی دیتے ہوئے انیہ نے گھاس پر بیٹھی
ہنسی سے نڈھال ہوتی اینی کو دیکھا۔ وہ یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو انجوائے
کرتی تھی۔
"میں بیٹھی ہوں لیکن انّو تم درخت کاری کر رہی ہو" اینی نے مسکرا کر کہا۔
وہ انیہ سے اٹیچ ہوچکی تھی جسکا ثبوت یہ نک نیم تھا۔ اینی کو جو بھی پسند
آتا یا جس سے بھی اسکی دوستی ہوتی وہ اسے بڑے پیار سے نیک نیم دے دیتی۔
"ملاحظہ فرمائیے۔ میری آپی جان کو دیکھیے جو ہنس ہنس کر نڈھال ہو رہی ہیں
ابھی کچھ دیر پہلے خونخوار چڑیل بنی ہوئی تھیں۔ میم کہا کرو مجھے ورنہ چمڑی
ادھیڑ دوں گی" احمد نے اینی کی نقل اتار کر کہا تو اینی نے اپنی چپل اتار
کر احمد کی طرف اچھالی جسے اسنے کیچ کرکے "آخ" کرتے ہوئے دور اچھالدی
"مریم آپی ۔ " احمد کے جملے میں آپی سن کر اینی کو دوبارہ ہنسی آنے لگی۔
باقی سب نے بھی ہنسنے میں اسکا ساتھ دیا۔
"انیہ خیریت؟" شام کے وقت وہ بیٹھا سکول کا کام کر رہا تھا جب ڈور بیل بجی۔
"وہ آپی لوگ تو سب عاصم بھائی کی طرف گئے ہوئے ہیں اور مجھ سے یہ سوال نہیں
ہو رہے اس لیے تمھارے پاس آگئی۔ کروادو پلیز" بغیر سلام دعا کہ وہ جلدی
جلدی بول رہی تھی جیسے ٹرین چھوٹی جا رہی ہو۔
"ہاں میں بھی اپنا کام کر رہا ہوں آجاؤ" اسے راستہ دے کر دروازہ بند کرتے
ہوئے وہ اندر بڑھا۔
"لاؤ دکھاؤ" دونوں قالین پر آمنے سامنے کتابیں کھولے بیٹھے تھے۔
"اس پورے chapter کا ٹیسٹ ہے اور پورا L.C.M سے بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے نہیں
ہو رہا " وہ بڑی افسردگی سے کہہ رہی تھی۔
رعیم صفحے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔
"یہ تو بہت آسان ہے دیکھو۔۔۔" وہ اسے سمجھاتا جارہا تھا اور وہ توجہسے
بیٹھی سن رہی اور سر ہلا رہی تھی۔
پندرہ منٹ بار جب وہ بول چکا تو اس سے پوچھا "آگیا سمجھ؟"
"لاسٹ والا بالکل سمجھ نہیں آیا" انیہ نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"اوہ اوکے" وہ دوبارہ آخری حصہ سمجھانے لگا۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ پوچھا
"ٹھیک ہے آگیا سمجھ میں اب؟"
"مجھے تو پورا سمجھ میں نہیں آیا" وہ بڑی معصومیت سے بولی۔
رعیم نے بے اختیار اپنا سر پکڑا۔ "یا اللة" اتی محنت سے کروایا سب بےکار۔
اسے اپنا کام بھی کرنا تھا۔ رعیم تلملا اٹھا۔
"نہیں آیا تو گھول کر پی لو یہ chapter" اس کی کتاب پٹختے ہوئے اس نے اپنی
کتاب اٹھالی۔ اپنا کام اتنا تھا کہ وہ پہلے سے چڑثرا ہوا بیٹھا تھا۔
انیہ جھٹکے سے اٹھی اور چلی گئی۔ رعیم نے نظر انداز کیا۔
چمچ اور گلاس کے ٹکرانے کی آواز پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ گلاس میں
موجود پانی میں کچھ مکس کر رہی تھی۔ وہ رعیم کے سامنے آکر بیٹھی تو رعیم نے
دیکھا کاغذ کے ٹکڑے اور پانی آپس میں گھل ملنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
"یہ کیا کر رہی ہو؟" وہ حیرانی سی چینخا۔
"خود ہی تو کہا تھا گھول کر پی لو" وہ اسی معصومیت کے ساتھ گلاس میں چمچ
ہلا رہی تھی۔ چمچ نکالا اور گلاس لبوں سے لگایا ۔ رعیم نے فوراً گلاس پکڑ
کر سائڈ پر رکھا۔
"بے وقوف لڑکی میرا یہ مطلب نہیں تھا" رعیم کا اپنا سر پیٹنے کو دل چاہ رہا
تھا۔
"لوجی ! میں اتنی پاگل ہوں کیا؟ یہ تو خالی کاغذ تھا ۔ کتاب سے تھوڑی پھاڑا
ہے" انیہ اسی معصومیت سے بولا۔ اللة توبہ یہ معصومیت۔
"پاگل! بے وقوف! احمق!" رعیم کا پارا ہائی ہوگیا۔
اسے غصے میں دیکھ کر انیہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ رعیم نے چونک کر اسے دیکھا۔
واقعی پاگل ہے یہ۔
کافی دیر تک اسکی شکل دیکھ کر ہنستے رہنے کے بعد انیہ بلاخر بول اٹھی۔
"مذاق کر رہی تھی رعیم۔ ٹیسٹ کی تیاری میں کر کے آئی تھی۔ اتنی لائق بچی
ہوں ۔ L.C.M تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میں تو صرف تمہیں تنگ کرنے آئی تھی
اور کامیاب ہوگئی" وہ دوبارہ ہنسنے لگی۔ رعیم نے اپنی ہی کتاب اپنے سر پر
دے ماری۔ سارا غصہ ہوا ہوگیا تھا۔ اسے گھورنے کے بعد اس کا بلند باق قہقہہ
گونج اٹھا۔
"تم واقعی پاگل ہو"
"اصل میں آج ہم سارے اکھٹے بیٹھے نہیں تو میں بور ہوگئی تھی اس لیے سوچا
کچھ مزا ہوجائے" انیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاہا! شکر ہے تمہارا ناٹک ختم ہوا ورنہ تمہارا سر آج پھٹ جاتا "
"الحمدلاللة میں بچ گئی" انیہ نے دعا کے انداز میں منہ پر ہاتھ پھیرا۔
"میں جارہی ہوں تم کرو اپنا کام"
"شکر! اوکے اللة حافظ" وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلی تو رعیم مسکرا کر اپنا
کام کرنے لگا۔
سامان گاڑی میں رکھ کر وہ دوبارہ اس کی طرف مڑا۔ وہ ابھی بھی احمد سے فون
پر انکار کر رہی تھی۔
"کیا ہے منی میرے بھائی کی شادی پر تم نہیں آرہی۔ مزا نہیں آئے گا ہمیں" وہ
دوسری طرف نراضگی سے کہہ رہا تھا۔
"ماما بھی منع کر چکی ہے" ان کا بیٹا مہینوں بعد آئے اور وہ شادی پر جائیں
نا بابا نا ۔اس نے جیسے بات ختم کرنی چاہی لیکن وہ بھی احمد تھا۔
"کیا ہے منی! بھائی ہی آرہا ہے کوئی چاند کا شہزادہ نہیں۔ ابھی بھی ٹائم ہے
رعیم لوگوں کے ساتھ آجاؤ"
"میرے بھائی کے خلاف ایک لفظ نہیں۔ میں نہیں آرہی سوری۔ تمہاری شادی پر
آجاؤں گی" اس نے دو ٹوک لحجے میں کہہ کر بات ختم کردی۔ احمد نے بھی فون بند
کر دیا۔ اسکے بڑے بھائی کی شادی تھی اور اسکی دوست نہیں آرہی تھی۔
"میری طرف سے سوری کہہ دینا اور خوب انجوائے کرنا" رعیم کو فون پکڑا کر وہ
واپس چلی گئی۔ وہ کندھے اچکا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
سلمان نیازی آرہا ہے۔ انیہ کی تو خوشی کا ٹکھانا نا تھا۔ وہ بھائی کے آنے
سے پہلے کمرہ چمکا چکی تھی۔ اس کو خوش کرنے کے لیے وہ ہر طریقہ آزما چکی
تھی۔ لیکن اس کے بھائی کا دل پتھر ہی رہا۔ وہ اپنی زندگی میں بھائی کے پیار
سے محرام تھی اور وہ یہ کمی پورا کرنا چاہتی تھی۔ ہمیشہ بھائی جیسا حلیہ۔
اس جیسا بات کرنے کا انداز۔ وہ بھائی کے پیار کو پانے کے لیے کچھ بھی کر
سکتی تھی۔ ہوتا ہے نا جس چیز سے محروم ہو اسے پانے کی شدت سے خواہش۔
وہ آچکا تھا۔ خالدہ نے انیہ کو بہانے سے کام میں لگا رکھا تھا تاکہ آتے ہی
کوئی ہنگامہ نا ہو۔ وہ کھانا کھا کر سنے جا چکا تو انیہ نیچے آئی۔ وہ
ناواقف تھی کہ اسکا بھائی آچکا ہے۔
"بھائی آگیے؟" اسنے بڑی خوشی سے پوچھا۔
"ہاں! سو گیا ہے" انہوں چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا۔
"کیا؟ مجھے پتایا کیوں نہیں؟" دکھ نے اسے آگھیرا تھا۔
"اب جا کر سو جاؤ خاموشی سے" انہوں نے تھوڑا غصے سے کہا تو منہ بناتے ہوئے
بھائی کے کمرے کی طرف آگئی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا وہ اداس سی اپنے کمرے
میں لوٹ آئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔
اگلی صبح اس کے لیے دکھ اور بے انتہا دکھ لائی تھی۔ صبح اٹھی تو ماما نے
بتایا کہ بھائی شام میں واپس جارہا ہے۔ اس کے سر پر تو دھماکہ ہوا تھا۔ وہ
رونی سی شکل لے کر سلمان کے پاس آئی۔ وہ بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔
"اسلام علیکم! بھائی آپ جا رہے ہیں؟"
سلمان نے چونک کر ٹی وی سے نظریں ہٹائیں ۔
"ہوں" بڑا مختصر سا جواب آیا تھا۔ وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا۔
"بھائی میں نے آپ کے ساتھ ابھی بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ آپ نا جائے پلیز" وہ
روہانسی ہوگئی۔
"کیوں نوکر لگا ہوں تمہارا؟" اس نے بیزار ہوکر کہا۔ انیہ کی تو آنکھیں
بھیگنی شرع ہوگئی۔ وہ بمشکل آنسو ضبط کر رہی تھی۔
"نہیں بھائی آپ تو۔۔۔" انیہ کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ اسنے غصے سے ریموٹ
فرش پر پٹخا تھا۔اپنا رض پورا اسکی طرف موڑا اور بغور اسکا جائزہ لینے لگا۔
ڈارک بلو جینز ، اوپر ہلکے براؤن رنگ کی شرٹ جسکی آستینیں کہنیوں تک اوپر
کی ہوئی تھ، بوائے کٹنگ والے بال۔ کیوٹ سا چہرہ جو سلمان کو زہر لگ رہا
تھا۔
"یہ حلیہ ہے لڑکیوں والا؟ یا خدایا۔ دفع ہوجاؤ مر جاؤ کہیں جا کر۔ حلیہ
دیکھو شیشے میں۔ زہر سے بھی بری کوئی چیز لگ رہی ہو۔ سکون سے جینے نہیں
دیتی۔ منہ اٹھا کر آجاتی ہو۔عذاب ہو تم تو۔ مرو کہیں جا کر" اونچے آواز میں
غصے سے کہتا ہوا وہ اسے جھٹکا دیتا باہر نکل گیا۔ وہ جو ساکت کھڑی آنسو بہا
رہی تھی جھٹکا لگنے کی وجہ سے نیچے گر گئی۔ اگلے ہی لمحے وہ روتی ہوئی
خالدہ کے کمرے میں بھاگی تھی۔
انیہ ان سے لپٹی زاروقطار آنسو بہا رہی تھی اور وہ اسے تھپک کر خاموش
کروانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
"ماما میں تو بھائی سے اتنا پیار کرتی ہوں پھر وہ کیوں ڈانٹتے ہیں مجھے؟
کہتے ہیں مرو ۔۔۔عذاب ہو تم " رونے کے باعث اس سے بولا نہیں جارہا تھا۔
"انہیں میرے کہڑے تو کیا میں بھی نہیں پسند۔ میں تو اس لیے پہنتی تھی کہ
بھائی جیسی لگوں" خالدہ نے انئیں خود سے الگ کیا۔
"انیہ بیٹا! بھائی دور رہتے ہیں نا آپ سے اسی لیے وہ ایسے ہیں۔ وہ شروع سے
تھوڑا چڑچڑا ہے۔ برا مت مانو میری جان ٹھیک ہوجائے گا وہ۔ اور بھائی کو
نئیں پسند تو بیٹا نا پہنو ایسے کپڑے" انیہ نے چونک کر ماما کو دیکھا۔ وہ
مسکرائیں۔
"آپ نے بھائی کو خوش کرنا ہیں تو انکی بات مانو۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا
جب وہ اہنی چھوٹی سی پیاری سے بہن سے بہت پیار کرےگا"
دروازےکے قریب سے گزرتا سلمان ٹھٹکا۔ پھر مزاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
"آہی نا جائے ایسا وقت" ۔اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
"سچ ماما؟" انیہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی۔ اسکا بھائی اور اس سے پیار۔
"ہاں میری جان۔ کوشش اور امید سے سب ممکن ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو
ہمارے لیے اچھا ہوگا" وہ اس کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ صاف کر رہی تھی اور وہ
مسکرا دی۔
"ماما میں تو کل چھٹی کروں گا بہت تھک گیا ہوں اور احمد آجائے ایک ساتھ
جائیں گے سکول" شادی سے واپس آتے ہوئے وہ باتیں کرکے اپنا سفر طے کر رہے
تھے۔
"اور جتنے تم نے اور احمد نے تماشے کیے ہیں شکر کرو ٹانگیں زندہ ہیں" شازیہ
ان کے ڈانس کو تماشا کہہ رہی تھی۔ باتوں باتوں میں وہ دنیا جہان کی باتیں
کر چکے تھے اور سفر تھا کہ۔ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
"ریمو! بیٹا ماما کی بات یاد رکھنا ہمیں اپنے فرض سے محبت کرکے اسے سمجھ کر
اسے سر انجام دینا چاہئے۔ ورنہ کام کرنے کا وہ مزا وہ لطف کبھی نہیں آتا۔"
شازیہ ایسی بہت سی باتیں ریمو کو بتاتی تھی۔
"زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو یاد رکھنا۔ یا تو شکوہ نا کرو یا پھر دوسرے
کو کوئی موقع ہی نا دو کہ وہ کچھ ایسا کئے جس سے شکوہ کرنا پڑے"
"مطلب میں سمجھا نہیں؟" اسنے ناسمجھی سے کہا۔
رعیم کے والد بیوی اور بیٹے کو گفتگو سنتے ہوئے گاڑی دوڑا رہے تھے۔
"میں ایکسپلین کرتی ہوں۔"
"سمجھو کوئی تمہیں تنگ کرے یا تمھاری بستی کرے تو تمہارے پاس تین اوپشن
ہیں۔
ایک تو یہ کہ خاموشی سے ان لو اور دفع کرو معاف کردو دل پر نا لگاؤ۔ دوسرا
یہ کہ خود کو اتنا مضبوط کرلو کہ کوئی کچھ بھی کہیں تمہیں فرق نا پڑے یا
خود کو اتنا اچھا بنا لو کہ کوئی کچھ برا نا کر سکے۔ تیسرا یہ کہ کمزور نا
پڑو اور اگلے کو سنا دو۔
یہ تین چیزیں شکوہ کرنے سے بہتر ہیں"
رعیم بڑی توجہ سے سمجھ اور سن رہا تھا۔ رعیم کے والد مسکرا دیے۔
"ہاں تو صحیح کہہ رہی ہونا ۔ دیکھیں اب اگر کوئی دوسرے کو جاکر کہے کہ ہائے
اسنے میرے ساتھ یہ کیا وہ کیا اور آگے سے کوئی پوچھے تم نے آگے سے کیا کیا؟
تم نے کیوں کہنے دیا کچھ۔ خاموش کیوں رہے ؟ یا پھر یہ کہے ہائے اللہ یہ لوگ
میرے ساتھ ایسے کیوں کر رہے ہیں؟ بھئی وہ اگے سے کیوں خاموش تھا؟ وغیرہ
وغیرہ۔ بھئی ہر ایک کو اہنا آپ خود سنمبھالنا پڑتا ہے۔ کیوں ریمو؟"
"بالکل درست فرمایا میری ماما نے" رعیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " زبردست بات
ہے ۔ اب تو میں اس ہر عمل کروں گا"
" اور پھر مجال ہے میرے بیٹے کو کوئی کچھ کہے۔ لو یو ریمو" شازیہ نے بہت
پیار سے کہا ۔
"لو یو مور ماما"
"اور میں؟ بیک ویو مرر میں دیکھتے ہوئے رعیم کے پاپا نے کہا۔
"ہاہاہا! پاپا میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں" رعیم نے آگے ہوتے ہوئے کہا۔
"ہم بھی تم سے بہت پیار کرتے ہیں" ان دونوں نے ساتھ کہا اور گاڑی میں ہنسی
گونج اٹھی۔ گاڑی گھر کی طرف ہوتی گلی میں داخل ہو چکی تھی۔
※※
ان کو منا منا کر انیہ ہلکان ہوگئی تھی لیکن وہ دونوں ٹس سے مس نا ہوئے۔
دونوں منہ پھلائے بیٹھے تھے۔ آخر کار تنگ آکر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
"ارے پگلی! ہم تو مذاق کر رہے تھے " احمد فوراً لپکا۔
"بس منی مزا نہیں آیا تھا تمہارے بغیر تو کثر اب پوری کر رہے تھے۔"
"جھوٹے۔ خود تو کہا تھا کہ اس سے ناراض ہوکر فرمائیشے پوری کروائینگے" رعیم
نے جان بوجھ کر پول کھولی تو احمد نے سر پیٹا۔
"تمہارے رخصار پر تھپڑ رسید کرنے کا دل چاہ رہا ہے میرا رعیم" احمد بگھڑ کر
بولا۔
"اویں لگا ہوا ہے یہ۔ پیاری منی آجاؤ چپس کھائیں" پلٹی کھانا تو کوئی احمد
علی خان سے سیکھے۔
"بس بس! مکھن مت لگاؤ اب" انیہ بھی موڈ میں لوٹ آئی تھی۔
"لو! تم کوئی بریڈ ہو جو مکھن لگاؤں گا میں؟ اتنی بد مزا بریڈ آخ" احمد منہ
کے زاویے بدل بدل کر کہہ رہا تھا۔
"احمد!۔۔" انیہ چلائی اور جوتی اتار کر اس کی طرف لپکی۔ وہ مشن میں کامیاب
ہو کر رعیم کو آگے پیچھے کرکے اسکے پیچھے چھپنے لگا۔انیہ میں ہلکی پھلکی
تبدیل تو وہ محسوس کر چکے تھے۔ لیکن انہوں نے اس کے متعلق کوئی بات نہیں
کی۔ ٹوپی نئیں پہنتی تھی اور آج شلوار قمیض پہنی تھی جبکہ اسکی آستینیں بھی
موڑی ہوئی تھی۔
رعیم اور احمد اپنا کام کر چکے تو انہیں کوئی شرارت کرنے کی کجھلی ہونے
لگی۔
کچھ نہیں ملا تو اپنے سے آگے بیٹھی چھوٹی بچی مریم کو بغور دیکھنے لگے۔
بقول احمد " ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے تو پھر شرارت کا موقع کیا
چیز ہے"
مریم پٹیالا شلوار اور چھوٹی قمیض میں ملبوس تھی ساتھ میں اسی رنگ کا چھوٹا
سا ڈپٹا بھی ادھر ادھر تفریح کر رہا تھا۔
"Idea" احمد نے رعیم کے کان میں سرگوشی کی۔
احمد آہستہ سے آگے بڑھا اور اسکے ڈپٹے کو پکڑ کر اس کے بیگ کے ساتھ گرا
لگادی۔
رعیم کھنکارا "مریم آپی! آپ کا ڈپٹہ نیچے گرا ہوا تھا یہ لو" رعیم نے ڈپٹے
کا دوسرا سرا اسے تھمایا جسے اسنے مسکراتے ہوئے شانوں پر رکھ لیا۔
"میم! مریم آپی کا کام چیک کرلیں" احمد معصومانہ انداز اپناتے ہوئے بولا۔
"آؤ مریم" اینی جو تب سے انیہ کو پڑھا رہی رھی مریم کی طرف متوجہ ہوئی۔
"ہاں جاؤ اٹھ کر شاباش" احمد سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا اور رعیم بمشکل مسکراہٹ
ضبط کر رہا تھا۔
وہ کھڑی ہوئی تو کچھ بھاری سا محسوس ہوا۔ ڈپٹا اوپر کو اٹھانے کی کوشش کی
تو اٹھ نا سکا۔ فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا وہ دونوں بیٹھے ہنس رہے تھے۔
"آؤ بھئی کیا جام ہوگئی ہو؟" اینی نے ابھی کچھ نہیں دیکھا تھا۔
"میم جی! انہوں نے میرے ڈوپٹے کی 'ڈوریں' باندھی ہیں" وہ گرا کھولتے ہوئے
بولی۔
جبکہ 'گرا' کے لیے اسکا استمعل کیا ہوا لفظ 'ڈوریں' سن کر اینی اور باقی سب
کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"باندھنے دو انہیں ڈوریں تم ادھر آؤ" ۔ ان دو گھنٹوں میں اینی کا ضبط کمال
کا ہوتا۔
"اور تم دونوں مضمون لکھو My Ambition پر۔ نویں جماعت میں ہوگئے ہو اور
حرکتیں بچوں جیسی" وہ دوبارہ دونوں لڑکیوں کو پڑھانے لگی۔
"احمد تمہارا ایمبشن کیا ہے؟ کیا بنو گے؟" پڑھنے کا دل کس کا چاہ رہا تھا۔
باہر ہوتی ہوئی بارش انہیں پڑھنے سے روک رہی تھی۔
"پولیس میں جاؤں گا۔ بڑا مزا آتا ہے چور پولیس کھیلنے کا۔ ذرا اصل میں بھی
کھیل کر دیکھوں گا۔ میں تو پولیس مین بننا چاہتا ہو" اسکی بات پر رعیم
مسکرا دیا۔
"تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نا چاہے" ۔ دونوں بے اختیار ایک ساتھ پیچھے
مڑے۔ اینی کی توجہ بھی اس سمت ہوئی۔
"ارے آنٹی!" رعیم کی ماما مسکراتی ہوئی دونوں کے پاس بیٹھ گئی۔
"انشاءاللہ بولو بیٹا" انہوں نے احمد کے سر پر چپت لگائی۔
"انشاءاللہ احمد علی خان پولیس میں جائےگا" وہ شوخ لہجے میں بولا۔
"تمہیں تو ایکٹر بننا چاہہے۔ پولیس والے تو کسی کام کے نہیں" انیہ نے اپنی
رائے پیش کی۔
"ہائے! ضروری تو نہیں ہے کہ ہر کوئی ایک جیسا ہو۔ کچھ بہت اچھے ہوتے ہیں ۔
اپنے فرض سے واقف ہوتے ہیں۔ جوش اور جذبے سے اپنے ملک اور عوام کی حفاظت
کرتے ہیں" رعیم کے کہے جانے والے ہر لفظ پر احمد اسے پیار سے دیکھتا۔(وہی
احمد کا ایکٹنگ والا مخصوص انداز)۔
"صدقے! بجا فرمایا" احمد نے اسکا شانہ تھپکایا۔انیہ اپنے کام میں مگن
ہوگئی۔
"آہ! میں تو دلدادہ ہوں ، پرستار ہوں ایسے جانثار لوگوں کا" احمد نے دل پر
ہاتھ رکھ کر آہ بھرتے ہوئے کہا۔
" اور تم کیا بنو گے؟" وہ رعیم سے پوچھنے لگا۔
"میں؟۔۔۔۔ میں کچھ ایسا بننا چاہتا ہوں جس سے لوگوں کی مدد ہوسکے۔ شاید
ڈاکٹر" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
"جو تمہیں اچھا لگیں وہ بننا۔ اور ہر کام کو فرض سمجھ کر اس سے پیار کرکے
کرنا۔ دل سے سوچنا لیکن دماغ کو ساتھ رکھنا" رعیم نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
کتنی پیاری باتیں کرتیں ہیں اسکی ماما۔
شازیہ مسکراتے ہوئی کھڑی ہوگئی۔ "کیا یار اینی باہر بارش ہورہی ہے اور ادھر
پڑھائی ہو رہی ہے۔ چلو کچھ انجوائمنٹ کرتے ہیں"
"واقعی آنٹی شکر آپ آئیں۔ چلو بچوں محفل برخاست ہوئی۔ بھاگ جاؤ سب کے سب"
وہ ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوگئی۔
※※※
جیل کے آگے سے چکر لگا کر وہ واپس اپنے آفس کی طرف ہولیا۔ علی بیٹھا ایف
آئی آر لکھ رہا تھا اور بڑی توجہ سے سامنے بیٹھی عورت کو سن رہا رہا تھا۔
وہ جا کر اس کے پاس کھڑا ہوگیا۔ سینے پر ہاتھ لپیٹے وہ اس عورت کی روداد
سننے لگا۔
"اب میں کیا کہو! ایسے چنغل میں پھنسی ہو کہ کیا بتاؤں۔ میں تو اجڑ گئی" وہ
آنکھوں میں آئے آنسوں اپنے ڈپٹے کے پلو سے پونچھ رہی تھیں۔
"آپ ٹو دی پوائینٹ بات کریں۔ کیا کیا چوری ہوا اور کب؟ " ان کے بار بار ایک
ہی بات کو دہرانے پر علی چڑ گیا۔
لیکن وہ اسی طرح کھڑا سنجیدگی سے اس عورت کو سن رہا تھا۔
پولیس وردی اس کی شخصیت کو پر کشش بنا رہی تھی۔ شکل و صورت تو ویسے ہی اللہ
کے فضل سے کمال کی تھی۔ اوپر سے یہ سنجیدہ انداز ۔۔۔۔
"کل شام کو۔ تب میں ننّی کے ساتھ بازار گئی تھی۔ واپس آئی تو دیکھا دروازہ
کھلا تھا اور سارا قیمتی سامان غائب۔ میرے مرحوم شوہر اللہ انہیں بخشے،
ساری خون پسینے کی کمائی تھی انکی اڑا کر لے گئے مرن جوگے" علی کاغذ پر
لکھنے لگا۔
"اور ننی بھی بازار میں سے "ابھی آئی" کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔" وہ انکی بات کاٹ
کر بولا
"ننی کون ہے؟" اس کے با انتہا سنجیدگی سے پوچھنے پر انہوں نے چونک کر اسے
دیکھا۔
"بڑی پیاری بچی ہے۔ بیٹیوں کی طرح ہے میری"
"یعنی بیٹی نہیں ہے؟" وہ بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"نا! ایک ہفتے پہلے ہی آئی میرے زندگی میں۔ میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے اسکو
پڑھاتی ہے اور میرے گھر کے کام بھی کردیتی ہے۔ شام کے بعد آئی ہی نہیں۔ پتا
نہیں کیوں۔ اچھا تو میں بتا رہی تھی کہ میرے زیورات بھی۔۔۔۔" ۔ وہ ناجانے
کیا کیا بول رہی تھیں۔
"اس لڑکی کے بارے میں بتائیں ۔ جو کچھ جانتی ہیں ۔۔ سب" وہ بات کاٹ کر
بولا۔
"ہائے کیوں؟" وہ حیران ہوکر بولی۔
"سر فاروقی کو لگتا ہے کہ اس چوری میں اسکا(ننی) ہاتھ ہے" علی عقل مندی
دکھاتے ہوئے بولا۔وہ علی کو گھور کر دوبارہ انکی طرف متوجہ ہوا۔
"ہائے وہ معصوم بچی کیوں کرےگی چوری۔ اور بھلا وہ نازک جان کیسے میری
الماریاں توڑ سکتی ہے۔ چلو الماری توڑ بھی لی تو وہ لاکر کیسے توڑ لیا جس
میں میرے زیورات تھے" وہ بڑے یقین کے ساتھ آنسو بھلا کر اسکی طرف داری کر
رہی تھیں۔
"فاروقی سر یہ مجھے کسی گینگ کا کام لگتا ہے۔ پورا گروپ ملوث ہوگاکیونکہ
چھوٹی موٹی چوری نہیں تھی۔ آپ کے گھر جتنا مال تھا سب غائب۔ سوچا سمجھا
کھیل لگ رہا ہے مجھے ۔" ایک علی ہی تھا جو اسے فاروقی سر کہہ کر پکارتا تھا
باقی تو صرف سر یا اسکے نام سے۔
گینگ اور گروپ کے لفظ پر وہ چونک کر کھڑا ہوا۔ علی نے حیرت سے اسکی طرف
دیکھا۔
اپنی بات پر غور کیا تو خود بھی چونک گیا۔
"ایسے گروپ کیسیز وارداتیں تو۔۔۔" علی کچھ بولتے بولتے رک گیا۔
"سلمان نیازی" تلخ لہجے میں اس نے علی کی بات پوری کردی۔
سلمان نیازی جو پچھلے کتنے ہی سالوں سے ہر برے کام میں ملوث رہ چکا ہے سزا
کاٹتا، ضمانت لے لیتا۔ ان کا پورا گروپ پچھلے چند سالوں سے گردش میں آیا
ہوا تھ؟ اور کام اتنی صفائی سے کرتے کہ پکڑے جانے کے لیے کوئی راستہ نا
چھوڑتے۔لیکن اب نہیں اب کی بار تو ان کی خیر نہیں۔
"اس لڑکی کی انفارمیشن دیجیے آپ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور تھا؟" وہ ایک
جھٹکے سے اس عورت کی طرف مڑا۔
"اس نے کہا تھا وہ اکیلی ہے۔ یتیم ہے ۔ نوکری چاہہے۔ میں نے ترس کھایا اور
اپنے بیٹے کے لیے ٹیچر منتخب کر لیا۔ دو گھنٹے ارسلان کو پڑھاتی اور باقی
دو گھنٹے میں پورے گھر کے صفائی کرتی۔ " علی تیز تیز ہاتھ چلاتا ساری باتیں
لکھ رہا تھا اور وہ کھڑاسن رہا تھا۔
"کہا رہتی ہے؟ نام؟ کچھ اتا پتا؟" وہ مضطرب سا پوچھ رہا تھا اور غصہ ضبط کر
رہا تھا اسکا بس چلتا تو ابھی سلمان کے سر پر پہنچ کر اسے دفن کردیتا۔
"کہہ رہی تھی کسی سہیلی کے گھر رہتی ہے کرائے پر۔ اور نام؟ میں تو اسے ننی
کہتی ہوں"
" تو آپ اصل نام نہیں جانتی؟"
"اس نے نام بتایا تو تھا۔ کیا نام تھا اسک کا۔۔۔" وہ سوچنے لگی۔
دونوں جواب کے منتظر کھڑے تھے۔
"ہاں یاد آیا۔۔۔۔ انیہ! انیہ نام تھا اسکا۔" وہ یاد آنے پر جوش سے بولیں تو
سامنے کھڑے اس شخص پر بجلیاں گری۔
وہ ساکت کھڑا انہیں دیکھا رہا تھا۔ کیسے ہو سکتا ہے یہ؟ وہ روک کر آیا تھا
اسے ۔ منع بھی کیا تھا۔
"اس کی دوست کا گھر کہاں ہے؟" علی پوچھ رہا تھا۔
"ہاں اسکا پتہ معلوم ہے مجھے " وہ پتا بتانے لگیں جسے علی نے فوراً نوٹ
کیا۔
"ہائی الرٹ کردو سب کو۔ اس بار وہ ہاتھ سے جانے نا پائے" ۔ وہ سنبھلتے ہوئے
بولا۔ آنکھوں سے عجیب سا دکھ، تکلیف جھلک رہی تھی۔ آنکھیں مسلتا وہ وہاں سے
ہٹ گیا۔
"یس سر" علی فون کی طرف لپکا۔
※※※
آج ماما نے میری پسند کا کھانا پکایا ہوگا۔ آہ لو یو ماما۔ وہ اسی سوچ کے
ساتھ اٹھا۔ سنڈے تھا تو وہ کچھ دیر سے اٹھا۔ وہ فریش ہو کر شیشے کے سامنے
کھڑا بال بنا رہا تھا۔ عجیب سے شور کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔
"لے لو سب لے لو۔"
"مت مارو پلیز۔ خدا کے لیے چھوڑ دو ہمیں"
رعیم فوراً باہر کی طرف لپکا۔ ابھی اسنے دروازے کے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ
فائر کی آواز گونج اٹھی۔ اس گھر کے لاؤنج کا منظر اسے خوف میں مبتلا کرنے
کے لیے کافی تھا ۔
وہ چینختا ہوا اپنے والدین کی طرف بھاگا جو اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔
اور وہ درندے کتنے آرام سے باہر نکل گئے تھے۔
"ماما ! پاپا!" وہ دونوں کو باری باری جھنجھوڑ رہا تھا لیکن کوئی جواب نا
دے رہا تھا۔ اسکی ماں کی سانسیں چل رہی تھی۔ "ریمو۔۔۔۔۔اللہ" ۔ آخری الفاظ
انکے لبوں سے ادا ہوئے اور وہ اس دنیا سے ۔۔۔۔۔۔
"ماما" وہ پوری قوت سے چینخا۔ آنکھیں آنسؤں سے لبریز تھی۔ وہ انکا ہاتھ
پکڑے بیٹھا تھا۔
"پاپا اٹھے۔ پاپا پلیز اٹھے۔ ماما میری بات سنیں۔ ماما" وہ رورو کر چینختا
انہیں پکار رہا تھا۔
"مجھ سے بات کریں۔ مجھے اکیلا مت چھوڑیں۔ میری بات سنیں" ان کے خون سے لت
پت وجود سے لپٹ کر وہ رو پڑا۔
پتا نہیں کون آکر اسے چپ کروا رہا تھا ۔ کون اس سے کیا کہہ رہا تھا اسے کچھ
سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ بس ان سے لپٹے زاروقطار رو رہا تھا۔ بار بار "
ماما پاپا" پکار کر چینخ رہا تھا۔آنسؤں میں اسے صرف دھندلکے میں اپنے ماما
پاپا نظر آرہے تھے۔ جو آخری منظر اسنے دیکھا تھا وہ یہی تھا۔ اسے اپنا ہاتھ
ان کے ہاتھ سے دور جاتا محسوس ہوا۔
"ڈاکوں گھس آئے تھے۔ سب کچھ دے دیا پھر بھی انہیں گولی مار دی ۔ اللہ معاف
کرے۔ کیسے درندے تھے ۔ پیسے اور زیورات کی حوس میں لوگوں کی جانو سے کھیل
گئے۔ بیچارہ بچا" ۔ جانے کون بول رہا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو بے سدھ محسوس کر
رہا تھا۔ ارد گرد مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ آنکھوں سی کچھ آنسو کے قطرے
نکلے جو بہتے ہوئے تکیے میں جا کر جذب ہوگئے۔ کسی نے پیار سے اس کے رخساروں
پر آیا پانی صاف کیا۔
رعیم نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔
"ماموں!" وہ اسد کے گلے لگ گیا۔ آنسوؤں کو روکنا نا ممکن تھا۔
"بس بیٹا بس" وہ اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کچھ دیر رو کر وہ چپ ہوا تو پوچھنے لگا "ماموں میرے پاس تو صرف ماما پاپا
تھے۔ اللہ نے انہیں کیوں چھین لیا مجھ سے؟" اسد خاموش بیٹھا رہا۔
"آپا کہتی تھی صبر ہی انسان کو مشکل وقت میں سہارا دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ کہتی
تھی دکھ کو خود پر زیادہ دیر تک حاوی مت ہونے دو" اسد بھرائی ہوئی آواز میں
بولا۔
ہاں! اس کی ماما تو اسے ہمیشہ پیاری باتیں بتاتی تھیں۔
"ریمو! لوگ تو اس دنیا میں آتے ہیں اور وقت پورا ہونے پر چلے جاتے ہیں۔ ہم
کچھ نہیں کر سکتے۔ ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ "
"ریمو! ہار مت مانا کرو۔ بس ٹھان لو کہ مشکل میں کمزور نہیں پڑنا۔ خود پر
اعتماد اور حوصلہ رکھنا چاہئے"
رعیم نے رگڑ کر اپنے آنسؤں پونچھے۔
"ماما میں مظبوط بنوں گا کیوںکہ میرے پاس میری ماما کی یادیں اور والدین کی
دعائیں ہیں" وہ خود کلامی کر رہا تھا۔
"اب تم یہاں رہو گے میرے ساتھ۔ ابھی تمہارا جوان ماموں زندہ ہے۔ اور جنازے
کے اگلے روز میں تمہارا سامان بھی لے آیا تھا۔ اب ہم دونوں یہاں ساتھ
رہینگے۔ اوکے؟" اسد نے مسکرا کر پوچھا تو وہ بس سر ہلا کر رہ گیا۔
"اور احمد بھی اپنے بھائی کے پاس اس شہر میں آ رہا ہے۔ اکھٹے پڑھنا اور خوش
رہنا"
" اس نے کافی فون کیے لیکن تمہاری طبیعت اتنی خراب تھی کہ بات نا کروا سکا۔
میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں" وہ اس کا گال تھپکاتے ہوئے باہر نکل گیا۔
"اللہ غارت کرے ان لوگوں کو" غصے میں اس نے ان ڈاکؤں کو برا بھلا کہا۔
"بدعا نہیں دیتے۔ دوسرے کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں ریمو۔" اس کی ماما
کہیں سے بولی تھی۔
رعیم کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ "اللہ انہیں ہدایت دے" ایک آنسؤں اس کی آنکھوں
سے لڑھک کر رخساروں کو تر کر گیا۔اگلے ہی لمحے وہ تکیے میں منہ دے کر
دوبارہ رونے لگا ۔
"ماما بہت مشکل ہے۔ ماما پاپا آپ کا ریمو آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا"۔
※※※
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اجالا، روشنی ،
ہل چل۔ سب کچھ تھا باہر لیکن اس کا باطن خالی ہو چکا تھا۔ اتنے مہینے گزرنے
کو بعد وہ خود کو کافی حد تک سمبھال چکا تھا۔ بس فرق اتنا تھا کہ اس کا دل
ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ اتنی راتیں رو کر ، سوچ کر گزار دی۔ دروازہ
کھٹکا کر کوئی اندر داخل ہوا۔ رعیم نے رخ موڑ کر دیکھا۔ اسد اس کی طرف ہی
آرہا تھا۔
"رعیم پہلے تو گرمیوں کی چھٹیاں تھی لیکن اب کالج شروع ہو چکے ہیں ۔ اور
تمہاری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے" رعیم خاموشی سے انہیں سن رہا تھا۔
"میں فارم لایا ہوں۔ تمہارے میڈیکل میں داخلے کے لیے۔ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے
نا۔ یہ لو اسے پر کردو" اسد نے بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
پیپر اسے تھمایا۔
"مجھے ڈاکٹر نہیں بننا"۔ رعیم بڑے آرام سے بولا۔اسد کو لگا وہ پڑھنا نہیں
چاہتا۔
"پڑھو گے نہیں تو آگے کیسے بڑھو گے۔ زندگی پڑی ہے پوری ۔ ایسے کیسے چلے گا"
اسد کی آواز تھوڑی اونچی ہوگئی۔
رعیم اتنے عرصے بعد مسکرا دیا۔ " میں نے کب کہا نہیں پڑھو گا۔ میں نے بس
اتنا کہا ڈاکٹر نہیں بنوں گا۔ "
"شکر او خدایا! پھر کیا ارادہ ہے؟"
رعیم نے بڑے سکون سے سائڈ ٹیبل سے کاغذ نکالا اور اسد کو تھمایا۔
"تو کیا تم بھی احمد کی طرح۔۔۔۔۔؟" اسد نے خوش اور حیران ہو کر پوچھا۔
رعیم نے مسکرا کر سر ہلایا۔ " میں نہیں چاہتا کسی اور رعیم سے اس کے والدین
چھینے جائے" اس کی مسکراہٹ سمٹ چکی تھی۔ وہ بالکل سنجیدگی سے دوبارہ کھڑکی
کو باہر دیکھنے لگا۔
احمد بھی رعیم کے ساتھ ہی پڑھ رہا تھا۔ دونوں کی منزل بھی ایک ہو چکی تھی۔
رعیم کے لیے ایک خوبصورت رشتہ ، سکون احمد کی شکل میں اس کے ساتھ تھا۔ وہ
احمد کے ساتھ خوش رہتا۔
"رعیم میں اس ویک اینڈ پر گھر جا رہا ہوں۔ تم بھی چلو "۔
"نہیں احمد" اس نے دو ٹوک الفاط میں منع کردیا۔
"رعیم سب بہت یاد کرتے ہیں تمہیں۔ ماما پاپا اینی آپی انیہ سب"
"احمد میں نہیں جانا چاہتا۔ وہ جب عاصم بھائی کے پاس آئینگے تو مل لوں گا۔
لیکن اب میں وہاں نہیں جانا چاہتا"۔
"اور انیہ؟ رعیم وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔ اس دن کے بعد سے تم اس سے ایک
بار بھی نہیں ملے۔ پچھلی بار جب میں گیا تھا تو اس نے رو کر مجھ سے تمہارے
بارے میں پوچھا تھا۔ رعیم وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے"
رعیم گہری سانس لے کر رہ گیا ۔
"احمد وہ بہت اچھی ہے۔ مجھے بھی یاد آتی ہے اپنی دوست۔ لیکن میں دوبارہ
اپنے ماضی میں نہیں جانا چاہتا۔ میرا دل نہیں کرتا کسی سے ملنے کو ۔ پلیز
احمد مجھے سمجھو"۔ رعیم روہانسا ہو رہا تھا۔
"جیسے تم چاہو" احمد نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے کہا۔
"تھینکس! اور اب تم مجھ سے ماضی کی کوئی بات نہیں کروگے۔ نا ہی انیہ سے
میرے بارے میں کوئی بات کروگے نا انیہ کو میرے بارے میں کچھ بتاؤ گے۔ وہ
بہت اچھی ہے لیکن۔۔۔ وہ ماضی کا حصہ ہے" احمد بے اختیار مسکرا دیا۔
"جو حکم۔ لیکن مجھ پر یہ احسان کیوں؟ میرا مطلب اپنے حال کا حصہ بنا کر آپ
نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا" رعیم ہنس دیا۔ یہ لڑکا نہیں بدلے گا اپنی
عادات سے۔
" کاش میں تمہیں اٹھا کر باہر نکال سکتا۔ لیکن افسوس تم میرے بیسٹ فرنڈ ہو۔
" وہ اداسی سے بولا۔ ( وہی احمد کی صحبت کا اثر)۔
"یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتا۔" احمد
اس کے گلے لگ گیا۔
"میں بھی نہیں" رعیم نے مسکرا کر کہا۔ ایک ہی تو خوشی رہ گئی تھی اسکی
زندگی میں۔ اتنا وہ ماموں سے اٹیچ نہیں تھا جتنا احمد سے۔
※※※
دو سال کیسے گزر پتا ہی نہیں چلا۔ وہ ماضی بھلا کر اپنی زندگی سنجیدگی سے
گزار رہا تھا۔ پڑھائی اور منزل کی چاہ نے اسے سب بھلا دیا تھا۔ ماموں نے اس
کا گھر بیچ کر پیسے رعیم کے اکاؤنٹ میں ڈلوا دیے۔ اور اپنے خرچ کے لیے وہ
اکیڈمی میں چھوٹی کلاسس کو پڑھاتا۔ حلانکہ ماموں اسے جیب خرچ دیتے لیکن وہ
منع کر دیتا۔ماموں کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ انکو زیادہ تنگ نہیں کرنا چاہتا
تھا۔
کبھی جب وہ فارغ ہوتا تو اسے انیہ یاد آتی۔ کتنی اچھی تھی وہ۔ کتنا مزا
کرتے تھے وہ تینوں۔ وہ اب بھی ویسی ہوگی کیا؟ ۔ آہ چھوڑو پرانی باتوں کو۔
لیکن وہ اب کا کرتی ہوگے اضمد اور وہ تو یہاں تھے۔ اسکے نئے دوست بنے ہونگے
شاید۔ پتا نہیں۔ اور اسکا بھائی۔ ہاں احمد نے ایک بار دکھایا تھا اسکا
بھائی۔ اس کے 'کرتوت' بھی بتائے تھے۔ عاصم نے ایک بار اسکا چٹھا بٹھا سب
کھول کر سنایا تھا۔ کیا اس کے گھر والے واقف نہیں تھے کہ انکا بیٹا کن
کاموں میں ملوث ہے۔ اللہ توبہ چھوڑو۔
احمد کی پوری فیملی یہاں عاصم کے پاس آئی تھی۔ اینی آپی کی شادی طہ ہوگئی
تھی۔ وہ بھی تیاریوں میں زوروشور سے حصہ لے رہا تھا۔ اینی آپی اسے بھی بہت
عزیز تھی۔ انہوں نے احمد اور رعیم میں فرق نہیں کیا تو وہ کیوں چھوٹے بھائی
کے فرض سے پیچھے ہٹتا۔
احمد نے بس اتنا بتایا کہ سلمان آیا ہوگا تو شاید انیہ لوگ شادی پر نا
آئیں۔ رعیم تھوڑا خوش ہوا کہ کسی سی ملاقات نہیں ہو گی۔ لیکن تھوڑا دکھی
بھی تھا کہ انیہ سے نہیں مل پائے گا۔ اس سے دور جاکر بھی وہ بہت یاد آتی
تھی۔
مہندی بہت شان ، اور ہلے گلے سے ہوگئی۔ احمد نے رعیم کو خوب نچوایا۔
آج بارات تھی۔ احمد نے اور اس نے ایک جیسی شیروانی سلوائی تھی۔ بس رنگ الگ
تھے۔
سیاہ شیروانی پر ہلکا سا ہوا کام بہت زبردست لگ رہا تھا۔ رعیم آئینے کے
سامنے کھڑا خود کو دیکھ رہا تھا۔ سیاہ شیروانی میں اسکی صاف رنگت دمک کر
رعیم کو پرکشش اور مزید ہینڈسم بنا رہی تھی۔ آئینے کے سامنے سے ہٹ کر وہ
باہر نکل گیا جہاں شادی کا فنگشن شروع ہو چکا تھا۔
ہر طرف روشنی ، لوگ۔ اینی سے کچھ دیر باتیں کرکے وہ سٹیج سے اترا تو سامنے
سے احمد آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ایک پیاری سی لڑکی تھی۔
"کیا بات ہے۔ آج تو طوفان مچا دو گے تم یار" رعیم نے احمد پر نظر ڈالی۔
رعیم جیسی شیروانی لیکن مختلف رنگ میں۔ گہرے نیلے رنگ کی شیروانی میں وہ
واقعی طوفان مچا رہا تھا۔ ساتھ کھڑی لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"آہ شکریہ! تم کونسا کسی سے کم ہو۔ جدھر سے گزرتے ہو لوگوں کو مار ڈالتے
ہو۔ سوری لڑکیوں کو" احمد نے آنکھ دبا کر کہا تو وہ ہنس دیا۔
"اینی وے! یہ ہے علشبا میری چچا زاد۔ اور علشبا تم سمجھ گئی ہوگی کہ یہ کون
ہے۔۔۔"
"رعیم۔ احمد کی زبان پر تو آپ ہی کا چرچا ہوتا ہے۔ نائس ٹو میٹ یو" علشبا
نے مسکرا کر کہا تو وہ احمد کو دیکھ کر ہنس دیا۔
"Same here Alishba" ۔
علشبا سٹیج کی طرف چل دی تو احمد رعیم کے کان کے قریب آیا۔
" تمہاری لیے ایک سرپرائز ہے" پھر تھوڑا ہٹ کر بولا " بعد میں جان لینا کیا
ہے۔ ابھی جاؤ ماما بلا رہی تھی تمہیں۔ میں تو کسی کو نظر ہی نہیں آتا" اس
نے منہ بسور کر کہا تو رعیم ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اسے
چپت لگانا نا بھولا۔
رعیم احمد کی والدہ کے کہنے پر سٹیج پر دلہا دلہن کے ساتھ تصویر کھینچوا
رہا تھا۔ اینی کا 'تازہ تازہ' شوہر(چونکہ نکاح مہندی پر ہوگیا) اس سے ہنستے
ہوئے بات کر رہا تھا۔ مزید لوگ دلہا دلہن سے ملاقات کے لیے آگئے تو رعیم
سٹیج سے اتر آیا۔
کافی دیر سے وہ مسکرا مسکرا کر تھک گیا تھا تو کھانا وغیرہ دیکھنے آگیا کہ
سب ٹھیک ہے یا نہیں۔ تمام انتظامات چیک کرکے وہ واپس مڑا ۔
اس سے کچھ فاصلے پر عقبی گیٹ تھا جس سے چند لوگ ابھی بھی آرہے تھے۔ "ہوتے
ہے نا کچھ لوگ جو کھانے کے ٹائم تشریف لاتے ہیں" رعیم سوچ کر رہ گیا۔ وہ سر
جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔
سٹیج سے اترتی ہنستی کو دیکھ کر وہ جہاں کھڑا تھا وہی کا وہی کھڑا رہ گیا۔
گلابی رنگ کا لمبا پیروں کو چھوتا فراک، جس کے ساتھ ہم رنگ ڈپٹہ شانوں پر
جھول رہا تھا اور ایک سرا زمین کو چھو رہا تھا۔ خوبصورت سا ہلکے کام والا
سوٹ جس کے ساتھ سے لمبے کمر تک آتے بالوں کو بڑی نفاست سے گھنگریال ڈالے
ہوئے تھے۔
رعیم ساکت کھڑا اسے ایک ٹک دیکھ رہا تھا جیسے یقین نا آیا ہو کہ وہ اس کے
سامنے ہے۔ اس کے سامنے تو وہ کف موڑے کیپ پہنے لڑکوں سے انداز والی لڑکی
تھی لیکن یہ اتنی نکھری رنگت والی پیاری سی لڑکی کوئی اور ہی تھی۔
"انیہ!۔۔" اس کے لب ہلے لیکن آواز اندر ہی دم توڑ گئی۔
وہ ایک قدم آگے بڑا لیکن اگلے ہی قدم رخ موڑ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ آکر کس منہ
سے اس کے سامنے جاتا ۔ اس کی سوچوں کو احمد کی ٹکر اور اونچی آواز نے توڑا۔
"انیہ" احمد اونچی آواز میں کہتا ہوا رعیم کو ٹکر مار کر گزرا جو یقیناً
اسے بتانے کے لیے اشارہ تھا۔ احمد ملنے کے لیے آگے بڑھ گیا تو رعیم وہاں سے
ہٹ گیا۔ اس کے اندر عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔
※※※
کھانا لگ چکا تھا اور تمام مہمان کھانے کی بڑی سے میز کے اردگرد بسیرا کیے
بیٹھے تھے۔ دلہا دلہن اور گھر والوں کے لیے خاص اہتمام ایک سائڈ پر کیا گیا
تھا۔ عاصم اور احمد تو انتظامات دیکھنے میں لگے تھی جبکہ رعیم پتا نہیں کہا
تھا۔
احمد اسے ڈھونڈتے ہوئے پورا ہال دیکھ چکا تھا۔ اسے فون ملایا تو مختصر سا
جواب " آتا ہوں" کہ فون بند ہو چکا تھا۔
چند منٹوں بعد وہ واپس آیا تو احمد شروع ہوگیا۔ "کیا دورا پڑ گیا تھا
تمہیں۔کدھر تھے؟"
"باہر گیا تھا"
احمد لحظہ بھر اسے گھور کر دوبارہ بولا ۔
"اب جاؤ کوک لے کر آؤ میرے لیے۔ بہت رش ہے وہاں۔ "
"تم نے مجھے کوک لا کر دینے کے لیے بلایا ہے؟" رعیم اسے گھور کر بولا۔
"یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا۔ اب ایک دوست دوسرے دوست کو کوک لا کر نہیں دے
گا۔ او خدایا یہ دن دیکھنے سے پہلے۔۔۔" رعیم کو زچ ہوکر کھڑا ہتا دیکھ اسے
اپنی ناراضگی والی ایکٹنگ روکنی پڑی۔
"آہاہ! یس۔۔" احمد مسکرا کر پلٹ گیا۔
اتنے لوگوں کو دیکھ کر اسے دل چاہا احمد کو ان لوگوں میں دکھا دے دے۔ جو
میٹھے کے لیے میز پر 'چپکے' ہوئے تھے۔
وہ بمشکل سائڈ سے کوک لے کر مڑا تو اس کی کسی ٹکر ہوگئی۔ کوک تھوڑی سی چھلک
کر مقابل کے کپڑوں پر گر گئی۔
"سوری" وہ معذرت خواہ انداز میں سنجیدگی سے بولا۔
"اٹس اوکے" ۔ خوبصورت نسوانی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے چونک
کر اسے دیکھا۔ وہ ہاتھ میں پکڑے ٹشو سے فراک صاف کر رہی تھی۔
نفاست سے کیے گئے ہلکے سے میک اپ اور آنکھوں پر مخملی آئی شیڈ اور کاجل
اسکے چہرے کو مزید پر کشش بنا رہے تھے۔
فراک صاف کرنے کے بعد اس نے چہرہ اٹھا کر سامنے دیکھا۔ رعیم تب کا وہی کھڑا
اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
سامنی کھڑی انیہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھی۔ وہ حیران سی اپنے سامنے بہت
بدلے سے رعیم کو دیکھ رہی تھی۔ کاجل سے لبریز بھوری آنکھوں میں حیرانی کے
بعد اب نمی اترتی ہوئی نظر آئی۔
اگلی ہی لمحی وہ سنبھلی اور پیر پٹخ کر پلٹی۔ وہ دو قدم دور پہنچی تو رعیم
حواسوں میں لوٹا اور فوراً اس کی پیچھے لپکا۔
"انیہ" وہ چلایا۔
لیکن وہ یوں ہی چلتی جا رہی تھی۔
"انیہ پلیز رکو" اس نے دوبارہ پکارا۔ لیکن اب کی بار اسکی رفتارتیز ہو چکی
تھی۔
وہ آگے چلتی لوگوں میں سے جگہ بناتی گزرتی پتا نہیں ان میں گم سے ہوگئی۔
رعیم ماحول کا خیال کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔
وہ مہمانوں میں بیٹھی نظر آئی وہ کوشش کر رہا تھا کہ جاکر اس سے بات کرے
لیکن وہ اٹھ کر کہیں اور چلی جاتی۔ اور رخصتی سے گھر ( عاصم کا گھر جہاں
رشتہ دار جن میں انیہ وغیرہ بھی تھے) تک وہ اس سے کتراتی پھر رہی تھی۔
گھر پہنچ کر احمد اور عاصم رعیم کے پاس بیٹھے اینی کی باتیں کرتے رہے اور
کپڑے تبدیل کرکے وہ احمد کے کمرے میں لیٹ گیا۔ (انیہ آتے ہی اپنی امی کے
ساتھ احمد کی والدہ کے کمرے میں تھی)۔ وہ کروٹ بدلتا سونے کی ناکام کوشش کر
رہا تھا۔
اسنے ان جانے میں انیہ کو دکھی کر دیا اور اسکی آنکھوں میں آنسو اسے بے چین
کر رہے تھے۔
رات کا جانے کونسا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ تھکاوٹ کے باعث نیند اس پر
غالب آ تو گئی لیکن اب پیاس کے شدت سے گلا سوکھ رہا تھا۔ آنکھیں بھی رونے
کے باعث جل رہی تھی۔ کمرے میں پانی کا جگ موجود نا پاکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
بلیک اور وائٹ کلر کی سادی ہلکی پھلکی شلوار قمیض میں ملبوس انیہ ڈپٹہ
اٹھاتے ہوئے کچن کی طرف بڑھی۔
پانی کا گلاس بھرا اور کرسی پر بیٹھی پینے لگی۔ کچن کی کھڑکی سے باہر تاریک
لان نظر آرہا تھا۔ سنک میں گلاس رکھ وہ پلٹنے ہی والی تھی کہ کھڑکی کے پار
ایک سایہ سا نظر آیا۔
"چور" پہلا خیال انیہ کو یہی آیا۔
سہج سہج کر قدم رکھتی وہ لان کی طرف بڑھی۔
" شادی کے گھر میں ڈاکہ؟ اسکی تو ایسی کی تیسی کرتی ہوں۔۔۔" خود کلامی کرتے
ہوئے سامنے کا منظر دیکھ کر وہ رک گئ۔ باقی الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے۔
لان کی کرسی پر بیٹھا رعیم ارد گرد سے بے نیاز آسمان کو تک رہا تھا۔
انیہ کا دکھ اور غصے سے برا حال ہونے لگا۔
ایسے کیسے وہ اتنی آسانی سی اتنی اچھی دوست چھوڑ آیا۔ اسکے ساتھ بہت برا
ہوا لیکن اتنے سالوں میں بار پلٹ کر نہیں دیکھا اس نے۔ اور میں؟ کتنا یاد
کیا میں نے رعیم کو۔ احمد سے زیادہ اچھا لگتا تھا رعیم مجھے۔ اوپر سے یہ
کہہ دیا کہ احمد کو کہ میرے بارے میں کوئی بات نا کرنا۔ آیا کیوں یہ انسان
شادی میں؟ بلکہ ہم کیوں آئے ؟ بھائی اگر جلدی نا جاتے واپس تو آج یہ دن نا
دیکھنا پڑتا۔
اندر ہی اندر کھولتی وہ پلٹنے لگی تو اسی لمحے رعیم نے بھی اسے دیکھا
وہ فوراً لپک کر انیہ کی طرف آیا۔
"انیہ ! مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ پلیز ناراض ہوکر مت جاؤ"۔ زیادہ روشنی نا
ہونے کے باعث رعیم کے چہرے کے تاثرات واضح نا تھے۔
انیہ دوبارہ مڑی۔ ہاں وہ بہت بدل گئی تھی لیکن اسکا دل رعیم کو کھری کھری
سنانے کو چاہ رہا تھا۔
رعیم اسے پلٹتا دیکھ کر فوراً آگے بڑھا اور اسکا ہاتھ پکڑتا ہوا لے آیا اور
کرسی پر بیٹھا دیا۔ غصہ تو اسے بہت آرہا تھا لیکن آج موقع ملا ہے تو کیوں
نا حساب برابر کر لیا جائے۔
"میں جانتا ہوں انیہ تم مجھ سے ناراض ہو ، مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔
تمہارا دل چاہ رہا ہوگا مجھے قتل کردو۔" وہ بول رہا تھا۔ اور انیہ اس کے
درد بھرے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
" انیہ یقین کرو۔ میں اکیلا ہوگیا تھا ۔ پھر میرا دماغ گھومنے لگا۔ میرا
کسی سے ملنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں بس اکیلے رہنا چاہتا تھا اور خاموشی
سی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ اس وقت ایسا نا کرتا تو آج میں زندہ
نہیں ہوتا۔" رعیم تیز تیز سب کچھ کہہ رہا تھا ک کہیں منظر بدل نا جائے اور
وہ کچھ کہہ نا سکے۔
انیہ جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی ضبط کر رہی تھی بھڑک اٹھی۔
" تو؟ میں جانتی ہو جو کیا سہی کیا لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ دوستوں سے
قطع تعلق ہوجاؤ۔ بھول ہی جاؤ کہ اس دنیا میں کوئی ہے۔ ۔ ہر روز نہیں ، ہر
ہفتے نہیں ، مہینوں بعد ہی سہی ، ملتے نا سہی بات ہی کر لیتے ، دیکھ تو
لیتے کوئی ہے جو تم سے بات کرنا چاہتا ہے ، ملنا چاہتا ہے ، یاد کرتا ہے۔۔۔
لیکن نہیں رعیم فاروقی نہیں۔ ۔" انیہ کی آواز اونچی ہوگئی تھی ۔ رعیم خاموش
بیٹھا اسے دیکھ اور سن رہا تھا۔ آج نکل جائے ساری بھڑاس۔ دور ہوجوئے سارے
شکوے۔
"رعیم فاروقی کو کیا فکر۔ بس اسے تو خود سے مطلب ہے۔ باقی جیے مرے کیا فرق
پڑتا ہے۔" اور پھر آنسو ہر چیز پر غالب آگئے۔ انیہ منہ ہاتھوں میں چھپائے
رو پڑی۔
بالکل ایسے ہی وہ رعیم کے جانے پر روئی تھی۔ لیکن کسی کو کیا پتا۔
وہ لب بھینجے کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر بولا
" انیہ بس پلیز۔ میں معافی مانگتا ہوں ۔ آئی ایم سو سوری۔ مجھے بہت افسوس
ہے کہ میں نے غلط کیا۔ اتنی پیاری اور اچھی سی دوست کا دل دکھایا۔دیکھو
ہاتھ پکڑ کر معافی مانگ رہا ہوں"۔ رعیم ہاتھ جوڑے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل
بیٹھ گیا۔ انیہ انہیں جھٹکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ رعیم بھی ساتھ ہی کھڑا
ہوا۔
" میں معاف نہیں کروںگی" وہ اسی طرع غصے سے بولی لیکن آواز پہلے سے قدرے
نرم تھی۔
" انیہ پلیز۔ میں واقعی دل سے معافی مانگ رہا ہوں ۔ مجھے انیہ جیسی دوست کی
ضرورت ہے۔ اب بہت ہوگیا " ۔ اور ہھر کافی دیر ے بعد آخرکار انیہ مان گئی۔
لان ہنسی اور مسکراہٹوں سے چہک اٹھا تھا۔ دنیا جہان کی باتیں کرتے ایک
گھنٹہ کیسے گزرا پتا ہی نا چلا۔
" واہ ! واہ!" وہ جانے کون سے بات پر ہنس رہے تھے جب کی تالی اور واہ پر
چونک کر مڑے۔
" او خدایا! مجھے تو شکرانے کے نفل پڑنے چاہئے یہ منظر دیکھ کر ۔ مجھے تو
"معزز صارفین" کا میسج آیا تو آنکھ کھلی۔ دیکھا تم نہیں ہو تو ڈھونڈنے نکل
پڑا " وہ شکر کرتا ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
" ہم نے موقع دے دیا تمہیں نیک بننے کا" رعیم شوخ لہجے میں کہتا ہوا
مسکرانے لگا۔
ہر ستم سہہ لیا چپ چاپ سے
نہ اس نے شکوہ کیا نہ ہم گلہ کر پائے
(خدیجہ شاہد)
احمد کے اداکاری بھرے شعر نے ماحول کو مزید رونق بخشی۔ انیہ بے ساختہ ہنسی
"لیکن میں نے تو کیا ہے ۔"انیہ معصوم بن کر بولی۔
"ستیاناس ہو تمہارا منی۔۔۔شعر کا مزا کرکرا کر دیا" احمد منہ بسور کر بولا
تو وہ ہنس دیے۔
فجر تک بیٹھے وہ باتیں کرتے رہے۔ نیند تو ویسے بھی اڑ چکی تھی۔ اور جب مل
بیٹھے تین دیوانے ، پرانے دوست تو وقت کیا چیز ہے جو روکے انہیں۔
ولیمے کی تقریب بھی اللہ کے کرم سے اچھی طرح ختم ہو چکی تھی۔ تقریب میں جو
کپڑے انہوں نے پہنے تھے انہیں کپڑوں میں ملبوس وہ بیٹھے گپے لگا رہے تھے۔
دلہن کے بعد لگنی والی سب سے حسین لڑکی انیہ تھی۔ جو فیروزی رنگ کی فراک کے
ساتھ لمبے سیدھے بالوں کے ساتھ پیاری اور ڈیسنٹ لگ رہی تھی۔
احمد اور رعیم نے ایک جیسا گرے اور وائٹ کڑھائی والا کرتا پہن رکھا تھا۔
آپی کے آنے کی خوشی اتنی تھی کہ ان دونوں نے اپنے جانے کا باقعدہ علان نہیں
کیا تھا۔ یہ سوچ کر کہ ماحول اداس ہوجائے گا۔ سو وہ اس بات کو بتانے کا
ارادہ کل تک ملتوی کر گئے۔ آج کی رات بھی اکھٹے بیٹھے باتوں میں کٹ گئی۔
فرق یہ تھا کہ آج کوئی شکوہ کوئی شکایت نہیں تھی۔ اور اینی بھی ساتھ بیٹھی
شغل لگا رہی تھی۔
اگلے دن اینی واپس سسرال چلی گئی تو سب اداس ہوگئے۔ انیہ اور اس کی فیملی
بھی آج لوٹنے والی تھی۔ احمد اور رعیم نے اس شام دھماکہ کر دیا۔ گھر والے
تو جانتے تھے کہ انہیں جانا ہے لیکن انیہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی۔
" ابھی دو دن نہیں ہوئے ملے ہوئے اور جا رہے ہو تم دونوں؟" ۔ وہ روہانسی
ہوئی۔
" انیہ ! اب ہمیں جانا تو ہے ہی۔ یہاں بیٹھ کر مکھیاں تو مارے گے نہی؟۔
احمد پہلے ہی والدین کی اداس شکل دیکھ انہیں چیر اپ کرکے تھک گیا تھا اوپر
سے انیہ۔
" خبردار اگر تم نے بری سی شکل بنائی تو۔ ہم جب واپس آئے گے تو مل لینگے
نا۔ اس ٹوپک پر اب ایک لفظ بھی نہیں بولے گا کوئی۔ " رعیم نے دو ٹوک لہجے
میں کہا تو وہ خاموش ہوگئی۔
اب ان دونوں کو نکلنا تھا اپنی منزل کی اور۔۔۔ اس راستے پر جہاں جانا ان کا
خواب تھا۔۔۔۔
یہ زمین جہاں لوگ اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھے گے۔۔۔۔
جدوجہد ہی وہ چیز ہے جو وہاں پہنچائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی ٹرینگ۔۔ جس کے لیے انہیں آج نکلنا تھا۔ اب انہیں زیادہ محنت کرنی ہے۔
اب انہیں ذمہ داری کندھوں پر اٹھانی ہے۔
ذمہ داری لوگوں کی حفاظت کی۔
ذمہ داری اپنا فرض نبھانے کی۔
ذمہ داری فرض سے پیار کرنے کی۔
پیار کرکے دل سے اسے نبھانے کی۔
فرض کو ہر چیز پر ترجیع دینے کی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔پولیس فورس۔۔۔۔۔
کچھ سال ٹرینگ محنت اور لگن کے ساتھ۔۔ اور پھرانکی منزل ان کے سامنے۔۔۔
اپنے فرض کے ساتھ خیانت کرنا دوسرے پر بھی بھاری پڑ سکتا ہے۔
"ماما اداس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خوش رہنا اپنا خیال رکھنا ۔ اتنے
پیارے بیٹے کی ماما ہیں آپ ۔ اداس اچھی نہیں لگتیں"۔ احمد ان کو اپنے ساتھ
لگائے اپنے مخصوص انداز میں پیار کر رہا تھا۔
"اچھا اچھا ! نہیں ہو رہی میں اداس۔ مجھے اپنے دونوں بچوں پر فخر ہے۔ اپنا
خیال رکھنا ۔ اور جس کام کے لیے جا رہے ہو اسے دل سے کرنا۔ " رعیم اور احمد
کو پیار کرتے ہوئے انکی آنکھیں بھر آئی۔
"اور کوئی اوٹ پٹانگ حرکت مت کرنا" وہ احمد کا کان پکڑتے ہوئے بولیں تو
اداس ہونے کے باوجود ان تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہ نا جانے
اور کیا نصیحتیں کر رہی تھی جسے سن کر احمد ہنس رہا تھا اور رعیم ہنسی قابو
کر رہا تھا۔
وہ انکی باتیں سنتے سنتے باہر نکل آئے ۔ گاڑی انکی منتظر تھی۔
" اپنا نام روشن کرنا۔ اور خوب ترقی کرنا۔ اور اچھا انسان بن کر ملک کو
سنوارنا" دونوں کو پیار کرتے ہوئے انکے آنسو نکل آئے۔ ایک آنکھ کے آنسو
احمد نے جبکہ دوسری کی رعیم نے صاف کیے۔ اور دونوں ان سے لپٹ گئے۔ اتنی
دعائیں لے کر جا رہے تھے وہ کیسے ناکام ہوتے۔ رعیم احمد کے والد سے ملنے
چلا گیا اور احمد انیہ کی طرف آیا جو اب بھی غصہ تھی لیکن ان کے لیے خوش
تھی۔
"منی! " انیہ بے آختیار ہنس دی۔
" اچھے سے اپنی پڑھائی کرنا۔ اور خیال رکھنا۔ ہم پھر کبھی ملے گے
انشاءاللہ۔ او گاش ! شکر ہے اب میں سکون سے کھیر کھا سکوں گا" احمد آخر میں
شوخ ہو کر بولا تو انیہ بھی موڈ میں آئی۔
" وہاں کونسا تمہیں ملے گی کھیر۔ وہ بھی اتنی لذیذ۔"
" کاش وہاں پر بھی میں ایک عدد 'غنڈا' لے جا سکتا تاکہ کم از کم لوگوں کو
ڈرا تو سکتا" ۔ وہی احمد کا ایکٹنگ بھرا انداز۔ اس نے انیہ کو غنڈا کہہ کر
مخاطب کیا تھا جس پر وہ چڑنے کی بجائے ہنس دی۔
" منی جیسی دوست تو کسی کو نہیں مل سکتی دنیا میں۔ "
"زیادہ سر پر نا چڑھو اب۔ نام روشن کرنا میرا جا کر"۔ وہ سر اٹھا کر بولی۔
" ٹھیک ہے تمہارا نام لکھ کر لائٹ جلا دوں گا ۔ ہوگیا نام روشن" احمد مسکرا
کر بولا۔
" کاش میں نے اس ٹائم 'ہیل' پہنی ہوتی" وہ افسردگی سے گویا ہوئی۔
"مگر کاش کبھی پورا نہیں ہوتا منی" وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
اس کے کچھ بولنے سے پہلے وہ دوبارہ بول اٹھا۔
" مجھے ابھی پاپا سے بھی ملنا ہے اور میری اماں جان نہیں چھوڑ رہی۔" دونوں
ہنس دیے۔" اور تم اپنا خیال رکھنا ۔ میں تمہارے ہیرو کا خیال رکھوں گا" وہ
معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
انیہ فوراً بات سمجھ کر جھینپی۔
" احمد ایسا کچھ نہیں ہے" انیہ بہت آہستہ آواز میں بولی۔
" مذاق کر رہا ہوں۔ میں ذرا پاپا سے مل آؤں" وہ ہنستا ہوا مڑ گیا تو انیہ
رعیم کو اپنی طرف آتا دیکھ سنبھل کر کھڑی ہوگئی۔
"اوکے انیہ۔ اچھی سی زندگی گزارنا ۔ ہم پتا نہیں دوبارہ کب ملیں ۔ لیکن ملے
گے ضرور انشاءاللہ" ۔ رعیم اپنا شولڈر بیگ پہنتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
"انشاءاللہ" اس کے علاوہ اس کے منہ سے کچھ نکل نا سکا۔ وہ سر جھکائے خود کو
رو دینے سے روک رہی تھی۔ رعیم اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر بولا۔
" انیہ کبھی بی اپنوں کی محبت میں اتنا مت کھونا کہ نکل نا پاؤ" انیہ نے
چونک کر سر اٹھایا۔
" میری ایک بات ماننا پلیز۔ میں جانتا ہوں تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی
ہو۔ لیکن لوگوں کا ایک دوسرا روپ بھی ہوتا ہے، اپنے بھائی کے پیار میں
اندھی مت ہوجانا۔والدین کے ساتھ رہنا۔ بھائی پر ڈیپنڈ مت ہونا"
انیہ نا سمجھی سے اسے دیکھے گئی۔
رعیم اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ اسکا بھائی کیا کچھ کرتا ہے۔ وہ بس چاہتا
تھا کہ اسکی دوست محفوظ رہے۔
"اپنا خیال رکھنا۔ اور خبردار اگر روئی تو" رعیم اسکی رونی صورت دیکھ کر
بولا۔
" ایسے وداع کرو گی دوست کو۔ چلو سمائل کرو"
انیہ بھیگی پلکوں سے مسکرا دی۔ رعیم نے ابھی بھائی کے بارے میں کیا کہا تھا
وہ بھول بھی چکی تھی۔
"اللہ حافظ" رعیم بھی مسکرا دیا اور اسے ایک نظر دیکھ کر گاڑی کی طرف بڑھا۔
"فی امان اہللہ" ایک آنسو پلکوں سی بچ نکل کر رخساروں پر بہہ گیا۔ " پھر
کبھی ملیں گے" یہ پھر کب کب آئے گا) ۔
اور پھر وہ چلے گئے۔
※※※
"یہ ساری کہانی سچ ہے یا جھوٹ؟" علی سلاخوں کے اس پار کھڑی لڑکی سے پوچھ
رہا تھا۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں ۔پلیز میرا یقین کیجیے۔ میں نے واقعی یہ سب جان بوجھ
کر نہیں کیا۔ مجھے کچھ اور کہا گیا تھا اور کر وایا کچھ اور گیا ہے۔ میں بے
قصور ہوں پلیز مجھے جانے دیجیے۔۔۔پلیز۔۔۔" وہ روتے ہوئی کہہ رہی تھی۔
وہ ہاتھ جوڑے آنکھیں بند کیے بکھرتے ہوئے نیچے بیٹھ گئی۔
رعیم فاروقی جو ابھی جیل کا راؤنڈ لینے آیا تھا یہ منظر دیکھ کر واپس مڑ
گیا۔
※※※
اپنے کمرے کی بستر پر لیٹے وہ اسی کو سوچ رہا تھا۔ اتنی سیر سے وہ کمرے میں
ٹہل ٹہل کر اسے ہی سوچ رہا تھا۔
آخر کیوں کیا تم نے ایسا۔ وہ اسے برا بھلا کہہ رہا تھا۔
انیہ نیازی میں نے بتایا تھا کہ بھائی پر اتنا بھروسا مت کرنا۔۔تم وہی کیسے
ہو سکتی ہو جس کو میں وارن کرکے آیا تھا اتنے سال پہلے۔۔۔۔۔ اتنے سال
پہلے۔۔۔۔۔
وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔
"اتنے سال پہلی کی بات اسے کیسے یاد ہو سکتی ہے۔ ۔ میں نے پوری بات جانے
بغیر اسے برا بھلا کہنا شروع کردیا۔۔ تف ہے تم پر رعیم فاروقی۔ یہ سکھایا
تھا ماما نے کہ کچھ بھی جانے بغیر کچھ بھی کہہ دو"
"وہ اس شہر میں آئی کیسے؟ " بہت سے سوالات اس کے ذہن میں آرئے تھے۔
"مجھے اس معاملے کی تحقیق خود کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے انیہ بے قصور ہوگی"
اب اسے کل کا انتظار تھا۔ وہ پہلے علی سے ساری معلومات لے گا اور یہ کیس
خود ہینڈل کرےگا۔
وہ اس سے تب ہی ملے گا جب اس کیس کا اصلی گنہگار پکڑ لے گا۔
احمد دوسرے شہر کا اے ایس پی تھا۔ لیکن بعض معاملات میں کیس اکھٹے ہینڈل
کرنی کی ڈیوٹی انہیں دی جاتی تھی۔
※※※
"علی میرے کمرے میں آؤ جلدی" ۔ رعیم فاروقی بڑی عجلت میں کہتا آگے بڑھ گیا۔
علی فائل اٹھاتا فوراٗ پیچھے لپکا۔
"کدھر ہے وہ؟ کیا معاملہ ہے؟ الف سے ے تک ساری کہانی سناؤ" وہ کرسی پر
بیٹھتے ہوئے بولا اور علی کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
علی ساری تفصیل بتانا شروع ہوا۔
" سر اس لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ یہاں کچھ دن کے لیے رہنے
آئی تھی۔ وہ اسی کے گھر میں رہ رہی تھی۔ یہاں آئے اسے کچھ ہفتے ہوئے ہیں ۔
بھائی کے کہنے پر ہی اس نے ننھی بن کر اس گھر میں نوکری کی۔"
رعیم بھرپور سنجیدگی سے متوجہ ہوکر اسے سن رہا تھا۔
"بقول اسکے وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی ہے جس کی خاطر اس نے اپنے بھائی
کی بات مان لی۔ ۔
وہ کہہ رہی تھی کہ اس کے بھائی نے کہا تھا کہ اس گھر کا مرد سلمان کا دوست
تھااور اس کا دوست مر چکا تھا لیکن کچھ کام کچھ امانت اس کے پاس پڑی تھی جو
اسے لوٹانی تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اس گھر کی چھان بین اور ہر چیز
معلوم کی جائے۔ تب ہی وہ انہیں وہ امانت دے گا۔ "
رعیم نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔ "امانت؟"
"جی سر! لیکن آگے کی کہانی کھ اور ہی بتا رہی ہے۔ ۔۔ جس دن یہ چوری والا
واقع پیش آیا اس دن ہی شام کو وہ ننھی کو چھوڑ گیے تھے۔ اور اس عورت کا
بیٹا اس وقت گھر میں تھا۔
ہم نے اس لڑکی سے جتنے معلومات معلومات حاصل کی ہیں اس کے مطابق اس کے
بھائی کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے جو اس گھر کی معلومات پوچھتے تھے۔ اور سب
سے اچھی خبر ن کے ٹھکانے کا احمد سر پتا لگا چکے ہیں اور وہ وہی گیے ہیں۔"
رعیم کچھ سوچ رہا تھا۔
" اس عورت اور اس کے بیٹے کو یہاں بلواؤ"
"لیکن سر تمام لوگ جو اس واردات میں شامل تھے تقریباً ہمارے ہاتھ میں ہیں"
علی نا سمجھی سے بولا۔
" لیکن کوئی بے قصور بھی ہے" رعیم فاروقی پر یقین لہجے میں بولا۔
"اوکے سر" ۔
※※※
"تھانے دار صاحب میں ویسے بھی آپکے پاس آنے والی تھی۔ " اس کے آفس میں
بیٹھتے ہوئے وہ عورت بولی۔
" کیوں؟آپکا سارا زیور اور پیسہ احمد خود لوٹا کر آیا ہے" ۔
سلمان نیازی اور اسکا گینگ پکڑا گیا ہے۔ کیسے یہ رعیم فاروقی کو جاننے میں
کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ احمد۔ نے پرانی باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ
اخذ کیا کہ سلمان کبھی کبار گھر آتا تھا ۔ وہ بھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے تو
کبھی زیادہ دیر کے لیے۔ احمد نے سیدھا ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ خوش قسمتی
سے اس بار پورا گینگ وہی سے پکڑا گیا۔ سلمان کے والدین کو بھی احمد نے ہی
سچ بتا کر سنبھالا۔
انہیں تو انکی سزا ملنی ہی تھی لیکن انیہ بے قصور تھی رعیم اور احمد کو
پورا یقین تھا۔مسئلہ یہ تھا کے بے قصوروار ثابت ہوئے بغیر وہ جیل سے باہر
نہیں نکل سکتی تھی۔
"نہیں نہیں ! میرے بیٹے کو کچھ بتانا ہے"
"کیا؟"
"بھائی وہ اصل میں باجی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ انہوں نے تو میری جان بچائی
ہے"
"جان بچائی ہے؟" رعین نے چونک کر اسے دیکھا۔
" جی اگر وہ صحیح وقت پر نا آتی تو وہ چور مجھے مار چکے ہوتے۔" وہ افسردہ
ہوکر بولا۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے" احمد پتا نہیں کب اندر داخل ہوا۔
رعیم نا سمجھی سے احمد کو دیکھ رہا تھا جو اسلم کو آواز دے رہا تھا۔
"جی سر؟"
"ان کا بیان لو۔ " احمد اب ان عورت سے مخاطب ہوا " محترمہ آپ باہر جاکر
انکو بیان لکھوائے" وہ اٹھ کر باہر نکل گئی۔
کمرے میں صرف وہ دونوں رہ گئے تھے۔
" احمد! تم منہ سے کچھ پھوٹو گے؟" رعیم مضطرب ہو رہا تھا۔
"سکون کا سانس لو۔ بیٹھو اور چپ کرکے سنو اب۔ پورا کیس میں نے ہینڈل کیا ہے
اور بے چین تم ہو رہے ہو ۔ میں ملا تھا انیہ سے۔ ایک ایک لفظ بتایا ہے اس
نے مجھے۔" تھوڑا شوخ ہونے کے بعد وہ دوبارہ سنجیدہ ہوا۔۔
※※※※
بھائی میرے ساتھ ویسے ہی تھے جیسے وہ ہمیشہ سے رہے تھے۔ اب میں کوئی کوشش
بھی نہیں کرتی تھی انہیں منانے کی۔ کیا فائدہ جو اتنے سالوں میں نہیں ہوا
وہ اب کیسے ہوتا۔
ہاں البتہ میں سب کچھ انکی پسند کا کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ ۔ مجھے یقین
تھا ایک دن وہ ٹھیک ہو جائینگے اور وہ دن آگیا تھا۔
بھائی شام کو میرے کمرے میں آئے۔ پڑھائی میری ختم ہوچکی تھی بس یونہی چند
کورس کر رہی تھی۔
دروازہ کھٹکھٹانے پر میں اٹھی اور دروازہ کھولا۔ سامنے بھائی کو دیکھ کر
میں حیران ہوتی یا خوش یہ فیصلہ میں نا کر سکی۔
بھائی بہت اداس اور شرمندہ سے شکل لے کر میرے بستر پر بیٹھ گئے۔
"کوئی کام ہے بھائی؟" میں نے بہت ہمت کرکے یہ سوال پوچھا۔ یہ نا ہو کہ آگے
سے کہہ دے دفع ہوجاؤ۔۔۔
میں ان کے سامنے کھڑی تھی اور وہ بستر پر بیٹھے زمیں کو تک رہے تھے۔
" کچھ چاہئے بھائی؟"
وہ خاموش رہے تو مجھے لگا یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے۔
لیکن اگلے ہی لمحے جب وہ ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل میرے سامنے بیٹھے تو میں
ساکت رہ گئی۔۔
"بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ اٹھے"
"انیہ مجھے معاف کردو۔ میں بہت برا ہوں۔ تمہارے ساتھ ہمیشہ برا کیا۔ مجھے
معاف کردو، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ میں کس منہ سے معافی مانگوں"۔ او گاڈ
بھائی کیا کہہ رہے تھے مجھے یقین نہیں آیا۔
انکی آنکھوں میں شرمندگی تھی اور میری آنکھوں میں آنسوں۔
" بھائی آپ معافی نا مانگے مجھے صرف آپ کا پیار چاہئے۔ آپ اٹھے پلیز" میں
ان ہی کے انداز میں انکے ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔
بھائی نے اٹھ کر مجھے گلے لگایا اور پیار سے میرے آنکھیں صاف کی۔۔ پھر
انہوں نے کہا میں کچھ دنوں کے لیے ان کے ساتھ چلی جاؤں ہم خوب گھومیں گے۔
میں تو فورا مان گئی اور ماما بابا بھی۔
لیکن یہاں آکر بھائی نے مجھ سے التجا کی۔ میں کیسے منع کرتی انہیں؟ جن کے
پیار کے لیے میں روئی آج وہ خو کہہ رہے تھے " انیہ یہ کام صرف میری پیاری
بہن کر سکتی ہے تم کروگی نا؟" ان کے جڑے ہوئے ہاتھ اور امید کو میں کیوں
ٹھکراتی۔ میں مان گئی۔
لیکن جب روز شام کو بھائی کے دوست مجھ سے سوال جواب کرتے تو عجیب سا لگتا
لیکن بھائی کا ساتھ میرے لیے کافی تھا۔
اس بچے کو پڑھانا کام کرنا ، میں صرف بھائی کے لیے کر رہی تھی۔ میں نے
انہیں غلط بتایا کہ میں دوست کے گھر رہتی ہوں لیکن میں نے بھائی کے منع
کرنے کے باوجود گھر کا پتہ صحیح بتایا۔
دو ہفتوں بعد بھائی نے کہا آج تمہارا آخری دن ہے بس پھر تم واپس چلی جاؤگی
۔ ہمارا کام ہوجائےگا باقی۔اس نے مجھے محسوس ہوا بھائی کا رویہ بدل گیا ہے۔
جب میں بزار کے بیچ میں سے لوٹ کر آئی تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ
بھائی کا سامان بھی غائب تھا۔ صرف میرا بیگ موجود تھا۔ میں نے پرس کھنگال
کر فون ڈھونڈنا چاہا جو اسی گھر میں رہ گیا تھا۔ وہاں دوبارہ جانے سے بھائی
نے منع کیا تھا لیکن بھائی کو فون کرنے کے لیے میں گئی۔
اندر داخل ہوتے ہی جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا اسے جان کر مجھے دکھ ہوا۔
میرا بھائی دھوکے باز اور فریبی ہے۔ اسے لمحے میرے دل میں بھائی کے لیے
محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔
وہ بچے کو رسیوں سے باندھ رہے تھے اور ان کے باقی ساتھی سامان کی "صفائی"
کر رہے تھے۔
اس وقت کام جوش کی بجائے ہوش سے لینا تھا۔
انیہ واپس مڑی اور گیٹ کی بیل پر ہاتھ رکھ دیا اور دروازہ زور زور سے بجانے
لگی۔ دو چار پتھر اٹھا کر زور سے کھڑکی پر مارے جو لاونج میں کھلتی تھی۔
اور فورا وہاں سے غائب ہوئی۔ چند منٹوں بعد وہ تینوں جس سپیڈ سے نکلے تھے
اس سے تیز سپیڈ سے گاڑی میں سامان رکھا اور دوڑا لے گیے۔
انیہ ان کو جاتا دیکھ فورا اندر آئی اور اسے رسیوں سے کھولا۔ اس کے چہرے پر
تھپڑ کے نشان دیکھ کر انیہ۔ پریشان سی ہو کر گھر سے باہر نکل آئی۔ اسے وہاں
نہیں رکنا چاہئے تھا۔ اس کے بھائی نے جو کیا اس کا خامیاذہ میں کیوں ادا
کروں۔
میں واپس بھائی کے گھر ہی آگئی۔ جاتی کہاں ۔ واپس جانے کےلیے جتنے پیسے
چاہیے تھے وہ میرے پاس نہیں۔ بہت تھوڑے پیسوں میں واپس جانا نا ممکن تھا۔ ۔
میں وہیں رکی رہی۔ پریشانی اور دکھ سے میرا عجیب سا حال تھا۔ رو رو کر آنسو
ختم ہوچکے تھے۔
بھائی کے رویے میں پل پل تبدیلی نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اب عجیب سی
نفرت ہوگئی تھی مجھے۔ امی ابو کو کیا کہتی ان کو تو یہی معلوم ہے کہ میں
بھائی کو ساتھ گھومنے آئی ہوں۔
اگلے صبح میرے لیے کیا طوفان لائے گی میں یہ جانے بغیرسونے کی کشش کرنے
لگی۔
دروازہ زور زور سے پیٹے جانے کی آواز پر میری آنکھ کھلی۔ " یا اللہ خیر"
سامنے پولیس آفیسرز کڑے تیور لیے جیسے میرے ہی منتظر تھے۔ انہوں نے آؤ
دیکھا نا تاؤ مجھے پکڑکر پولیس موبائل میں بٹھا دیا۔ "چھوڑیں مجھے میں نے
کچھ نہیں کیا۔ پلیز چھوڑیں۔ یا اللہ" دو چار آنسو بے اختیار لڑھک کر گرے۔
"بی بی ! آرام سے بیٹھو ۔ جو کہنا ہے تھانے جا کر کہنا۔ دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی ہوجائے گا" ۔
※※※
"میں سچ کہہ رہی ہوں ۔پلیز میرا یقین کیجیے۔ میں نے واقعی یہ سب جان بوجھ
کر نہیں کیا۔ مجھے کچھ اور کہا گیا تھا اور کر وایا کچھ اور گیا ہے۔ میں بے
قصور ہوں پلیز مجھے جانے دیجیے۔۔۔پلیز۔۔۔" انیہ روتے ہوئے سامنے کھڑے آفیسر
سے کہہ رہی تھی۔
"دیکھیے بی بی! بعد میں رو لیجیے گا پہلے سب سچ سچ بتائے" ۔ آفیسر بیزار سا
بولا۔جیسے تنگ آگیا ہو۔
سلاخوں کے اس پار روتی بلکتی انیہ بے جان سی ہوکر نیچے بیٹھ گئی۔ آفیسر
کچھپوچھ رہا تھا ۔ اسنے دھندلی آنکھوں سے سامنے دیکھا۔ اگلے ہی لمحے اسے
پیچھے کی طرف وہ نظر آیا۔
وہ جا رہا تھا۔ انیہ کی جانب پشت کیے۔ وہ دم بخود بیٹھی اسے جاتا دیکھ رہی
تھی۔
اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔
" میری ایک بات ماننا پلیز۔میں جانتا ہوں تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی
ہو۔ لیکن لوگوں کا ایک دوسرا روپ بھی ہوتا ہے، اپنے بھائی کے پیار میں
اندھی مت ہوجانا۔والدین کے ساتھ رہنا۔ بھائی پر ڈیپنڈ مت ہونا"
انیہ کا دل چاہا دھاڑے مار مار کر روئے۔ وہ اسے ہنٹ دے کر گیا تھا اور ایک
وہ تھی جو بھول گئی۔
اس شخص کے سامنے وہ یہاں جیل میں اس جرم میں آئی تھی جو اسنے کیا ہی نہیں۔
وہ کیا سوچتا ہوگا۔ انیہ یہ کیا کیا تم نے۔ وہ خود ملامت کرتی رو رہی تھی۔
اس کا دل چاہا ابھی چینخے اور رعیم کو چینخ چینخ کر سب بتائے۔۔۔وہ بے قصور
ہے۔ رعیم مجھے یہاں سے نکالو۔ ۔۔میں نے اسے دکھ پہنچایا ہے۔ معاف کردو
مجھے۔ رعیم آئی ایم سوری۔۔
※※※
"ماما بھائی کا ذکر مت کریں میرے ساتھ۔ آپ لوگ رونا چاہتے ہیں تو پلیز میری
بات سنیں۔ رونے سے آپ کے بیٹے کی کرتوت نیں بدل جائے گی۔ " اس کا لہجہ خود
بخود تلخ ہوگیا۔
" اس گھر میں سلمان نیازی کا نام اب کوئی نہیں لے گا" نیازی صاحب بھی دھاڑے
تھے۔
اور دوچار آنسو بہا کر اس کی ماما بھی خاموش ہوگئی تھی۔
وہ غصے اور بے سکونی کے عالم میں اپنے کمرے میں آگئی۔ وہاں سے احمد سیدھا
اسے گھر ڈراپ کرکے گیا تھا۔
" احم مجھے رعیم سے ملنا ہے" انیہ روہانسی ہوئی۔
" ابھی نہیں۔ میں خود ملوا دوں گا۔ صبر سے کام لو اور آرام کرو گھر جا کر۔"
احمد نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ وہ خاموشی سے گھر کے اندر آگئی۔
※※※
ستاروں سے آگےجہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
قناعت نا کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں او بھی ہیں
رعیم جو آرام سے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا احمد کے شعر پر چونک کر مڑا۔
وہ سامنے کھڑا شوخ سا مسکرا رہا تھا۔
"ڈرامے باز" رعیم بڑبڑایا۔
"منہ سے بھی کچھ پھوٹ دیا کرو۔ من ہی من تعریفیں نا کیا کرو" ۔ احمد شوخا
ہوتا کرسی سنبھال کر بیٹھا۔
"ایسا گناہ میں کیوں کرو۔ فرماؤ میری یاد کیوں آئی" رعیم اسے تپانے کا سوچ
رہا تھا لیکن احمد تپنے والی چیز نہیں تھی۔
احمد کچھ ایکسائٹڈ ہوتا اس کے پاس آکھڑا ہوا۔
"وہ۔۔۔تمہارا یار شادی کر رہا ہے" احمد ڈرامائی انداز میں شرمایا۔
"کیا؟" رعیم خوشگوار حیرت سے چینخا۔
احمد نے اژبات میں سر ہلایا۔
"میسنے، چلاک ، مکار ، اکیلے ہی یہ طے کر لیا اور مجھے بتانے کی زحمت نہیں
کی" رعیم نے ایک مکا اسکے شانے میں رسید کیا۔
" سب سے پہلے تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بڑے آئے ۔کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے تم
ماں ہو اور میں بتائے بغیر بہو لے آیا ہوں تماری" اس نے منہ بسور کر کہا تو
رعیم نے مزید ایک مکا مارا۔ اگلے ہی لمحے اسے گلے لگایا۔
"مبارک باد شادی والے دن دوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ بہو کون ہے میری؟ میرا مطلب
بھابھی؟" رعیم شریر سا مسکرایا۔
" تم جانتے ہو اسے۔ تمہیں ملوایا تھا اس سے اینی آپی کی شادی پر" وہ آرام
سے بولا لیکن رعیم چونک گیا۔
وہ اپنی سوچ میں چند لمحوں کے لیے گم ہوگیا۔ شادی والے دن تو اس سے ۔۔۔۔۔اس
سے۔۔۔ انیہ ملی تھی۔ لیکن انیہ کو تو وہ بہن مانتا ہے۔ اور انیہ کے بارے
میں میں۔۔۔۔۔
احمد کیسے۔۔۔
"لا حولا ولا قوہ" احمد کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا؟" رعیم سوچوں کے چنغل سے نکلا۔
" اللہ توبہ! میں سمجھ گیا جو تم سوچ رہے ہو۔ چِلٓو بھر پانی مں ڈوب مرو ۔
تف ہے تم پر رعیم فاروقی" وہ کاٹ دار لہجے میں رعیم کو کھا ہی جانے والا
تھا۔
" ہیں ہیں؟ اب تم آدھی بات بولو گے تو میں کیا سمجھوں؟" رعیم نے سمبھل کر
توپوں کا رخ احمد کی طرف کردیا۔
احمد منہ بسور کر اسے گھورتا رہا پھر جیسے بات ختم کرنے کو بولا۔
"علشبا" اور یہ نام لیتے ہوئے اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔
"واٹ؟" رعیم خوشی کے مارے چینخ پڑا۔ اطمینان کی ایک لہر اسے چھو گئی تھی۔
رعیم کو تھوڑا بہت اندازا ہوا تھا انکی بے تکلفی سے لیکن اس نے کبھی پوچھا
نہیں۔
"زبردست۔۔۔۔ اب آگے فرماؤ گے کچھ؟"
"آگے کیا فرماؤں ؟ شادی ہم دونوں ساتھ کرینگے۔۔۔ " احمد کرسی سنبھالتے ہوئے
بولا۔
" ہاں ظاہر سی بات ہے لڑکا لڑکا کہ شادی ساتھ ہی ہوتی ہے" رعیم اسکی بے
وقوفی پر اطمینان سے بولا۔
"اللہ توبہ؟ رعیم فاروقی۔۔۔ عقل کیا گھاس چرنے گئی ہے تمہاری؟ میں یہ بک
رہا ہوں کے شادی ہم دونوں ساتھ کرینگے۔ تمہاری شادی بھی میرے ساتھ ہی ہوگی"
وہ ایک ایک لفظ آرام سے کہہ رہا تھا لیکن۔۔۔
"ہائے میں تم سے شادی کیوں کروں؟ " وہ صدمے سے بولا۔ اف احمد اداکار کو تنگ
کرنے کا بھی الگ مزا ہے۔
"یار بکواس بند کرو۔ میں سیریس ہوں۔ میں نے لڑکی دیکھ لی ہے تمہارے لیے
بھی۔ علشبا کی فرینڈ۔ بہت حسین ہے ۔ خوب جمے گی تم دونوں کی۔" وہ اطمینان
سے کہتا رعیم کو آگ لگا گیا تھا۔
"کیا؟ میں کیوں شادی کرو کیسی سے ۔۔ میں اپنی مرضی سے کروں گا۔۔" وہ غصے سے
بولا۔
" اب تم پتا نہیں کب پسند کروگے تب تک تو میں بوڑھا ہوجاؤں گا۔ اسے کیے میں
نے امی کو بھی بھیج دیا ان کے گھر رشتہ پکا کرنے کے لیے" احمد اسی اطمینان
سے بولا۔
" واٹ؟ کیوں کی تم نے یہ حرکت۔۔۔ میں تمہارا قتل کردوں گا۔ میں نے کب کہا
کہ لڑکی دیکھو۔ اور تم تو رشتہ پکا کر آئے۔ ڈیم اٹ" وہ غصے سے آگ بگولا ہو
رہا تھا۔
"لیکن تم نے پسند نہیں کی کوئی لڑکی تو میں نے سوچا۔۔۔" وہ معصوم سا بنا
کچھ کہہ رہا تھا لیکن رعیم بات کاٹ کر بولا۔
" کیا سوچ لیا؟ خود سے ہی شوشا چھوڑ دیا۔ کر چکا ہوں میں پسند۔۔ ختم کرواؤ
یہ معاملہ جلد سے جلد۔۔آئی سمجھ؟" اس کے الفاظ پر احمد مسکرا دیا۔ دل چاہا
خود کا شانہ تپکائے۔ کیا ایکٹنگ کی ہے میں نے۔
"سمجھو ہوگیا ختم سب۔۔ اب بتاؤ کون ہے وہ؟" رعیم اسے ایک نظر دیکھ کر باہر
دیکھنے لگا۔
"انیہ ہے وہ؟" اس کے سوال پر وہ بے اختیار چونک کر مڑا اور اسے دیکھنے لگا
وہ مسکرا رہا تھا۔
چند ہی لمحوں میں وہ جان گیا یہ ایک ٹریپ تھا۔ اسے کچھ دیر گھور کر دیکھتا
رہا جو مسکراتے چلا جا رہا تھا۔
بالآخر رعیم مسکرایا تو احمد اچھل پڑا۔
کس تلوار پر سر رکھوں بتا دو مجھے
عشق کرنا خطا ہے تو سزا دو مجھے
رعیم اس کے شعر پر ہنس دیا۔ " ڈرامے مت کرو اب"رعیم مصنوعی سا خفا ہوا۔
" گھنے ، میسنے ۔۔۔کن خوبصورت الفاظ سے مخاطب کروں تمہیں؟ چھپے رستم۔ "
"یار مجھے خود پتا نہیں چلا کب۔۔۔۔" وہ لڑکی تو تھا نہیں کہ شرماتا ۔
" یعنی آگ دونوں طرف برابر لگی ہے" احمد شوخی سے بولا۔
" کیا مطلب؟" رعیم حیران کوا۔
" ادھر بھی کچھ یہی حال ہے۔۔۔ تو بتاؤ کب کروگے سب سیٹ؟"
رعیم کو خوشیوں نے ایک دم آگھیرا۔
" ابھی صبر کرو۔ ایک مشن ہے وہ ختم ہولے پھر کروں گا سب "سیٹ" وہ بھی احمد
کے انداز میں بولا۔
" آہا! جلدی کرو بس۔۔ تمہارے چکر میں مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ "
"صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے" وہ اطمینان سے بولا۔
" اب سناؤ ذرا اپنی پریم کہانی" وہ رعیم کو چھیڑتے ہوئے بولا۔
" احمد!" ۔ رعیم نے آگے ہوکر اسکے شانے پر مکا رسید کیا۔
※※※
پسند تو وہ مجھے دوست کی حیثیت سے پہلے ہی تھی لیکن مجھے معلوم نہیں تھا اس
دن مجھے پیار بھی ہو جائے گا۔ کتناعجیب ہوا نا میرے ساتھ۔ جس سے دور بھاگا
تھا اسی کےپاس جانے کا دل چاہا۔
یہ اینی آپی کی شادی کا دن تھا جب میرا دل بدلا۔
میں تو سمجھا تھا وہ آج بھی ویسی ہوگی ۔۔۔ چھوٹے بال،مڑے کف ، بکھرا بکھرا
حلیہ اور وہی مرچی سا انداز۔۔۔
لیکن اس دن میرے سب اندیشے سوفیصد غلط ثابت ہوگئے۔
لمبی گلابی فراک ، لمبے کمر تک لہراتی حسین زلفیں ، اور خوبصورت سا چہرہ۔۔۔
یا اللہ ! یہ وہ تو نہیں تھی جسے میں کچھ سال پہلے جانتا تھا۔
اسی لمحے مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ کیا ہوا بس میرا دل چاہا انیہ سے معافی
مانگو اور دوبارہ سے سب پہلے جیسا ہوجائے۔ کسی کو ان جانے میں دکھ دینا اور
جانتے ہوئے بھی دیکھ دینا۔۔۔ دکھ تو دکھ ہے۔۔ جیسا بھی ہو۔
جب اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تو میں اتنا مضطرب سا سونے لیٹا لیکن
نیند آنکھوں سے کوسوں سور تھی۔ اس کی نم آنکھیں اور پیارا چہرہ میرے سامنے
بار بار آرہا تھا۔
میں خاموشی سے اٹھا اور باہر لان میں ٹہلنے لگا۔ عجیب بے چینی سی تھی۔
جب ہم کسی سے دور جاتے ہیں تب خود غرض ہوجاتے ہیں اور جب کوئی ہم سے دور
جاتا ہے تو ہمارے حواس ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔
کافی دیر یونہی ادھر ادھر چلتے رہنے کے بعد میں بیٹھ گیا۔
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے میں تاریک آسمان کو تک رہا تھا۔ کیا یہی تاریکی
میری زندگی ہے؟
لیکن آسمان کی تاریکی میں ایک روشن سا چاند بھی تو ہے۔
اے خدا! میرے زندگی بھی روشن ہوگی کیا؟
میں اپنی سوچوں میں گم سا بیٹھا تھا لیکن کسی کے ہونے کے احساس سے فوراً
پلٹا اور۔۔۔۔۔دم بخود رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے میں انیہ کی طرف بڑھا۔ معافی
مانگنے کے لیے۔
اب میں سکون سے اپنی زندگی اپنے ملک کے لیے وقف کر سکتا ہوں۔ اے خدا! تیرا
صد شکر ہے۔
※※※
"آفیسرز جیسے ہم نے پلین کیا ہے سب ویسا ہی ہونا چاہئے۔ وہ لوگ بچوں کے
ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں سب کچھ دھیان سی کرنا ہوگا۔ ایک غلط قدم
اٹھایا تو ہمیں نقصان اٹھانا پڑےگا۔۔۔گاٹ اٹ؟" رعیم میز پر ہاتھ ٹکائے
سنجیدگی سے سامنے کھڑے آفیسرز سے مخاطب تھا۔
"یس سر!" سب نے با آواز کہا۔
آج انہیں خبر ملی کہ چھوٹے علاقے میں دہشتگرد بچوں کو قید کیے انہیں اپنے
جیسا بنانے مین مگن ہیں۔ اسی سلسلے میں آج انہیں جان کی بازی لگا کر اہلِ
وطن کے بچوں کو بچانا ہے۔
"یاد رہے۔ انکے پاس ہر قسم کا ہتھیار اور اسلحہ موجود ہو سکتا ہے۔ وہ کسی
بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ سب کچھ بہادری اور دھیان سے ہونا چاہئے ورنہ انہیں
بچوں کی جان لینے میں ایک منٹ نہیں لگے گا۔
I repeat ۔۔ ایک منٹ بھی نہیں لگے گا فائر کرنے میں۔ اور ہمیں ہر بچہ صحیح
سلامت واپس لانا ہے۔ چاہے اپنی جان جھونکے میں کیوں نا ڈالنی پڑی۔ " ۔ وہ
ادھر سے ادھر چلتا انہیں دیکھتے ہوئی کہہ رہا تھا۔
"سر ہم نے یہ وردی دوسروں کی حفاظت کے لیے پہنی ہے" ایک آفیسر نے کہا۔
"Good. And we should never forget it" وہ باہر نکلا تو سب اس کے پیچھے
ہولئے۔
تین گاڑیاں ایک دوسرے کے پیچھے چلتی سنسان علاقے میں رکی۔
"آگے ہمیں پیدل جانا ہوگا تاکہ شور نا ہوسکے" رعیم واکی ٹاکی پر بولا تو سب
آہستہ سے اتر گئے۔
سب آفیسرز آہستہ آہستہ قدم رکھتے رعیم کے ساتھ چل رہے تھے۔
ایک کھنڈر نماں مکان سے کچھ فاصلے پر وہ رکے۔
"?Are you ready" وہ آہستہ آواز میں پوچھ رہا تھا۔
"یس!" سب نے اسی طرح ہلکے سے بولا۔
"نعرہ تکبیر"
"اللہ اکبر" باآواز کہنے کے بعد وہ مکان کی اطراف کو گھیرے میں لینے کے لیے
آگے بڑھے۔
"گو!" تین آفیسرز نے ایک ساتھ مکان کے اندر قدم رکھا۔ اور تین دروازے کے
ساتھ ٹک گئے۔
اندر کا منظر کسی horror مووی کا سین لگ رہا تھا۔ ہر طرف اندھیرا ، نا کوئی
کھڑکی نا روشن دان۔ جالے ہر طرف جابجا لگے تھے۔
سامنے موجود جگہ گھر کا کونسا حصہ تھا یہ اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن وہاں
بھر پور خاموشی چھائی تھی۔
رعیم اور چند آفیسرز مزید آگے بڑھے۔ باقی اپنی پوزیشن سنبھالے کھڑے تھے۔
آگے کی جگہ اور بھی سنسان تھی۔ دائیں طرف ایک چھوٹا سا راستہ تھا۔ رعیم نے
پیچھے آتے آفیسرز کو اشارہ کیا تو چوکنا ہوئے۔ دو وہی کھڑے ہوگئے اور رعیم
سمیت چار آفیسرز راہداری سے ہوتے ہوئے آگے بڑھے۔
سامنے سیڑھیاں اوپر کا راستہ دکھا رہی تھی۔ وہ آہستہ سے قدم اٹھاتے پہلے
زینے پر چڑھے۔
" یہ گن ۔۔ یہ گن ہی ہمارا سب کچھ ہے۔ ہم ہر اس انسان کو ختم کر دینگے جو
ہم سے الگ ہے۔ باہر کی دنیا میں ہر کوئی ہمارا دشمن ہے۔ سمجھے؟" ایک جلات
جیسی آواز بائیں طرف سی نمودار ہوئی۔
رعیم نے فوراً پیچھے سگنل دیا تو وہ اسکے ساتھ اس طرف بڑھے اور چند آفیسر
ہر طرف سے راستے میں دیوار بنے کھڑے ہوگئے۔
اندر داخل ہوتے ہی تیزی سے سامنے آئے آدمی کی کنپٹی پر بندوق تانی۔ اس
اچانک حملے پر وہ گڑبڑاگیا۔ اس کے باقی ساتھی بھی وہیں کھڑے تھے۔ نیچھے
زمین پر بیٹھے آٹھ دس سال کے بچے اوسان خطا سے بیٹھے تھے۔
"اے! چھوڑ میرے بھائی کو ورنہ یہ بندوق دیکھ رہا ہے نا۔ ان بچوں کی کھوپڑی
میں گھسا دوں گا ساری گولیاں" عجیب و غریب میلی کچیلی شکل والا آدمی درشتی
سے بولا۔
"آفیسرز!" رعیم نے آواز لگائی۔ کوئی ایک قدم نا ہلا۔
"بس بھاگ گئے تیرے بندے۔ چھوڑ ہمیں ۔ چھوڑ ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا"
۔ سر پر میلا کپڑا باندھے یہ وہ شخص جس کی کنپٹی پر بندوق تھی۔
اس کے ساتھی بچوں کو اٹھا کر مضبوطی سے پکڑے باہر نکلنے کی سعی کر رہے تھے۔
ابھی وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھے ہی تھے کہ پولیس آفیسرز ایک کے بعد ایک آفیسر
اندر داخل اور ان عجیب و غریب سے آدمیوں کو جھپٹ کر پکڑلیا۔
رعیم نے تفاخر بھری نظروں سے انہیں دیکھا۔ گریٹ!۔
کل پانچ آفیسرز کے علاوہ باقی اندر آچکے تھے۔ جو کہ وہاں اپنی پوزیشن پر
کھڑے تھے کہ اگر کوئی بھاگا تو وہ وہاں موجود ہو۔ کچھ ان آدمیوں کو پکڑے
ہوئے تھے اور کچھ ان بچوں کو لیے نیچے اتر رہے تھے۔
پولیس موبائل کی آواز فضاؤں میں گونجی۔ یقیناً مزید پولیس فورس آگئی ہوگی۔
ایک آدمی اندھا دھن گولی چلانے لگا جو خوش قسمتی سے دیوار میں جا لگی۔
آفیسر نے فوراً آگے بڑھ کر گن کھینچی۔
اب یہ جگہ آہستہ آہستہ خالی ہورہی تھی۔
"چل نیچے آرام سے" علی ایک آدمی کو یٹھکڑی لگائے کنپٹی پر گن رکھے نیچے لے
جا رہا تھا۔
رعیم جس آدمی کو پکڑے کھڑا تھا وہ شاطر نکلا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنی ٹانگ
رعیم کی گٹنے پر ماری جس کی وجہ سے وہ ہلکا سا لڑکھڑایا۔ اس لڑکھراہٹ کے
دوران اس آدمی نے فوراً سے زوردار مکا رعیم کے منہ پر رسید کیا۔ رعیم
لڑکھراتا بیلنس قائم نا کرنا گر پڑا۔ وہ فورا بھاگتا ہوا دائیں طرف گیا۔
(باقی سب کو بائیں جانب سے نیچے لے جایا جا چکا تھا)۔
رعیم فورا سنبھلتا اسکے پیچھے لپکا۔
دائیں جانب اس قدر اندھیرا تھا کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ رعیم سنبھل
سنبھل کر پاؤں رکھتا آگے بڑھ رہا تھا۔
سامنے ہلکی سی روشنی دکھائی دی۔ وہ آدمی کوئی کھڑکی یا چھوٹا دروازہ کھول
کر کود رہا تھا۔ رعیم نے آو دیکھا نا تاؤ فوراً اس کے پیچھے چھلانگ لگائی۔
آگے کچی زمین تھی۔ ایک قسم کا تہہ کھانا تھا شاید۔ اس کے بھاگنے کی آواز
رعیم اچھی طرح سن سکتا تھا۔
بمشکل پانچ چھ قدم دوڑ کر وہ آواز تھم گئی۔ رعیم بھاگتا ہوا آگے ہی جا رہا
تھا جہاں روشنی ہی روشنی تھی۔ آہ۔۔۔ فرار کا راستہ۔ یہاں تو اس کے آفیسر کے
فرشتوں کو بھی معلوم نا ہوتا کہ وہ کہاں سے نکلا ہے۔
آگے جھاڑیاں اور کانٹے بچھے تھے جس سے بچ کر نکلتا وہ آگے بڑھا۔
ارد گرد بڑے بڑے درخت اور کچی اجڑی ہوئی زمین۔ وہ آگے بھاگ رہا تھا۔
رعیم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کوئی گاڑی کوئی آفیسر نظر نہیں آرہا تھا۔
"رک جاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا" رعیم چلایا۔
لیکن وہ بھاگتا جا رہا تھا۔ ایک دم سے وہ آدمی مڑا اور فائر کیا۔ رعیم
فوراً درخت کی اوٹ میں ہوا۔ اوہ نو! اس سے گن تو کسی نے چھینی ہی نہیں۔
"ایسے تو ایسے صحیح" رعیم درخت کی اوٹ سے نکلا اور آگے بڑھا۔
وہ آگے چلتا ہوا جا رہا تھا اور مڑ کر ایک اور فائر کیا۔ نشانہ پھر چوکا۔
رعیم اپنی دوڑ کی رفتار تیز کیے اسے جلد از جلد پکڑنا چاہتا تھا۔
پولیس سائرن کی آواز اسے سنائی دی۔ فائر کی آواز ان تک پہنچ چکی ہوگی۔
"رک جاؤ" رعیم رک کر چلایا۔ اب اسے نشانہ باندھنا تھا۔
وہ واقعی رک جائے گا اسکی رعیم کو توقع نہیں تھی ۔ رعیم تو نشانہ باندھے
کھڑا تھا۔
مقابل بھی شاید کم نہیں تھا۔ اس نے فوراً فائر کیا۔
رعیم بھی فائر کر چکا تھا۔
دونوں کی گولیاں ایک دوسرے کو لگی۔
ایک کا نشانہ درست تھا اور دوسرے کا کچھ خاص نہیں کیونکہ وہ کندھے کو چھو
کر گزری تھی۔
دونوں ساتھ گرے۔ رعیم گھٹنوں کے بل ضبط کرتا بیٹھا اور اسکا پورا وجود زمین
پر گرا۔
درد کی لہر اس کے کندھے سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں پھیل رہی تھی۔ رعیم نے
بمشکل اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اسے دوسری گولی ماری۔ بندوق اسکے ہاتھ سے
چھوٹ گئی۔
درد کی شدت زیادہ ہو رہی تھی یوں جیسے اسکی جان جکڑی جا رہی ہو۔ رعیم نے
بائیں ہاتھ سے دائیں کندھے کو چھوا تو ہاتھ بھی خون آلود ہوگیا۔
"آہ!۔۔ اللہ" وہ بہت ضبط کر رہا تھا لیکن پھر بھی کراہ اٹھا۔ سامنے گرا
وجود بے جان تھا۔ ارد گرد بڑے درخت ویسے کے ویسے تھے۔ آسمان اتنا ہی صاف
اور وسیع نظر آرہا تھا۔ رعیم نے درد کی شدت کم کرنے کے لیے آنکھیں موند
لیں۔ سائرن کی آواز قریب سے سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔بہت قریب۔۔۔
رعیم نے آنکھیں نہیں کھولی۔
وہ کسی کا ہاتھ تھامے روتے ہوئے چینخ رہا تھا۔ "ماما پاپا مجھے چھوڑ کر مت
جائے" ۔ قدموں کی چاپ اسے سنائی دے رہی تھی۔
" سر!" ۔۔۔۔ " رعیم فاروقی!" یہ چند آخری آوازیں تھی جو اسنے سنی تھی اور
پھر جیسے ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اور نا ہی
وہ ہل پا رہا تھا۔
※※※
وہ کب سے اسکا ہاتھ تھامے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے گولی کندھے کو زخمی کرکے گزری ہے۔ علاج ہو
رہا ہے۔لیکن رعیم بے ہوش ہے۔ کچھ دیر میں انشاءاللہ ہوش آجائے گا۔ کل دوپہر
کو اسے ہسپتال لایا گیا تھا اور وہ بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ اب فجر ہونے
کو تھی۔
جب اسے کمرے میں شفٹ کیا گیا احمد تب سے اس کے پاس بیٹھا تھا۔
مشن کامیاب رہا تھا۔ بچوں کو باحفاظت واپس لے جایا جو چکا تھا اور مجرموں
کو سزا سنائی جا چکی تھی۔
رعیم اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں محسوس کر رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولی تو
اوپر سفید چھت پر نظریں جا ٹکی۔ اسنے نظریں گھما کر دائیں جانب بیٹھے احمد
کو دیکھا۔
وہ جو فکرمند سا اڑے حواسوں کے ساتھ بیٹھا تھا اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر
مسکرایا۔
احمد کا دل چاہا اس کے گلے لگ جائے لیکن اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟ درد تو نہیں ہورہا؟ کچھ چاہئے؟ ڈاکٹر کو بلاؤں؟" وہ فکرمندی
سے پوچھ رہا تھ؟ اس کے اس طرح فکرمندی مندی سے سوال پہ سوال کرنے پر رعیم
مسکرایا۔
"پولیس آفیسر۔۔۔ اس طرح کی شکلیں نہیں بناتے" ۔ رعیم اسکی فکر مندی کو ختم
کرنے کے لیے بولا۔ اسے بولنے میں دقت ہورہی تھی۔
"ہاں بہت بہادر ہوتے ہیں جانتا ہوں۔ لیکن جب پولیس آفیسر کا بیسٹ فرینڈ
ہسپتال میں پڑا ہو تو ایسی شکلیں ہی بنتی ہیں" وہ منہ بسور کر بولا۔ رعیم
کو ہنسی آئی۔
"ہائے! میں کتنا خوش قسمت ہوں۔ الحمداللہ"
"مکھن نا لگاؤ اب۔ ایک تو بندہ فکر میں آدھ موا ہوجائے اور دوسرے کو پروا
نہیں۔ ساری رات بیٹھا رہا اور دعائیں کی۔ رعیم تمہیں اس حال میں دیکھ کر
پتا ہے کیا حال تھا میرا؟" وہ مصنوعی غصے سے کہتا آخر میں روہانسا ہونے
لگا۔
"میں جانتا ہوں احمد اس دنیا میں تمہارے نزدیک میری کیا اہمیت ہے۔ میں خود
کو واقعی خوش نصیب کہتا ہوں۔ میری زندگی میں ہونے کے لیے شکریہ احمد" ۔ وہ
دل کی بات کہہ رہا تھا۔ احمد مسکرایا۔
"آپ نے تو شرمندہ کردیا۔ " احمد ماحول کو مزید بہتر کرنے کے لیے بولا۔
"اب جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ ۔ مجھے شادی کرنی ہے۔ تمہارے چکر میں میں بڈھا
ہوجاؤں گا"
"تمہیں تو شادی کی پڑی رہتی ہے۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ " رعیم اٹھ کر
بیٹھنے لگا تو احمد نے بیٹھنے میں اس کی مدد کی۔
"ویسے کوئی اور بھی ہے جسے تمہاری فکر ہے" احمد شریر سی مسکراہٹ لیے بولا۔
رعیم چونکا ۔ "کون؟"
احمد نے آنکھوں سے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ رعیم نے اس سمت دیکھا۔ شیشے کی
کھڑکی کے اس پار بینچ پر انیہ بیٹھی تھی۔ ٹھوڑی پر چہرہ ٹکائے وہ اسی طرف
دیکھ رہی تھی۔ لیکن شیشہ ایسا تھا کہ صرف اندر سے باہر دیکھا جا سکتا تھا۔
"انیہ یہاں کیسے؟ احمد تم نے اسے بھی بتا دیا؟ کب آئی؟" وہ پریشان ہوا۔
احمد گلاس میں پانی انڈیل رہا تھا۔ "یہ لو پانی پیو پہلے۔ بتاتا ہوں سب"۔
رعیم نے اسے گھورتے ہوئے پانی کا گلاس تھاما اور پھر ایک نظر باہر ڈال کر
پانی کا گھونٹ بھرا اور واپس پکڑا دیا۔
"اینی آپی آئی ہوئی تھی گھر۔ انیہ اور آنٹی بھی آئے تھے۔ انیہ نے ضد کی تھی
کہ اینی آپی سے ملنا ہے۔ لیکن اصل وجہ تو آپ تھے موصوف" وہ چھیڑنے کے انداز
میں مسکرایا۔
"جب مجھے تمہارے بارے میں پتا چلا تو میں فورا نکلا لیکن دروازے پر انیہ
ملی۔ سفید چہرے کے ساتھ۔۔۔"
"مجھے رعیم سے ملنا ہے ابھی اسی وقت" وہ ٹو دی پوائنٹ بات کر رہی تھی۔
"کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"پتا نہیں مجھے عجیب سا فیل ہو رہا ہے ویسے بھی مجھے ان سے ملنا تھا
بس۔۔۔۔" وہ انگلیاں مڑوڑتی بول رہی تھی۔
"لیکن انیہ ۔۔۔"
"ابھی مطلب ابھی" ۔ وہ پیر پٹخ کر بولی اور پھر۔۔۔۔ میری زبان پھسل گئی۔
میں نے سب کچھ بتا دیا۔ میں اسے ہسپتال نہیں لایا کیونکہ گھر میں ابھی میں
نے کچھ نہیں بتایا تھا۔ رات میں اسکے اتنے فون آئے کہ اسے اسپتال آنا ہے تو
مجبوراً مجھے اسے لینے جانا پڑا۔
اتنا روتی ہے وہ اف۔۔۔ فکر مت کرو تھوڑی دیر میں وہ واپس جانے والی ہے اپنے
گھر۔ تمیں ملواؤں؟۔
"نہیں" رعیم تو بے اختیار مسکرا رہا تھا فوراً ہاتھ اٹھا کر احمد کو روکا۔
"بس کہہ دو میں ٹھیک ہوں اور آرام کر رہا ہوں۔ اسے کہوں گھر جائے۔ پھر میں
ایک سرپرائز دوں گا" رعیم نے آنکھ دبا کر کہا تو احمد کا قہقہہ بے ساختہ
تھا۔
"میسنے ! اوکے تم آرام کرو میں ہینڈل کرتا ہوں سب" وہ مسکراتا باہر نکل
گیا۔ رعیم گہری سانس لیتا باہر دیکھنے لگا۔
وہ اس سے کچھ بات کرتا نظر آرہا تھا۔
"انیہ فکر مت کرو۔ وہ بالکل ٹھیک ہے اب۔ آرام کر رہا ہے۔ تم گھر جاؤ۔ اور
میں وعدہ کرتا ہوں اس سے ملوادوں گا تمہیں" وہ خوموش بیٹھی تھی۔
پھر اسنے انیہ کو کھڑے ہوتے دیکھا اور وہ سر ہلاتی چلی گئی۔
※※※
"انیہ بیٹا ذرا چائے لانا اور ساتھ میں کچھ لوازمات بھی۔ رعیم کے ماموں اور
مامی آئے ہیں" خالدہ اسے حکم دیتی باہر نکل گئی۔ (یہ دو دن بعد کی بات ہے)۔
رعیم کے ماموں کا نام سن کر انیہ چونکی۔ کیا وہ بھی آیا ہے؟۔
وہ چائے لے کر لاؤنج میں آئی تو وہاں رعیم کے ماموں مامی اور انیہ کے ماما
بابا ہنستے مسکراتے باتیں کر رہے تھے۔ انیہ سے انہوں نے بہت پیار سے باتیں
کیں۔
اس کے حواس تو تب اڑے جب خالدہ نے اسے یہ بتایا کہ وہ اس کے لیے رعیم کا
رشتہ لے کر آئے ہیں اور انہوں نے فوراً ہاں کردی ہے۔
انیہ کچھ دیر تو حیران سی بیٹھی رہی پھر بے انتہا خوش ہوئی۔ یہاں تک کہ
خالدہ کے جانے کے بعد وہ باقعدہ کمرے میں اچھلتی اور ناچتی پھر رہی تھی۔
کیا جس کی چاہ ہو وہ بنا کہے بھی مل جاتا ہے۔
رعیم کی ماما نے ایک بار کہا تھا "تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نا چاہے"
اور انیہ آج کہتی ہے " کوئی روک بھی نہیں سکتا اگر اللہ کچھ چاہے"۔۔
"تھینک یو اللہ" انیہ دل پر ہاتھ رکھتی آنکھیں بند کرکے بولی۔
※※※
وہ ناشتے کی لیے کچن میں جا رہی تھی جب خالدہ نے اسے آواز دی۔
"انیہ یہ چائے لاؤنج میں لے جاؤ" خالدہ نے اسے چائے کا کپ پکڑایا۔ انیہ نے
کپ تھاما۔
"پچھلی بار کپ لے کر گئ تھی تو خوشی آئی تھی اس بار دیکھتے ہیں" اپنی بوگس
سوچ پر وہ سر جھٹکتی لاؤنج کی طرف بڑھی۔ سادہ لیڈیز کرتے کے ساتھ رنگ برنگ
پاجامہ اور ہم رنگ ڈپٹہ شانوں پر پھیلائے بالوں کی فرنچ نوٹ بنائے وہ اندر
بڑھی۔
اندر قدم رکھتے ہی وہ بے تحاشا حیران ہوئی۔ پہلے تو اسے یقین نا آیا کہ وہ
واقعی سامنے بیٹھا ہے۔
اسے دیکھ کر رعیم مسکراتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
انیہ کی زبان کو تالا لگ گیا اور پلکیں نیچے جھک گئی۔ وہ فیصلہ نا کر پائی
کے اندر جائے یا مڑ جائے۔
"انیہ" اسکی آواز پر انیہ اندر آئی ۔ میز پر کپ رکھا اور وہی کھڑی ہوگئی۔
"اسلام علیکم!" وہ لبوں پر زبان پھیر کر بولی۔
"وعلیکم اسلام" وہ مسکرایا۔
"آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟" انیہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ وہ وردی میں کھڑا
تھا۔ ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔
"بہت بہتر۔ بلکہ اب تو پرفیکٹ" وہ بالک ٹھیک نظر آرہا تھا۔ انیہ نے سوچا سب
ٹھیک کر لیا جائے۔
"مجھے آپ سے سوری۔۔۔۔۔" رعیم نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔
"کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سب ٹھیک ہو چکا ہے۔ پرانی ہر بات بھول جاؤ
انیہ۔ نئی زندگی ہماری منتظر ہے" رعیم سکون سے بولا تو وہ مسکرادی۔
"میں نے اپنی زندگی میں فرض سے پیار کرنا سیکھا ہے۔ اور ہمیشہ کروں گا۔ "
انیہ نے اسکی طرف دیکھا۔وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرایا۔
"تم سے پیار کرنا مجھ پر فرض ہے
اور میں اپنے فرض سے بہت پیار کرتا ہوں"
اسکے انداز پر انیہ نے کسرا کر چہرہ جھکا لیا۔ اس کے گال گلابی ہورہے تھے۔
رعیم کچھ سیکنڈ یونہی مسکراتا اسے دیکھتا رہا پھر اس سے پوچھا۔
"خوش ہونا؟"
انیہ نے فوراً سر اٹھایا۔ اسنے جواب دینا ضروری سمجھا یہ نا ہوں کہ اقرار
کا لمحہ ہاتھوں سے چھوٹ جائے۔
"بہت۔۔بہت زیادہ۔۔۔ آپ کا ساتھ میری زندگی کا سب سے بڑی خواہش اور خوشی ہے"
۔ انیہ نے دانتوں تلے زبان دبائی۔ ایسے مواقع پر لڑکیاں شرم کے مارے بولتی
نہیں ہیں پگلی۔۔
رعیم ہنس دیا۔ وہ مطمئین ہوگیا۔
"مجھے دیر ہو رہی ہے۔ جلد ملیں گے۔ خیال رکھنا۔ اللہ حافظ" ۔
"اللہ حافظ" انیہ مسکرائی تو وہ لحظہ بھر اسکو دیکھتا باہر نکل گیا۔
انیہ دل پر ہاتھ رکھتی صوفے پر دھڑم سے گری۔ "اف اللہ!" اسکے دل میں لڈو
پھوٹ رہے تھے۔ اپنی دھڑکنوں پر بمشکل قابو پاکر اسنے چائے کا کپ اٹھایا اور
مسکراتے ہوئے پینے لگی۔
※※※
"آفیسر رعیم فاروقی! "
" یس سر" ان سب سے بڑا آفسر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ انکے سامنے کمر پر
ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"رعیم فاروقی! آپ کی بہادری اور کامیابی پر یہ تمغہ یہ میڈل آپ کو دیا جا
رہا ہے۔ آپ اسی طرح بہادری کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ اور لوگوں کی حفاظت کرتے
رہیں۔ آپ کے ساتھیوں کو انکا انعام مل چکا ہے۔ یہ آپ کا ہے" انہوں نے رعیم
کے گلے میں میڈل ڈالا تو رعیم ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ آج کا دن اس کے
لیے اتنی خوشیاں لایا تھا۔
فرض سے پیار کرکے ہی کامیابی اور خوشیاں ملتی ہیں۔ وہ کھلے دل سے مسکرایا
تھا۔
صد شکر اس خدا کا جس نے اسے یہ خوشیاں عطا کی۔
X-x-x-x-x
ختم شد
|