تابوت میں لاش (تیسری قسط) جاسوسی دنیا

نئے انکشافات(خاص قسط)
دو سائے رات کی تاریکی میں مناسب فاصلہ رکھے ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلے جارہے تھے۔ان کے پہلومیں ایک گندا نالہ بہہ رہاتھا۔لگتا تھا کہ آگے والے سائے کو اپنے تعاقب کرنے والے سائے کاعلم نہیں ،اس لئے وہ اطمنان سے چل رہا تھا۔ جبکہ پیچھے والاسایہ آگے والے سائے کوکسی بھی وقت مناسب جگہ پردبوچ لینا چاہتاتھا۔دونوں مغل آباد کی آبادی سے نکل کر ویرانے میں آگئے تھے۔چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہواتھااور کبھی کبھی اپنا حسین مکھڑا دکھاکرشرماتے ہوئے پھراپنے آپ کو بادلوں کی چادر میں لپیٹ لیتاتھا۔چاند بھی محبوب کی طرح اپنے عاشق تاروں کوکبھی کبھی اپنا دیدار کرواکر انکے وجود کوتڑپائے ہوئے تھا۔اسے بھی اپنے حسن کی قیمت فصول کرنے کاپورا فن آتا تھااور تارے بھی بیچارے عاشق کی طرح ساری رات اس کے دیدار کوترستے رہتے تھے۔جب جب وہ اپنا سراپا دیکھاتاتوتاروں کے دلوں کے تار ہل جاتے تھے۔جوبے چارے اس کے حسن کی تاب نہ لاسکتے وہ وہیں تنکوں کی طرح ٹوٹ کر بکھرجاتے۔
وہ سائے شہرسے ہی دو گاڑیوں پر آگے پیچھے چلتے ہوئے،مین سڑک پر اس ویرانے میں آئے پھر آگے والے سائے نے گندے نالے والے پُل سے تھوڑا سا سائیڈ پر لیجاکر اپنی گاڑی روک لی۔کار بند کرکے وہ اس کادروازہ کھول کرباہرنکلا پھر زور سے اسے بند کرکے یو ں ہی کچے میں نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔اس کے پیچھے جوسایہ اس کا تعاقب کرتا ہوا آیاتھااس نے اپنی گاڑی خاموشی سے پُل سے پہلے روکی اور دبے قدموں اس کے پیچھے ہولیا۔پہلے سائے کایہاں آنے کا مقصد واضح نہیں تھا۔البتہ دوسرے سائے کا مقصد اس کی چال سے جھلک رہاتھا کہ وہ کیا کرنا چاہ رہاہے۔ اندھیرے میں بھی اسکی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں،شاید وہ پہلے سائے کا قصہ ہی تمام کرنے آیاتھا�آرفتہ رفتہ پچھلے سائے نے اپنی رفتار بڑھانا شروع کردی،البتہ پہلا سایہ اسی طرح اطمنان اور سکون سے اپنے قدم آگے بڑھارہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھے تیزہوائیں چلنا شروع ہوگئیں،مٹی اور ہوا کے ساتھ ساتھ اس کچے علاقے کا جتنا گندتھا اسے بھی پرلگ گئے اور وہ اڑاڑ کر اِدھر سے اُدھرجانے لگا۔گندے نالے کے غلیظ پانی میں نامعلوم کیسے طغیانی آگئی،ٹھنڈی اور بدبودار ہواؤں نے شدت اختیار کرلی۔پچھلے سائے کوبھی ماحول دیکھتے ہوئے جوش آگیا اور پھر اس نے تقریباًدوڑتے ہوئے فضامیں اپنے آپ کو اچھالا اور ہوامیں تیرتا ہواوہ پہلے سائے کی پشت سے جاکرچپک گیا۔پچھلے سائے نے اپنے آہنی ہاتھوں میں پہلے سائے کے سراور گردن کو مضبوطی سے تھام لیا۔اس نے اپنی ٹانگوں کاگھیرا پہلے سائے کے وجود سے پکا کرکے جوڑ لیا۔پہلا سایہ اس نئی افتاد پر بری طرح سے تڑپنے لگا،پھر اس نے بھی اپناداؤ چلادیا۔اس نے اپناایک ہاتھ موڑ کر دوسرے سائے کی گردن پر مضبوطی سے جمایا اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کچی زمین پر پٹخ دیا۔دوسرا سایہ بری طرح سے چیختے ہوئے اپنی کمر زمین سے ہلکی سی اونچی کرکے اپنے ہاتھ اوپر کرکے مچلنے لگا۔اس نے اپنے دانت سختی سے ایک دوسرے کے اوپر جمالئے اور درد کی شدت سے کراہنے لگا۔

پہلے سائے نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر کھڑا کیا تو دونوں نے ایک دوسر ے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال دیئے ۔دوسرے سائے نے اپنے درد پر قابو پاتے ہوئے پہلے سائے کو اپنی لات سے بھرپور انداز میں پنڈلیوں میں ٹھوکر لگائی تو پہلا سایا اوہ کرتاہواجھکتے ہی اپنا ہاتھ بھرپور اندا ز میں دوسرے سائے کے سینے پہ مارا ۔اسی لڑائی کے دوران دونوں گندے نالے کے بالکل کنارے پر آگئے اور ایکاایکی میں تیز ہوا کے جھونکوں نے دونوں کا توازن بگاڑا اور دونوں ایک جھپاکے سے گندے نالے کے اندر جاگرے۔
********
قاسم اپنی بڑی سی توند کے اوپر ہاتھ رکھے، ٹانگیں پھیلائے، منہ کھولے، گدھے کی آوازمیں خراٹے لیتے ہوئے سورہاتھا۔ بار بار نجانے کہاں سے ایک مکھی اڑتی ہوئی اس کی ناک پرآبیٹھتی تو وہ ہڑبڑا کراٹھ جاتا۔کچھ دیر یوں ہی حیرت سے خلاء میں گھورتا رہتاپھر اسے بات بھول جاتی تو وہ دوبارہ گدھے کی آواز میں خراٹے لیتے ہوئے پھرسے سو جاتا۔شاید کچھ دیرکے لئے مکھی کوبھی اس کے ناک پربیٹھنابھول جاتا تھااوروہ ادھر ادھر گھومتی پھرتی پھر اسکے ناک پر آکربیٹھ جاتی۔قاسم جو اچھا بھلااپنے موشن میں لگا ہوتا اسکا سارا ردھم ٹوٹ جاتاتو وہ پھر ہڑبڑا کر آنکھیں کھول لیتا۔مکھی اڑجاتی اور وہ یوں ہی خلاء میں گھورنے لگ جاتا،اسے شاید آنکھیں کھولتے ہی بات ذہن سے نکل جاتی کہ وہ کیوں جاگا تھا۔کچھ دیریوں ہی خالی نظروں سے گھورتے رہنے کے بعد پھراس کی آنکھ لگ جاتی۔یہ سارا عمل گزشتہ ایک گھنٹے سے چل رہا تھا۔وہ گھر سے اپنی بیوی سے لڑکرہوٹل میں کسی فل فلوٹی کی آس میں آکرکرائے کے کمرے میں رہ رہاتھا۔فل فلوٹی تو نہ ملی تھی البتہ مکھی ضرور مل گئی تھی جو بار بار اپنی محبت کا اظہار اس کی ناک پر بیٹھ کر کرجاتی تھی۔

قاسم نے دوپہر کا کھانا اسی ہوٹل میں نہ جانے کتنی دیگوں کو چاٹ کر کیاتھا۔کھانے کے وقت اس کی ذہنی رو بالکل بدل جاتی تھی۔پورے جسم کی آگ اس کے پیٹ میں یا دماغ میں جمع ہوجاتی ۔بس پھر تو ہوٹل والوں کی شامت آجاتی اور ان بے چاروں کواس کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو پورا کرناپڑتا۔قاسم چونکے ان کو منہ مانگے چیکس دیتا تھا بلکہ ان کی سوچ سے زیادہ دے دتیا تھا اس لئے ہوٹل والے اس کی ہر جائز و نہ جائز بات کو نہ صرف سنتے بلکہ اس کو پور ا کرنا بھی ان کے لئے ضروری ہوتا۔ورنہ قاسم پورا ہوٹل سر پر اٹھا لیتا تھا،جو منہ میں گندی گندی گالیاں ہوتیں وہ ساری نکال لیتا۔ہوٹل والے بچارے اس کے سامنے یس سر یس سر کرتے رہ جاتے اس کے علاوہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے تھے۔وہ پنگَ پانگ ہوٹل میں گزشتہ ایک ہفتے سے رہ رہاتھا۔

اب کی بار جب مکھی اس کے ناک پر بیٹھی تو اسکی آنکھیں کھلتے ہی اسے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کہ کیوں اس کی باربار آنکھ کھل جاتی ہے۔اس نے زور زور سے سرہلاتے ہوئے کہا۔
"اَشا(اچھا) تو یہ بات ہے یہ سالی مالی مکھی مجھے سونے نہیں دے رہی۔وہ کدھرمر گیا سالا مالہ منیجر ۔۔۔۔"اس کے بعد گالیوں کا ایک طوفان اس کے منہ سے نکلا۔
"سالی مالی مکھی کی جرات کیسے ہوئی میرے ناک پر بیٹھنے کی ۔میں نے اس کا پورا ہوٹل زمین بوس نہ کردیا تو میرا نام قاسم ماسم نہیں ۔"ایک دم سے اسکا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے کمرے کے دروازے کا رخ کیا اور پھر بری طر ح سے نیند کے نشے میں جھولتا ہوا وہ راہداردی میں آیا اور پھر وہاں سے برقی زینوں کی جانب بڑھ گیا۔جیسے تیسے اس نے منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے برقی زینے گزارے اور پھر وہ جھولتا ہوا کاؤنٹرپرپہنچ گیا۔وہاں ایک کاؤنٹر گرل موجود تھی۔
"تم لوگوں کو شرم نہیں آتاماتا،یہ میرے کمرے میں مکھی شکھی کیوں پھر رہی تھی۔میں تم سب لوگوں کو اس مکھی پر بٹھا کر شوٹ موٹ کر دوں گا۔کدھر ہے وہ سالا مالا منیجر"قاسم نے دہاڑتے ہوئے پوری قوت سے شیشے کی میز پر ہاتھ مارا تو کاؤنٹر گرل جوایک مگ میں کافی پی رہی تھی۔اس کا مگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرمیز سے لگتے ہوئے زمین پر گرتے ہی ٹوٹ گیااور ساری کافی میز پر اور زمین پر بہہ گئی۔وہ ایک گھٹی گھٹی چیخ کے ساتھ ڈری سہمی ہوئی منیجر کے کمرے کی طرف دوڑ گئی اس کے دیدے پھیلے ہوئے تھے اور اس کی حالت بہت پتلی تھی۔قاسم اب پوری طرح سے فارم میں آگیاتھا اور لگتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت ہوٹل کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔اس نے غصے کی حالت میں لاشعوری طور پر میز پر کافی کے قطروں میں انگلی ڈال دی اور پھر اسے منہ میں لے جاکر چکھتے ہوئے ہوئے جھولنے لگا۔اس کی زبان کو کافی کا سواد بھلا لگا تو اس نے پھر دو تین انگلیاں کافی کے موٹے قطروں میں ڈبوکر انہیں بھی زبان سے چاٹتے ہوئے مزید سواد لیا۔اس اثناء میں ہوٹل کا منیجرانتہائی بوکھلائے ہوئے انداز میں اندر سے دوڑتا ہوا آیا اور آتے ہی وہ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا۔قاسم اپنی انگلیوں کو زبان پر لگائے کسی اور ہی دنیا میں گم تھا کہ منیجرکے آنے سے اسے مکھی والی بات یاد آگئی۔اس سے قبل کہ وہ منہ سے انگلیاں نکال کر اپنی زبان چلاتا ۔ہوٹل منیجر نے قدرے آگے جھکتے ہوئے انتہائی راز داری سے ایک آنکھ دباتے ہوئے اس کے کان میں کہا:
"سر ایک بالکل نئی فل فلوٹی آئی ہے ہوٹل میں،وہ کسی شہزادے کو تلاش کر رہی ہے۔میں نے اس سے آپ کی بات کی ہے،وہ آپ سے ملنے کے لئے بے تاب ہے آپ بس ہاں کریں تو وہ آپ کے اپنے ہی کمرے میں آجائے گی۔"
"ہی ہی ہی ۔۔۔۔سچ واہ۔۔۔ تو سالا مالا بڑے کام کا نکلا۔۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔۔ میں ابھی واپس اپنے کمرے میں جاتاہوں۔ تم اسے بھجواؤ۔"ایکدم سے قاسم کی ذہنی رو بدلی اس نے اپنی پیلی بتیسی نکالتے ہوئے کہا اور وہ واپس مڑکر برقی زینوں کی جانب بڑھ گیا۔
********

ابھی ڈی وی ڈی پرقاتل کا پیغام ختم نہیں ہوا تھاکہ حمید نے پھرتی سے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر اس ویڈیو کی مووی بنانے کے لئے کیمرا آن کیا ہی تھا کہ ڈی وی ڈی کرپٹ ہوکر فارغ ہوگئی۔اس نے زور سے صوفے پر مکا مارتے ہوئے کہا۔
"دھت تیرے کی اگر مجھے تھوڑا سا بھی علم ہوتا کہ یہ ویڈیو کرپٹ ہوجائے گی تو میں اس کی پہلے ہی ویڈیوبنالیتا۔اُف"حمید بے بسی سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے اوپر والے دانتوں سے اپنانچلا ہونٹ کاٹنے لگا۔
"تو کیا اب ہمارا فورنسک ڈیپارٹمنٹ بھی اس ڈی وی ڈی کودوبارہ کارآمد نہیں بناسکتا؟"
"ہاں حمید میاں! لگتا تو ایسے ہی ہے،لیکن کوشش کرکے کے دیکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔آؤ میرے ساتھ"فریدی نے بات کرنے کے دوران وہ ڈی وی ڈی لیپ ٹاپ سے نکالی اور پھر لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے وہ تیزی سے اٹھا اور اب اس کا رخ بلیک فورس کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ کی طرف تھا۔جو اسی کوٹھی میں زیرِ زمین بہت سے تہہ خانوں میں سے ایک تہہ خانے میں بناہواتھا۔ فریدی اور حمید ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے ہوئے مختلف راہداریوں سے ہوتے ہوئے ایک کمرے میں آئے جو بظاہرایک ڈرائنگ روم کے انداز میں سجاہواتھا۔فریدی نے آگے بڑھتے ہوئے ایک دیوار سے نہایت ہی خوفناک الو کی قدیم پینٹنگ کو اتارکر ایک سائیڈ پر رکھا۔الوکی آنکھوں میں سنہری رنگ کی تیزچمک تھی ۔پینٹنگ کے پیچھے دیوار پر ایک پینل نصب تھا جس پر لاتعداد بٹن بنے ہوئے تھے۔ فریدی نے اس پینل میں سے ایک سبز بٹن کودبایا تو ایک طرف کی دیوار درمیان سے پھٹی اوراس میں سے ایک کمرہ نظر آنے لگا ۔وہ کمرہ ہر قسم کے سامان سے آری تھا، فریدی اور حمید تیزی سے چلتے ہوئے اس میں جاکر کھڑے ہوگئے ۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر ایک چھوٹا سا کمپیوٹر بنا ہوا تھا ۔ فریدی نے جلدی سے اسکے دو تین بٹن دبائے اور کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک ڈبہ نظر آنے لگا جس کے اوپر انگریزی زبان میں" پاس کوڈ" کے الفاظ لکھے ہوئے ہوئے تھے۔ اس نے ٹائپنگ پیڈ پر کچھ لکھا تو اس کمرے کادروازہ ایک دم سے بند ہوگیا۔پھر وہ کسی لفٹ کے سے انداز میں نیچے جانے لگا،کچھ دیر بعد ایک جھٹکے سے وہ کمرہ رکاتو فریدی نے کچھ ٹائپ کرکے کمپیوٹر پر لکھا توکمرے کا دروازہ درمیان سے پھٹ گیا۔تو ان کے سامنے ایک جدید ترین فورنسک ڈیپارٹمنٹ تھاجسے فریدی نے ذاتی خرچ پر دنیا جہاں سے قیمتی سائنسی آلات اور دیگر اہم ضروری ساما ن لاکر سجایاتھا۔اس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ایک جاپانی ڈاکڑ البرٹ لی تھا جو کرنل فریدی کا بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ کافی بے تکلف بھی تھا۔یہاں پروہ ایک فی میل ڈاکڑمدھو اور میل ڈاکٹرجیند کے ساتھ کام کرتا تھا۔

فریدی اور حمید جوں ہی اندر آئے تو ڈاکٹر البرٹ نے اپنی میز سے اٹھ کر ان دونوں کا استقبال کیا۔ایک طرف پانچ لاشیں ایک شفاف گلاس کے کور کے اندر رکھی ہوئی تھیں۔ جبکہ چاروں طرف جدید ترین آلات نصب تھے۔
"آؤ آؤ میں آپ دونوں کا ہی انتطار کر رہاتھا۔آپ کی ان لاشوں نے تو مجھے بہت ٹینشن میں ڈال دیا تھا بڑی مشکلوں سے انہیں واش کر کے پھر مزید کام ہوا ہے۔ان بے چاروں کے ساتھ تو بڑا ظلم ہواہے۔"
"یہ تو ہم بھی جانتے ہیں ڈاکٹر صاحب !آپ بتائیں آپ نے اپنی طبی تفتیش کے بعد کیا پایا؟"
"کپتان صاحب بہت کچھ ۔۔۔آئیں میں آپ کو دکھاتاہوں۔۔۔۔"پھر وہ ان دونوں کو لیکر ایک بڑی سی اسکرین کے سامنے آیا جہاں پر پانچ دماغوں کی تصویریں نظرآرہی تھیں۔
"ڈاکٹر البرٹ کیا تم یہ کہناچاہ رہے ہوکہ یہ پانچوں ریاضی کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔"کرنل فریدی نے اچانک ایک انکشاف کیاتو حمید سمیت ڈاکڑ البرٹ بھی حیران رہ گئے۔
"جینئس ، مائنڈ بلوئنگ۔۔۔احمدکمال فریدی تم نے تو اپنے نام کی طرح کمال کردیا میں بھی یہی کہنے جارہاتھاکہ ان کے دماغوں کی مخصوص ساخت باقی دماغوں سے قدرے مختلف ہے ۔یہ لوگ عام لوگوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔مجھے ان کے شعبوں کاتو نہیں پتہ جیسے ہمارے مشہور سراخ رساں نے دعویٰ کیاہے۔لیکن اس قسم کی ساخت رکھنے والے دماغ ریاضی کے مضمون میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔اگر یہ اپنی زندگی کازیادہ تر حصہ ریاضی پر صرف کریں تو بڑی عمر میں جاکریہ لوگ ریاضی کے علم کے حوالے سے دنیا بھر میں تہلکا مچا سکتے ہیں۔ریاضی کی مدد سے یہ لوگ اس جہان میں موجود مختلف مظاہر قدرت کا منطق کی بنیاد پرتجزیہ کرکے اس کے لئے بہترین فارمولے وضع کرسکتے ہیں۔ جس سے فزکس کے سائنسدانوں کو قدرت کے حوالے سے کئی اہم مسائل کا حل مل سکتاہے اور اس حیران کن دماغی صلاحیت کااختتام صرف یہاں پر نہیں ہوتا۔یہ لوگ اس کے علاوہ سائنس کے دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ،انجینئرنگ،بزنس اور صنعت کے شعبے میں بھی انقلاب بپاکرسکتے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ دنیاکے تمام سائنس دان،انجینئرز،بزنس مین اور صنعت کار ایک ریاضی دان کے محتاج ہوتے ہیں تو یہ بے جانہ ہوگا۔کئی دفعہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ماضی میں سائنس دان کتنے ہی پیچیدہ مظاہرِ قدرت میں آکر پھنس جاتے تھے،تو یہ ریاضی دان اگر ان کی مدد نہ کرتے تو سائنس مکمل طور پر فارغ ہوگئی ہوتی۔آج بھی پوری دنیا میں ریاضی دانوں کی بہت قدر کی جاتی ہے ریاضی آج کی اس دنیا میں فزکس ، کیمسٹری، بیالوجی، اکنامکس، رمزنویسی اور نہ جانے کتنے شعبوں اور روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہوتی ہے۔ اس لئے میں آج دکھی دل سے کہہ رہاہوں کہ ان پانچ عظیم دماغوں کا قتل پوری انسانیت کانقصان ہے اور سائنسدان پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر ریاضی دان بہت نایاب ہوتے ہیں ۔"ڈاکڑ البرٹ نے نہایت ہی مخموم لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا جبکہ گفتگوکے دوران وہ ایک دو بار آبدیدہ بھی ہوگئے تھے۔
"ڈاکڑصاحب آپ اس قدر یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ پانچوں ریاضی کابہترین دماغ رکھتے تھے۔"
"کپتان صاحب! مجھے چالیس پینتالیس سال کا تجربہ ہے،میں نے ایسے نہیں اپنا سرسفید کیا۔اس مخصوص بناوٹ اور خدوخال کے دماغ ریاضی کے حوالے سے بہت زرخیز ہوتے ہیں۔ہاں اب یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کی اپنی زندگی میں کون سی فیلڈ رہی ہوگی،اس کا سراغ آپ لوگوں نے خودلگانا ہے۔"
"ڈاکڑالبرٹ میں یہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہوں،تم نیا انکشاف کیا کررہے ہو وہ بتاؤ۔"فریدی نے کہاتو حمید کا منہ حیرت سے کھل گیاجبکہ یہ سب انکشافات جوڈاکڑ نے ڈاکڑ نے کئے تھے وہ سب اس کے لئے نئے اور حیران کن تھے۔
"ہاں فریدی میں تمہیں یہ بتاسکتا ہوں کہ یہ جو آخری لاش تمہیں ائیرپورٹ سے ملی ہے اسے کرنٹ نہیں دیاگیا۔اسکو صرف کلہاڑے سے کٹ لگا کرگلاگھونٹ دیاگیا۔اب وہ کرنٹ کیوں نہیں دیا جاسکا اس بارے میں تم خود معلوم کرو۔"ڈاکڑنے جیسے ہی کہاتو فریدی کی آنکھوں میں ایک پل کے لئے تیز چمک آئی اور پھر غائب ہوگئی۔"اچھاڈاکڑ یہ ایک ڈی وی ڈی ہے،جس میں قاتل کی آواز اوراس کی دھمکیاں واضح طور پر ریکارڈ ہوئیں ہیں ۔جو بعد میں ثبوت کے طور پر عدالت میں کام آسکتی ہیں، مگر بدقسمتی سے اس ڈی وی ڈی کی کچھ اس طرح سے پروگرامنگ ہوئی ہے کہ یہ ایک بار چلنے کے بعد خود بخود ہی کرپٹ ہوکر فارغ ہوگئی ہے۔"فریدی نے جیب سے ڈی وی ڈی نکال کرڈاکڑ کے حوالے کی اور خود گہری نظروں سے ڈاکڑ البرٹ کو ٹٹولنے لگا۔
"ویسے یہ بظاہر حیرت انگیز بات ہے کہ ڈی وی ڈی خود ہی کرپٹ ہوگئی،البتہ اس کو دوبارہ چلنے کے قابل بنانے کی پوری کوشش کروں گا۔لیکن وعدہ نہیں کرسکتا۔۔۔"ڈاکٹرنے کہا اور فریدی نے ہلکا سا سر ہلایااس کے چہرے پر چٹان جیسی سختی چھاگئی۔
*******
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61849 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More