علامہ بیدل حیدری
منافق صدی کا
حق طراز شاعر و نثار
مقصود حسنی
تحقیقی عمل' بلاشبہ بڑا محنت طلب عمل ہے اور اس مشقت طلب عمل سے' وہ ہی
باخوشی گزرتا ہے' جو متعلقہ معاملہ میں' دل چسپی رکھتا ہو گا۔ اس پرخطر
وادی سے گزرتے' ہر قدم سونگھ سونگھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ باصورت دیگر' نتائج
میں کہیں بھی گڑبڑی پیدا ہو سکتی ہے۔ کمی بیشی کی تو خیر ہوتی' لیکن آلو سے
الو بن جانے کی صورت میں' آتے وقتوں میں' گویا خیر کا شر ہو جانا' بلاشبہ
ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ سکندر کو' اس کی حیات سے آج تک' لوگ فاتح اعظم ہی
سمجھتے آ رہے ہیں۔ وہ فاتح تھا یا نہیں' اس معاملے کو ایک طرف رکھیے' اس
سوال کا آج تک جواب نہیں مل سکا' کہ وہ اتنی دور سے' کس کار خیر کے لیے مار
دھاڑ اور توڑ پھوڑ کرتا' برصغیر تک آ پہنچا تھا۔
اگر کسی نے فردوسی کا شاہ نامہ پڑھا ہے تواتنا ضرور کہے گا' کہ اس نے یک
طرفہ' شاہی میسر نمک سے کئی ہزار گناہ حق ادا کر دیا۔ کیا ایتھنز میں اکیلا
سکندر ہی پیدا ہوا تھا' جو اعظم ٹھہرا۔ حقیقت یہ ہے' کہ بہبود انسانی کے
حوالہ سے' وہ سقراط کے جوتے کی مٹی کے تول میں بھی نہ تھا۔ بدقسمتی ملاحظہ
ہو' وہ عموم میں غیر معروف ہے۔
غزنی میں صرف فردوسی ہی تھا' باقی سب مر گئے تھے یا فقط یاوہ گو تھے۔ کرسی
والے یا کرسی کے کنقریب ہی' چوری خور مورکھ کی لکھتوں پر چڑھے ہیں۔ کرسی
دور' کبھی فردوسی یا استاد ذوق نہیں بن پائے اور یہ لکھی پڑھی اور طے شدہ
بات ہے
۔علامہ بیدل حیدری کا شمار' کرسی کے دور درازوں میں ہوتا ہے' تب ہی تو' ان
کی زندگی بامشکل گزارے کے حصار میں رہی۔ پیٹو اسے بدقسمتی کا نام دیں گے'
لیکن میں ان کی کرسی یا کرسی قریبوں سے دوری کو' ان کی بالا نصیبی کا نام
دوں گا۔ اگر وہ کنکبوتی ہوتے' تو ان کی شاعری وقت کی کھلی شہادت سے زیادہ'
محض شاہی کشیدہ کاری ہوتی۔ ان کا کہا' اس سماج کے دل کی دھڑکنوں سے جڑا ہوا
ہے۔ وہ جو کہتے ہیں' مبالغے اور لگی لپٹی سے ہٹ کر کہتے ہیں۔ ذرا یہ دو شعر
ملاحظہ فرمائیں:
عہد بارود ہے کدھر جائے اے خدا! آدمی مر نہ جائے
آ گیا مرے پیٹ پر باندھنا مل گیا روزگار پتھر کو
کرسی سے دوری کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔
امیر شہر ہم سے اسلیئے ناراض رہتا ہے
کہ ہم شہر والوں کو جنوں پیشہ بناتے ہیں
ڈاکٹر بیدل حیدری کو' آج کے عہد کا کھلا اور بےباک شاعر کہنا' کسی طرح غلط
نہ ہوگا۔ اب ذرا اس شعر کو دیکھیے گا۔
چہرے کی جھریوں کو کبھی آئینے میں دیکھ
کس کس جگہ ہوا ہے ترا انتقال سوچ
گربت کی شاید ہی اس سے بڑھ کر' تصویر کشی کی گئی ہوگی۔
ترا یہ حال' اب اے مفلسی دیکھا نہیں جاتا
تری انگلی پکڑتے ہیں' تجھے اندھا بناتے ہیں
ان کا طنزیہ طور بھی اپنی الگ سے سج دھج رکھتا ہے۔ اس ذیل میں صرف ایک شعر
باطور نمونہ ہو۔
شاہ کے سایہء نوازش میں
ہم سبھی ہیں غلام گردش میں
اس عہد کے قائدین کی' چہرہ کشائی بڑے سلیقہ سے کرتے ہیں۔ ذرا یہ شعر دیکھیے
ہم سے امید رہنمائی نہ رکھ
ہم منافق صدی کے رہبر ہیں
بیدل ناصح کے روپ میں بھی وارد ہوتے رہتے ہیں۔
اے عظمت انساں کے منکر! تحقیر نہ کر انسانوں کی
انسان خدا کا نائب ہے' انسان حقیر نہیں ہوتا
ڈاکٹر بیدل حیدری کی زبان اور اس کا مہاورہ عوامی ہے اور اسی زبان کے زیر
اثر مہاورے' مرکبات' تشیہات' استعارے اور دیگر لوازمات شعر اور شعری صنعتوں
کا استعمال ہوا ہے۔
ایک زنانہ مہاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
چھوڑ اس تشنگی کے چکر کو
سوکھنے ڈال دے سمندر کو
اب ذرا باطور ذائقہ ایک درگاہی مہاورہ ملاحظہ فرمائیں۔
بیدل یہ آج آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا
کیوں ڈالتے ہیں بگولے دھمال سوچ
چلتے چلتے' انگریزی مرکبات کا استعمال کر جاتے ہیں' محسوس بھی نہیں ہوتا
اور اس میں دانستگی شامل نہیں ہوتی۔ مثلا
فٹ پاتھ پہ سونے کی نہیں جب سے اجازت
شہر میں کوئی شخص بھی بےگھر نہیں لگتا
...........
نوٹ بک میں لکھ لیا اس نے مجھے
چھپتا پھرتا ہوں کہ پردہ کھل گیا
انگریزی کے مہاورے کی شکل میں مرکبات استعمال کرتے ہیں۔
یوں ہیں آنکھوں میں لوٹ پوٹ آنسو
جیسے دریا میں لانچ الٹ جائے
یہ بڑی پرمزا اور پرسلیقہ تشبیہ بھی ہے۔
نزاکت اور شگفتگی میں ملفوف یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ سرخ ملبوسات اور آگ کا
استعارتی رشتہ' داد کے قابل ہے۔ شعر فصاحت و بلاغت کا بڑا خوب صورت نمونہ
ہے۔
آگ کی پوجا کا دروازہ نہ کھول
سرخ ملبوسات میں نکلا نہ کر
عصری حوالوں سے جڑے دو چار مرکبات ملاحظہ فرمائیں
عہد بارود' پیکر صحرا' منافق صدی' لہو لکیر' خط انقلاب' دھوپ چھاؤں
سچائی کا جشن اس نے سر دار منایا
سچائی کا جشن اور وہ بھی سر دار' واہ کیا بات ہے۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ سچائی
دار تک لے جاتی ہے تب ہی تو عہد عہد کے لیے گواہ ٹھہرتی ہے
چند اک مستعمل اور معروف مہاورے اور جو افعال مجہول مہاورے کے درجے پر فائز
ہو چکے ہیں' ملاحظہ فرمائیں۔
تہوار منانا' خیر مانگنا' پگڑی اترنا' روگ کٹنا' عمر کٹنا' انگلی پکڑنا'
چہرنا بنانا
۔۔۔۔۔ یہ مصوری اور بیوٹی پالر والوں کی اصطلاح بھی ہے۔۔۔۔۔
پاؤں پر آ گرنا' اوقات سے باہر ہونا
شاعری ہی کیا' علامہ مرحوم کی نثر بھی بڑے کمال کی تھی۔ انہوں نے' لوگوں کی
کتابوں پر لکھا۔ اسی طرح اطراف میں ان کے تعلقات تھے۔ ان اطراف کے احباب
سے' ان کی خط و کتابت تھی۔ ان کی ہر دو حوالوں سے نثر موجود ہے' جسے
نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی نثر کے فقط دو ٹکڑے باطور نمونہ پیش ہیں۔
صداقت کی آواز کسی مخصوص صنف ادب کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔ جس کے پاس کہنے
کو کچھ ہے وہ کسی بھی صنف میں کہہ سکتا ہے۔
بیدل حیدری
پہلی دستک' نوید اسلم' مرکزی کاروان ادب پاکستان' 1986' ص 60
شاعروں کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک کے مشاعرے شہرت کا پہلا زینہ ہوتے
ہیں۔ دوسرا نمبر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا ہے جبکہ اخبارات اور رسائل میں
کلام کی اشاعت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ چوتھے نمبر پر شاعر کا کلام شامل نصاپ
ہونا ضروری ہے اور اس کے بعد شاعر پر پی ایچ ڈی ہونے لگے تو کیا ہی بات ہے
لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر بھی ضروری نہیں کہ شاعر کو شہرت دوام مل جائے
جبکہ آخری مرحلہ صرف ڈکشزی ہے جو شعرائے کرام ڈکشزی کی زینت بن جاتے ہیں ان
کو ہی شہرت دوام ملتی ہے۔
خط بیدل حیدری بنام مقصود حسنی مورخہ 25 اگست 1999
درج بالا معروضات پیش کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا' کہ اہل ذوق پر کھل جائے
کہ علامہ بیدل حیدری کس پائے اور کس سطح کے صاحب قلم تھے۔ ان پر تحقیقی کام
کرنا آسان نہیں تھا۔ ان پر صاحب ذوق اور فراخ علم و دانش کا حامل محقق ہی
کام انجام دے سکتا تھا۔ جناب ڈاکٹر رحمت علی شاد نے اس کام کا بیڑا اٹھایا
اور پھر پوری دیانت داری' دل چسپی اور ذمہ داری سے اس کام کو انجام دیا۔
انہوں نے اس کام کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے
بیدل حیدری ..... احوال و آثار
بیدل حیدری' بحثیت شاعر
ا۔ بیدل حیدری بحثیت غزل گو شاعر
ب۔ بیدل حیدری بحثیت نظم گو شاعر
بیدل حیدری کے تلامذہ۔ فہرست
مقام بیدل ۔ معاصرین کی نظر میں
غیر مطبوعہ و غیر مدون کلام کی تحقق و تدوین
حقی سچی بات تو یہ ہی ہے' کہ انہوں نے بڑی محنت اور کاہش سے اس کام کو
انجام دیا ہے۔ مطالعہ کے دوران ان کی حس جستجو اور سلیقہ سامنے آتا ہے۔ اس
ذیل میں وہ شاباش اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
الله ان کے تحقیقی ذوق کو برکت عطا فرمائے۔
................ |