غالب کے خطوط نے ہمارے ادبی وتہذیبی رویے
میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کردی تھی۔ اُن کے کلام کے توسب ہی متعارف تھے مگر
اُن کا نثری کام بھی تاریخِ ادب میں ایک نمایاں حیثیت اختیار کرگیا ہے۔اُن
کی خطوط نویسی نے آج ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے۔
پہلے پہل تو غالب اپنے خطوط کو شائع کرنے کے مخالف تھے مگر منشی شیونرائن
چاہتے تھے کہ مرزا کے خطوط شائع ہوں،اس سلسلے میں غالب لکھتے ہیں :
اردو کے خطوط جو آپ چھاپنا چاہتے ہیں یہ بھی زائد بات ہے۔ کوئی رقعہ ایسا
ہوگا جو میں نے قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھا ہوگا ورنہ صرف تحریرسرسری
ہے، اُس کی شہرت میری سخنوری کے شکوہ کے منافی ہے اس سے قطع نظر کیا ضرور
ہے کہ ہمارے آپس کے معاملات اوروں پر ظاہر ہوں۔ خلاصہ یہ کہ ان رقعات کا
چھاپنامیرے خلافِ طبع ہے۔ (۱۸نومبر۱۸۵۸ء)
(ادبی خطوطِ غالب، مرتبہ: مرزا محمدعسکری، ص:۴۔۳)
غالب کے اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شروع میں اس بات کے قائل نہیں تھے کہ
عام باتوں کو کسی خاص انداز میں پیش کرکے شائع کیا جائے جس سے اُن کے اور
دیگر لوگوں کے حالات سامنے آجائیں،وہ اس کو پسند نہیں کرتے تھے ۔مگر زمانے
کی ہوا غالب نے بھی محسوس کرلی تھی اور اُنھیں اس بات کا بھی اندازہ ہوچکا
تھا کہ یہ ایک فن ہے جو بعد میں اُن کی پسندیدہ چیز بن گئی اور انھوں نے جو
خطوط اپنے دوستوں اور عزیزوں کو لکھے تھے چھپوانے کی غرض سے منگوائے۔اسی
طرح باباے اردو مولوی عبدالحق نے بھی اس خیال کو پسند نہیں کیا اور کسی کو
ان کی اشاعت کی اجازت نہ دی۔مگر مشفق خواجہ (مرحوم) نے جو باباے اردو مولوی
عبدالحق کے خاص مددگار اور معتمدانجمن ترقی اردو تھے، اُنھیں اس بات پر
راضی کرلیااور ان خطوط کی اہمیت وافادیت کوپیش نظر رکھتے ہوئے ایک بڑا
ذخیرہ اپنے پاس جمع کرلیا۔تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
’’مکتوباتِ باباے اردو بنام حکیم محمدامام امامی‘‘(کراچی۱۹۶۰ء)،’’اردوے
مُصفّا، عبدالحق جوبلی کمیٹی‘‘ (لاہور،۱۹۶۱ء)،’’مکتوباتِ عبدالحق مرتبہ
جلیل قدوائی‘‘(کراچی۱۹۶۳ء)، ’’عبدالحق کے خطوط عبدالحق کے نام‘‘(افضل
العلماء عبدالحق، مطبوعہ کرنول ، بھارت)،’’خطوطِ عبدالحق مرتبہ
محمداکبرالدین صدیقی‘‘(حیدرآباددکن، ۱۹۶۴ء)،’’خطوطِ عبدالحق بنام پیرحسام
الدین راشدی‘‘(کراچی۱۹۶۴ء)، ’’خطوطِ عبدالحق بنام ڈاکٹرعبداﷲچغتائی‘‘
(لاہور ۱۹۷۷ء)،’’خطوطِ عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ (لاہور۱۹۸۴ء)،
’’مکاتیبِ عبدالحق بنام محوی صدیقی لکھنوی‘‘ (کراچی۱۹۸۰ء)‘‘(۱)۔
باباے اردو مولوی عبدالحق کے مکتوبات میں اُردو زبان سے اُن کی محبت اور
فروغِ اردو کے لیے اُن کی کوششیں سب پر عیاں ہیں۔ یہ مکتوبات اردو ادب کے
وہ شہ پارے ہیں جنھیں باباے اردو کے اسلوب اور زبان پر عبور اور عام گفتگو
میں عالمانہ تجاویز، شکوے اور اُن کے حل کے لیے مشورے بھی موجود ہیں۔ خطوط
عموماً لکھنے والے خیالات اور معتقدات کاآئینہ اور اس شخصیت کے کمزور اور
مضبوط پہلو کا عکس ہوتے ہیں۔خط کے ذریعے مکتوب نگاراپنی دلچسپیوں،خوشیوں،
مصیبتوں اور آرزؤں سے آگاہ کرتا ہے۔ باباے اردو کے یہ مکتوب ہمارے تہذیبی،
سیاسی، سماجی اور معاشرتی روّیوں میں زبان کا بہت بڑا حصہ ہیں وہ ہمیشہ
لسانی و صوبائی تعصب سے بالاتر ہوکر قومی زبان کے احیاء کے لیے کوشاں رہے
ہیں۔انھوں نے اپنے خطوط کے ذریعے اہلِ علم و ادب کوجواہم علمی ادبی سرمائے
کی طرف راغب کیا ہے وہ ہمیں غالب کے یہاں بھی تواترسے ملتے ہیں۔
ہم یہاں جو اہم خطوط پیش کررہے ہیں ان سے باباے اردو کی علمی، ادبی اور
انجمن سے دلی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے جو نہ صرف مکتوب نگاری بلکہ انجمن
کے لیے بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
’’قواعدِاردو‘‘باباے اردو کی وہ کتاب ہے جس نے اردو قواعد میں مستند اور
معتبر حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن انجمن ترقی اردو
پاکستان اور کئی ادارے شائع کرچکے ہیں۔اس سلسلے میں عبدالستار صدیقی صاحب
کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
بنام ڈاکٹر عبدالستار صدیقی صاحب(۲)
اورنگ آباد دکن
۱۲۔جون۱۹۲۶ء
میرے شفیق محترم۔ تسلیم
آپ کے عنایت نامے پہنچے ہیں۔ اب تک جواب نہ لکھ سکا۔ ایک ذوقی دکھنی تھا جس
کا ذکر میں نے رسالہ ’’اردو‘‘ میں کیا تھا جس نے ’’حسن ودل‘‘ کے قصے کو
منظوم کیا مگر یہ کوئی دوسرا ذوقیؔ ہے، اس کا پتہ ابھی مجھے نہیں ملا۔ کئی
تذکرے دیکھے، کہیں اس کا ذکر نہیں۔ آپ اس کی غزل ضرور بھیج دیجیے۔ بادۂ کہن
میں درج کردو ں گا۔
میں نے اپنی قواعد میں دوچیزوں کا اور اضافہ کیا۔ ایک اوقاف اور دوسرے عروض
(کیوں کہ عروض بی۔اے کے نصاب میں ہے) اوقاف کے اجزا آپ کے ملاحظہ کے لیے
بھیجتا ہوں۔ براہِ کرم اسے ایک نظر دیکھ لیجیے جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہو
بے تکلف فرمادیجیے۔ جو اوقاف ہم نے طے کیے تھے اُن میں، میں نے ایک ’ہائی
فن‘ کا اضافہ اور کیا ہے۔ اس کے لیے کوئی علامت نہ ملتی تھی۔ میں نے ایک
باریک سا زنجیرہ( ) قرار دیا ہے۔ اگر آپ کوئی بہتر علامت بتاسکیں تو میں
اسے ترک کردوں گا۔
براہ کرم اسے دیکھ کر جلد واپس فرمادیجیے کیوں کہ اس کی وجہ سے قواعدکی
چھپائی رُکی ہوئی ہے۔
عبدالحق
عبدالماجددریابادی ادیب، نقاد اور مذہبی علوم پر دسترس رکھنے والے ایک ثقہ
عالم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اُن کے علمی کارناموں کا ایک
زمانہ متعارف ہے۔ باباے اردو بھی اُن سے ہمیشہ مشورے لیتے رہتے تھے اور اُن
کی علمی استعداد کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے تھے۔ ملاحظہ ہو:
بنام عبدالماجددریابادی صاحب(۳)
۲۴ ہارڈنگ ایونیو
نئی دہلی
۳۰دسمبر۱۹۳۸ء
مکرم وشفیقی بندہ، السلام علیکم
عنایت نامہ پہنچا۔آپ کی اس قدردانی اور قدرافزائی کا بے حد ممنون ہوں۔
اسٹینڈرڈ ڈکشنری پر ضرور ریویو فرمائیے تاکہ اشتہار میں آپ کی رائے درج
کردی جائے، اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کتابیں بہت کم نکلی ہیں۔
اس زمانے میں، میں برابر پھرتا رہا۔ علی گڑھ، الٰہ آباد، پٹنہ، لاہور وغیرہ
کا دورہ رہا۔ ابھی دفترپوری طور پر جما نہیں ہے۔ ایک آدھ مہینے میں سب ٹھیک
ہوجائے گا۔ مددگار کی شدید ضرورت ہے، اس کے نہ ہونے سے اردو لغت کا کام
التوا میں پڑا جاتا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے سراکبرحیدری کو ایک خط
لکھا تھا کہ سیدہاشمی صاحب کی ملازمت پوری پچیس سال کی تصور کرکے انھیں
موجودہ گریڈکا پورا وظیفہ فرمادیں۔ اس کی کارروائی ہورہی ہے۔ یہ ہوجائے تو
مجھے ایک گونہ فرصت مل جائے گی۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی صاحب بھی میرے
ساتھ رہ کر کام کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اب تک وہ آگئے ہوتے مگر جس روز چلنے
والے تھے ان کا پوتا دفعتاًبیمار ہوگیا۔ ان کا آنا ابھی بہت مفید ہوگا
خصوصاً موجودہ حالات کی رو سے۔
یوم اردو کے متعلق مجھ سے اور بھی کئی صاحبوں نے فرمایا کہ اس قسم کی جو
تحریک بھی ہو وہ اصل مرکز سے ہونی چاہیے اور ایک نظم کے ماتحت۔ میں اپنی
زبان سے یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ ’’بہارِادب‘‘ کو لکھ سکتا تھا۔ وہ
شاید اس کے کچھ اور معنی لیتے، لیکن آپ انھیں ضرورتحریر فرمائیے۔
میں نے علی گڑھ میں مرکزی شاخ قائم کردی ہے اور وہاں والے کام کرنے پر
آمادہ ہیں۔ اب پھر جاؤں گا۔
اب میں ’’ہماری زبان‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ پرچہ نکالنے والا ہوں اس
میں ’’افکار و واقعات‘‘ کے طرز کی سب بحثیں ہوں گی۔ نیز اس میں انجمن اور
اس کی شاخوں کے کاموں کی تفصیل بھی درج ہوتی رہے گی۔ کبھی کبھی آپ کو بھی
تکلیف دوں گا۔
آپ دہلی ضرورت تشریف لائیے۔ اور میرے ہی ہاں قیام فرمائیے۔ آپ سے بہت سی
باتیں کرنی ہیں۔
نیازمند
عبدالحق
پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، باباے اردو کے رفیقِ خاص ہیں اور’’کیفیہ‘‘ کے
نام سے لسانی زاویوں پر جوعلمی وتحقیقی نگاہ ہے وہ اس کتاب کے مصنف کی
مرہونِ منت ہی ہے۔سراکبرحیدری باباے اردو سے دلی تعلق رکھنے کے علاوہ
حیدرآباددکن میں اُن کے ساتھ ہرممکن تعاون کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔ہاشمی
فریدآبادی نے ’’پنجاہ سالہ تاریخِ انجمن’’ لکھ کر انجمن کے علمی وادبی
کارناموں کو زندہ رکھا۔اس خط میں ان سب کے ذکر اور ساتھ ساتھ
اسٹینڈرڈڈکشنری،اور ہماری زبان کا ذکر خصوصی طور پر کیاہے۔ ’’ہماری زبان‘‘
جو قیامِ پاکستان کے بعد’’قومی زبان‘‘کی صورت اختیار کرگیا ہے اور ہندوستان
میں آج بھی ’’ہماری زبان‘‘ کے نام سے شائع ہورہا ہے۔ باباے اردو کی انتھک
محنت اور خلوص نیت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی یہ رسائل اپنی پوری آب وتاب سے
جگمگاتے ستارے ہیں۔
انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع ہونے والی کتاب مکاتیبِ عبدالحق بنام محوی
صدیقی جس کو عبدالقوی دسنوی نے مرتب کیاہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
مولانا نے ساری زندگی اردو سے محبت کی، اردو شاعری سے محبت کی، اردو کے
خادموں سے محبت کی، اردو کے عاشقوں سے محبت کی، سارے ہندوستان میں کون ایسا
ہوگا جو اردو کا عاشق ہو اور مولانا کو نہ جانے جو اردو نوازی کا دعویٰ
کرتا ہو اور مولانا سے بے نیاز ہو۔مولانا نے شاعری کے میدان میں فتوحات
کیے۔ تحقیق کے میدان میں کامیاب ہوئے۔ تنقید کے میدان میں قدم جمائے۔ دوسری
زبانوں کے ادب کے ترجمے شائع کیے، رسائل نکالے۔ لغت کی ترتیب و تدوین میں
باباے اردو کی مددکی۔ تقریباً تینتیس تصانیف چھوڑیں جن میں سے اکیس زیورِ
طبع سے آراستہ ہوکر عروسِ ادب کی صورت میں جلوہ گرہوئیں۔(۴)
باباے اردو سے یہ دلی تعلق ہی تھا جو اُنھیں اردو اور باباے اردو سے جوڑے
ہوئے تھا۔اردو کی ہمنوائی میں محوی صدیقی اور باباے اردو ایک دوسرے سے بڑھ
چڑھ کر حصہ لیتے تھے، مگر محوی صاحب کو اس بات کا علم تھا کہ باباے اردو
جیسا اردو کا چاہنے والا کوئی اور نہیں۔اس سلسلے میں باباے اردو اور اُن کے
درمیان خط وکتابت کا تبادلہ ہوتا رہا اور ایک دوسرے کی رائے اور تجویز سے
آگاہی ہوتی رہی۔ایک خط ملاحظہ فرمائیے جو باباے اردو نے ۱۶ جنوری ۱۹۳۴ء کو
لکھا تھا:
بنام مولانا محوی صدیقی(۵)
مقبرہ اورنگ آباد
۱۶جنوری ۱۹۳۴ء
مشفقی محوی صاحب، تسلیم
مقبرہ کا لفظ دیکھ کر آپ کے دل میں ’’ضرور‘‘ پچھلی صحبتوں کا خیال پیدا
ہوگا۔ میں بڑودہ اورینٹل کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تھا، وہاں سے
احمدآباد ، سورت،بھڑوچ، کمبائت وغیرہ کا سفرکیا۔ قدیم کتابوں کی تلاش تھی۔
بعض چیزیں بڑی کام کی ہیں۔ جنوری کے اردو میں ولی کی وفات پر ایک نوٹ
ملاحظہ فرمائیے گا یہ اسی سفر کا ثمرہ ہے۔ اب تک ولی کی وفات تحقیق نہیں
ہوئی تھی اور سب تذکرہ نویس اور دوسرے لکھنے والے پریشان تھے۔ اب یہ مسئلہ
حل ہوگیا۔
میں نے اپنے خطبۂ صدارت کے چار نسخے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمت میں بھیج
دیئے تھے ایک آپ کو بھی یاد ہوگا۔ نہ دیا ہو تو آپ ضروران سے لے لیجیے اور
اپنی رائے سے مطلع فرمائیے۔
یہ خط خاص غرض سے لکھ رہا ہوں افسوس مدراس کے پتے یاد نہیں رہتے نہ زبان پر
چڑھتے ہیں۔ میں نے آپ کا پتہ لکھ رکھا ہے مگر وہ حیدرآباد میں رہ گیا۔
لہٰذا مجبوراً یہ خط مولوی عبدالحق کی معرفت لکھ رہا ہوں۔ اس خط (کے) لکھنے
کی دوغرضیں ہیں۔
۱۔میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق یہاں سے ایک خط سیٹھ محمدجمال صاحب کو لکھا
ہے اور خطبۂ صدارت کی ایک کاپی بھی بھیج دی ہے۔ پتہ ان کا بھی معلوم نہ
تھا۔ اﷲتوکل پر لکھ دیا وہ مشہور آدمی ہیں ضرور پہنچ گیا ہوگا۔ اب آپ مولوی
عبدالحق صاحب سے کہیے کہ حسبِ وعدہ ان سے ملیں اور آپ بھی ان کے ہمراہ
جائیے اور مجھے نتیجے سے اطلاع دیجیے۔
۲۔دوسری غرض یہ ہے کہ میں ایک کتاب تاریخِ ہند کا نسخہ بھیجتا ہوں یہ کتاب
مدراس میں کرسچین کالج سوسائٹی کے مطبع میں چھپی ہے اس کا ٹائپ دیکھ کر میں
بہت خوش ہوا۔ یہ نستعلیق کے قریب ترین ہے اور بہت اچھا ہے اعراب بھی دیئے
ہوئے ہیں۔ آپ براہِ کرم اس سوسائٹی کے مطبع میں جاکر دریافت کریں کہ یہ
ٹائپ اب بھی ان کے پاس ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا وہ بھی دے سکتے ہیں۔ نیز
یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے کہاں سے لیا۔اگر اب وہ یہ کام نہیں کرتے
تو وہ اپنے Matrix بہ قیمت دے سکتے ہیں۔ غرض تمام حالات تفصیلی طور پر
معلوم کرکے مطلع فرمائیے۔ یہ نہایت ضروری ہے۔ اپنے مطبع میں فونڈری قائم
کرنا چاہتا ہوں۔ ٹائپ بہترین ہے، تھوڑی سی ہم خود اصلاح کرلیں اگر اس کے
میٹرکس مل جائیں تو کام ہوجاتا ہے۔ خط ملتے ہی اس کی جستجو شروع کردیجیے۔
دیکھیے تساہل نہ کیجیے گا۔ مدراس کی آب و ہوا افیونی کیفیت رکھتی ہے۔ اس
لیے مجھے ڈر رہتا ہے۔
اچھا یہ فرمائیے کہ میں جو تامل، تلیگو، ملیالم زبانوں پر مضامین لکھوانے
کی درخواست کی تھی اس کا کچھ کام ہوا بھی یا نہیں۔ آپ مینارصاحب اور
عبدالحق صاحب کو یہ یادد لاتے رہیے اُمید ہے کہ اکاڈیمی کا کام بھی ہورہا
ہوگا۔ میں دو تین روز میں حیدرآباد چلاجاؤں گا۔اس کا جواب وہیں لکھیے گا،
ضرور ضرور۔ بچوں کو بہت بہت پیار اور دعا۔
عبدالحق
(واضح رہے کہ یہاں مولوی صاحب ایک دوسرے ہم عصرمولوی عبدالحق کی جانب اشارہ
کررہے ہیں۔)
دورِ حاضر میں نستعلیق خط بہ آسانی دستیاب ہے۔اس کا خط دن بہ دن بہتر سے
بہتر شکل اختیار کررہا ہے، مگر دیکھیے باباے اردو ۱۹۳۴ء میں نستعلیق خط کو
مشینی انداز میں دیکھ رہے تھے اور اُن کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس وقت کے
ٹائپ رائٹرز کے ذریعے نستعلیق خط کو استعمال کیا جاتا، مگر کمپیوٹر کے آنے
کے بعد باباے اردو کی یہ خواہش اپنی تکمیل کو پہنچ گئی ، افسوس کہ وہ اس
جدید نظام کو اپنے آنکھوں سے نہ دیکھ سکے۔
ڈاکٹرعبادت بریلوی اردو ادب کا معتبر حوالہ ہیں۔ وہ باباے اردوسے دلی رغبت
رکھتے تھے۔ڈاکٹرعبادت بریلوی کی دومرتبہ کتابیں ’’خطوطِ عبدالحق بنام ڈاکٹر
عبادت بریلوی‘‘ اور ’’خطوطِ عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداﷲچغتائی‘‘بہت اہم کتب
ہیں۔ڈاکٹرعبادت بریلوی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ خطوط اُن کی زندگی کا بہت بڑا
سرمایہ ہیں۔ اُن پر اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ یہ صرف ذاتی نوعیت کے خطوط
نہیں ہیں بلکہ قومی اور ملّی نوعیت کی دستاویز ہیں جن میں علمی، تعلیمی،
معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے بے شمارمعاملات و مسائل موجود
ہیں۔مولوی عبدالحق ایک خط کے ذریعے ڈاکٹرعبادت بریلوی کو عارضی ملازمت کے
لیے خط لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
بنام ڈاکٹرعبادت بریلوی(۶)
۱۔دریا گنج، دہلی
مورخہ ۳فروری۴۵ء
مکرمی عبادت یار خاں صاحب سلمہ
کل میں نے سیدنورالحسن کی جگہ عارضی طور پر چھے ہفتے کے لیے آپ کا تقرر
کرلیا ہے۔ تنخواہ ان ایام کی فی الحال سوروپیہ ہوگی۔ اس عرصے میں اشتہار دے
کر امیدوار طلب کیے جائیں گے۔ آپ اسے قبول کرلیں اور فوراً یہاں آجائیں
تاکہ کام شروع کردیں۔اس سے آپ کا حق بھی ہوجائے گا۔ عبدالحق
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ باباے اردو کس طرح اہلِ علم کی پذیرائی کرتے
تھے۔ جہاں کہیں اُن کی نظر میں کوئی اہل شخص آیا اُسے اِس کے مراتب کے
مطابق کسی نہ کسی کام کے لیے منتخب کرلیا۔یہ وہ جذبہ تھا جو اُن کے ساتھ
کام کرنے والوں میں بھی موجود تھا اور اُن کے حکم کی بجاآوری کے لیے ہمیشہ
تیار رہتے تھے۔
ڈاکٹرعبداﷲچغتائی کہتے ہیں کہ ’’میرے اور مولوی صاحب کے تعلقات ۱۹۲۲ء سے لے
کر اُن کی وفات تک بدستورنہایت خوشگوار رہے۔‘‘اس عرصے میں اُن کی مولوی
صاحب سے جو خط وکتابت رہی وہ انتہائی دلچسپ ہے جن کے ذریعے باباے اردو کی
اردو زبان کے لیے اُن کی خدمات کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ثابت ہوتے ہیں۔
بنام ڈاکٹرعبداﷲچغتائی(۷)
بنجارہ روڈ، حیدرآباد،دکن
۳؍اکتوبر، ۱۹۳۳ء
حضرت چابک سوار صاحب، السلام علیکم
میں آپ کو چابک سوار اس لیے کہتا ہوں کہ آپ ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار
رہتے ہیں اور اپنے کوڑے ہوا میں پھنکارتے ہوئے اُڑے چلے جاتے ہیں۔ ایک ذرا
سی چٹھی میں سب کچھ کہہ گئے اور دو تین اور خط اس میں لپیٹ کے رکھ دیئے۔
گجرات والے اہل پنجاب سے زیادہ ہوشیار نکلے۔ انھوں نے میرے انکار کو نہ
مانا اور پراسپیکٹس میں میرا نام شائع کردیا۔ ادھر آپ کا اور حضرت شیرانی
صاحب کا اصرار، آخر مجھے چار وناچار جھکنا پڑا۔ آپ نے خطبے کے لیے جو
تجویزیں بیان فرمائی ہیں ان میں بعض باتیں بہت معقول ہیں، لیکن اگر میں ان
پر پورا پورا عمل کروں تو میرا خطبہ سودا کا ہجویہ قصیدہ ہوجائے گا۔ میں
صدارت کے منصب سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ یہ بڑا سنگین منصب ہے اور پھر اس
میں ایک قسم کی نمائش بھی ہے جس سے مجھے چڑ ہے۔ بہرحال اب تو مجھے کچھ کرنا
ہی پڑے گا۔
میں حیران ہوں کہ جوبلی کی نمائش کے لیے میں کیا بھیجوں۔ اگر یہ خط اورنگ
آباد میں ملتا تو کوئی چیزتلاش کرتا۔ اب اورنگ آباد لکھتا ہوں اگر کوئی چیز
نمائش کے قابل ہوئی تو بھجوادوں گا۔
سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بڑودہ میں آپ سے ملاقات ہوگی۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ نجم الامثال کا چوتھا حصہ آپ کو مل گیا۔ پہلے تین
حصے ضرور تلاش کیجیے۔
نیازمند
عبدالحق
میں نے شیخ چاند کو ایک مضمون پڑھنے کے لیے تیار کیا ہے۔ اس نے سودا پر
تھیسس لکھا ہے۔ اس میں سے ایک مضمون تیار کرنے کے لیے کہہ دیا ہے، وہ تیار
کررہے ہیں۔
آپ کے خان صاحب شیخ صاحب کا فرمان لاہور سے نازل ہوا۔ آپ کے ملاحظے کے لیے
منسلک ہے۔ حیران ہوں کہ کیا جواب دوں۔ آپ نے سمجھایا میں نے سر مارا مگر اس
کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔
شیخ چاند باباے اردو کے محنتی اور ذہین شاگرد تھے۔اس خط میں باباے اردو نے
شیخ چاند کا ذکر کیا ہے جنھوں نے ’’سودا‘‘ کے نام سے درجِ بالا مقالہ شعبہ
اردو جامعہ عثمانیہ کے لیے لکھا تھا۔جسے انجمن ترقی اردو نے پہلی بار۱۹۳۶ء
میں شائع کیا۔اس مقالے میں مرزا محمدرفیع سودا کی حیات اور تصانیف اور کلام
پر مفصل وتنقیدی بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چاند شیخ نے باباے اردوکی
خاکوں کی اہم کتاب ’’چندہم عصر‘‘میں بھی تعاون کیا۔
محمداکبرالدین صدیقی نے ’’خطوطِ عبدالحق‘‘کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جو
حیدرآباداردو اکیڈیمی، حیدرآباددکن سے شائع ہوئی۔ یہ خطوط باباے اردو کے
ماتحت کام کرنے والوں کے نام ہیں۔اُن ہی میں سے ایک صاحب ظفرالرحمن ہوا
کرتے تھے جنھیں سیدہاشمی فریدآبادی نے باباے اردو سے متعارف کروایا۔مولوی
صاحب نے انھیں پہلے تو انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے دفترمیں ملازم رکھ
لیا اور پھر مدرسی پر مامورکردیا۔ظفرالرحمن نے باباے اردو کی نگرانی میں
’’فرہنگِ اصطلاحاتِ پیشہ وراں‘‘ جیسے کام میں معاونت کی۔
بنام ظفرالرحمن(۸)
اورنگ آباد دکن
۱۲؍مارچ ۲۳ء
شفیقی ومکرمی زادلطفہ۔ تسلیم
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بہت خوش اور شکرگزار ہوں کہ آپ لغت کا کام بہت
محنت وجانفشانی سے کررہے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ اس کام کو آپ کے سوا
دوسرا کوئی انجام نہیں دے سکتا۔
کتابی تحقیقات کو فی الحال رکھیے، یہ کام بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ
تصاویر کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ اس میں بعض چیزیں ایسی ہوں گی جس کی تصویر
ہر جگہ بن سکتی ہے مگر بعض اشیا ایسی ہوں گی جو شاید یہاں دستیاب نہ ہوں
اور ان کی تصویرنہ لی جاسکے ایسی چیزوں کی تصویریں وہیں بنوالیں۔
زرعی اصطلاحات زراعت کی کتابوں سے فراہم ہوسکتی ہیں مگر یہ اچھا ہے کہ آپ
ایک نظر خود جاکر دیکھ لیں اور وہاں کے پروفیسروں سے ایسی اردو کتابوں کے
نام پوچھ لیں جو مستند ہوں اور ان سے اصطلاحات کے جمع کرنے میں مدد مل سکے۔
…………
نیازمند
عبدالحق
غلام ربانی ، باباے اردو کے فاضل دوست اور عالم تھے۔پیسہ اخبار میں ۱۹۰۸ء
سے لکھنا شروع کیا جو آخروقت تک جاری رہا۔۱۲۔۱۹۱۱ء میں مولانا محمدعلی جوہر
کے ساتھ کامریڈ اور ہمدرد میں بھی معاونت کرتے رہے۔۱۹۳۷ء میں انجمن کے لیے
ایک تاریخ ’’انجمن ترقی اردو کی کہانی‘‘ لکھی جو ایک دستاویزی حیثیت کی
حامل ہے۔ تاریخ ہند، رہنمائے اردو، الفاظ کا مزاج اور پرانی یادگاریں آپ کی
قابل ذکر کتابیں ہیں۔انجمن ترقی اردو حیدرآباددکن کی جانب سے شائع ہونے
والی ’’تلگو اردو‘‘ لغت کی تیاری میں بھی حصہ لیا۔انجمن ترقی اردو پاکستان
نے ’’مضامینِ غلام ربانی‘‘ کے نام سے ۱۹۹۲ء میں ایک کتاب شائع کی۔ غلام
ربانی صاحب کے نام باباے اردوکا ایک خط ملاحظہ فرمائیے:
بنام غلام ربانی(۹)
کراچی
مورخہ یکم ستمبر۱۹۵۶ء
مکرمی غلام ربانی صاحب سلّمہ
آپ کا مضمون پہنچا۔ تہ دل سے شکرگزار ہوں، بہت دلچسپ مضمون ہے۔ اکتوبر کے
رسالے میں شائع کیا جائے گا۔ پاکستان آنے کے بعد ہمارے قدیم کرم فرما کم
ہوگئے ہیں۔ رسالہ اردو کو اچھے مضمون نہیں ملتے۔ آئندہ بھی آپ مہربانی فرما
کر اردو کے لیے ایسے مضمون لکھ کر ممنون کیجیے اور وہاں ممکن ہو تو دوسرے
اصحاب سے بھی حاصل کرنے کی کوشش فرمائیے۔
دلّی میں تھا تو آپ سے کبھی نہ کبھی ملاقات ہوجاتی تھی۔ اب تو یہ توقع بھی
نہیں رہی۔ لہٰذا ملاقات کا ذریعہ مراسلت ہی رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی اپنی
خیروعافیت کی اطلاع دیتے رہیے۔
انجمن کی ’پنجاہ سالہ تاریخ‘ آپ کی نظر سے گزری یا نہیں۔ یہ کتاب انجمن کی
پنجالہ سالہ جوبلی کے موقع پر مرتب کی گئی تھی۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے آپ ہی
نے شروع کیا تھا۔ اگر آپ کو نہ ملی تو لکھیے میں بھیج دوں گا۔ آپ کے پڑھنے
کے قابل ہے کیونکہ انجمن سے جو دلچسپی آپ کو ہے۔ وہ بہت کم لوگوں کو ہوگی
اور سچ پوچھیے تو آپ انجمن کی دایٔ ہیں۔
خیرطلب
عبدالحق
ان خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ باباے اردو کس طرح اہلِ علم کی پذیرائی کرتے
تھے۔اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا اُن حضرات کے ذریعے اردو کی ترقی وترویج اور
اصلاح زبان واصطلاحات کا کام لیتے تھے۔ یقینا باباے اردوکے یہ خطوط تاریخی
حیثیت رکھتے ہیں۔
حواشی
(۱)خطوطِ عبدالحق بنام آل احمد سرور، مرتب: پروفیسر آلِ احمد سرور،انجمن
ترقی ردو پاکستان، کراچی،۱۹۹۸ء، ص۷۔۸
(۲)مکاتیبِ عبدالحق،مرتبہ:جلیل قدوائی، ’’بنام ڈاکٹر عبدالستار صدیقی
صاحب‘‘، اردو اکیڈمی سندھ،کراچی، ۱۹۶۳ء،ص۳۶۔۳۷
(۳)مکاتیبِ عبدالحق،مرتبہ:جلیل قدوائی، ’’بنام عبدالماجددریابادی
صاحب‘‘اردو اکیڈمی سندھ،کراچی، ۱۹۶۳ء،ص۱۹۳۔۱۹۴
(۴)مکاتیبِ عبدالحق بنام محوی صدیقی، عبدالقوی دسنوی،انجمن ترقی اردو
پاکستان، کراچی، طبع اوّل ۱۹۸۰ء، ص ’ل‘
(۵)مکاتیبِ عبدالحق بنام محوی صدیقی، عبدالقوی دسنوی،انجمن ترقی اردو
پاکستان، کراچی، طبع اوّل ۱۹۸۰ء، ص۱۵۔۱۶
(۶)خطوطِ عبدالحق بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی،ترتیب ومقدمہ ڈاکٹرعبادت بریلوی،
ادارۂ ادب وتنقید،لاہور،اکتوبر ۱۹۸۴ء، ص۲۲
(۷)خطوطِ عبدالحق بنام ڈاکٹر عبداﷲچغتائی،مرتبہ ڈاکٹرعبادت بریلوی، مجلس
اشاعت مخطوطات، اورینٹل کالج، لاہور،دسمبر۱۹۷۶ء، (حصہ خطوط) ص۲۔۳
(۸)’’خطوطِ عبدالحق‘‘،مرتبہ: محمداکبرالدین صدیقی، حیدرآباداردو
اکیڈیمی،حیدرآباددکن، ص۲۴
(۹)’’خطوطِ عبدالحق‘‘،مرتبہ: محمداکبرالدین صدیقی، حیدرآباداردو
اکیڈیمی،حیدرآباددکن، ص۲۲۹
|