تحریر: صاعقہ عمران
10دسمبر کو انسانی حقوق کے دن پر بھی کشمیریوں کے انسانی حقوق کا قتل عام
بند نہیں ہوا۔ مذہبی آزادی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں گائے کی قربانی پر
پابندی کو غیرتمند کشمیریوں نے مسترد کردیا تو گھٹیا ذہنیت رکھنے والوں نے
نیا کھیل کھیلا اور مقبوضہ کشمیر میں ایسی ادویات بھیج دیں جن میں گائے کا
پیشاب استعمال ہوا تھا۔ دو قومی نظریہ اسی بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ
مسلمان گائے کی قربانی کرتے ہیں جبکہ ہندو اس کا پیشاب پیتے ہیں۔
بہرحال صرف سال، دن اور تاریخ بدلتی ہے نہیں بدلتا تو مقبوضہ کشمیر میں
کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا طویل دور اور سیاہ راتیں بلکہ سچ تو یہ
ہے کہ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر بھارتی فوجی جبری قبضے سے لیکر آج تک
کشمیریوں کیلئے بھارتی فوج کے مظالم کا تسلسل اور وادی میں نسل کشی و قتل و
غارت جاری و ساری ہے۔ ہر سال نہ صرف کنٹرول لائن کے آر پارکشمیری بھارتی
فوج کے جبری قبضے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے کے لئے قاتلانہ
کارروائیوں کیخلاف یوم سیاہ مناتے ہیں بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں بھی
27 اکتوبر کو کشمیری اور پاکستانی یوم سیاہ منا کر عالمی برادری کو متوجہ
کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کشمیر بھارتی ناجائز قبضے کے خاتمے کے لئے
اپنا وعدہ پورا کرے اور اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد
کرے۔ یہ الگ بات کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی
پامالیوں کو بڑی طاقتیں اور عالمی برادری انسانوں کی بجائے مسلمانوں کا
مسئلہ جان کر دوہرے معیار اور تعصب کا کھلا مظاہرہ کرتی آ رہی ہیں۔ ’’جرم
مسلمانی‘‘ میں مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کا معاملہ، فلسطینیوں پر
اسرائیلی مظالم اور غزہ کی ناکہ بندی یا قاتل آرمینین فوج کے ہاتھوں
آذربائیجانیوں کا قتل عام آج تک عالمی ضمیر کو نہیں جھنجھور سکا نہ ہی
مسلمانوں کی قاتل بھارتی، اسرائیلی اور آرمینین افواج کی قیادتوں اور
حکومتوں کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا گیا آخر
ایسا کیوں اور کب تک ہوتا رہے گا؟
ہردفعہ صرف سال کی تبدیلی کے بعد بھارتی فوجی قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے
بارے میں روایتی موقف کا اعادہ کشمیری قائدین پورے جوش و خروش سے کرتے ہیں
اور مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے حصول آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم
بھی۔
ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ اس کی 8 لاکھ فوج اور کالے قوانین کی
وجہ سے ہے۔ آج بھارت فوج نکالے اور خونی قوانین کو منسوخ کرے تو بھارت کو
پتہ چل جائے گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق
چاہتے ہیں جس کے لئے انہوں نے پچھلی 6 دہائیوں سے ان گنت قربانیاں دی ہیں
مگر بھارت اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیر پر قابض ہے۔ 8 لاکھ فوج کا
مطلب ہے کہ 7 صحت مند کشمیریوں کے لئے اسلحہ سے لیس ایک بھارتی فوجی۔ بھارت
نے مقبوضہ ریاست کو ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ کالے قوانین رائج ہیں اور
بھارتی بہادر سپاہ بھی ان قوانین کی چھتری تلے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہے۔
اس لئے کالے قوانین کی منسوخی کے سخت خلاف ہے۔ نہ صرف بین الاقوامی بلکہ
بھارتی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی بھی پبلک سیفٹی ایکٹ اینڈ
آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے خونی کالے قوانین کی منسوخی کے لئے کہہ
رہی ہیں چند دن پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی مشہور تنظیم نے ایک بار پھر اس
کو منسوخ کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ دونوں قوانین بھارتی فوج کو عدالتی
کارروائی سے ماورا کر دیتے ہیں۔ سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی کشمیری کو 2 سال کے
لئے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید کیا جاسکتا ہے اور 2 سال کے بعد
دوبارہ نئے سرے سے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ یوں سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سپیشل
پاور ایکٹ کے تحت فوج کا کوئی ادنیٰ اہلکار کسی آدمی کو مار سکتا ہے یا
کوئی جائیداد تباہ کرسکتا ہے۔
اگر اقوام متحدہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے سے قاصر ہے تو آخر اس ادارے
کا فائدہ کیا ہے؟ اگر دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا روایتی اصول
ہی کار فرما رہنا ہے تو پھر اقوام متحدہ کے ادارے کی بقاء کا کیا جواز ہے؟
اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کا حل رائے شماری تجویز کیا تھا جس سے پاکستان
اور بھارت دونوں نے اتفاق کیا تھا۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے 13 اگست 1948ء
اور 5 جنوری 1949ء میں متفقہ طور پر قراردادیں منظور کی تھیں کہ کشمیر میں
آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں استصواب رائے کرایا جائے گا کہ وہ
پاکستان یا بھارت کسی ایک سے الحاق کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔ ان قراردادوں
سے پاکستان اور بھارت دونوں نے اتفاق کیا تھا لیکن بعد ازاں بھارت نے ان پر
عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ اب یہ اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ بھارت کو مجبور
کرکے اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام
اپنی تین نسلیں آزادی کی نعمت پر قربان کرنے کے باوجود مضبوط، خوشحال،
جمہوری پاکستان کو اپنی اُمیدوں، آرزؤں اور قربانیوں کا ثمر تصور کرتی ہے
جس طرح کشمیر سے بہنے والے دریاؤں، ہواؤں، آبشاروں کا قدرتی بہاؤ بھی
پاکستان کی طرف ہے۔ اسی طرح جدوجہد آزادی میں مصروف آزادی پسند نوجوانوں،
ماؤں، بہنوں، بوڑھوں بچوں کے سینوں سے بہنے والے خون ناحق کا رُخ بھی
پاکستان ہی کی طرف ہے۔ |