آرمی پبلک سکول کے ننھے شہداء کا لہو امن کی خیرات
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
شریک چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار کی خصوصی تحریر
آرمی پبلک سکول کے ننھے شہداء نے اپنے خون سے امن کی داستان لکھی ۔سولہ
دسمبر سانحہ پشاورکی یاد کا دن۔ یہ دن اِس سانحے کے حوالے سے کہ ننھے شہدا
کے والدین کے دل پہ گزرنے والے احساس کے حوالے سے ایک ایسا دن ہے کہ ایک
سال گزرنے کو ہے اور اِن ننھے شہداء کے خون کی قربانی کے طفیل اﷲ پاک نے
پاکستان میں دہشت گردی کے وہ سائے جو لمبے ہوتے جارہے تھے اُن کو کافی حد
تک قابو کیا ہے۔ اور ضرب عضب آپریشن نے بہت بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔اﷲ پاک
نے اِن ننھے شہداء کے لہو کی لاج رکھی ہے اور ملک میں بہت حد تک امن قائم
ہوا ہے۔ یقینی طور پر یہ امر بہت تکلیف دہ ہے کہ دہشت گردوں نے جس طرف ننھے
بچوں کو شھید کیا ۔ اور جس طرح کی چنگیزیت روا رکھی۔اِس نے ہر پاکستانی کو
مغموم کر دیا۔ جس ہولناک انداز میں ننھے بچوں کو شھید کیا گیا روح اُس کے
تصور سے کانپ اُٹھتی ہے۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریش ضرب عضب تو
پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ننھے بچوں کے خون نے اِس آپریشن میں اپنے
لہو کا حصہ ڈال کر امن کا تحفہ اپنے ہم وطنوں کو دیا۔ننھے بچوں کے قربان
ہونے کے دلخراش المیے نے پوری قوم کو ایک ایسے دُکھ میں مبتلا کیا ہے کہ
اِس المیے کی یاد سوہانِ روح بننی ہوئی ہے۔ ماؤں کے جگر چھلنی ہیں کہ اُن
کے لاڈلوں کو اُن سے جُدا کر دیا گیا۔ امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی
شہادت نے جس طرح اسلام کی تجدید فرمائی تھی اِسی طرح آرمی پبلک سکول کے
ننھے شھہدا کی قربانی نے پاکستان کی تجدید کی ہے۔ پاکستان کو ایک نئی زندگی
سے نواز ہے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے اتنے پیارئے پیارئے ننھے پھولوں
کے خون نے ارض پاک کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے پیش کیا۔ اﷲ پاک کو شائد
اِس المیےء کے پس منظر میں جو قربانی دی گئی اُس پر پاکستان پر رحم آیا اور
اﷲ پاک نے امن کی خیرا ت سے نوازا۔ اﷲ پاک کی عطا کردہ طاقت سے جنرل راحیل
شریف کی قیادت میں اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرنے والی پاک فوج نے جس طرح وطن
پاک سے دہشت گردی کا صفایا کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دی ہیں اُس کے لیے
پوری قوم پاک فوج کی احسان مند ہے۔پاک فوج نے دہشت گردی کا سبب بننے والے
محرکات کو کامیابی سے کچل دیا ے۔ اور اِس حوالے سے مزید کاروائی جاری ہے۔اس
دکھ کی گھڑی میں تمام ملت کی مائیں بہنیں،بیٹیاں ان معصوم شھداء کے خانوادے
کیساتھ کھڑی ہیں،یہ ظلم ڈھانے والے ظالم، انسان نما وحشی درندے ہیں،زمانہ
جہالیت کی یاد دلاتے یہ ملعون، جنھوں نے معصوم جانوں کویوں بے دردی سے
مارڈالا․نہ ہاتھ کانپے ان ظالموں کے نہ دل لرزا، نہ روح کانپی،یہ معصوم
ننھے مجاہد، یہ علم کے پروانے یہ امید کی کرنیں،باخدا یہ صرف بچے ہی قتل
نہں ہوئے بلکہ ہمارا مستقبل ذبح ہو گیا ہے، امیدیں تاریک ہوگیئں ۔ علم قتل
ہوگیایہ ایسا ظلم ہے کہ اس ظلم پہ پوری انسانیت شرمندہ ہے․ آج بھی انُ
ملعون ابنِ ملعون کی نسلِ یزیدموجود ہیں جنھوں نے کربلا میں معصوم علی
اصغرکو شھیدکیا تھا، آج بھی ان یزیدوں نے ان معصوم مجاہدوں کواپنا نشانِ
ظلم بنایا ہے․بس پہلے بھی تیر و تلوار و خنجر تھے اب بھی تلوار و خنجر کے
ساتھ کتنے ہی نازک گلے تھے جو تہہ تیغ کر دیئے گئے․ پہلے تیروں کی برسات
تھی اور اب آسماںِ ستم نے معصوم و نازک پھول جیسے بدنوں پر گولیوں کی برسات
دیکھی۔ یہ نقصان صرف خانواداہء شھداء کاہی نقصان نہیں بلکہ پوری پاکستانی
ملت و قوم کے ایک ایک فرد کا نقصان ہے․بحیثیت قوم یہ پورے ارضِ پاک کا
نقصان ہے۔بحثیت پوری قوم و ملت یہ دن انتہائی اذیت ناک دن ثابت ہوا جب
مائیں بے حواس اپنے راج دلاروں کو اسکول کے باہر تلاش کرتے ہوئے ٹرپتی پھر
رہیں تھیں اور کہیں بے چین ہوکر باپ ہر ایک سے اپنے معصوم پیاروں کا پوچھتا
پھر رہا تھا، یہ مناظر بے انتہا کرب و ازیت کے مناظر ہیں، الفاظ نا کافی
ہیں اس دکھ کی گھڑی کو بیان کرنے کے لیے یہ دکھ پاکستانی قوم کبھی بھلا نہ
سکے گی دل کی ہرایوں سے ان ننھے و معصوم مجاہدوں کے والدین کو تعزیت پیش
کرتے اور ان کے راج دلاروں کے اس جہاد پر انھیں سلام پیش کرتے ہیں کہ کس
طرح ان کے بچوں نے امن کی راہ میں اپنے لہو سے دیپ جلا کر علم ک شمع کو
روشن کیا اور جامِ شھادت نوش کیا․
کیوں نہیں حکومتی صفوں سے ان ناسوروں کا خاتمہ کیا جاتاجو درپردہ کبھی دہشت
گردوں کی جیلوں سے فرار پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو کبھی سزاِئے موت پر
عمل درآمد پر روکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں․ اگر سزائے موت کے مجرموں کو سزا مل
گئی ہوتی تو یوں ارضِ پاک معصوم بچوں کے پاکیزہ خون سے لہو لہان نہ ہوتا․کیا
اب بھی کوئی ثبوت باقی ہے بتانے کے لیے کہ کون کون ہے ان دہشتگردوں کی
سرپرستی کے لیے،وہ تمام نام نہاد خود ساختہ علماء جو مسلسل خاموشی اختیار
کیے ہوئے ہیں،وہ تمام جماعتیں جو طالبان سے ہمدردی کا مسلسل اظہار کرتی
رہیں․یہ استعماری طاقتیں ہیں جو ان دہشتگردوں اور حکومتی عناصر کو اپنا آلہ
کار بنا رہی ہیں․ہم ملت تشیع مسلسل آوازِ حق بلند کر رہی ہے اور کرتی رہے
گی․پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے نتیجے میں جان کی بازی
ہارنے والے بچوں کے والدین حکومت کی جانب سے حملے کی تحقیقات پر غیر مطمئن
ہیں اور انھوں نے سانحہ پشاور کے ایک سال مکمل ہونے پر منعقد کی جانے والی
تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ہے․یہ تو ذکر تھا قربانیوں
کا۔ اب آئیے دیکھیں کہ ایک سال گزرنے کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہداء بچوں
کے والدین کیا محسوس کر رہے ہیں اور وہ اِس وقت کس کرب میں مبتلا ہیں۔پشاور
پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اے پی ایس شہداء فورم کے صدر کا
کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث 4 افراد کی پھانسی، دہشت گردی کے واقعے کا شکار
ہونے والوں کے والدین کو مطمئن نہیں کرسکتی اور انھیں مجرموں کی شناخت کے
حوالے سے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ والدین کس طرح
سے حکومت کے موقف پر یقین کرسکتے ہیں جبکہ آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد درج
کی گئی ایف آئی آر میں بھی جھول تھے․اُن کا کہنا تھا کہ ملزمان کی تعداد
اور شناخت میں بہت تضاد ہے، ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا کہ مجرموں کو
پھانسی صرف والدین کے درمیان پھیلی بد امنی اور تحفظات کو کم کرنے کے لیے
دی گئی․ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی حملہ آور
اور ان کے پیچھے موجود عناصر کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا․انھوں نے
کہا کہ حملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام والدین کا ایک اہم
مطالبہ تھا اور اگر اسے قبول نہیں کیا گیا تو وہ تمام ایوارڈز اور ان کے
بچوں کی بہادری پر دی گئی حکومتی مالی معاونت واپس کردیں گے․اے پی ایس حملے
میں جان کی بازی ہارنے والے دیگر بچوں کے والدین کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے
کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے خاندانوں
کو اس بات کی امید تھی کہ حملے میں ملوث افراد کو انصاف تک پہنچایا جائے گا،
لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا․انھوں نے مزید کہا کہ نہ تو صوبائی اور نہ ہی
وفاقی حکومت غمزدہ والدین سے کیے گئے عہد کو پورا کرنے میں سنجیدگی دکھا
رہی ہے․
اے پی ایس شہداء فورم کے صدر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ کوئی دہشت گردی کا
معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس نے پوری قوم کو ایک شاک میں مبتلا کردیا، جس
کے دوران 153 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جن میں زیادہ تر
اسکول کے بچے تھے۔․افضل خان نے کہا،‘ہم حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار
تک پہنچانے کے حوالے سے حکومتی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں․’
انھوں نے آرمی پبلک اسکول میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کے نام پر
اسکولوں کو نام دیئے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سلسلے
میں مشہور اور مستند اداروں کو نہیں چنا گیا اور آرمی پبلک اسکول کے
تقریباً 24 طلبا کو نظر انداز کردیا گیا․اے پی ایس شہداء فورم کے صدر نے
دعویٰ کیا کہ 45 سے زائد خاندانوں نے مطالبات قبول نہ کیے جانے کی صورت میں
16 دسمبر کو منعقد کی گئی تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ اور حکومت کی
جانب سے دیئے گئے ایوارڈز اور مالی معاونت کی واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔پوری
قوم کو چاہیے کہ آرمی سکول کے شہدا کے تحفظات کو دور کرئے اور حکومت بھی
اِس حوالے سے اِن دکھی والدین کو مطمن کرئے۔ اﷲ پاک اِن ننھے شہدا کے طفیل
پاکستان میں امن قائم کرئے۔ آمین |
|