قوم نما مخلوق

 چین کے شہنشاہ نے لاؤزے کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا ۔ لاؤزے نے بادشاہ کو سمجھایاآپ نے مجھے چیف جسٹس بنایا توآپ پچھتائیں گے اشیاء کو دیکھنے ،پرکھنے اور سمجھنے کے میرے طریقے آپ کے طریقوں سے بالکل مختلف ہیں۔بادشاہ مُصررہا اس نے لاؤزے کی دانائی کے بہت قصے سنے تھے۔ پہلے روز اس کے پاس جو مقدمہ آیا وہ ایسے فرد سے متعلق تھا جس کو ایک امیر آدمی کے گھر سے چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔گواہ موجود تھے۔ چور نے اعترافِ جرم کر لیا ۔چوری اس نے گھر کا راشن خریدنے کے لئے کی تھی۔لاؤزے نے اپنا مشہور فیصلہ سنایا جو حکمت سے بھر پور تھا ۔ایسا فیصلہ نہ پہلے کبھی ہو ا نہ بعد میں۔فیصلہ یہ تھا چور جیل میں چھ ماہ کے لئے جائے گا اس کے ساتھ امیر آدمی بھی چھ ماہ کے لئے جیل جائے گا۔تمام لوگ فیصلہ سن کرششدر رہ گئے ۔اس میں امیر آدمی کا کیا قصور ہے ؟ لاؤزے نے امیر آدمی سے کہا:ـــاصل مجرم تم ہو چور کی حیثیت ثانوی ہے ۔اصولاََ تمہاری سزا ایک سال ہونی چاہیے میں رعایت سے کام لے رہا ہوں۔تم نے بہت دولت جمع کر رکھی ہے تمہاری وجہ سے ہزاروں افراد بھوک وافلاس کا شکار ہو رہے ہیں ۔یہ آدمی پیسے چرا نہیں رہا تھا اپنا حق لے رہا تھا۔ بڑے چور تو تم ہو۔امیر آدمی نے بادشاہ سے کہا جلد یا بدیر تم بھی میرے ساتھ جیل آؤ گے سب سے زیادہ دولت مند استحصال کرنے والے تم خود ہو۔لاؤزے کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔قصور وار کون ہے؟ چور! جو راشن خریدنے کے لئے چوری کرنے پر مجبور ہوا یا پھر غیر مساوی نظام ،جس نے اسے چور بننے پر مجبور کیا ؟دو دن قبل محلے کی جامع مسجد سے چور ٹوٹیاں اتار کر لے گیا اور ایک پرچی چھوڑ گیاجس پر لکھاتھا میں چوری نہیں کرناچاہتا مجھے فیس دینے کے لئے پیسے چاہئیں۔کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرم آتی ہے جیسے ہی میرے پاس پیسے آئیں گے مسجد کے غلّے میں ڈال دوں گا۔ قصور وار کون ہے؟ چور!جس نے فیس دینے کے لئے ٹوٹیاں چُرائیں یا پھر غیر مساوی نظام جس میں تعلیمی سہولیات میسرنہیں۔سُودی نظام کے ستونوں پرکھڑاہمارے ملک کامعاشی ڈھانچہ محنت کشوں،غریبوں کے استحصال کی مکمل داستان ہے۔اس غیر مساوی، سُودی، معاشی نظام کا فوری اثر دو طبقے پیدا کرتا ہے۔ امیر:امیرسے امیر تر، غریب :غریب سے غریب تر۔اس وقت ہر معاشرے میں سودی نظام کے استحصالی اثرات کو لے کر بے چینی پائی جا رہی ہے۔ دنیا کی7ارب آبادی میں تقریباََ4ارب لوگ غذائی قلت کا شکا رہیں۔ پاکستان میں اس وقت 74فیصد غربت ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ لوگ سطح غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔8کروڑ سے زائد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں1 ارب لوگ صاف پانی سے محروم ہیں پاکستان میں44 فیصدلوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک میں ایک طبقہ مڈل کلاس لوگوں کا دیکھنے میں آتا ہے جو نجی شعبہ جات میں خدمات سر انجام دے رہے ہوتے ہیں یہ لوگ امیر یا بزنس مین نہیں ہوتے اپنی محنت سے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر تے ہیں۔ بدقسمتی سے سود میں لپٹے ہمارے معاشی نظام نے اس طبقے کو اپنی موت آپ مار دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی ہر سال جون میں کچھ شنوائی ہو جاتی ہے لیکن نجی شعبہ جات کے ملازمین ومزدور براہ راست پِس کر تیزی سے سطح غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ جمہورریت آزاد جمہوری نظام کو کہتے ہیں جس میں عوام کو روزگار ،صحت ،تعلیم اور رہائشی سہولیات مہیا کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جس کے بدلے ریاست عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے ۔گورنمنٹ 40ارب کے نئے ٹیکس لگاتی ہے کہتی ہے اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا جب کہ یہ ٹیکس روز مرہ کے استعمال کی بنیادی اشیاء پر لگائے گئے ۔یہ اضافی ٹیکس نچلی سطح پر عام آدمی تک پہنچتے ہوئے 80 سے 100گُنا ہو جائیں گے۔عام آدمی وہ مزدور ہیں جو سندر فیکٹری کے ملبے تلے آ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کاغذات میں ان کی تنخواہ 7 سے 8ہزار درج تھی ایسے عام مزدور ہر چھوٹے بڑے شہر میں پائے جاتے ہیں۔کھانے پینے والی اشیاء کی دن بدن بڑھتی ہوئی قیمتیں دیکھیں تو عام آدمی اتنی معقول تنخواہ میں اپنے خاندان کی غذائی ضروریات پوری کرنے سے قاصرہے بچوں کو تعلیم دلانا محض خام خیالی ہے۔گزشتہ سروے کے مطابق 25ملین سے زائد 6سے 14سال کی عمر کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ شرح خواندگی کی رفتار 54 فیصد پر اٹکی ہے۔ ایسے میں کوئی غریب بچہ رینگتے ہوئے سکول تک پہنچ جائے ۔فیس دینے کے لئے اسے مسجد کی ٹوٹیاں بیچنی پڑیں تو قصوروار کون ہو گا؟ ہم ایسی ریاست کے باسی ہیں جہاں تعلیم کا بجٹ وزراء کے سالانہ پروٹوکول بجٹ سے کم ہوتاہے۔اورہم آزادجمہوری نظام کے خواب دیکھتے ہیں۔جمہوری نظام کا تجربہ ان ممالک میں کامیاب نظر آتا ہے جہاں شرحِ خواندگی 80فیصد کی سطح سے اوپر ہو پڑھے لکھے با شعور لوگ انتخابی عمل کو ملکی مفاد کے پیش نظر دیکھتے اور سمجھتے ہوں ۔جہاں غذائی اشیاء سستے داموں عام آدمی کو میسر ہوں۔ بنیادی تعلیم سے کوئی بچہ محروم نہ ہو ۔وہاں جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچتے ہیں۔جس دیس میں انتخابی عمل کی حیثیت خاندانی سیاست ہوجہاں پر ووٹ ملکی مفاد کی بجائے شخصی، خاندانی اور ناجائز مفادات کو تحفظ دینے کے لئے دیا جاتا ہو۔جہاں بھوک وافلاس میں ڈوبے لوگ فاقوں کا شکار ہوں۔ صحت و تعلیم کی سہولیات دسترس سے باہر ہوں۔جس معاشرے میں عوام کی غالب اکثریت غذائی قلت کا شکارہو۔ نصف آبادی کوپینے کا صاف پانی میسر نہ ہو۔وہاں لوگوں کو جمہوریت کی نہیں بنیادی ضروریات پوری کرنے کی فِکرہوتی ہے ۔ایسا معاشرہ معاشی،سماجی و اخلاقی طورپربیمار کہلاتاہے۔ بیمار معاشرے میں لوگوں کے شعور پر توجہ دے کر انہیں تعلیم یافتہ کیا جاتا ہے۔ انہیں روزگار مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کی صحت پر توجہ دی جاتی ہے ایک صحت مند جسم صحت مند خاندان کی نشانی ہوتا ہے صحت مند خاندان سے صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔تیزی سے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضہ جات وافراطِ زرکی لپیٹ میں جکڑے معاشرے کوانتخابی عمل کا چُورن دے کر تبدیلی کے خواب دکھانا ایک دلفریب دھوکے کے سواکچھ نہیں ۔ایسے معاشرے میں تبدیلی انتخاب سے نہیں انقلاب سے آتی ہے۔
Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 75665 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.