اساتذہ کرام سے ملاقات کی سبیل
(Amir jan haqqani, Gilgit)
میری زندگی کے سات بہترین سال جامعہ
فاروقیہ کراچی میں گزرے ہیں۔میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ اب تک کی تیس سالہ
زندگی کے بہترین دن گلشن سلیمی میں گزرے ایام ہیں۔یہ درجہ خامسہ کی بات ہے
کہ ہمارے شعبہ معہد اللغة العربیہ(عربی ڈیپارٹمنٹ) میں ایک طالب علم وارد
ہوئے۔شعبہ عربی میں تمام تر تعلیم و تدریس اور لکھت پڑھت عربی زبان میں
ہوتی ہے لیکن یہ نوارد ، اردو کا زیادہ ذوق رکھتا تھا۔ اور یہی خبط مجھے
بھی تھا اس لیے جلد ہی ہماری دوستی ہوئی اور ہم نے اردو ادب کے حوالے سے
طویل گفتگوئیں کی۔ جامعہ کے شعبہ دیواری مجلات کی صحافت میں، میں پہلے سے
ایکٹیو تھا۔ ایک مجلہ''ماہنامہ طلوع سحر'' میری ادارت میں نکلتا تھا ۔ اور
دوسرامجلہ''ماہنامہ تعمیر ملت'' برادرم ابراہیم عابدی کی مشاورت و ادارت
میں نکلتا رہا۔یہ سلسلہ کئی سال چلا۔ہمارے بعد دوسرے طلبہ نے ان مجلات کی
ادارت سنبھالا۔ دینی مدارس میں دورہ حدیث کا سال انتہائی اہمیت کا حامل
ہوتا ہے۔ کلاس فیلوز کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ بڑ ے اساتذہ کے ساتھ
تعلق بھی مشکل ہوجا تاہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے برادرم ابراہیم
عابدی سے ایک آئیڈیا شیئر کیا ۔ آئیڈیا یہ تھا کہ اساتذہ کے حالات زندگی
اور ان کی لیکچرز پر مبنی ایک مختصر کتاب ترتیب دی جائے اور دورہ حدیث کے
ساتھیوں کے ایڈرسز اور رابطہ نمبرز بھی کتاب کا حصہ بنایا جائے۔ پھر کیا
تھاعابدی صاحب نے اس نہج پر کام کیا اور بہت قلیل عرصے میں ایک بہترین کتاب
مرتب کی اور دورہ حدیث کے سال کے اختتام سے پہلے پہلے کتاب چھپ کر تقسیم
ہوئی اور اپنے لیے خوب جگہ بنالی۔ اب کی بار دوبارہ کتاب کو نئے سرے سے
ترتیب دیا۔ بہت ساری چیزوں میں اضافہ کیا۔ بالخصوص استاد محترم حضرت مولانا
سلیم اللہ خان دامت برکاتہم( شیخ الحدیث وبانی جامعہ فاروقیہ و صدروفاق
المدارس العربیہ پاکستان) کے حوالے سے بہت سی خوبصورت معلومات اور حضرت کے
ارشادات کتاب کا حصہ بنایا۔ عابدینے مجھے حکم دیا کہ ''کتاب کو پڑھ کر کوئی
تبصرہ کریں''۔کتاب کی نیو اٹھان دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔میرے جیسے ہزاروں
میل دور رہنے والے طلبہ کے لیے یہ کتاب واحد سبیل ہے جس کے ذریعے اپنے کبار
اساتذہ سے ملاقات ممکن ہے۔کتاب کی مطالعہ نے طالب علمی کے حسین ایام یاد
دلائے۔ اپنے اساتذہ کرام کے پرنور چہرے دل و دماغ کی سکرین پر نمودار
ہوئے۔اساتذہ کے حالات، ان کی علمی ظرائف اور چٹکیاں اب بھی ہنسنے پر مجبور
کررہی ہیں۔ دورہ حدیث کے سال کے اساتذہ کرام کی نصائح کا بڑا حصہ بھی کتاب
میں شامل کیا گیا جو بہت مناسب ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع ہورہا
تھا تو عابدی صاحب نے مجھ طالب علم سے کتاب کے لیے ایک تقریظ لکھوائی
تھی۔میں نے انہیں دورہ حدیث کا ادبی لیجنڈ (Legend) قرار دیا تھا۔میں آج
بھی اپنی اس رائے کو براقرار رکھتے ہوئے انہیں اپنے دورہ حدیث شریف کے
ساتھیوںکا ادبی جھومر کہتا ہوں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پانچ سو سے زائد صاحبان
درس میں واحد عابدی ہے جو قلم کے ساتھ رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔تاہم کچھ دوستوں
نے دو چار کتابیں جمع کرکے پانچویں کتاب تیار کرلی ہے لیکن ایسی کتابوں کی
عمر اور ادبی وقعت زیرو فیصد ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ عابدی صاحب کہ یہ
نئی کتاب بھی خوب پڑھی جائے گی۔ان کا تحریری اسلوب خوب ہے۔ تحریر میں
شائستگی اور سنجیدگی بھری ہوتی ہے۔میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کا طرز تحریر
نہ خشک ہے کہ بندہ اکتاجائے اور نہ اتنا فحش ہے کہ سنجیدہ لوگ پرے پھینک
دیں۔خشک صوفیانہ اسلوب اور فحش ادیبانہ انداز سے انہوں نے اپنے آپ کو بچا
رکھا ہے جو شاید آج کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔عابدی کی کاوش کو اساتذہ
کرام تحسین بھی نظر سے دیکھیں گئے اوردعائیں دیں گے۔
میں اپنے تمام دوستوں سے اور جامعہ فاروقیہ کے طلبہ وفضلاء اور کتاب دوست
انسانوںسے گزارش کرتا ہوں کہ ایک دفعہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔میں آپ
کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کتاب آپ کو بہت کچھ دے گی۔ثابت قدم رہنے کا اسلام
میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے آپ میں ثابت قدم رہنے کے جراثیم
پیدا ہونگے، برابر متحرک اور سرگرم رہنے کا جذبہ بیدار ہوگا، انتظار کی
گھڑیاں کتنی لمبی ہوں مگر آپ میںجہد مسلسل اور ہمت نہ ہارنے کا عزم برابر
بڑھتا رہے گا اور آپ اپنے لیلائے مقصود سے ہمکنار ہوکر رہیں گے۔آپ میں
قربانی کا جذبہ بھی بیدار ہوگا۔ اپنے لیلائے مقصود کے لیے جان، مال، وقت
اورزندگی غرض اپنی کُل کائنات صَرف کرنے کا شوق پیدا ہوگا۔مغربی افکار و
تہذیب کے مسحور کن بلکہ تباہ کن نعروں کی زد میں آنے والے نوجوان نسل کی
اصلاح کا سبب بھی بن جائے گا جو اکابرین کی پگڑیاں اچھالنے میں پیش پیش ہے۔
آپ کو اپنے اساتذہ سے ملوائے گی۔طالب علمی کے حسین ایام کو یاد دلائی گی۔
اور آپ کو احساس بھی دلائی گی کہ کیا واقعی آپ نے اپنی عملی زندگی میں کچھ
کیا ہے کہ نہیں۔مجھے مکمل امید ہے کہ اس کتاب کو اہل فکر و نظر اور صاحبان
بست و کشاد میں خصوصی پذیرائی نصیب ہوگی۔یہ کتاب کبار اساتذہ کی گلہائے
رنگا رنگ زندگی کے مضامین کا ایک ایسا حسین گلدستہ ہے جو روح و قلب اور دل
و دماغ کو برسوں معطر کرتا رہے گا۔
ایک ترقی پذیر قوم کے لیے بے تحاشا عزم ویقین اور ابے پناہ جوش و جذبے کی
سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔قرآن کریم نے کسالت پسند اور بے جان قوم میں
زندگی کی امنگ، یقین و عزم کا ولولہ پیدا کرنے کا باربار حکم دیا ہے۔ اور
اس نے ناامیدی کو گمراہی اور یاس کو کفر کہا ہے۔تو اس کتاب میں اساتذہ کرام
بالخصوص رئیس المحدثین شیخ سلیم اللہ خان دامت فیوضہم کی نصائح اور
الوالعزم کہانیاںاور پُرکیف اور پُرکھٹن زندگی کا مطالعہ ہماری زندگی بدلنے
میں مفید ثابت ہونگی اور ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ انڈیا کا ایک مہاجر
پاکستان میں کیسے سب سے بڑا شیخ اور مرجع خلائق بنا اور کن کن گھاٹیوں سے
گزر کر لیلائے مقصو د سے ہمکنار ہوا۔فاعتبرو ا یا اولی الابصار۔
بہر صورت ہزاروں میل دور گلگت بلتستان کے ایک دورہ افتادہ گاؤں کے باسی
(امیرجان حقانی) کی برادرم عابدی کے لیے دل سے دعائیں نکل رہی ہیں کہ انہیں
کی توسط سے آج اساتذہ کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہورہی ہے۔ یا اللہ میرے اساتذہ
کرام ، جامعہ فاروقیہ اور برادرم عابدی کو اپنے خصوصی فضل وکرم سے نوازے۔
امین یارب العالمین
بتاریخ: تین دسمبر دوہزار پندرہ
|
|