قومی اسمبلی میں سائبر کرائم بل کی منظوری.... مثبت پیش رفت
(عابد محمود عزام, Karachi)
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دورحاضر انسانی
زندگی کا ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے۔ ماضی میں جن حیران کن ایجادات کو چشم
تصور میں لانا بھی ناممکن تھا، آج وہ حقیقت کا روپ دھارکرہماری زندگی کا
اہم حصہ بن چکی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی
شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکر دیا ہے۔ انٹر نیٹ ان ترقیاتی
شکلوں میں سے ایک ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا نے ایک گلوبل گاﺅں کی شکل
اختیار کر لی ہے۔ موجودہ دور میں دنیا بھر میں انٹر نیٹ کا استعمال بے حد
بڑھ چکا ہے۔ علم، معلومات، پروپیگنڈہ، حقائق اور مفروضات کی ترسیل کا موثر
ترین ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس نے نجی اور عوامی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر
کیا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والا تقریباً ہر شخص فیس بک، ٹوئٹر،
لنکڈ اور دیگر بہت سی سوشل سائٹس کی صورت میں پائی جانے والی ایک دوسری
ورچول دنیا کا باشندہ ہوتا ہے۔ آج جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا
استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے۔
جس طرح ہر چیز کے فوائد و نقصانات ہوتے ہیں، جو اس کو استعمال کرنے والوں
پر منحصر ہوتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ کے بھی فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات
اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے
میں صارفین کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو فرقہ واریت اورتعصب پھیلانے،
لوگوں کو بدنام کرنے، اپنے حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ و
نامناسب تصاویر وویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہے۔ انٹر نیٹ پر ایسی
سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک
دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب
بنتی ہیں۔ اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی نظریے، رائے اور شخصیت
پر تنقید کرنا غلط نہیں ہے، تاہم یہ سب تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا
چاہیے، لیکن انٹرنیٹ سے جڑے سوشل میڈیا پر تنقید کی آڑ میں مخالف شخصیت،
مذہب، نظریے اور فرقے کی توہین تک کی جاتی ہے۔ بہت سے بظاہر بڑے معقول اور
اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی کسی بحث کے دوران مقابل پر ذاتی حملے کرتے ہوئے
اس کی کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات
یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچار کر کے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا
جاتا ہے۔ دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے، لیکن سوشل
میڈیا پر بعض عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر کئی گناہوں کے
مرتکب ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے چینی و بدامنی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔
انٹرنیٹ پر مکمل آزادی ہونے کی وجہ سے کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی
شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم
شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔کسی کے بخیے ادھیڑنے ہوں، کسی کے فرقے اور
مذہبی کی توہین کرنی ہو تو سوشل میڈیا کے ذریعے بناخوف کے یہ کام ہوجاتا ہے۔
مختلف سائٹس کے ذریعے انسانیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ مخالفین کی عزتیں
اُچھالی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بلاخوفِ لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول
لیتے ہیں۔ مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں
بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے حلقے کی ہر غلط ٹھیک بات میں تائید کرتے ہیں، جبکہ
مخالف حلقے کی ہر غلط ٹھیک بات میں مخالفت کرنا فرض سمجھتے ہیں اور اس
دوران مخالف کے نظریے، مذہب، رہنماﺅں اور محترم شخصیات کی توہین بھی کی
جاتی ہے، جس سے مسلکی اورسیاسی تعصب میں اضافہ ہوتا ہے، حالانکہ فرقہ واریت،
سیاسی و مسلکی تعصبات کا فروغ ہر پہلو سے ایک منفی عمل ہے، کیونکہ اس کی
وجہ سے معاشرے میں بدامنی و قتل و قتال میںاضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ
انٹرنیٹ پر بہت سے لوگ دہشتگردی اور دہشتگردی کی حمایت کرتے اور اپنے کسی
مخالف کو دھمکیوں کے ذریعے خوفزدہ کرتے ہوئے بھی نظرآتے ہیں۔انٹرنیٹ پر
پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا
ہے۔
بہت سے ممالک میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنا کر ان پر
پوری طرح عمل کیا جاتا ہے، پاکستان میں بھی کئی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ
تھا کہ ملک میں ایسا قانون ہو جس پر عمل کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر ہونے والے
تمام منفی اقدامات کی روک تھام کی جائے اور ذمہ داروں کے لیے سزا متعین کی
جائے۔ جمعہ کے روز قومی اسمبلی نے سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور کیا
ہے، جس کے بعد انٹرنیٹ پر حکومت اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے، مذہبی
تفرقہ بازی اور دھمکیوں پر 14سال قید اور زیادہ سے زیادہ 5 کروڑ روپے
جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے بل کی مخالفت کے بعد رائے
شماری کے حق میں51 حکومتی ارکان جبکہ مخالفت میں 37ارکان نے ووٹ دیا۔ قومی
اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین کیپٹن (ر)
محمد صفدر کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم بل ملک میں انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت
گردی اور خوف و ہراس پھیلانے سمیت ہر طرح کے جرائم پر سزا دی جا سکے گی۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے زہریلے مواد کو
پھیلانے کی کوششیں کی ہیں اور اس بل کے ذریعے سے ان کی روک تھام ممکن
ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے اس بل کو عوامی و سماجی حلقوں
نے خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انٹرنیٹ کے منفی استعمال کی
وجہ سے معاشرے میں پھیلی نفرتیں کم ہوسکیں گی۔ انٹرنیٹ سے متعلق قومی
اسمبلی میں منظور ہونے والے بل سے متعلق مختلف علمائے کرام اور دیگر سیاسی
و مذہبی رہنماﺅں نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کے
لیے قوانین کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایاجائے۔ باہمی
تفرقہ بازیاں قوموں کی تباہی کے اسباب ہیں۔ اسلام تفرقہ بازی کی اجازت ہرگز
نہیں دیتا، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ قومی اسمبلی میں انٹرنیٹ پر
فرقہ واریت اور دھمکیوں کے حوالے سے بل کی منظوری قابل تحسین ہے، لیکن اس
پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ایسے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں جن پر
عمل نہ کیاجائے۔ مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی میں انٹر نیٹ کے ذریعے فرقہ
واریت، دھمکیوں اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے پر سزا مقرر کرنا ایک
انتہائی اچھا اقدام ہے، لیکن پوری طرح اس کا فائدہ اسی وقت ہوگا، جب اس
قانون پر مکمل طور پر عمل بھی ہوگا، کیونکہ یہاں اکثرو بیشترایسا ہوتا ہے
کہ قوانین منظور تو کرلیے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
معاشرے میں پھیلی بدامنی، بے چینی اور فرقہ واریت میں انٹرنیٹ کا کافی منفی
کردار ہے، اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ منظور ہونے والے قانون پر عمل درآمد
کیا جائے تو ان تمام اسباب پر کنٹرول حاصل کر کے معاشرے میں بڑھتی ہوئی
بدامنی کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ |
|