سشماسوارج اور سرتاج عزیز کا پرجوش ہینڈ شیک
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاک بھارت تناؤ پر آخر کار سرد موسم کا اثر
ہوہی گیا۔ برف پگل ہی گئی۔ پیرس میں ڈرامائی انداز میں ہونے والی نریندر
مودی اور میاں نواز شریف کی تین منٹ کی ملاقات نے خطے کی گرم سیاسی فضاء کو
تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں اور
دہشت گردوں کی جانب سے جو مسلمان دشمن اور پاکستان کے خلاف کاروائیاں اس حد
تک بڑھ گئی تھیں کہ بیرونی دنیا بھی بھارت کو اس جنونی کیفیت سے نکلنے کی
جانب اشارے کرنے لگی تھی۔ پاکستان میں بھارتی انتہاپسند تنظیم شیو سینا اور
دیگر انتہا پسندوں کی کاروائیوں پر سخت برہمی اور نفرت پائی جارہی تھی۔ ایک
وقت تو ایسا بھی آیا کہ محسوس ایسا کیا جانے لگا کہ پاکستان اور بھارت ایک
بار پھر میدان جنگ میں آمنے سامنے آجائیں گے۔ لیکن دونوں ممالک کے قائدین
کے تدبر ، ہوش مندی اور باشعور دنیا کا سوچنے والوں نے اس کشیدہ ماحول کو
تبدیل کرنے کی جانب خود کو مائل کیا ۔کشیدہ ماحول کی تبدیلی کا باعث پیرس
میں ہونے والی دونوں وزراء اعظم یعنی نریندر مودی اور میاں نواز شریف کی
تین منٹ کی ملاقات بنی جس نے ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں اپناعملی کردار
ثابت کردیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں کسی موقع کی تلاش میں تھے۔ پہل کرنے والا
معاملا تھا، انا دونوں جانب تھی، ٹوٹے تاروں کو کس طرح جوڑا جائے۔ ملاقات
کیسے ہو، ملاقات کو کیا نام دیا جائے، کون کس کو مذاکرات کی دعوت دے۔ ان
تمام باتوں کا حل ’پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘ نے فراہم کردیا۔ دونوں
سربراہوں نے ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہوئے صرف یہ ہی کہا کہ چلو اس
کانفرنس سے فائدہ اٹھائیں اور اس کو بہانا بنا کر بات چیت کا سلسلہ شروع
کردیں۔ اس کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے
اسلام آباد میں کیا۔ کانفرنس میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج
سمیت10ممالک کے وزرائے خارجہ اور 12عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس سے پہلے بنکاک میں پاکستان اور بھارت کے سلامتی کے مشیروں نے
بھی ملاقات کی جس سے دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کی فضا میں بہتری کے
آثار رونما ہوئے۔ اس ملاقات میں کشمیر کے علاوہ کئی تصفیہ طلب امور پر
تبادلہ خیال ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں ممالک کے درمیان گرم آب و ہوا کو
سرد کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھا ۔
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج 9۔8 دسمبر 2015 ء کو منعقد ہونے والی
’پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد تشریف لائیں تو
پاکستان کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا، وہ بھی پاک سرزمین پر
قدم رنجا فرمانے پر خاصی پر جوش تھیں۔ پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج
عزیز نے اپنی ہم منصب کا استقبال پر جوش انداز سے اس طرح کیا کہ جیسے وہ
اپنے کسی برسوں کے بچھڑے ہوئے دوست سے مل رہے ہوں۔ اخبارات نے جو تصویر
دونوں رہنماؤں کی شائع کی اس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ ہمارے مشیر
خارجہ کافی جذباتی نظر آرہے تھے۔خوشی اور مسکراہٹ کا سیلاب ان کے چہرہ سے
عیاں تھا۔ اگر سرتاج عزیر کے منہ میں مصنوعی بتیسی ہوتی تو اُس لمحے جب
انہوں نے سشماسوراج سے ہینڈ شیک کیا ان کی مصنوعی بتیسی سشما سوراج کے
ہاتھوں میں گر چکی ہوتی۔ سشما سوراج سے سرتاج عزیز کا ہنڈ شیک لوگوں میں
پسند کیا گیا۔ سرتاج عزیز کے اس خوش گوار عمل سے مثبت پیغام بھارت گیا ہوگا
اور سشما جی بھی متاثر ہوئیں ہوں گی ۔ برعکس جب سشما سوراج نواز شریف سے
ملاقات کے لیے پہنچیں تو وہ انداز بالکل مختلف تھا جس میں سشما جی دونوں
ہاتھوں کو جوڑے ہوئے نمستے کررہی ہیں اور نواز شریف صاحب فاتحانہ انداز سے
ان کی جانب نظر شفقت کیے ہوئے ہیں۔ بظاہر ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی
، بسا اوقات انسان کی باڈی لینگویج سے بہت کچھ اشارے ملتے ہیں۔سشما سوراج
کی تعریف و توصیف سرتاج عزیر اور وزیر اعظم صاحب کی جانب سے یقینا کی گئی
اس کے جواب میں سشما جی کا نواز شریف صاحب کے بارے میں کہنا تھا کہ ’وزیر
اعظم صاحب ہندوستان کو آپ کے اخلاص پر شک نہیں ہے، ہماری حکومت پوری دنیا
میں آپ کے اخلاص کی تعریف کرتی ہے‘۔ سشما سوراج نے وزیر اعظم کو بلدیاتی
انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد بھی دی۔
سشما سوراج بی جے پی کی پرانی اور منجھی ہوئی لیڈرہیں وہ سات مرتبہ بھارت
کی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوچکی ہیں۔ مختلف وزارتوں پر فائز بھی رہ چکی
ہیں۔ پرویز مشرف جب آگرہ تشریف لے گئے تھے ، واجپائی اس وقت بھارت کے وزیر
اعظم تھے۔ اس وقت سشما سوراج بھارت کی وزیر اطلاعات تھیں۔ اس وقت بھی انہوں
نے سربراہان کے مابین ہونے والے ناکام مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
وہ ایک پڑھی لکھی، شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والی خاتون ہیں۔ انہیں بہت سے
شعر زبانی یاد ہیں۔ سشما سوراج نریندر مودی سے کم پاکستان دشمنی نہیں
رکھتیں۔ یہ مودی کی طرح بد زبان، شاطر، تنگ نظر اور متعصب ذہن کی مالک ہیں۔
جن انتخابات کے نتیجے میں مودی سرکار جیت کر آئی تو اس کی انتخابی مہم میں
جتنا زہر نریندر مودی نے پاکستان کے لیے اگلا تھا اس سے کہیں زیادہ سشما
سوراج پاکستان کے لیے خون آلود زبان استعمال کرچکی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ
کرتے تو کس طرح موجودہ منصب پر پہنچتے۔ پاکستان دشمنی نے ہی تو بی جے پی کو
اقتدار تک پہنچایا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود سیاست ایسے عمل کا نام ہے
کہ اس میں ہر چیز جائز ہے۔ پل میں تولہ ، پل میں ماشہ، آج گالی دو کل الفاظ
واپس لے لو۔
کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ
دونوں ملکوں نے باہمی جامع مذاکرات کا ازسر نو آغاز کرنے کا فیصل کیا ہے
اور اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ امور کے سیکریٹریوں کو ہدایت کی
ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے شیڈول اور طریقہ کار کا
تعین کریں۔ ان مزاکرات میں امن و سلامتی کے معاملات ، پاک بھارت اعتماد
سازی کے اقدامات ، مسئلہ کشمیر،سیاچن، سرکریک، وولر بیراج، ترابہ نیویکیشن
پراجیکٹ پر بھی بات چیت ہوگی۔ انسدادِ دہشت گردی ، نارکوٹکس کنٹرول جامع
مذاکرات کا حصہ ہوں گے۔ پاکستان نے بھارت کو ممبئی ٹرائل کو جلد منطقی
انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون
کا عزم کیا گیا، دونوں ممالک اقتصادی و تجارتی تعاون پر بھی جامع مذاکرات
میں بات چیت کریں گے۔ عوامی رابطوں میں اضافہ بھی طے پایا۔
مشترکہ اعلامیہ ایک رابطے کی کاروائی ہوتی ہیں۔ اس کے بغیر تمام تر کاروائی
کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے قبل بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورت
حال پیدا ہوئی، سخت سے سخت بیانات جاری ہوئے، محسوس ہونے لگتا کہ کسی بھی
لمحے خطرناک خبر سننے کو مل جائے گی لیکن پھر کوئی بریک تھرو ہوجاتا ،
ملاقاتیں ہوتیں، مشترکہ اعلامیہ جاری ہوتا اور حالات کچھ عرصہ کے لیے نارمل
ہوجاتے۔ ایسا ایک بار نہیں متعدد بار ہوچکا ہے۔ اس جانب دونوں جانب کے
سیاست دانوں ، رہنماؤں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آخر پاکستان اور بھارت
کب تک ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے، پاکستان ایک حقیقت ہے اور بھارت بھی ایک
اٹل حقیقت ہے۔ دونوں نے اس دنیا میں زندہ رہنا ہے۔ بھارت کی آبادی کا بڑا
حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے عوام ان مسلمانوں کے ساتھ مذہبی اور
روایتی ، تہذیبی، معاشرتی اور تاریخی تعلق کے رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے عوام ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں بد امنی ہو، لوگ
پریشان حال رہیں اور بھارت کے عوام کو بھی پاکستانی عوام کے لیے ایسے ہی
جذبات کا اظہار کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے عوام کا ایک دوسرے سے کوئی نہ
کوئی رشتہ یا تعلق ہے۔ سشماسوراج ہی کو دیکھ لیں ، وہ جب پاکستان آئی تو
انہیں یہ بات یاد آگئی کہ ان کے والدین کا تعلق لاہور کے علاقے دھرم پورہ
سے تھا۔ اس سے قبل ایڈوانی کا تعلق حیدر آباد سندھ کے کسی علاقے سے تھا۔
یہی صورت حال بے شمارپاکستانیوں کی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوے
ہیں تو پھر دشمنی کیسی، جو حکومت بھی آئے وہ اپنے اپنے ملک کے عوام کی فلا
ح و بہبود کے لیے کام کرے۔ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں۔ نہ ہی کسی نے کسی
ملک کو جنگ سے خوش حالی دلائی ہے۔ جنگ ہر صورت میں جیتنے والے اور ہارنے
والے کے لیے تباہی و بربادی ہی لے کر آتی ہے۔ چنانچہ جو کچھ ہوچکا اسے بھلا
کر دوستی کی جانب، عوام کی بھلائی کی جانب بڑھا جائے کہ اسی میں دونوں
ملکوں کے عوام کی بھلائی مضمر ہے۔
ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی کہ بھارتی وزیر خارجہ نے اس بات کی تصدیق
بھی کی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی2016ء میں ہونے والے سارک سربراہ
کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں تشریف لائیں گے۔ خدا کرے کہ دونوں
ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا جو آغاز ہوا ہے وہ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق
خوش گوار شکل میں قائم و دائم رہیں، نریندر مودی پاکستان کا تشریف لائیں
تاکہ امن و آتشی کے ماحول میں دو طرفہ اضافہ ہو۔ دونوں کے درمیان خوش گواری
کے اثرات صرف دونوں ملکوں کے عوام پر ہی نہیں پڑتے بلکہ ان کے اثرات دنیا
میں موجود ان ملکوں سے محبت کرنے والوں پر بھی ہوتے ہیں۔ بہتر تعلقا ت میں
ہی دونوں ملکوں کے عوام کی فلا ح ہے۔(12دسمبر2015) |
|