قیمتی فاخرانہ لباس پہنے میک اپ زدہ چہرے
فخروغرور سے تنی ہویی گردنیں آگے پیچھے سکیورٹی کے نام پہ مسلح دستوں کا
اژدھام مہنگی گاڑیوں کی لمبی قطاریں عالیشان پرتعیش محلات کرپشن کے بڑے بڑے
اسکنڈلز ہی شائدآج کے مسلم حکمرانوں کی شناخت اور پہچان بن چکی ہیں قوم کے
درد کا راگ الاپنے والے یہ مداری قوم کے وسائل کو بے دریغ لوٹ رھےہیں عوام
کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے پورا ملک بحرانوں کی زد میں ہے سیلاب بارشیں
اور دیگر آفات رہی سہی کسر نکال رہی ہیں بزدل جرنیل مشرف اور کرپشن کنگ
زرداری کی لگایی ہو ئی آگ موجودہ حکومت بھی سینکنے پہ مجبور ہے جناب
وزیراعظم اورانکے چھوٹے بھائی عظم و ہمت کی علامت پرجوش جناب شہباز شریف کے
اخلاص پہ یقیناََ کوئی شبہ نہیں جس طرح انہوں نے ڈینگی اور سیلاب میں دن
رات ایک کرکے عوام کی خدمت کی وہ یقیناََ قابل تعریف ہے مگر عوام یہ جاننا
چاہے گی کہ جس ملک میں موٹروے میٹروبس اورایٹم بم بناے جاسکتے ہیں آخر وہ
بجلی کے بحران پہ کیوں قابو نہی پاسکتا وہ کونسی طاقتیں ہیں جو ڈیم نہی
بننے دیتیں حکومت اور رینجرز کی مخلص کوششوں سے بھی کراچی میں آخر کیوں امن
قایم نہیں ہو رہا ؟
قایداعظم کے بنائے گئے اس ملک میں قایداعظم اورقایدملت کے بعد شاید-ہی کوئی
باصلاحیت اور قابل حکمران اس ملک کو ملا ہو ایک رات قاید چہل قدمی کے لیے
باہر نکلے تو دیکھا گورنر جنرل ہاوس میں فالتولایٹس جل رہی تھیں فوراََ
انہیں بند کرنے کا حکم دیا آج نہ جانے کس منہ سے ہمارے حکمران وی آئی پی
پروٹوکول لئے مہنگے دورے کرتے ہیں قوم کا سرمایہ اپنی عیاشیوں میں صرف کرتے
ہیں بقول شاعر ،کعبے کس منہ سے جاو گے غالب، اسلام کے تصورحکمرانی میں تو
حاکم قوم کا خادم ہوتا ہے مگرآج ساری قوم ان حکمرانوں کی خادم اور غلام
لگتی ہے کاینات کے سب سے بڑے سردار حکمران ہمارے آقاکریم ﷺ کی سادہ زندگی
ایک روشن مثال ہے اور آپ کے جانشین ابوبکر صدیق نے جس طرزعمل کا مظاھرہ کیا
کاش یہ وہ ہی طرز حکمرانی اپناتےعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورحکومت میں
دوران خطبہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت
تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ کہاں
سے آیا جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر
فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے،
عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا
بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ
میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس
سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کا لباس تھا
وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے
دیا۔آج کسی حکمران میں کیا اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ ایسا انصاف کرسکے یہی
عمر فاروق جب کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے
: 1-گھوڑے پر کبھی سوار نہ ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ
پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر کسی کا عمل اس کے خلاف ہوتا تو
سزائیں دیتے۔سیدنا عثمان غنی اور سیدنا حضرت علی نے بھی اپنے گزشتہ خلفاءکی
طرح حکمرانی کو قوم کی خدمت کا زریعہ جانا پانچویں خلیفہ راشد کہلانے
والےعمربن عبدالعزیز جب خلافت کا بارگراں اٹھانے کے بعد گھر تشریف لاے
توسخت پریشان اور فکرمندتھے وجہ پوچھی گئی توفرمایایہ تشویشناک ناک بات ہی
تو ہے کہ مشرق سے مغرب تک امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ
پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع اس کے ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو
اوراپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے اے لوگو! جس نے اللہ کی اطاعت کی ،اس کی
اطاعت انسان پر واجب ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی، اس کی نافرمانی لوگوں
پر ضروری نہیں۔میں اگر اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا اور
اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ ماننا ہمارے وزیراعظم کی
حجاز مقدس سے محبت وعقیدت کسی سے مخفی نہیں سعودی حکمرانوں سے بہت قریبی
تعلقات بھی ہیں کاش وہ سعودی حکمرانوں کی عوام اورعوام کی سعودی حکمرانوں
سےمحبت کی وجہ بھی سمجھ پائیں- |