بابری مسجد کی شہادت پر بھارتی مسلمانوں کا یومِ سیاہ
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
6 دسمبر کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر
بھارتی مسلمانوں نے بڑے بھرپور انداز میں ’’یوم سیاہ‘‘ منایا اور احتجاج
کیا۔ بابری مسجد کی شہادت اور اس مجرمانہ فعل میں سرکاری سرپرستی سے یہ بات
واضح ہو گئی ہے کہ بھارت ’’سیکولر‘‘ کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے مگر دراصل ایک
انتہاء پسند ہندو ریاست ہے۔ بھارت میں چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کی
شہادت کے کئی سال بعد سرکاری تحقیقاتی رپورٹ افشا ہونے پر سیکولر بھارت کا
بھیانک روپ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے۔
بابری مسجد کے تحفظ اور اس کی سلامتی کیلئے قائم کی گئی کمیٹی بھی مسجد کے
شہادت کے کئی برس بعد بھی کوئی کارروائی دکھانے یا کرنے پر تیار نہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا یہ عالم ہے
کہ پندرہ سال بعد پہلی بار عدالت میں استغاثہ کے کسی گواہ کی پیشی کی گئی
تھی اور اس طرح مسماری کے مقدمے کا پہلا بیان گزشتہ سال درج کیا گیا۔ قابل
ذکر بات یہ ہے کہ عدالت میں مختلف تاریخوں پر مسجد کے انہدام کے معاملہ کی
سماعت کسی نہ کسی سبب سے ملتوی ہوتی رہی ہے۔ چھ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہاء
پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے
شدید احتجاج کے بعد انہیں ہی نشانہ ستم بنایا گیا جس کے نتیجے میں دو ہزار
سے زائد مسلمان شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نر سیما راؤ نے
بابری مسجد کے انہدام کی تحقیقات کیلئے لبرہان کمیشن قائم کیا تھا۔ لبرہان
کمیشن کو مرکز میں قائم ہونے والی ایک کے بعد دیگر حکومتوں کی جانب سے
مسلسل توسیع دی جاتی رہی ہے اورکئی سال گزر جانے کے باوجود اس کمیشن اپنی
رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔ بی جے پی کے قائدین اور ہندوتوا لیڈروں کی اشتعال
انگیزیوں کے باعث 400 سالہ قدیم بابری مسجد کو شہید کردیا گیا اور ہندوستان
کے تمام سیکولر قائدین دیکھتے رہے گئے۔ حکومتیں خاموش رہیں اور ہندوتوا
طاقتیں اپنی من مانی میں کامیاب ہوگئیں۔ ان طاقتوں نے ایک طرح سے بابری
مسجد کو شہید کرتے ہوئے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو نفسیاتی دباؤ کا
شکار کردیا اور اس حادثہ کے بعد ہی سے ملک میں ہندو فرقہ پرستی نے زور پکڑا۔
جہاں سیکولر ازم کی بات کرنے والی جماعتیں بابری مسجد کی شہادت پر سوائے
اخباری بیان بازیوں اور طفل تسلیوں کے کچھ نہیں کرپائیں۔ دراصل بھارت میں
مسلمان دوسرے درجہ کے شہری ہیں اور انہیں اکثریت کے برابر حقوق نہیں مل
سکتے۔ بابری مسجد مسئلہ پر اس وقت کے وزیر اعظم نے یقین دلایا تھا کہ مسجد
اسی جگہ تعمیر کی جائیگی تاہم بعد میں اس وعدہ کو فراموش کردیا گیا اور
مرکز میں قائم ہونے والی حکومتوں نے مسجد کی جگہ ہونے والی پوجا کیلئے تو
انتظامات اور عارضی سائبان کے نام پر تعمیرات بھی کروا دی گئیں لیکن مسجد
کو بحال کرنے اور تعمیر کرنے کا وعدہ کسی کو یاد نہیں رہا۔ اس وعدہ پر ویسے
تو مسلمانوں کو کوئی اعتبار نہیں تھا لیکن جنہوں نے مسلمانوں کو اعتبار
دلانے کی کوشش کی تھی وہ بھی کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔
کئی سال کے طویل عرصہ کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے وعدہ کے
مطابق بابری مسجد کی جگہ مسجد تعمیر کی جائے اور وہاں ہونے والی پوجا کو
فوری روکا جائے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کیخلاف مقدمات درج کرتے ہوئے
انہیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے تاکہ انصاف کے نظام میں
اقلیتوں کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ لبرہان کمیشن ہو یا دوسری عدالتیں جہاں
بابری مسجد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں سب کو ایک جگہ کرتے ہوئے فاسٹ
ٹریک عدالت قائم کی جائے تاکہ انصاف اور عدلیہ کے فیصلے کے ذریعے بابری
مسجد کی بازیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ پہلے بھی مسلمانوں کو قتل و غارت
گری کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ صرف نومبر 1990ء میں
ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا کے موقع پر ہی دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو
شہید کیا گیا جبکہ جنوری 1993ء آر ایس ایس، ویشوا ہندو پریشد اور شیو سینا
کے دہشت گردوں نے ریاستی پشت پناہی میں ممبئی میں تین ہزار سے زیادہ
مسلمانوں کو شہید کیا جبکہ 2002ء میں احمد آباد، گجرات میں مرنے والے
مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کی تعداد تین ہزار سے کہیں زیادہ بیان کی
جاتی ہے۔بی جے پی کے بھارتی سیاستدان لعل کشن ایڈوانی جس نے مسجد کی جگہ
مندر کی تعمیر کیلئے رام رتھ یاترا کی تھی بھارتی دہشت گرد اور قائد اعظم
محمد علی جناح کی قتل کی سازش کا مجرم بھی ہے حکومت پاکستان کو سمجھوتہ
ایکسپریس میں پاکستانیوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد حاضر سروس بھارتی فوجی
لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پروہت کے ساتھ ایل کے ایڈوانی کو بھی مطلوبہ افراد
کی فہرست میں شامل کرکے پُرزور انداز میں حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
|
|