16 دسمبر 2014ء کا سورج طلوع ہوا
تھا ۔ہر صاحب دل پاکستانی سانحہ ڈھاکہ کا سوچ کر اشکبار تھا ۔انہیں کیا خبر
تھی کہ یہ دن ملک کی تاریخ میں ایک اور سانحہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا ،یہ
سورج طلوع ہوا تو اپنے ساتھ ان گنت غم لے کر آیا، آرمی پبلک سکول پشاورپر
دہشت گردوں کے حملے نے پشاور کی سرزمین کو ،حساس دلوں کو خون خون
کردیا۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے
132 بچوں سمیت اسکول عملے کے 146 افراد کی شہادت کا واقعہ آج بھی قوم کے
ذہن میں ہے اور اس کے زخم آج بھی اسی طرح تروتازہ ہیں۔
اس دن ساڑھے دس بجے آرمی سکول پر حملہ ہوا تھا ۔ دہشت گرد سکول کے پیچھے سے
واقعہ قبرستان کے راستے سے دیواریں پھیلانگ کر چھت کے ذریعے سے سکول میں
داخل ہوئے تھے ۔دہشت گرد جس گاڑی پر آئے تھے انہوں نے اس گاڑی کو آگ لگا دی
تھی ۔انہوں نے سیکورٹی فورسزز کی وردیاں پہن رکھی تھیں ،اور خود کش جیکٹ
پہنی ہوئی تھی اوروہ AK47 جیسے اسلحہ سے بھی لیس تھے ۔یہ دہشت گرد جن کی
تعداد 7 بتائی گئی تھی ۔ان میں سے ایک دہشت گرد نے ایک کلاس میں گھس کر خود
کو دھماکہ سے اڑا لیا ۔جس سے بہت سے بچے ایک ساتھ شہید ہو گئے ۔ سکول میں 8
سو سے زائد طلبا بتائے گئے تھے ۔
دہشت گردوں کے حملے کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔سارا
ملک سوگوار ہو گیا ۔ قوم سوگ میں ڈوب گئی، آنسوؤں سے روتی نظر آئی۔ گلی گلی
بچوں، بڑوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر
دیا ۔ان سفاک درندوں کے لیے آرمی کے آ فیسر عاصم باجوہ نے انسان دشمن ،اسلام
دشمن اور پاکستان دشمن کا نام استعمال کیا تھا ۔
دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے خاندانوں اور عوام کے
سامنے حکومت و دیگر ذمہ دار اداروں نے وعدہ کیا تھا کہ حملہ میں ملوث افراد
کو انصاف تک پہنچایا جائے گا۔اور ان کے حماتیوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا
،لیکن سانحہ پشاور میں ملوث صرف چار افراد کو چند دن قبل پھانسی دی گئی ہے
۔
ملکی ہی نہیں انسانی تاریخ کے سیاہ دن کو گزرے ایک سال ہو چکاہے، یہ سوال
اب بھی جواب طلب ہے کہ ان پیارے پیارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے کیا کیا
تھا؟ آخر ان کا قصور کیا تھا؟۔اسلام کافروں کے بچوں کو مارنے کی بھی اجازت
نہیں دیتا ۔اور اس دن پورے دنیا نے پھول جیسے بچوں کے جنازے دیکھے جن کو بے
رحمی سے شہید کیا گیا تھا ۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ فرخ
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے۔۔۔ |