پیشہ ورانہ مشاورت اور امام احمدرضا

عصرِ حاضر میں میں سائنس، ٹیکنا لوجی اور کمپیوٹر کی ترقی کی وجہ سے مختلف پیشے معرض وجود میں آرہے ہیں۔ فرد اسی وقت معاشرے میں مطابقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرے۔ آج کے مختلف پیشے فرد سے مخصوص صلاحیتوں اور مہارتوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔

طب، زراعت، ایجوکیشن اور انجینئرنگ اور دیگر ادارے پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے ہیں۔ ان سے فارغ التحصیل افراد مخصوص پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ہو کر عملی زندگی میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ پیشہ عام طور پر اس کی صلاحیتوں اور رجحانات کے مطابق ہوتاہے۔ موزوں پیشہ اختیار کرنے سے نہ صرف فرد کے معاشی تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے بلکہ اگر کوئی پیشہ فرد کے تقاضوں اور صلاحیتوں کے مطابق ہوگا تو اس میں فرد کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔ پیشہ ورانہ تعلیم کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی بدولت قوم سائنس و ٹکنا لوجی کے میدان میں ترقی کرتی ہے۔ افراد کی شخصیت کی جامع نمو کے لیے نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیت بھی ضروری ہے۔

مشاورت کا عمل کے واضح مقصد یہ ہے کہ فرد کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہوجائے۔ اس میں فرد کی انفرادی کاوش اور احساس وشعور کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مشاورت دراصل خود شناسی کا عمل ہے۔ اس کے ذریعے فرد میں خودشناسی کا شعور پیدا کیا جاتاہے کہ وہ اپنے حالات کو بخوبی سمجھے، اپنی صلاحیت کا ادارک کرے اور اپنی اہلیت سے مسئلہ حل کرنے کے قابل ہوسکے۔مشاورت کی چند تعریفات ملاحظہ فرمائیں: ’’کسی فرد کو مسائل کے حل اور تمام مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ہر طرح سے مدد دینے کا نام مشاورت ہے۔‘‘’’مشاورت ایسا انفرادی معاونت کا طریقہ ہے جو کسی طالبِ علم کو اس کی امکانی پوشیدہ صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں دیا جاتا ہے۔‘‘ ’’مشاورت دو افراد کے مابین دوطرفہ تعلق ہے، جس میں ایک تربیت یافتہ فرد دوسرے فردکی اس طرح مدد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو یا اپنے ماحول کو بدل سکے۔‘‘

امام احمدرضا محدث حنفی نے اپنی زندگی کے شب و روز اس لگن اور فکر میں گزارے کہ امتِ مسلمہ دنیاوی اور اخروی کامیابیوں سے ہم کنار ہو۔ اسی مرکزی نکتے کے تحت آپ نے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہبری کا فریضہ سرانجام دیا۔ آپ کی کتب اور فتاوٰی رضویہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے جب بھی رہبری ورہ نمائی کے لیے درِ رضا پر دستک دی، آپ نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا اور بہتر سے بہتر رہنمائی و مشاورت فراہم کی۔ وہ مشاورت خواہ عائلی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی، تعلیمی ہو یا مذہیآ، ادبی ہو یا روحانی یا پیشہ ورانہ مشاورت و رہنمائی۔ اسی خصوصیت نے آپ کو مرجع خلائق بنا دیا۔ آپ کی تصانیف سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ آپ ایک مفتی کو کس قسم کی مشاورت فراہم کرتے ہیں، ایک قاضی کی کس طرح رہبری کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔آپ کی مشاورت اور رہنمائی ایک وسیع موضوع ہے جس کا اس مختصر سے مقالے میں احاطہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف بھی نہیں ۔ راقم نے اپنے اس مقالے کو ”طبیب“ تک ہی کی مشاورت و رہنمائی تک محدود رکھا ہے کہ مفکر اسلام امام احمدرضا نے طبیب کو کس طرح کی پیشہ ورانہ مشاورت و رہنمائی عطا کی جس کے ذریعے ایک طبیب اپنی صلاحیتوں، دلچسپیوں اور مہارتوں کا ادراک کر کے ایک کاماوب طبیب بن کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے۔
’’برادر عزیزمولانا عبد العزیز سلمہ العزیز عن کل رجیز۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کا خط آیا خوش کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دست شفا بخشے اور جفا و شقا سے محفوظ رکھے۔ برادرم! تم طبیب ہو، میں اس فن سے محفوظ۔ مگر وہ دلی محبت، جو مجھے تمہارے ساتھ ہے، مجبور کرتی ہے کہ چند حرف تمہارے گوش زد کروں۔

(۱) جان برادر۔ مشکل ترین امور ہنگام استخراج احکام جزئیہ میں، جیسے فقہ و طب، جس طرح فقہ میں صدہا حوادث ایسے پیش آتے ہیں جو کتب میں نہیں اور ان میں حکم لگانا ایک سخت و دشوار گزار پہاڑ عبور کرنا ہے۔ جس میں بڑے بڑے ٹھوکریں کھاتے ہیں، بعینہ یہی حال طب کا ہے۔ بلکہ اس سے بھی نازک تر، بالکل بے دیکھی چیز پر حکم کرنا ہے۔ پھر اگر آدمی قابلیت تامہ نہیں رکھتا اور برائے خود کچھ کر بیٹھا، اگرچہ اتفاق سے ٹھیک بھی اتری، گنہ گار ہوگا۔ جس طرح تفسیر قرآن کے بارے میں ارشاد ہوا من قال فی قرآن برائہ فاصاب فقد اخطا جو قرآن میں اپنی رائے سے کہے اور ٹھیک ہی کہے، جب بھی خطا کی۔
یوں ہی حدیث شریف میں فرمایا: من تطیب ولم یعلم منہ طب فھو ضامن۔ جو طب کرنے بیٹھا اور اس کی طب کے بارے میں معلومات نہیں پس اس پر تاوان ہے۔ یعنی اس کے علاج سے کوئی بگڑ جائے گا، تو اس کا خون بہا اس کی گردن پر ہوگا۔ گرچہ کسی شفیق نے تمہیں مجازو ماذون کردیا۔ مگر میری رائے میں تم ہرگزگز ہنوز مستقل تنہا گوارا نہ کرو اور جب تک ممکن ہو مطب دیکھتے اور اصلاحیں لیتے رہو۔ میں نہیں کہتا کہ جداگانہ معالجہ کے لئے نہ بیٹھو۔ بیٹھو، مگر اپنی رائے کو ہرگز رائے نہ سمجھو اور ذرا ذرا میں اساتذہ سے استعانت لو۔
(۲) رائے لینے میں کسی چھوٹے بڑے سے عار نہ کرو۔ کوئی علم (میں) کامل نہیں ہوتا، جب تک آدمی بعد فراغ درس جس دن اپنے آپ کو عالم مستقل جانا، اسی دن اس سے بڑھ کر کوئی جاہل نہیں۔
(۳) کبھی محض تجربہ پر بے تشخیص حادثہ خاص اعتماد نہ کرو۔ اختلاف فصل، اختلاف بلد، اختلاف عمر، اختلاف مزاج، وغیرہا بہت باتوں سے علاج مختلف ہوجاتا ہے۔ایک نسخہ ایک مریض کے لئے ایک فصل میں صدہابار مجرب ہوچکا، کچھ ضرور نہیں کہ دوسری فصل میں بھی کام دے۔ بلکہ ممکن کہ ضرر پہنچائے وعلی ہذا اختلاف البلاد والاعمار وامزجہ وغیرھا۔
(۴)مرض کبھی مرکب ہوتا ہے۔ممکن کہ ایک نسخہ ایک مرض کے لئے تم نے فصولِ مختلفہ، بلاد متعددہ، واعمار متفاوتہ وامزجہ متبائنہ میں تجربہ کیا اور ہمیشہ ٹھیک اترا، مگر وہ مرض ساذج تھا یا کسی ایسے مریض کے ساتھ، جسے یہ مضر نہ تھا، اب جس شخص کو دے رہے ہو، اس میں ایسے مرض سے مرکب ہو، جس کے خلاف تو ضرر دے گا اور وہ تجربہ صد سالہ لغو ہوجائے گا۔
(۵) ابھی ابتدائے امر ہے۔ کبھی بعض دلالات پر مدار تشخیص نہ کہو۔ مثلاً صرف نبض یا مجرد تفسرہ یا محض استماع حال پر قناعت نہ کیا، تو کیا ممکن نہیں کہ نبض دیکھ کر ایک بات تمہاری سمجھ میں آئے اور جب قارورہ دیکھو، رائے بدل جائے۔ تو بالضرور حتی الامکان بطرف تشخیص کو عمل میں لاو اور ہر وقت اپنی علم و فہم و حول و قوت سے بری ہوکر اللہ تعالیٰ کی جناب میں التجا کرو کہ القائے حق فرمائے۔ یہی مجرب شفا ہوتے ہیں۔
(۶) کبھی کیسے ہی ہلکے سے ہلکے مرض کو آسان نہ سمجھو اور اس کی تشخیص و معالجہ میں سہل انگاری نہ کرو۔

دشمن نہ تواں حقیر و بے چارہ شمرد
ہوسکتا ہے کہ تم نے بادی النظر میں سہل سمجھ کر جہدتام نہ کیا اور وہ باعثِ غلطیِ تشخیص ہوا، جس نے سہل کو دشوار کردیا۔ یافی الواقع اسی وقت ایک مرض عسیر تھا اور تم قلت تحقیق سے آسان سمجھ لئے۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ دق سا دشوار مرض والعیاذ باللہ تعالیٰ اول اتنا سہل معلوم ہوتا ہے۔
(۷) مریض یا اس کے تیماردار جس قدر حال بیان کرے۔ کبھی اس پر قناعت نہ کرو۔ ان کے بیان میں بہت باتیں رہ جاتی ہیں، جنہیں وہ نقصان نہیں سمجھتے یا ان کے خیال اس کی طرف نہیں جاتے۔ ممکن کہ وہ سب بیان میں آئے۔ صورت واقعہ دگرگوں معلوم ہو، میں نے مسائل میں صدہا آزمایا ہے کہ سائل نے تقریراً یا تحریراً جو کچھ بیان کیا، اس کا حکم کچھ اور تھا۔ جب تفتیش کرکے تمام مالہ و ماعلیہ اس سے پوچھے گئے، اب حکم بدل گیا۔ بہت مواقع پر ہم لوگوں کو رخصت ہے کہ مجرد بیان مسائل پر فتویٰ دے دے، مگر طبیب کو ہرگز اجازت نہیں کہ بے تشخیص کامل زبان کھولے۔
(۸) تمام اطباء کا معمول ہے الامن شاء اللہ کہ نسخہ لکھا اور حوالہ کیا، ترکیب استعمال زبان سے ارشاد نہیں ہوتی۔ بہت مریض جہلاءِ زمانہ ہوتے ہیں کہ آپ کا لکھا ہوا نہ پڑھ سکیں گے۔ طبیب صاحب کو اعتماد یہ ہے کہ عطار بتادے گا۔ عطار کی وہ حالت ہے کہ مزاج نہیں ملتے اور ہجوم مرض سے اس بچارے کے خود حواس گم ہے۔ اس جلدی میں انہوں نے آدھی چہارم بات کہی اور دام سیدھے کےر اور رخصت۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غلط استعمال سے مریض کو مضرتیں پہنچ گئیں۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ تمام ترکیبِ دوا و طریقۂ اصلاح و استعمال خوب سمجھا کر سمجھ کر ہر مریض سے بیان کرے۔ خصوصاً جہاں احتمال ہو کہ فرق آنے سے نقصان پہنچ جائے گا۔
(۹) اکثر اطباء نے کج خلقی و بد زبانی و خر دماغی و بے اعتنائی اپنا شعار کرلی، گویا طب کسی مرض مزمن کا نام ہے، جس نے یوں بدمزاج کرلیا۔ یہ بات طبیب کے لئے دین و دنیا میں زہر ہے۔ دین میں تو ظاہر ہے کہ تکبر و رعونت و تشدد و خشونت کس درجہ مذموم ہے۔ خصوصاً حاجت مند کے ساتھ اور دنیا میں یوں کہ رجوع خلق ان کی طرف کم ہوگی۔ وہی آئیں گے، جو سخت مجبور ہوجائیں گے۔ لہٰذا طبیب پر اہم واجبات سے ہے کہ نیک خلق، شیریں زبان، متواضع، حلیم، مہربان ہو۔ جس کی میٹھی باتیں شربت حیات کا کام کریں۔ طبیب کی مہربانی و شیریں زبانی مریض کا آدھا مرض کھودیتی ہے اور خواہی نخواہی ہر دل عزیز اس کی طرف جھکتے ہیں اور نیک نیت سے ہوتا ہے، تو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ جو خاص جالب دست شفاء ہے۔
(۱۰) بہت جاہل اطباء کا انداز ہے کہ نبض دیکھتے ہی مرض کا عسیر العلاج ہونا بیان کرنے لگتے ہیں، اگرچہ واقعی میں سہل التدارک ہو۔ مطلب یہ کہ اچھا ہوجائے گا تو ہمارا شکر زیادہ ادا کرے گا اور شہرہ بھی ہوگا کہ ایسے بگڑے کو تندرست کیا۔ حالانکہ یہ محض جہالت ہے۔ بلکہ اگر واقع میں اگر مرض دشوار بھی ہو، تاہم ہرگز اس کی بو آنے نہ پائے کہ یہ سن کر درد مند دل ٹوٹ جاتا ہے اور صدمہ پاکر ضعف طبیعت باعث غلبۂ مرض ہوتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ بکشادہ پیشانی تسکین و تسلّی کی جائے کہ کوئی بات نہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، اب آپ اچھے ہوئے۔
(۱۱) بعض احمق ناکردہ کار یہ ظلم کرتے ہیں کہ دوا کو ذریعہ تشخیص مرض بتاتے ہیں۔ یعنی جو مرض اچھی طرح خیال میں نہ آیا۔ انہوں نے رجماً بالغیب ایک نسخہ لکھ دیا کہ اگر نفع کیا تو فبہا، ورنہ کچھ حال تو کھلے گا۔ یہ حرام قطعی ہے۔ علاج بعد تشخیص ہونا چاہیے نہ کہ تشخیص بعد علاج۔
اس قسم کی صدہا باتیں ہیں، مگر اس قلیل کو کثیر پر حمل کرو اور میں انشاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً تمہیں مطلع کرتا رہوں گا۔ بہت باتیں ایسی ہیں، جن کا اس وقت بیان ضرور نہیں۔ جب خدا نے کیاکہ تمہارا مطب چل نکلا اور رجوع خلائق ہوئی۔ اس وقت ان شاء اللہ العظیم بیان کروں گا۔ اگر تمہیں یہ میری تحریر مقبول ہو، تو اسے بطور دستور العمل اپنے پاس رکھو اور اس کے خلاف کبھی نہ چلو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بہت نفع پاؤ گے اور اگر یہ سمجھ کر یہ طب سے جاہل ہے، اس فن میں اس کی بات پر کیا اعتماد، تو بے شک یہ خیال تمہارا بہت صحیح ہے۔ اس تقریر پر مناسب ہے کہ اپنے اساتذہ کو دکھالو اور وہ پسند کریں، معمول یہ کرو۔ والسلام خیر ختام(فقیر احمد رضا قادری عفی عنہ)۴؍جمادی الآخر، روز جمعہ ۱۳۰۶ھ‘‘ )ماخوذاز ماہنامہ ’’الرضا‘‘ بریلی شمارہ ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ ص۱۹ تا ۲۰‘‘)
پیشہ ورانہ مشاورت و رہنمائی کے اصول:
اس خط میں امام احمد رضا محدث حنفی علیہ الرحمۃ طبیب کے خصوصیات معالج اور مریض کا تعلق طبیب کے فرائض اور ذمّے داریاں انسانی زندگی اور صحت کی اہمیت کے بارے میں طبی نقطۂ نظر سے جو رہنمائی فرمائی ہے اس سے درج ذیل میڈیکل ضابطۂ اخلاق کے اصولوں کی اس طرح وضاحت ہوتی ہے۔
(۱)۔ طبیب جفا اور شقا سے محفوظ ہو۔
(۲)۔طبیب بطور تجربہ کسی مریض کا علاج مت کرے۔
(۳)۔ گاہے بگاہے ماہرین اطباء سے پیشہ ورانہ مشاورت و استعانت جاری رکھی جائے۔
(۴)۔ محض تجربے کی بنیاد پر بغیر تشخیص مرض علاج نہ کیا جائے۔
(۵)۔ عام اور معمولی مرض کو آسان نہ سمجھا جائے۔
(۶)۔تشخیص و معالجے میں سہل انگاری و عدم توجہی سے کام نہ لیا جائے۔
(۷) صرف اور صرف مریض یا تیمارداروں کی بہم کردہ معلومات پر علاج و ادویات تجویز مت کی جائیں۔
(۸)۔طبیب کو ہرگز اجازت نہیں کے بغیر تشخیص کامل کے مرض کے بارے میں اظہار رائے کرے۔
(۹)۔ مریض کو ترکیب دوا، پرہیز اور طریقۂ استعمال کو خوب اچھی طرح سمجھایا جائے۔
(۱۰)۔ مریض کے ساتھ (الف): کج خلقی۔ (ب):بدزبانی۔ (ج):خر دماغی۔ (د):بے اعتنائی سے گریز کیا جائے۔
(۱۱)۔ طبیب کی مہربانی اور شیریں زبانی، مریض کا آدھا مرض کھودیتی ہے۔ اس لئے طبیب پر واجب ہے کہ وہ (الف):نیک خلق۔ (ب):شیریں زبان۔ (ج):متواضع (د):حلیم۔ (ہ):مہربان ہو۔
(۱۲)۔سرسری تشخیص یا چہرہ و نبض کو دیکھ کر مریض کے علاج کو مشکل قرار نہ دیا جائے۔
(۱۳)۔ اگر مرض دشوار بھی ہو تو مریض کو اس اطلاعات سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ صدمہ پاکر ضعف طبیعت کے باعث مریض پر غلبہ مرض ہوسکتا ہے۔
(۱۴)۔ مریض کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی سے پیش آیا جائے اور تسلی دی جائے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ جلد صحت یاب ہوجائے گا۔
(۱۵)۔ مریض کے علاج سے پہلے کامل تشخیص کی جائے نہ کہ تشخیص بعد علاج کے۔
(۱۶)۔ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے سہل علاج کو دشوار قرار نہ دیا جائے۔
(۱۷)۔نیک نیت سے علاج کیا جائے، تو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ جو خاص جالب دست شفا ہے۔
(۱۸)۔ بدمزاجی طبیب کے لئے دین و دنیا میں زہر ہے۔
 
Prof Dilawar Khan
About the Author: Prof Dilawar Khan Read More Articles by Prof Dilawar Khan: 5 Articles with 3776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.