ولادت مصطفیٰ ﷺ ومقصد بعثت مصطفیٰ ﷺ

 جب بھی کسی شخصیت کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کی پیدائش سے شروع ہوکر موت پر ختم ہوجاتا ہے مگر کیا کہنے ہیں کالی کملی والے آقاکریم ﷺ کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اﷲ تعالیٰ نے ہمارے پیارے آقامدنی کریمﷺ کی تخلیق فرمائی ،اس کائنات میں ان کے چرچے پر عام وخاص کی زبان پر زندہ کرنے کیلئے ایک لامتناہی پاکیزہ سلسلہ شروع کروایا۔ابھی نبی ٔ اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت بہت دور ہے بلکہ جب اﷲ نے روحوں کو پیدا فرمایا تو سب سے پہلے جو روح پیدا فرمائی وہ روح محمد ﷺ تھی ،جب اﷲ تعالیٰ نے ساری انسانیت کی روحوں کا جلسہ ٔ عام کیا تو سب روحوں سے خطاب کیا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں کہ نہیں ؟ تو سب سے پہلے جس روح نے فوری بلا تعامل اپنے خالق کی محبت میں ہاں کہا ں وہ میرے اور آپ کے نبی ٔ مہربان ﷺ کی روح مبارک تھی۔ دوسرا اجتماع اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام ؑ کی روحوں کا کیا جسمیں سیدنا محمد عربی ﷺ کی انبیاء پر سرداری قائم کرنے کیلئے انبیاء سے عہد لیا گیا ،جب سیدناآدمؑ جنت میں تشریف لائے تو جنت میں محمد عربی ﷺ کے چرچے دیکھے اور سنے تو سمجھ گئے کہ یہ سب سے اعلیٰ وارفع ہستی ہے ،سابقہ آسمانی کتب تورات،زبور اور انجیل میں اﷲ تعالیٰ نے نبی مہربان ﷺ اور ان صحابہ کرام ؓ کے تذکرے کرکے ہردور کے انسانوں کے دلوں میں آپﷺ کی عظمت کا سقہ بیٹھا دیا ،ساری انسانیت نبی ٔ آخر الزماں ﷺ کا بے تابی سے انتظار کرنے لگی ،انبیاء کرام ؑ کا سلسلہ چلتا رہا ،تاریخ کی کتابوں میں یمن بادشاہ تبع بن الاقران کاتذکرہ ملتا ہے اس بادشاہ کی اولاد نے طویل عرصہ تک یمن میں بادشاہت کی اور اس کی اولاد میں جو بھی بادشاہ گزرے تبع کہلاتے تھے انہی میں ایک تبع فوجی مہم کے سلسلہ میں یثرب(مدینہ منورہ) پہنچا وہ یہاں قتل عام کرکے آبادی ختم کردینا چاہتا تھاکہ اہل علم نے اس کو خبر دی کہ نبی آخرالزماں ﷺ کا یہ دارلہجرت ہوگاوہ بہت متاثر ہوا شہر برداد کرنے کاارادہ ترک ردیااور ایک مکان تعمیر کروایا کہ آنحضرت ﷺ جب تشریف لائیں تویہاں قیام فرمائیں اور ایک تحریر لکھ دی جونسل در نسل محفوظ رہی اور حضرت ابوایوب انصاری ؓ تک پہنچی ایک روایت کے مطابق اس تبع کانام اسعد تھا کنیت ابوکرب تھی اس نے آنحضرت ﷺ کی شان میں دو شعر بھی کہے جویہ ہیں
شہادت علی احمد انہ رسول اﷲ باری انسم
فلومد الی عمری لکنت وزیرلہ وابن عم

ترجمہ۔میں شہادت دیتا ہوں کہ احمد ؐاس اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہوں گے جو جانوں کو پیدا کرنیوالا ہے اگر میری عمران کے زمانے تک عمر دراز ہوگی تو میں ان کاوزیرہوں گا سلسلہ نسب کے لحاظ سے ابن عم بھی۔ ( معارف ابن قتبیہ ص ۲۱۱،ووفاالوفا ج۱،ص۱۳۴)

1عام۔ولادت پیغمبر ﷺسے قبل ہی اہل کتاب دانشوروں کا یقین تھا کہ حضورر ﷺ تشریف لائیں گے اسی لئے بہت سے یہود مدینہ منورہ کے باہر قلعے بنا کر آباد ہوگئے تھے کہ جب نبی ٔ مکرم ﷺ تشریف لائیں گے تو ہم ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے ۔اکثر اوقات یہودوہنود کے راہب اپنی مجالس میں حضور ﷺ کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کی تفصیل سیرت کی کتب میں آج بھی موجود ہے ۔

غور فرمائیں آمنہ کے دریتیم کی آمد سے سینکڑوں،ہزراوں سال قبل ہی ان کا ذکر خیر شروع ہوگیا تھا
جس ہادی سبل کامل،سیدالانبیاء ؑکے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑنے جو بشارت دی تھی (یاتی من بعدی اسمہ احمد)میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کانام احمدﷺ ہوگا علامہ محمد سلیمان صاحب،سلمان منصور پوری،محمود پاشا فلکی کے مطابق 20یا22 اپریل،9ربیع الاولالفیل کو اس جان آفریں بشارت کا ظہور ہوا صبح کا سہانا وقت تھا ابھی سورج نکلا نہیں تھا کہ رشد وہدایت ،رحمت الہیٰ کا آفتاب ﷺ مکہ کے افق طلوع ہوا ۔آپ کا نام دادانے محمد ﷺ اوروالدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے احمد ﷺ رکھا گیا۔

عرب میں ان ناموں(محمد اور احمد) کا رواج نہیں تھا مگر کاہنوں ،نجومیوں اور سابقہ کتب کی بشارتیں چونکہ عام ہوچکی تھیں اس تمنا اور آرزو میں شائد یہ سعادت ان کے لخت جگر کو مل جائے کچھ لوگوں نے اپنے لڑکوں کے نام محمد رکھے تھے مورخین نے ان یہ کے نام شمار کروائے ہیں رحیہ بن الجلاح الادسی،سلمتہ الانصاری،ابرالکندی،سفیان بن مجاشع،حمران الجعفی،خزاعی اور سلمہٰ ان لوگوں نے اپنے لڑکوں کے نام محمد رکھے تھے لیکن احمد پھر بھی نرالا رہا، کسی نے یہ نام نہ رکھا اور قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہ چھے مولود جن کے نام محمد رکھے گئے ان میں سے کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔

جب آپ ﷺکی پیدائش ہوئی تو کعبہ کے 360 بت منہ کے بل گر پڑے ،فارس کا آتش کدہ جسکی آگ بجھتی نہیں تھی اس روز بجھ گئی جب حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو آقا کے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے کسریٰ اپنی شان وشوکت کے لحاظ سے بے مثال ،سپر طاقت تھا جب آقا ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے توایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے بحیرہ ساوہ خشک ہوگیا اور اس کے گرجے منہدم ہو گئے (الرحیق المختوم ص ۸۳)

یمن میں ایک کاہن کبھی باہر نہیں نکلتا تھا جس دن حضور ﷺ پیدا ہوئے تو وہ کاہن گھبرا کر باہر نکلااور کہنے لگا کہ اے اہل یمن! آج سے بتوں کا زمانہ ختم ہوگیاجس دن آقا کریم ﷺ پیدا ہوئے بڑے بڑے بت خانوں کے بتوں سے آواز آئی کہ ہمارا زمانہ ختم ہوگیا اب نبی آخرالزماںﷺ کا زمانہ شروع ہوگیابتوں کے توڑنے والے کازمانہ آگیا-

ایک یہودی مکے کی گلیوں میں شور مچا تا پھرتا تھا کہ کیا آج کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟بتاؤ! کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟کسی نے کہا فلاں کالڑکا پیدا ہوا پوچھا کہ اس کا باپ زندہ ہے کہا ہاں ،کہنے لگا نہیں۔۔ کوئی اور بچہ بتاو ٔکہ جس کا باپ مرگیا ہو۔۔۔۔ کہا کہ ہاں عبدالمطلب کا پوتا پیدا ہوا ہے کہاں ہاں مجھے دکھاؤ جب دکھایا گیا تو چیخ نکلی ،ارے بنو اسرائیل !تیری تباہی ،ہلاکت ،آج نبوت بنو اسرائیل سے نکل گئی اور اے قریش کی جماعت!تم نبوت کوآج ہم سے لے گئے ایک دن آئے گا یہ ایک دن ہم سے ٹکر لے گاجس کی ٹکر کی آواز مشرق ومغرب میں سنائی دے گی۔

تاریخ میں رقم ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ جب حلیمہ سعدیہ کوگود میں تشریف لائے تو اس سے قبل آپ ﷺ کا سینہ مبارک اور اونٹنی کے تھن میں دودھ نہیں تھابعداز حلیمہ کاسینہ اور اونٹنی کے تھن دودھ سے بھر گئے بقول حضرت حلیمہ سعدیہ کے جب حضور ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو میرے گھر کی ہر چیز بہت زیادہ بابرکت ہوگئی۔

امسال بھی ربیع الاول کا مہینہ آگیا مسلمان اپنے آقاﷺ کے تذکرے کر رہے ہیں جن سے ان کے دلوں کو سکون،راحت،تسکین،چین حاصل ہورہا ہے اﷲ کے محبوب ﷺ کا تذکرہ اہل ایمان کے ایمان کالازم وملزوم حصہ ہے انہی تذکروں سے علم و عمل کے چشمے پھوٹتے ہیں ہمارے نزدیک آقاکریمﷺ کے تذکرے کے لئے صرف کوئی ایک دن کو مخصوص کرنا بالکل درست نہیں ،زندگی کے ہر لمحے میں ذکر مصطفیٰ ﷺ جاری وساری رہنا چاہیے ہاں ہاں یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے، لیکن اے اہل ایمان ذرا ٹھہرئیے،غور کر لیجئے کہ کامیابی کے لئے صرف ذکر مصطفیﷺٰ ہی کافی ہے یا ذکر مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ ساتھ فکر مصطفیٰ ﷺ بھی لازم ہے غور کرو اﷲ کاکلام قرآن کیا کہتا ہے؟ آئیے اس پر غور کرتے ہیں اﷲ کا قرآن کہتا ہے کہ تمہارے نبی ﷺ حضرت محمد ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے ۔کیا مطلب ہے اسکا؟۔۔۔۔ قرآن ہم مسلمانوں کو کس کی دعوت دے رہا ہے ؟ذکر مصطفیٰ ﷺ کی یااس کے ساتھ نبی ﷺ کی فکر عملی طور پر اپنانے کی ۔۔۔۔۔۔ آئیے غور کریں عشق رسول ﷺ کے دعویدارہم اہل ایمان کے قول وفعل میں کس قدر تضاد ہے ؟ کیاہم سیرت رسول عربیﷺ کومکمل اپنانے کیلئے عملی طور پرنمونہ ٔ عمل سمجھتے بھی ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں جن احکام کو ہمارا دل مانے انھیں تو ہم کر لیتے ہوں اور جنھیں ہمارا دل قبول نہ کرے انھیں یکسر عملی اعتبار سے مسترد کر دیتے ہوں۔۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہے ہماری زندگیوں کے گوشے ا س پر شہادت دے رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں نے اسلام اور نبی ٔ دوجہاںﷺ کی پیش کردہ عملی زندگی سے انحراف کردیا ہے۔ اے مسلمانو! کبھی سوچا آپ نے کہ ربیع الاول مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں یکجا ہوجانے کا درس دیتا ہے جس کی عملی شکل خلافت کے نظام کا قیام ہے اس کے بغیر مسلمانوں کا اتحاد ناممکن ہے اس کے لئے آج تک آپ نے کیا کیا؟کیافرقہ پرستی،نفرت،مخالفت برائے مخالفت کا رویہ ترک کیا جس سے وارثان منبر ومحراب کا وقار مجروح ہوا؟ کیا اسلام کے عادلانا نظام کو قائم کرنے کے لئے مسنون طریقے سے جہدوجد کی؟، ربیع الاول کے مہینے میں حضور ﷺ کی ولادت اور رحلت ہوئی تاریخ ولادت مصطفی ٰ ﷺ میں اختلاف ہے کیونکہ ولادت رسول ﷺکے وقت موجود لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ نولومود ہستیﷺ تو مقصود کائنات ہے۔ لیکن رحلت پیغمبر ﷺ میں کسی کو اختلافنہیں کہ حضور ﷺ اس دنیا سے 12 ربیع الاول کو تشریف لے گئے اس پر کسی نے کبھی غور نہیں کیا صحابہ کرامؓ،اہل بیتؓکی اس دن کیا کیفیت تھی اور ا نھوں ؓ نے رحلت پیغمبر ﷺکے بعد امت مسلمہ میں وحدت قائم رکھنے کے لئے تین دن تین راتیں لگا کر کیا کیاتھا؟ کیا صحابہ ؓ اور اہل بیت ؓ نے اﷲ کی زمین پر اﷲ کے نظام" خلافت" کو قائم رکھنے کے لئے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو خلیفتہ الرسول نہیں بنایا تھا؟ان کی زندگیوں میں اس دن کے ہر سال آنے پر صحابہ ؓ،اہل بیت ؓ، تابعینؒ،تبعہ تابعین ؒ کاعمر بھر عمل متواتر کیارہا؟

میرا ایمان ہے کہ آقا ﷺ کی سیرت ورحمت کا احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں اگر قیامت تک سب انسان اﷲ کے نبی حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت کو ہر وقت بھی بیان کرتے رہیں توتب بھی اس مقدس عنوان کا احاطہ نہیں کر سکتے،اسلام نے تومحبو ب رب ذوالجلال حضرت محمد ﷺ کی سیرت اپنانے کا حکم دیا ہے سیرت اپنانے سے دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔سیرت النبی ﷺ سے منہ موڑنے والے انسان دنیا وآخرت میں ناکام ونامراد ہوں گے ،مسلمان سیرت منانے کی بجائے سیرت کو اپنائیں سیرت منانے کا حکم شریعت میں کہیں نہیں دیا گیا ،مسجدوں،بازاروں،گلیوں کو سجانے کی بجائے اپنے جسموں کو شریعت محمدیہ،سیرت رسول اﷲ ﷺ سے مسلمان سجائیں،نبی ٔ اکرم ﷺ نے تو اپنی ساری دولت فضول خرچی کی بجائے غریبوں ،یتیموں، مسکینوں،ضرورت مندوں پر خرچ کی تم اس پرکتنا عمل کر رہے ہو؟ درحقیقت یہی اسلام سے وفا ہے ،

اے مسلمانو! ربیع الاول پیغام دے رہا ہے کہ اﷲ ورسول ﷺ کی احکام کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کردو جب اپنی ذاتی خواہشات کو اﷲ ورسول ﷺ کی خواہشات پر قربان کرو گے تو اﷲ ورسول ﷺ کی رضا،خوشنود ی کا پروانہ دائیں ہاتھ میں نصیب ہوگاجب تم شریعت اسلامیہ اور سیرت رسول ﷺ کو چوم کر، سینے سے لگا کر زندگیوں میں عملی طور پر اپناؤ گے تو دنیا وآخرت کی ہر کامیابی تمہارے قدم چومنے پر مجبور ہو جائے گی،آج لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان اپنی خواہشات کو اﷲ ورسول ﷺ کے احکامات،خواہشات پر قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کے باعث ذلت ورسوائی،محکومی،غلامی در غلامی،آپس میں کشت وخون،آپس میں دست وگریبان ہیں اس کیفیت سے نکلنے کا واحد راستہ اﷲ و رسول ﷺ کی اطاعت ہی ہے ٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.