جانِ نعمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ اوراظہار مسرت کا دینی تقاضا
(Gulam Mustafa Razvi, India)
نعمت و انعام کے عطا ہونے پر
خوشی منانا یہ فطری امر ہے اور سرشت انسانی کا حصہ۔اور خداے قدیر کا حکم
بھی: ’’تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اس پر چاہیے کہ خوشی
کریں۔‘‘ ۱
رحمت عالم ہادی کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تشریف لانا نعمت و عافیت،
برکت و سعادت اور عطا و نوازش کا نقطۂ عروج ہے۔ جب آفتابِ رسالت طلوع ہوا
تو کفر کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور حق کا اجالا پھیل گیا، اﷲ تعالیٰ کی توحید
و یکتائی اور عظمت و شان کا نغمہ لبوں پر جاری ہو گیا۔ ان انعامات کے تشکر
اور اظہارِ فرح و مسرت کے لیے مسلمانوں کا ولادتِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
و سلم کا جشن منانا ایک ایمان افروز اور کفر سوز کام ہے۔ امام محمد شرف
الدین بوصیری (م۶۹۴ء) نے حقیقت افزا بات کہی
حَتّٰی اِذَا طَلَعَتْ فِي الْاُفْقِ عَمَّ ھُدَا
ھَا الْعَالَمِیْنَ وَاَحْیَتْ سَائِرَ الْاُمَمٖ
ترجمہ: یہاں تک کہ جب افق کائنات پر وہ آفتاب طلوع ہوا تو اس کی ہدایت سارے
جہانوں میں پھیل گئی اور اس نے بہت ساری قوموں کو حیات عطا کر دی۔ ۲
سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی ساعت ِ سعید کو
امام احمد رضا قادری برکاتی محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء) نے ’’سہانی گھڑی‘‘
سے تعبیر کیا ہے
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
سیرت طیبہ کا موضوع بڑا وسیع اور منفرد و اچھوتا ہے۔ میلاد کا عنوان سیرت
کا ایک مستقل اور اہم باب ہے جس پر اب تک بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں
اور لکھی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا۔ میلاد در اصل سرکار دو
عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری و ولادت کے تذکرہ کو کہا جاتا
ہے اس لیے اس کا اہتمام کرنا کوئی نیا اور باعثِ عار کام نہیں، اسلاف کرام
نے اس کا اہتمام اسلامی شان کے ساتھ کیا ہے بلکہ قرآنی اسلوب میں بھی اس کے
جلوے پیش کیے جا سکتے ہیں، جیسے:
’’بے شک اﷲ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھیں میں سے ایک رسول
بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے۔‘‘ ۳
اسی طرح انبیاے کرام سے جو عہد لیا گیا اور محبوب کی تشریف آوری کی بشارت
سنائی گئی اس میں بھی کیا دل کش اسلوب ہے:’’اور یاد کرو جب اﷲ نے پیغمبروں
سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے
پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان
لانا‘‘ ۴
پھر یہ پہلو بھی لائق غور ہے کہ جب محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کو رحمۃللعالمین
بنا کر بھیجا تو کیا اس رحمت پر خوشی نہیں کی جائے گی؟…… وہ کیسے ہیں جو
منھ بسورتے ہیں اور انھیں یہ ایمان افروز جشن نہیں بھاتا۔کتاب الصیام صحیح
مسلم شریف میں ارشاد نبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہے:
فیہ ولدت، وفیہ انزل علیّ ’’میں اسی روز پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی
نازل کی گئی۔‘‘۵
اس یوم کی عظمت و شان کے حوالے سے خاتم المحدثین امام جلال الدین سیوطی
(م۹۱۱ھ / ۱۵۰۶ء) تحریر فرماتے ہیں:’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پیر کے روز
روزہ رکھنے میں بڑی فضیلت ہے، کیوں کہ آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کی ولادت اسی دن ہوئی لہٰذا ضروری ہے کہ جب یہ مہینہ آئے تو اس کی شان
کے لائق اس کا احترام و اہتمام ہو اور اس کی تعظیم و تکریم کی جائے، نبی
کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کیوں کہ آپ کی یہ عادت
کریمہ تھی کہ آپ فضیلت والے اوقات کو زیادہ عبادت و خیرات فرماتے تھے۔‘‘ ۶
علامہ حافظ عمادالدین ابن کثیر دمشقی (م۷۷۴ھ / ۱۳۷۳ء) تحریر فرماتے
ہیں:’’تمام تعریف اﷲ کے لیے جس نے سیدالمرسلین کے ظہور سے ہر وجود کو روشن
کیا اور حق مبین کی ضیا سے باطل کی ظلمتوں کودور کیا، اور حق کے راستوں کو
واضح کیا جب کہ لوگ جہل کی تنگ نائیوں سے گزر رہے تھے۔‘‘ ۷
میلاد مبارکہ کے سلسلے میں شرعی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر محافل میلاد کا
انعقاد باعث اجر و ثواب ہے۔ صہیونیت زدہ ذہنوں کے لیے یہ نکتہ لمحۂ فکریہ
ہے کہ سال بھر تو ذکر رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محافل منعقد ہوتی
ہیں اب اگر ربیع الاول میں اسی محفل کا نام ’’محفل میلاد ‘‘ رکھ دیا جاتا
ہے تو وہ صرف نام کی تبدیلی سے کیوں پریشاں ہو جاتے ہیں؟ کیا عقلی طور پر
اس کی اجازت دی جائے گی کہ خواہ مخواہ اِدھر اُدھر وقت تو ضائع کر دیا
جائے، غیبت و چغلی اور الٹے سیدھے کاموں کی محفل سجا لی جائے لیکن میلاد
رسول اور آمد رسول کی محفل سے احتراز کیا جائے، یہ تو محرومی کی بات ہے۔
رہی بات عہد صحابہ میں میلاد کے اہتمام کی تو ان کا ہر ہر لمحہ ذکر رسول سے
روشن ہوتا تھا اور بعد کے ادوار میں یہ طریقہ کم ہوتا گیا تو خصوصیت سے
محافل میلاد کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عوام کی فکری تربیت نیز
ایمانی جِلا کا سامان کیا گیا…… اور اسلاف نے اس کو کیا ہی نہیں بلکہ اس کے
انعقاد کی ترغیب و تلقین بھی کی ۔ اور اس رخ سے کثیر کتابیں منصۂ شہود پر
ہیں۔
حوالہ جات:
(۱) القرآن الکریم؛ سورۃ یونس:۵۸/ترجمہ کنزالایمان
(۲) نفیس احمد مصباحی، مولانا، کشف بردہ، النمجمع القادری مبارک پور۲۰۰۵ء،
ص۲۱۸
(۳) القرآن الکریم؛ سورۃ آل عمران:۱۶۴/ ترجمہ کنزالایمان
(۴) القرآن الکریم؛ سورۃ آل عمران:۸۱/ ترجمہ کنزالایمان
(۵) یٰس ٓ اختر مصباحی، مولانا، جشن عید میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم، رضا
اکیڈمی ممبئی۲۰۰۷ء، ص۲۰
(۶) جلال الدین سیوطی، امام، حسن المقصدفی عمل المولد(میلاد سیوطی)،
دارالعلوم جائس رائے بریلی۲۰۰۴ء، ترجمہ محمد آصف رضا، ص۲۶
(۷) عماد الدین ابن کثیر، علامہ، مولد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم(میلاد ابن
کثیر)، دارالعلوم جائس رائے بریلی۲۰۰۴ء، ترجمہ سید علیم اشرف جائسی، ص۲۰ |
|