جنگ احد کے اسباب
شنبہ7 شوال 3ہجری میں جنگ شروع ہوئی ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح
قریش اور یہود و منافقین کے لئے باعث ننگ اور ناگوار خاطر تھی۔ قریش نے نہ
صرف یہ کہ اپنے ان سربرآوردہ افراد کو بلکہ اپنی سرداری ہیبت اور اس نفوذ
کو جو عرب کے درمیان تھا اپنے ہاتھوں گنوا دیا تھا، جاہل عرب کے لئے جو
اپنی سرداری کو اپنا ”جھوٹا“ قومی افتخار سمجھتے تھے بڑے رنج کا باعث تھا۔
قریش اور ان کے کشتوں کے وارثوں کے دلوں میں کینہ اور انتقام کی آگ شعلہ ور
تھی اور قریش کے سرداروں نے کشتگان بدر پر رونے کو حرام قرار دیا تھا تاکہ
مناسب موقع پر ان کے جذبات کے آتش فشاں پھٹیں اور منظم طریقہ سے اسلام اور
مسلمانوں سے انتقام لیا جاسکے۔ ادھر یہودیوں کے لئے بھی اسلام کا پھیلنا
خوش آئند نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مشرکین قریش کو بھڑکانے میں بڑا زبردست
رول ادا کیا۔ کعب بن اشرف بدر کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف دوڑا اور وہاں اس
نے قریش کے مقتولین کے لئے شعر پڑھا اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ان کے
مقتولوں کا داغ تازہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لئے اس
نے پاک باز مسلمان عورتوں کے ساتھ جنگ کرنے اور ان کی عورتوں اور لڑکیوں کو
اسیر بنانے پر بھی آمادہ کیا ۔
1) اقتصادی محاصرہ کی لائن کا توڑنا۔۔۔۔۔ قریش کا اقتصادی نظام تجارت کے
پایہ پر استوار تھا، تجارتی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور مسلمانوں کے حملہ
کے ڈر سے ان کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تھی اور ان کے لیے اقتصادی نظام کو
برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس لیے اس محاصرہ کو توڑنا اور خود کو اس
تنگی سے باہر نکالنا بہت ضروری تھا۔
2 ) آئندہ کے لئے پیش بندی۔۔۔۔۔ قریش اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر
مسلمانوں کو قدرت حاصل ہوگئی تو وہ ان کو نہ چھوڑیں گے اور قریش کی اذیتوں
اور عداوتوں کا چند برسوں میں ضرور جواب دیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ان
کو معلوم تھی کہ بت پرستوں کے ہاتھوں سے مسجد الحرام کو آزاد کرانے کے لئے
وہ کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کریں گے۔ یہ ساری باتیں سبب بنیں کہ قریش حملہ
میں پیش قدمی کریں تاکہ اپنے خیال سے وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا کام
تمام کر دیں۔
جنگ کی تیاری کا پہلا قدم، بجٹ کی فراہمی
اس وسیع جنگی منصوبہ میں پہلا عملی قدم حملوں کی تیاری کے لئے زیادہ سے
زیادہ بجٹ فراہم کرنا تھا، قریش، دارالندوہ ”قریش کے مشورہ کرنے کی جگہ“
میں جمع ہوئے اور بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ 50 ہزار طلائی دینار
اس حملہ کے لئے جمع کئے جائیں۔ یہ بجٹ اس تجارتی کارواں کے منافع سے مہیا
کیا جائے جس کو بدر سے پہلے ابوسفیان مکہ میں صحیح و سالم لے آیا تھا۔
(مغازی)
قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے کہ بیشک کافر اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں تاکہ
”لوگوں کو“ خدا کے راستہ سے باز رکھیں وہ لوگ ان اموال کو خرچ کر رہے ہیں
لیکن یہ ان کی حسرت کا باعث ہوگا۔
اس کے بعد ان کو شکست ہوگی اور اس دنیا میں کافر جہنم میں جائیں گے۔(انفال
آیت:۳۶)
قوتوں کی جمع آوری
کفار قریش جنہوں نے نزدیک سے اسلامی سپاہیوں کی شجاعت اور جذبہ شہادت کو
دیکھا تھا، انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ پوری توانائی کے ساتھ جنگ کے لئے اٹھ
کھڑے ہوں اور قریش کے علاوہ مکہ کے اطراف و جوانب کے دوسرے قبائل عرب کے
بہادروں کو بھی اس جنگ میں شریک کریں۔4 آدمیوں کو انہوں نے بادیہ نشین عرب
قبائل کے درمیان بھیجا تاکہ وہ ان کےساتھ مل کر لڑنے اور مدد کرنے کی دعوت
دیں یہ چار آدمی، عمرو بن عاص ، ہبیرہ بن ابووہب، ابن الزبعری“ اور ابوعزہ“
تھے۔
ابوعزہ شروع میں اس ذمہ داری کو قبول نہیں کر رہا تھا وہ کہتا تاکہ ”جنگ
بدر“ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنہا مجھ پر احسان کیا اور
مجھ کو بغیر تاوان کے آزاد کر دیا میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے
مقابل میں آنےوالے کسی بھی دشمن کی میں مدد نہیں کروں گا۔ میں اپنے پیمان
کا وفادار ہوں۔ لیکن لوگوں نے اس کو قانع کر دیا اور وہ بادیہ نشین قبائل
کے درمیان چلا گیا۔ وہاں اس نے شعر پڑھ پڑھ کر لوگوں کو رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑنے کے لئے آمادہ اور جمع کیا۔ دوسرے تین آدمیوں
نے بھی قبائل کو لڑائی پر ابھار کر انہیں جمع کیا، انجام کار قبائل ”کنانہ“
اور ”تہامہ“ کے لوگ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے قریش کےساتھ مل کر
جنگ کرنے پر تیار ہوگئے۔(مغازی ج۱ ص ۲۰۱)
سیاسی پناہ گزین
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعد ابو عامر فاسق جو
اپنے قبیلہ اوس کے 50 افراد کے ساتھ مشرکین کے سربرآوردہ افراد کی پناہ میں
تھا وہ ان افراد کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے پر ابھارتا
رہا۔ وہ اپنے قبیلہ کے افراد کے ساتھ مشرکین کی تیاریوں میں شریک تھا اس نے
کہا کہ یہ50 افراد میرے قبیلہ کے ہیں اور جس وقت ہم سرزمین مدینہ پر پہنچیں
گے اس وقت قبیلہ اوس کے تمام افراد ہماری طرفداری کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مدینہ کا قصد
قریش نے مکمل تیاری کے بعد اپنے سپاہیوں کو روانہ کیا یہ لشکر3 ہزار افراد
پر مشتمل تھا جس میں 700 زرہ پوش، 200 گھڑ سوار اور 3 ہزار شتر سوار بے
پناہ اسلحہ سے لیس تھی جبکہ اس جنگی قافلہ میں15 عورتیں شریک تھیں تاکہ
گابجا کر ان کے جذبات کو برانگیختہ کریں۔
مشرکین کے لشکر کا سپہ سالار ابوسفیان تھا اور خالد بن ولید نے سواروں کی
افسری کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی، عکرمہ بن ابی جھل خالد کے معاون کی
حیثیت سے اس بار لشکر مشرکین ہر طرح کے ایسے اختلاف سے اجتناب کر رہا تھا
جو ان کو دو گرہوں میں بانٹ دیتا ہے۔
عباس کی رپورٹ
جس وقت سپاہیوں نے کوچ کا ارادہ کیا اس وقت حضرت عباس بن عبدالمطلب رسول کے
چچا جنہوں نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا اور بہت قریب سے ان کے کوچ کے نگراں
اور ان کی تیاریوں کے شاہد تھے۔ ایک خط رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو لکھا
اور مشرکین کے سپاہیوں کی جنگی حالت کی اطلاع دی۔
عباس نے قبیلہ بنی غفار کے ایک معتمد شخص کے ذریعے وہ خط بھیجا۔ اس فرستادہ
نے اتنی تیزی سے راستہ طے کیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیانی فاصلہ کو صرف
تین دن میں طے کرلیا۔ جب یہ سوار مدینہ پہنچا تو اس وقت پیغمبر اسلام مقام
”قبا“ میں تھے۔ وہ حضرت کے پاس پہنچا اور اس نے خط دیا۔ رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے وہ خط ایک شخص کو دیا تاکہ وہ اسے حضرت کو سنائے پھر آپ
نے اس سے فرمایا کہ اس کا مضمون کسی کو بتایا نہ جائے‘ تاہم مدینہ کے یہودی
اور منافقین اس نامہ بر کے آنے سے آگاہ ہوگئے اور یہ مشہور کر دیا کہ محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بری خبر پہنچی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ
قریش کی لشکر کشی سے باخبر ہوگئے۔
سپاہ قریش راستہ میں
سپاہ قریش کےساتھ جو عورتیں تھیں وہ جس منزل پر قیام کرتیں گانا، بجانا
شروع کر دیتیں، مقتولین قریش کی یاد دلا کر سپاہیوں کو بھڑکاتی رہتی تھیں،
قریش کے سپاہی جہاں کہیں بھی پانی کے کنارے رکتے اونٹوں کو کاٹ کر ان کا
گوشت کھاتے۔ (مغازی ج۱ ص ۲۰۵، ۲۰۶)
عمرو بن سالم خزاعی نے مکہ اور مدینہ کے راستہ کے درمیان مقام ”ذی طویٰ“
میں قریش کو خیمہ زن دیکھا، وہ مدینہ آئے اور انہوں نے جو کچھ دیکھا اس کی
خبر پیغمبر کو دی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۰۵)
اطلاعات کی فراہمی
شب پنجشنبہ 5 شوال3ہجری کو دو گشتی سراغ رساں ”انس اور مونس‘و فضالہ کے
بیٹوں کو دشمنوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کےلئے بھیجا گیا۔ ان دونوں
نے قریش کو مقام ”عمیق “ میں دیکھا اور ان کے پیچھے ہو لیے۔ یہاں تک کہ
انہوں نے مقام ”وطاء“ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا۔ یہ لوگ وہاں سے پیغمبر کی
خدمت میں رپورٹ پیش کرنے کےلئے واپس آگئے۔(مغازی ج۱ ص ۲۰۶)
دشمن کے لشکر کے ٹھہرنے کی جگہ
سپاہ مشرکین نے مقام وطاء میں احد کے نزدیک پڑاؤ ڈالا دشمنوں کے صرف ٹھہر
جانے کی بناء پر رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حباب بن منذر کو پوشیدہ طور
پر اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ دشمن کی قوت کا اندازہ کریں اور ضروری
اطلاعات جمع کر کے اس کی رپورٹ دیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس
بات کی تاکید کی کہ اپنی رپورٹ دوسروں کے سامنے بیان نہ کرنا مگر یہ کہ
دشمن کی تعداد کم ہو تو اس وقت کوئی حرج نہیں ہے۔
حباب دشمن کے سپاہیوں کے قریب پہنچے اور نہایت دقیق نظر سے ان کا جائزہ
لیا، پھر واپس آئے اور پیغمبر سے تنہائی میں ملاقات کی اور کہا کہ حضور میں
نے ایک بڑا لشکر دیکھا ہے میرا اندازہ ہے کہ کم و بیش3 ہزار افراد ہیں، 200
گھوڑے ہیں اور زرہ پوش سپاہیوں کے بارے میں میرا تخمینہ ہے کہ700 ہوں گے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے عورتوں کو بھی
دیکھا؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسی عورتیں دیکھی ہیں جن کے پاس گانے بجانے
کے سامان بھی ہیں۔ پیغمبر نے فرمایا کہ ”یہ عورتیں مردوں کو لڑائی پر
اکسانا اور مقتولین بدر کی انہیں یاد دلانا چاہتی ہیں اس سلسلے میں تم کسی
سے کوئی بات نہ کرنا خدا ہماری مدد کے لئے کافی ہے۔ وہ بہترین حفاظت کرنے
والا ہے، خدایا ہماری روانگی اور ہمارا حملہ تیری مدد سے ہوگا۔(مغازی ج۱ ص
۲۰۷،۲۰۸)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |