سود اور سور
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
دین اسلام اورقرآن مجیدفرقان حمید ہرعہد کے انسانوں کیلئے کامل ضابطہ حیات ہے ۔جس
طرح قیامت تک قرآن مقدس میں ایک زیرزبر کی تبدیلی نہیں ہوگی اس طرح احکامات الٰہی
اور اسلامی تعلیمات میں بھی کسی قسم کی ترمیم خارج ازامکان ہے۔اﷲ تعالیٰ کے بنائے
اوربتائے ہوئے ہرایک ضابطے کی پاسداری ہم انسانوں پرفرض ہے ،انسانوں کابنایا کوئی
اصول وضابطہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات کوچیلنج نہیں کرسکتا۔ دنیا ہرگز دین پرغالب نہیں
آسکتی ،ہم اپنی کسی ضرورت کیلئے اسلامی تعلیمات میں ترمیم کی تجویز پیش کرنے
کااستحقاق نہیں رکھتے ۔صدرممنون حسین نے سود بارے گنجائش پیداکرنے کی جوتجویز دی ہے
اس پر وہ توبہ کیلئے اﷲ تعالیٰ سے رجوع کریں ۔ قرآن مجید میں قیامت تک آنیوالے
انسانوں کیلئے معاشرت اورمعیشت سمیت ہرموضوع پرسیرحاصل رہنمائی دستیاب ہے ۔قرآن
مجید کی آیات میں جہاں انسانوں کی بقاء اوربہبود کیلئے راستہ بتایاگیا ہے وہاں
ہرقسم کی بدی اوربرائی کی وضاحت کرتے ہوئے اس کیلئے مختلف سزائیں بھی مقررکردی
ہیں۔قرآن پاک کی روسے شرک کوگناہ کبیرہ بتایا گیا ہے جبکہ غیبت کوزناسے بدتر کہا
گیا ہے۔گناہوں کی فہرست میں شرک کے بعدسودخوری کانمبرآتا ہے۔زندگی بچانے کیلئے ایک
مخصوص مقدارمیں یعنی جس میں زیادتی نہ ہو سورسمیت کسی بھی حرام جانور کاگوشت کھانے
کی اجازت ہے مگرمسلمانوں کیلئے سودخوری کی مدمیں ایک ٹیڈی پیسہ تک جائزاورحلال نہیں
ہے۔ سودکوسور سے بدترکہنابیجانہیں ہوگا۔اسلام کامعاشی نظام جن بنیادوں پراستوار ہے
،ان میں سے کچھ میں عبادات کاپہلو غالب ہے جبکہ کچھ میں معاملات کواہمیت حاصل ہے ۔یہ
بنیادیں ایک اسلامی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اوران میں بیشتر کے
نفاذکی ذمہ داری اسلامی حکومت پرعائدہوتی ہے۔زکوٰۃ اورعشر ،صدقات و خیرات ،قرض حسنہ
کی حوصلہ افزائی ،بخل کی بیخ کنی،سود کی ممانعت ،قانون وراثت ،محنت تجارت
اورکاروبار کی حوصلہ افزائی ،غیرمناسب طرزتجارت پرقدغن جبکہ خمس، عشور
اوردیگرمحصولات ۔جس اسلامی ریاست میں سود،زنا،شراب،بے حیائی اورجواء عام ہووہاں
معیشت کس طرح ٹیک آف کی پوزیشن پرآسکتی ہے۔ایک اسلامی معاشرے میں بے حیائی کافروغ
مہنگائی سے زیادہ مہلک ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے حیائی اوربے پردگی
کوروشن خیالی کانام دیاجارہا ہے ۔اسلامی ریاست کے حکمران اپنی بیویوں اوربیٹیوں
کوبغیر پردے کے دنیا بھر میں لے جاتے ہیں۔اپنے قول وفعل پرشرمندہ ہونے کی بجائے
الٹاقوم کوروشن خیالی کادرس دیا جارہا ہے ۔اسلامی تعلیمات کی روسے اﷲ تعالیٰ کی
بارگاہ میں ہر مردسے اپنی بیوی اوربیٹی کی بے پردگی پرجوابدہی ہوگی ،جس مردنے اپنی
بیوی اوربیٹی کوپردہ کرنے کی تلقین یا تاکید نہیں کی ہوگی وہ سزاکامستحق قرارپائے
گا۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے پوچھا''عورت کی
سب سے بڑی خوبی کیا ہے، حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ وہ کسی غیرمحرم
کودیکھے اورنہ کوئی غیرمحرم اس کودیکھے'' ۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہااکثر
فرمایاکرتی تھیں علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میراجنازہ رات کواٹھاناتاکہ میرے کفن پربھی
کسی غیر محرم کی نظرنہ پڑے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ، سرورکونین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کافرمان عبرت نشان ہے ،''بے شک سود کے ستر (70)دروازے ہیں ،ان میں سے ادنیٰ
اورمعمولی ایسے ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ زناکرنا''۔ایک اورحدیث نبوی صلی اﷲ وعلیہ
وسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ''جس رات مجھے معراج ہوئی اس رات جب ہم ساتویں آسمان پرپہنچے تومیں نے اوپرکی طرف
دیکھا۔وہاں گرج،چمک اورکڑک ہورہی تھی '' تاجدارانبیاصلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے
ہیں،''میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزراجن کے پیٹ اس طرح پھولے ہوئے تھے جیسے
گھرمعلوم ہوتا تھا،ان میں سانپ ہی سانپ تھے اوریہ سانپ باہر سے نظرآتے تھے''۔میں نے
پوچھااے جبرائیل ؑ یہ کون لوگ ہیں،انہوں نے بتایا یہ سودخور ہیں۔ سودروح ایمانی
کیلئے انتہائی مضراورزہرقاتل ہے ،سودہی وہ گناہ ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ہے
کہ جولوگ اس سے بازنہیں آئیں گے ان کیخلاف اﷲ تعالیٰ اوراس کے محبوب حضرت محمدصلی
اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اوراس کے
رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک یہ گناہ شرک کے بعد دوسرے سب گناہوں سے
زیادہ بڑااورغلیظ ترین گناہ ہے ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،''جوانسان سودی مال جمع
کرتا ہے تواس کاانجام تنگ دستی ہوتی ہے'' ۔جبکہ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں
،''سودی مال چاہے کتنا ہی زیادہ ہوجائے بالآخرتنگ دستی اس کانتیجہ ہوتا ہے۔''
میں سمجھتاہوں ممنون حسین کو کسی مخصوص قابلیت یااہلیت نہیں بلکہ صبرکی
بنیادپرصدربنایا گیاہے، موصوف وفاقی حکومت کو نصیحت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔میاں
نوازشریف کاسٹائل ہے وہ کسی قدآور کواپنے ساتھ کھڑانہیں ہونے دیتے۔ جسٹس (ر)محمدرفیق
تارڑ کوبھی میاں نوازشریف نے سیاسی طورپرکمزور سمجھتے ہوئے صدرمملکت بنایا تھا ۔داناکی
دوستی سے انسان دانائی سیکھتا ہے جبکہ نادان کی صحبت میں نادانیاں سیکھنے کوملتی
ہیں۔کسی مصیبت میں طاقتوراورداناپرتوانحصارکیا جاسکتا ہے مگر کوئی نادان
اورکمزورہماری کوئی مددنہیں کرسکتا۔جودوست ضرورت کے وقت نصیحت کرے اورنہ مفید مشورہ
دے وہ دشمن سے بدتر ہے۔صدراوروزیراعظم کے درمیان طاقت کاتوازن ختم ہونے سے پاکستان
میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ممنون حسین کومیرٹ پرصدرمملکت نہیں بنایا گیا اسلئے وہ میاں
نوازشریف کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اوران کاکوئی فیصلہ رد نہیں کرسکتے ۔صدرمملکت
کووفاق کی علامت کہا جاتا ہے مگر اب تو منصب صدارت کو محض علامتی بنادیا گیاہے ۔صدرممنون
حسین کاسودپرمتنازعہ تجویز پیش کرنے کی بجائے خاموش تماشائی بنے رہنا ان کے حق میں
بہترتھا۔اس سطح پرجودانائی کی بات نہیں کرے گارسوائی اس کامقدربن جائے گی۔حضرت
ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں،سراپارحمت حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا ،" جوشخص اﷲ تعالیٰ اورقیامت پرایمان رکھتاہواسے چاہئے کہ خیروبھلائی کی بات
کرے یاپھر خاموش رہے"۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں،'' اخلاق ایک دوکان
ہے اورزبان اس کاتالا،جب تالاکھلتاہے تومعلوم ہوتا ہے دوکان سونے کی ہے یاکوئلے کی''
۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ،''تلوارکازخم جسم پرہوتا ہے اوربری
گفتگوکاروح پر''۔ ،شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں ''میں خاموش رہ کر کبھی نہیں
پچھتایا،اگرکبھی پچھتایا تو بات کرکے پچھتایا''۔کسی داناکاقول ہے ،'' خاموشی میں
راحت ہے جبکہ لفاظی کے سفرمیں انسان تھک جاتے ہیں '' ۔قرآن مجید کے احکامات میں صبح
قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لہٰذاء سودبارے ابہام یاگنجائش پیداکرنابھی گناہ
کبیرہ ہے۔ ممنون حسین خودکوسود سمیت دوسرے سیاسی تنازعات سے دوررکھیں ۔اگروہ حکومت
کومفیدمشورے نہیں دے سکتے توخداراسود جیسی برائی ،لعنت اورنحوست کا راستہ ہموارکرنے
کی کوشش بھی نہ کریں۔ حکمران یادرکھیں وہ آئینی عہدوں اوراداروں کوکمزورکرکے
خودطاقتورنہیں بن سکتے ۔کمزورنہیں بلکہ دانااورتوانادوست مصیبت میں انسان کے کام
آتے ہیں۔پاکستان کے ایوان صدر کوایک غیرجانبدار،بااختیار ،باوقاراوردانا شخصیت کی
ضرورت ہے جوغلطیاں کرنے پرحکمرانوں کی اصلاح اور بازپرس کرے ۔ گڈگورننس کے ساتھ
ساتھ جمہوریت کے دوام اوراستحکام کیلئے صدر مملکت کوخاطر خواہ اختیارات دیے جائیں ،اس
سے جمہوری نظام کواستحکام ملے گااورحکومت ڈی ٹریک نہیں ہوگی۔کوئی توہوجو وزیراعظم
کونصیحت اور وفاقی حکومت کی سمت درست کرے ورنہ عوام کا حکومت کے ساتھ ساتھ اس
جمہوریت پرسے بھی اعتماداٹھ جائے گا ۔ باربار پارلیمانی طرزحکومت کی ناکامی
اوربدنامی کے بعد پاکستان میں صدارتی نظام حکومت آزمانے کاوقت آگیا ہے۔ |
|