نام و نسب:
نام :محمدبن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف اور کنیت ابو
القاسم تھی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سیدنا جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے بہت سے نام ہیں ، میں محمد، احمد ہوں ، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر
(لوگوں کو اکٹھا کرنے والا) اور عاقب یعنی آخری نبی ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب سب سے پاکیزہ ، اعلی و ارفع ہے ، سیدنا
واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ عز وجل نے ابراہیم(علیہ السلام) کی نسل سے اسماعیل(علیہ السلام) ، بنی
اسماعیل سے کنانہ ، بنی کنانہ سے قریش ، قریش سے بنو ہاشم ، اور بنو ہاشم
سے مجھے منتخب کیا۔(صحیح مسلم)
اور جب ہرقل (روم کا بادشاہ) نے سیدنا ابو سفیان رضی الله عنه سے اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے بارے میں سوال کیا تو انهوں نے جواب دیا
کہ:
وہ ہم میں سب سے اعلیٰ نسب والے ہیں ، ہرقل نے جواباً کہا:
’’انبیاء و رسل ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
ولادت باسعادت:
ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور
جہاں تک تاریخ کی بات ہے تو اس مسئلہ میں مورخین کے ہاں اختلاف ہے ۔ راجح
قول یہ ہے کہ ربیع الاول کی 9 تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش
ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد کا انتقال
ہوچکا تھا ، پیدائش کے بعد ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کو چند دنوں تک دودھ پلایا پھر حلیمہ سعدیہ نے تقریباً 4 سال تک آپ
کوگود کھلانے کا شرف حاصل کیا اور جب شق صدر کا واقعہ پیش آیا تو حلیمہ
سعدیہ نے خوف کے مارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کے حوالے
کردیا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر 6 سال کی ہوئی تو اپنی والدہ آمنہ بنت
وہب کے ساتھ اپنے ننھیال مدینہ گئے واپسی میں مقام ابواء پر والدہ انتقال
کر گئی، اس کے بعد موروثہ لونڈی ام ایمن نے آپ کی پرورش کی ، اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدا لمطلب نے کفالت کی جب رسول مكرم صلی اللہ علیہ
و سلم کی عمر 8 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا وفات
پاگئے۔جنہوں نے وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابو طالب کو
کفالت و تربیت کی وصیت کی ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے
سرفراز کیا گیا تو ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب مدد کی لیکن
ایمان نہیں لائے ان کی اس تائید و نصرت کی وجہ سے قیامت کے دن انہیں ہلکا
عذاب دیا جائے گا۔
معصوم عن الخطا:
اللہ رب العالمین نے نبی مكرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر قسم کی برائی سے
محفوظ رکھا اور اعلی اخلاق پر فائز کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بچپن ہی سے
صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے اسی لئے جب قریش کے مابین تعمیر کعبہ کے
وقت حجر اسود کو نصب کرنے میں تنازعہ ہوا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جو سب سے
پہلے کعبہ میں داخل ہوگا وہی اس کا حقدار ہوگا تو رسول اكرم صلی اللہ علیہ
وسلم جن کی عمر اس وقت 35 سال تھی سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوئے جس پر سب
نے بیک زبان کہا:یہ امین ہیں ہم ان سے راضی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و
سلم نے حجر اسود کو ایک کپڑے میں رکھ کر سرداران قبائل کو کپڑے کا ایک ایک
کنارہ پکڑنے کا حکم دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں
سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ (مسند احمد ، حاکم)
ازوج مطہرات:
1 رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عالیہ سے متاثر ہو کر سیده خدیجہ
رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا اس وقت آپ
صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر 25 سال کی تھی جب تک سیده خدیجہ رضی اللہ عنہا
زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔
2 سیدہ سودۃ بنت زمعہرضی اللہ عنہا
3 سیدہ عائشہ بنت ابی بکر الصدیق
4 سیدہ حفصہ بنت عمر
5 سیدہ زینب بنت خزیمہ بن حارثرضی اللہ عنہا
6 سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا جن کا نام ہند بنت امیه تھا
7 سیدہ زینب بنت جحشرضی اللہ عنہا
8 سیدہ جویریہ بنت الحارثرضی اللہ عنہا
9 سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جن کا نام رملہ بنت ابی سفیان تھا
0 سیدہ صفیہ بنت حی بن اخطبرضی اللہ عنہا
! اور سب سے آخر میں سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا
سیده خدیجہ وسیده زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما یہ دونوں نبی اكرم صلی
اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں باقی بیویاں آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کی وفات کے بعد زندہ رہیں۔ رضی اللہ عنھن جمیعا۔
نرینہ اولاد:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 3 نرینہ اولادیں تھیں۔
1 قاسم انہی کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم پڑی۔
2 عبد اللہ جن کا لقب طیب و طاہر تھا۔
3 ابراہیم جو مدینہ میں پیدا ہوئے تینوں بچے بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے
واضح رہے کہ ابراہیم کے سوا جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے آپ کی
تمام اولاد لڑکے اور لڑکیاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئیں۔
بچیوں میں:
1 سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سب سے بڑی تھیں ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے
ہوئی۔
2سیدہ رقیه رضی اللہ عنہا جن کی شادی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے
ہوئی۔
3 سیدہ فاطمہرضی اللہ عنہا سیدنا حسن و حسین کی والدہ محترمہ جو سیدنا علی
زوجیت میں تھیں۔
4سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا جوسیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد
عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آئیں۔
تمام دخترانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کا زمانہ پایا سب مسلمان
ہوئیںسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا سب کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی حیات میں ہوگیا تھا۔
نبوت و رسالت:
17رمضان المبارک بروز پیر یعنی دوشنبہ کو غارحراء میں 40 سال کی عمر میں
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا، جب آپ صلی
اللہ علیہ و سلم پر وحی آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے کا رنگ
بدل جاتا اور آپ سخت سردی میں بھی پسینہ سے شرابور ہوجاتے ، سب سے پہلے
سورت علق کی 5 آیتیں نازل ہوئیں ، نزول وحی کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے
مارے خوف کے آپ کا سینہ اچھل رہا تھا۔ امّاں خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ساری
داستان سنائی جس پر انہوں نے تسلی دی اور کہا:
اللہ کی قسم وہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ
بولتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری)
انقطاع وحی:
کچھ مدت وحی بند رہی جس پر رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم غم سے نڈھال تھے
، ایک دن جبریل امین علیہ السلام کو آسمان و زمین کے مابین کرسی پر جلوہ
افروز دیکھا مرعوب ہوکر گھر تشریف لائے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا
’’زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ‘‘ یعنی مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر
اوڑھا دو پھر سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ، ان آیتوں کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردی جس پر
مکہ والے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمن ہوگئے اور ایذاء اور تکلیف
پہنچانا شروع کردیا ، جس پر چچا ابو طالب نے ڈھال کے مانند آپ کی مدد کی ،
ابتدائی 3 سالوں تک خفیہ طور پر دعوت کا کام کرتے رہے اور جب (فَاصْدَعْ
بِمَا تُؤْمَرُ) یعنی (اعلانیہ دعوت دینا شروع کر دیجئے) نازل ہوئی تو آپ
نے علی الاعلان دعوت اسلام دینا شروع کردیا ، اللہ تعالی نے جب یہ آیت
نازل فرمائی (وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ) یعنی (اپنے قریبی
رشتہ داروں کو ڈرائیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر
آواز لگائی اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاندان والے اکٹھا ہوگئے تو
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا
چاہتا ہے کیا تم لوگ میری بات مانو گے؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ہم نے کبھی
آپ کو جھوٹ بولتے نہیں پایا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
میں تم لوگوں کو سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا
ابو لہب نے کہا تیری بربادی ہو کیا تو نے همیں اسی لئے جمع کیا تھا اس پر
پوری سورہ المسد(تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ) نازل ہوئی۔
ہجرت حبشہ:
جب مکہ والوں نے زیادہ تکلیف دینا شروع کردیا تو رسول رحمت صلی اللہ علیہ و
سلم نے اپنے صحابہ كرام رضی الله عنهم کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیا ،
چچا ابو طالب کی وفات کے بعد لوگوں نے ایذا رسانی میں شدت پیدا کردی ،
صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے پاس ہی اونٹ
کی اوجھڑی پڑی ہوئی تھی عقبہ بن ابی معیط نے اسے اٹھایا اور جب رسول الله
صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک
پر ڈال دیا ، آپ کی بیٹی سیده فاطمہ رضی الله عنها آئیں پھر انہوں نے اسے
ہٹایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اے اللہ! سرداران قریش کو ہلاک کردے ، اور صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دن
عقبه بن ابی معیط ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں کپڑا لپیٹ کر
زور سے کھینچا ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ دوڑے هوئے آئے اور آپ صلی اللہ
علیہ و سلم كو چھڑاتے ہوئے کہا:
کیا تم ایسے آدمی کو مارنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ جب
لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب و سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا
کی وفات کے بعد زیادہ تکلیف دینا شروع کیا تو آپ دعوت توحید لے کر طائف
پہنچے جہاں انہیں عناد ، ایذا و مذاق کے سوا کچھ نہ ملا اسی پر بس نہیں کیا
گیا بلکہ پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کردیا طائف سے مکہ واپس آرہے تھے
کہ پہاڑوں کا فرشتہ حاضر خدمت ہوکر گویا ہوا اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم
کا حکم ہوتو دونوں پہاڑوں کے بیچ میں اہل طائف کو پیس دیا جائے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو صرف اللہ
کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے۔
مدینہ منورہ میں اسلام:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں مدینہ کے 6 آدمیوں کو دعوت دی وہ
مسلمان ہوگئے جن کی دعوت سے مدینہ میں کافی لوگ مسلمان ہوئے، جس کے بعد
خفیہ طور پر بیعت عقبی اولی و ثانیہ پیش آئی ، اور جب مدینہ میں اسلام کا
بول بالا ہوگیا تونبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔(بخاری و مسلم)
ہجرت مدینہ:
بحکم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کا رخ کیا آپ کے ساتھ
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے دونوں غار ثور میں 3 دن تک چھپے رہے مدینہ
پہنچنے پر رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کا زبردست استقبال کیا گیا جہاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد اور گھر تعمیر کیا۔
غزوات:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 غزوات (جنگیں) لڑیں چند کے نام یہ ہیں:
غزوہ بدر : 17 رمضان سن 2 ہجری میں پیش آیا جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل
ہوئی۔
غزوہ احد : شوال سن 3 ہجری کا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں کو شروع میں فتح
ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
غزوہ بنی نضیر : سنہ 4 ہجری کا واقعہ ہے جس میں یہودیوں کو بد عہدی کے جرم
میں مدینہ سے جلا وطن کیا گیا۔
غزوہ مریسیع (بنی مصطلق) : ماہ شعبان سن 5 ہجری میں پیش آیا جس میں دشمن
کو شکست ہوئی۔
غزوہ خندق : سنہ 5 ہجری میں ہوا جس میں کفار مکہ ناکام ہوکر واپس گئے۔
غزوہ بنی قریظہ : یہودیوں کے ساتھ پیش آیا وہ مسلمانوں کے حلیف تھے لیکن
انہوں نے غداری و بغاوت کی جس کی پاداش میں مردوں کو قتل کردیا گیا۔
صلح حدیبیہ : سنہ 6 ہجری میں اس وقت پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم
اپنے جان نثار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کے لئے تشریف لے جا رہے
تھے مقام حدیبیہ پر مکہ والوں نے آپ کے ساتھ 10 سال کے لئے صلح کی اور اس
سال عمرہ کرنے سے روک دیا۔
فتح خیبر : یہ محرم سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے یہ جنگ ، خیبر کے یہودیوں کے
ساتھ پیش آئی جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
فتح مکہ : رمضان سنہ 8 ہجری میں پیش آیا 12 کافر قتل ہوئے اور صرف 2
مسلمان شہید ہوئے۔
غزوہ حنین : شوال سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔
غزوہ موتہ : سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔
غزوہ تبوک : جو سنہ 9 ہجری میں پیش آیا یہ رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم
کا آخری غزوہ تھا رومیوں پر اتنا رعب پڑا کہ وہ مقابلہ ہی پر نہ آئے ، اس
سال یعنی سنہ 9 ہجری کو عام وفود کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال مختلف وفود آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل
ہوئے ، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 56 سرایا بھی ارسال کئے۔
حج و عمرہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا اور 4 عمرے کئے جو
سب کے سب ذوالقعدہ کے مہینے میں ادا کئے گئے تھے۔(زاد المعاد)
حلیہ مبارک:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک درمیانی ، سرخی مائل روشن چہرہ ، گھنے
بال ، آنکھیں سخت سیاہ ، سینے اور پیٹ پر معمولی بال ، سینے سے ناف تک
بالوں کی باریک دھاری ، سینہ مبارک چوڑاتھا۔ (ترمذی)
اخلاق:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ سخی و فیاض ، راست باز ، نرم مزاج ،
متواضع ، پابند عہد ، حیادار ، بردبار اور سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے۔
غیظ و غضب سے دور تھے کبھی اپنےنفس کے لئے انتقام نہ لیتے سیدنا انس بن
مالک رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
10 سال تک خدمت کی اگر میں نے کوئی کام کیا تو کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ
کام کیوں کیا اور اگر کوئی کام نہیں کیا تو یہ نہیں پوچھا کہ کیوں نہیں کیا
، البتہ اگر اللہ کی حرمت پامال ہوتی تو اللہ کے لئے انتقام لیتے ، جو ملتا
کھا لیتے کھانوں میں کبھی عیب نہ نکالتے مہینوں آپ کے گھر میں آگ نہیں
جلتی ، مریضوں کی عیادت کرتے جنازوں میں حاضر ہوتے فقراء و مساکین کے ساتھ
اٹھتے بیٹھتے ، ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے ، لوگوں سے ہمیشہ نرمی کے ساتھ
پیش آتے غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام اخلاق عالیہ کے حسین پیکر
تھے۔
مناقب:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے
ہیں کہ مجھے 5 چیزیں ایسی دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ایک
ماہ کی مسافت سے لوگوں کے دلوں میں میرا رعب ڈال دیا گیا ، پوری زمین کو
میرے لئے مسجد اور پاک بنا دیا گیا جہاں بھی نماز کا وقت ہو نماز پڑھ لیں ،
میرے لئے مال غنیمت کو حلال کیا گیا ، مجھے شفاعت سے نوازا گیا اور ہر نبی
اپنی قوم کے لئے خاص بھیجا جاتا جبکہ مجھے پوری دنیا والوں کے لئے بھیجا
گیا ہے۔ (بخاری و مسلم)
صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
بروز قیامت سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی ، اور میری امت سب سے زیادہ
ہوگی اور میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔
عبادت وریاضت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں
میں قیام اللیل میں ورم ہوجاتا تھا آپ سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ
و سلم نے فرمایا:
کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری و مسلم)
نیز فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا جس میں
کھجور کے تنے کی چھال بھری ہوتی تھی۔
حجۃ الوداع:
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 1 لاکھ مسلمانوں نے حج کیا۔
وفات:
سنہ 11 ہجری میں ربیع الاول کی 12 تاریخ سوموار کے دن بوقت چاشت آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی (اناللہ وانا الیہ راجعون) وفات کے وقت آپ کا
سر مبارک سیده عائشہ رضی اللہ عنها کی گود میں تھا ،غسل و تکفین کے بعد آپ
پر لوگوں نے باری باری نماز جنازہ ادا کی ، آپ کو 63 سال کی عمر ملی جس
میں سے 23 سال رسالت کے تھے ، 13 سال مکہ اور 10 سال مدینہ میں رہے۔ اس ذات
مبارکہ و مقدسہ پر انگنت درودوسلام نازل ہوں۔ |