بدعات کے رد پر کتاب و سنت اور علماء اسلام کی تعلیمات
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
28 Sep 2015
از عثمان احمد حفظہ اللہ
تحریر: غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
فرمان باری تعالیٰ ہے:
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ
نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
(المائدۃ ۳/۵)
‘‘آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر
اپنی نعمت کو مکمل کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند
کیاہے۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تنصیصاً و تعلیلاً دین اسلام کی تکمیل کی
خوشخبری سنائی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴-۷۰۱ھ) لکھتے ہیں:
ھذہ أکبر نعم اللہ عزّوجلّ علی ھذہ الأمّۃ حیث أکمل تعالی لھم دینھم،
فلاتحتاجون إلی دین غیرہ، و لا إلی نبی غیر نبیّھم صلوات اللہ و سلامہ
علیہ،ولھذا جعلہ اللہ تعالیٰ خاتم الأنبیاء و بعثہ إلی الإنس والجنّ،
فلا حلال و لا إلّا ما أحلّہ ، ولا إلّا حرّمہ، ولادین إلاّ ما شرعہ۔
‘‘یہ اس امت پر اللہ تعالی کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ان کے
لیے ان کا دین مکمل کردیا ہے، وہ کسی اور دین کی طرف محتاج نہیں، نہ اپنے
نبی کے علاوہ کسی نبی کی طرف محتاج ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنا کر جن وانس دونوں کی طرف بھیجا ہے۔
حلال وہی ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے،
جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور دین صرف وہی ہے، جسے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کر دیا ہے۔’’
(تفسیر ابن کثیر:۴۶۵/۲)
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لقد ترکتکم علی البیضاء لیلھا کنھارھا، لا یزیغ بعدی عنھا إلّا ھالک۔
‘‘یقیناً میں نے تم کو ایک واضح راستے پر چھوڑا ہے، جس کی رات اس کے دن ہی
کی طرح (واضح) ہے۔ میرے بعد اس سے صرف ہلاک ہونے والا شخص ہی ہٹے گا۔
(مسند الامام احمد:۱۲۶/۴،سنن ابن ماجہ:۴۳،السنۃ لابن ابی عاصم:۴۸، المستدرک
علی الصحیحین للحاکم: ۹۶/۱، وسندہ حسنٌ)
دین مکمل ہے، اس میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ بدعت دین میں اضافہ ہے، دین
میں اضافہ کفار کی تقلید ہے، بدعت دین کے نام پر دین کے خلاف گھناؤنی سازش
ہے۔ بدعت اسلام دشمنی کی واضح دلیل ہے۔ بدعت گناہ کی تجارت ہے۔
ہر بدعت ظلمت و ضلالت ہے۔ بدعت اتباع نفس ہے۔ بدعت انہدام اسلام ہے۔ ہر
بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے۔ جس کا م کی اصل قرآن و حدیث میں نہ ہو، وہ دین
کاکام کیسے ہو سکتاہے؟
علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فاعلمو أنّ البدعۃ لا یقبل معھاعبادۃ من صلاۃ ولا صیام و لا صدقۃ ولا
غیرھا من القربات ومجالس صاحبھا تنزع منہ العصمۃ و یوکّل إلی نفسہ،
والماشی إلی و موقُوۃ معین علی ھدم الإسلام، فما الظّنّ بصاحبھا، وھو
ملعون علی لسان الشّریعۃ، ویزداد من اللہ بعبادتہ بعدا، وھی المظّنۃ إلقاء
العداوۃ و البغضاء، ومانعۃ ،من الشّفاعۃ المحمّدیۃ، ورافعۃ للسّنن الّتی
تقابلھا، وعلی مبتدعھا إثم من عمل بھا، ولیس لہ توبۃ، وتلقی علیہ الذّلۃ
والغضب من اللہ، ویبعد عن حوض رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، ویخاف علیہ
أن یکون معدودا فی الکفّار الخار جین عن الملّۃ، وسوء الخاتمۃ عند الخروج
من الدّنیا، ویسودّ وجھہ فی الآخرۃ، یعذّب بنار جھنّم، وقد تبرأ منہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم، و تبرامنہ المسلمون، ویخاف علیہ الفتنۃ فی
الدّنیا زیادہ إلی عذاب الآخرۃ۔۔۔۔۔
‘‘جان لو کہ بدعت کے ہوتے ہوئے نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی کوئی عبادت
قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے، وہ اپنے نفس کے
سپرد کر دیا جاتاہے۔ بدعت کی طرف چلنے والا اور اس کی توقیر کرنے والا
اسلام کو منہدم کرنے پر تعاون کرنے والا ہے۔ اب بدعتی کے بارے میں کیا خیال
ہے؟ وہ تو شریعت کی زبانی ملعون ہے، وہ اپنی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ
سے دور ہی ہوتا ہے۔ بدعت دشمنی و بغاوت ڈالنے کا سبب، محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی شفاعت کو روکنے والی اور اپنے مقابلے میں آنے والی سنتوں کو ختم
کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کو ایجاد کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہوگا،
جو اس پر عمل کریں گے۔ اس کے لیے کوئی توبہ نہیں ہو گی۔ اس پر ذلت اور اللہ
تعالیٰ کا غضب ڈال دیا جائے گا، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے
دور کر دیا جائے گا، اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسلام سے خارج کفار میں
شمار ہوجائے اور دنیا سے جاتے ہوئے سوئے خاتمہ کا شکار ہو جائے۔ آخرت میں
اس کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اور اسے جنہم کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیاہے، مسلمان بھی اس
سے بری ہیں۔ ڈر ہے کہ آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں بھی کوئی
بڑا فتنہ آن لے۔’’
(الاعتصام للمشاطبی:۱۰۷-۱۰۶/۱)
فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إنّ أحسن الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی ھدی محمّد صلّی اللہ علیہ
وسلّم، وشرّ الأمور محدثاتھا، وإنّ الشّقی من شقّی فی بطن امّہ، وإنّ
السّیعد من وعظ بغیرہ، فاتّبعوا ولاتبتدعوا۔
‘‘بلاشبہ بہترین بات اللہ تعالٰی کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین کام بدعت کے کام ہیں۔ بدبخت وہی ہے، جو
اپنے ماں کے پیٹ میں بدبخت ہو گیا تھا(تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا) اور نیک
بخت وہ ہے، جو اپنے غیر کےساتھ نصیحت کیا جائے، لہذا تم اتباع کرو، بدعت
ایجاد نہ کرو۔
(الاعتقاد للبیھقی:۳۰۶، وسندہ صحیحٌ)
امام ربانی شیخ الاسلام ثانی ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
فإن السّنّۃ بالذّات تمحق البدعۃ، ولا تقوم لھا، وإذا طلعت شمسھا فی قلب
العبد قطعت من قلبہ ضباب کلّ بدعۃ و ازالت ظلمۃ کلّ ضلالۃ، إذلا سلطان
للظّلمۃ مع سلطان الشّمس، ولا یری العبد الفرق بین السّنّۃ و البدعۃ، و
یعینہ علی الخروج من ظلمتھا إلی نور السّنّۃ إلّا المتابعۃ و الھجرۃ
بقلبہ کلّ وقت إلی اللہ بالاستعانۃ و الٕاخلاص و صدق اللّجإ إلی اللہ
والھجرۃ إلی رسولہ بالحرض علی الوصول إلی اقوالہ و اعمالہ و ھدیہ و سننہ،
فمن کانت ھجرتہ إلی اللہ و رسولہ فھجرتہ إلی اللہ و رسولہ، ومن ھاجر إلی
غیر ذلک فھو حظّہ و نصیبہ فی الدّنیا و الآخرۃ۔ واللہ المستعان!
‘‘سنت خود بخود بدعت کو ختم کرتی ہے، بدعت، سنت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جب
سنت کا سورج کسی بندے کے دل میں طلوع ہوجاتا ہے تو اس کے دل سے ہر بدعت کی
دھند کوختم کر دیتا ہے اور ظلمت کے ہر اندھیرے کو زائل کردیتا ہے، کیونکہ
سورج کی طاقت کے سامنے ظلمت کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آدمی سنت اور
بدعت میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، اسے بدعت کی ظلمت سے سنت کی روشنی کی طرف
صرف یہی بات لے جا سکتی ہے کہ آدمی سنت کی پیروی کرے، اپنے دل کو ہر وقت
سب کچھ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے استعانت، اخلاص اور سچی تڑپ میں رکھے اور سب
کچھ چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے طریقے کی تلاش میں رہے۔(سب کچھ چھوڑ کر) جس
آدمی کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہوئی، اس کی ہجرت مقبول
ہوگی اور جس نے کسی غیر کی طرف ہجرت کی تو دنیا و آخرت وہی اس کا نصیب و
حصہ ہے۔’’
(مدارج السالکین لابن القیم:۳۷۴/۱)
بدعت بے اصل اور بے ثبوت کام کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ )
(الاسراء: ۳۶/۱۷)
‘‘اور آپ اس چیز کے پیچھے نہ پڑیں، جس کا آپ کو علم نہیں۔’’
مزید فرمایا:
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ وَلَقَدْ
جَاۗءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى
(النجم: ۲۳/۵۳)
‘‘وہ تو صرف ظن اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ ان کے
پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آئی ہے۔’’
علم تو قرآن وحدیث ہے۔ جس دین کے ثبوت پردلیل شرعی نہ ہو، وہ بغیر علم کے
ہو وہ بدعت ہے۔ بدعت نفس پرستی کا نتیجہ ہے۔
فرمان باری تعالیٰ:
قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ
وَلَا تَتَّبِعُوے گمْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ
وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ
(المائدۃ: ۷۷/۵)
‘‘(اے نبی! کہہ دیجیے) اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور
نہ ان لوگوں کی راہ پر چلو، جو پہلے خود گمراہ ہوئے اور پھر بہت سے لوگوں
کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔’’
نیز فرمایا:
وَاِنَّ كَثِيْرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَاۗىِٕهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ
(الانعام:۱۱۹/۶)
اور بے شک بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے ساتھ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ
کرتے ہیں۔’’
یہ آیت کریمہ بدعتی کی مذمت کرتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے بغیر دین میں
بدعت جاری کرکے لوگوں کو گمراہ کرتاہے۔
مزید فرمان باری تعالی ہے:
لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ
اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا
يَزِرُوْنَ
( النحل۲۵/۱۶)
‘‘ تاکہ وہ روز قیامت اپنے پورے بوجھ بھی اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ
بھی، جن کو انہوں نے بغیر علم کے گمراہ کیا، خبردار برا ہے جو وہ بوجھ
اٹھائیں گے۔’’
بدعتی، بدعت کا وبال سر پر اٹھائے گا، بدعت کو رائج کرنے کا وبال بھی اس کے
سر ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومعلوم أنّ کلما لم یمسنہ ولا استحبہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم ولا
أحد من ھؤلاء الّذین یقتدی بھم المسلمون یکون من البدع المنکرات، ولا
یقول احد فی مثل ھذا: إنّہ بدعۃ حسنۃ، إذ البدعۃ الحسنۃ عند من یقسم
البدع إلی حسنۃ و سیئۃ لا بدّا أن یستحبّھا أحد من أھل العلم الّذین
یقتدی بھم، ویقوم دلیل شرعّی استحبابھا، وکذلک من یقول: البدعۃ الشّرعیّۃ
کلّھا مذمومۃ لقولہ صلّی اللہ علیہ و سلّم فی الحدیث الصّحیح:((کل بدعۃ
صلالۃ)) و یقول عمر فی التّراویح: نعمۃ البدعۃ ھذہ، إنّما سمّاھا بدعۃ
باعتبار وضع اللّغۃ، فالبدعۃ فی الشّرع عندھؤلاء ما لم یقم دلیل شرعّی علی
استحبابہ، و مآل القولین واحد، إذھم متفقون علی أنّ ما لم یستحبّ أویجب
من الشّرع فلیس ہوا جب ولا مستحبّ، فمن اتّخذعملا من الاعمال عبادۃ و دینا،
ولیس ذلک فی الشّریعۃ و اجبار و لا مستحبا فھو ضالّ باتّفاق المسلمین۔۔۔۔
‘‘ یہ بات تو معلوم ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے جاری نہیں کیا، نہ اسے پسند کیا ہے اور نہ ہی اسے کسی اس شخص نے پسند
کیا ہے، جن کی مسلمان اپنے دین میں پیروی کرتے ہیں، وہ منکر بدعات میں سے
ہے، کوئی بھی اس طرح کی بات کو بدعت حسنہ نہیں کہتا، کیونکہ جو شخص بدعت کو
حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرتاہے، اس کے نزدیک بدعت حسنہ ہونے کےلیے ضروری
ہے کہ ان اہل علم میں سے کوئی اس کو مستحب قرار دے، جن کی پیروی کی جاتی
ہے، نیز اس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعٰی قائم ہو۔ اسی طرح جوشخص کہتاہے
کہ صحیح حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ہر
شرعی بدعت مذموم ہے: ((کلّ بدعۃ ضلالۃ)) (ہر بدعت گمراہی ہے)، اس سیدنا عمر
رضی اللہ عنہ تروایح کے بارے میں جو فرماتےہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے، اس کا
نام انہوں نے لغت کی وضع کے اعتبار سے رکھا ہے، لہذا ان کے نزدیک شریعت میں
ہر وہ کام بدعت ہے، جس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعی قائم نہ ہو۔ دونوں
اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے، کیونکہ سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ شریعت میں
جو کام واجب یا مستحب نہیں، وہ واجب نہیں ہو سکتا، چنانچہ جس نے کسی ایسے
عمل کو اختیار کیا، جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہے تو ایسا شخص باتفاق
المسلمین گمراہ ہے۔’’
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۱۵۲/۷)
|
|