تیری کلی توں قربان حلیمہ
(Usman Ahsan, Gujranwala)
|
آقا کریم صلی الله علیہ وسلم کی دنیا میں
تشریف آوری سے پہلے یونان علم و حکمت کا مرکز تھا سقراط و ارسطو کے فلسفے
کا شہرہ ابھی ماند نہیں پڑا تھا ، جالینوس کی حکمت کا سورج بھی نصف النھار
پر تھا ۔ دنیا میں علمی درسگاہیں ، تہذیب و تمدن اور معاشرت بھی موجود تھی
اس وقت دو تہذیبوں کا طوطی بولتا تھا اور مضبوط بادشاہتیں ہرقل روم اور
قصری ایران کی موجود تھیں ۔ انکے برعکس شہر مکہ میں نہ کوئی درسگاہ تھی نہ
تہذیب و تمدن اور چند گنتی کے لوگ تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔ رب
العالمین نے اپنے محبوب علیہ السلام کو کسی پڑھے لکھے معاشرے میں نہیں
بھیجا اسکی بیشمار حکمتوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ علیہ السلام علم و
دانائی کی باتوں کے موتی بکھیرنے تھے اگر آپ کسی پڑھے لکھے معاشرے میں آتے
تو ہو سکتا ہے کوئی کہہ دیتا کہ آپ علیہ السلام نے ماحول اور دوستوں سے
علمیت و حکمت سیکھی اور بیان کردیں ۔ رب کائنات نے عرب کے بدوؤں میں محبوب
کو بھیج کر کائنات کو بتلا دیا کہ نبی علم کے لئیے نہ ماحول و دوست احباب
اور نہ ہی اساتذہ کا محتاج ہوتا ہے بلکہ نبی ہوتا ہی وہ ہے جو علوم و حکمت
اپنے رب سے لے کر آتا ہے ۔ مالک ارض و سمآ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ، و
لقد ءاتينا داود و سليمن علما- اور تحقیق ہم نے عطا کیا داؤد اور سلیمان کو
علم (علیھم السلام)۔ میرے ناقص علم کے مطابق قرآن میں جہاں بھی انبیاء کو
علم دینے کا ذکر آیا ہے رب کائنات نے فرمایا ءاتینا ہم نے عطا کیا فلاں نبی
کو علم ، تمام کا تذکرہ یوں ہی ملتا ہے سوائے دو انبیاء کے ۔ ایک آدم علیہ
السلام اور دوسرے میرے آقا ومولا احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آدم علیہ
السلام کے لئیے فرمایا و علم آدم الاسمآء کلھا اور سکھا دیے آدم کوتمام نام
۔ میرے آقا کریم سرور کائنات کے بارے میں فرمایا وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ
تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللہ عَلَيْكَ عَظِيماً اور پڑھا دیا آپکو
وہ سب جو آپ نہ جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔ نقطہ جو
بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علم عطا کرنا اور ہے علم پڑھانا اور ہے۔
وہ قادیان کا مرزا تھا جو اساتذہ سے پڑھتا رہا اور حضور علیہ السلام کے
غلام پیر مہر علی کے علم کی تاب نہ لا سکا۔ اللہ رب العزت نے جنھیں علم عطا
کیا انکی شان و عظمت کو لاکھوں سلام مگر جس ہستی کو سامنے بٹھا کر علم
پڑھایا اس کی عظمت و رفعت درجات کا کیا کہنا ۔
کن فیکون تاں کل دی گل اے اساں اگے پریت لگائی
توں میں حرف نشان نہ آہا جدوں دتی میم گواہی
اجے وی سانوں اوہ پئے دسدے بیلے بوٹے کاہی
مہر علی شاہ رل تاہیوں بیٹھے جداں سک دوہاں نوں آہی ۔
میلاد شریف کا ماہ مقدس ہے حسب سابق اس دفعہ بھی چند مضامین قارئین کی نظر
کرکے دعاؤں کا طلبگار ہوں گا ۔ آج کا مضمون اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔ لوگ
کہتے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ١٢ ربیع الاول کو
نہیں ہوئی تھی حالانکہ جمہور علمائے امت کا بارہ ربیع الاول پر اتفاق ہے
قلیل علماء کی رآئے مختلف بھی ہے ۔ بارہ پر اکثریت کے اتفاق ہی کی بدولت
اسلامی ممالک میں بارہ ربیع الاول کو ہی میلاد منایا جاتا ہے ۔ لیکن اسکے
باوجود میں مخالفین سے کہتا ہوں آپ اس دن ولادت کی خوشی منا لیا کرو جو
آپکے نذدیک درست تاریخ ہے ۔ وسعت قلبی پیدا کریں تاریخوں لمحوں پر جھگڑنا
جہلا کا کام ہے ۔ میرے نذدیک ہر سال ہر مہینے اور ہر ہفتے و دن میلاد منایا
جا سکتا ہے ۔ ہر سال میں ایک مہینہ ہر ماہ میں ١٢ کا دن ہر ہفتے میں پیر ہر
روز میں صبح صادق کا وہ وقت آتا ہے جب محبوب رب کی ولادت ہوئی ۔ تاریخوں پر
جھگڑنا چھوڑو اپنی مرضی کے دن میلاد منا لیا کرو ۔
تیری کلی توں قربان حلیمہ جتھے
دو جگ دیاں اکھیاں دا تارا آیا
ماڑیاں مظلوماں دی قسمت جاگی
بن کے رحمت اوہ یتیماں دا سہارا آیا ۔ |
|