تقسیم ہند سے قبل مسلمانان برصغیر کی قوت
کا شیرازہ مختلف قبائل ، جاگیروں ، نسلی و لسانی بٹواروں پر مشتمل ریاستوں
، راجواڑوں اور جماعتوں اور فرقوں کی صورت میں بکھرا ہوا تھا ۔ اس بکھری
ہوئی منتشر قوم کو ایک لڑی میں پروکر باہم متحد و منظم کرنے میں جو واحد
نظریہ کارفرما تھا ،وہ تھا کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ۔ یہی وہ
واحد جذبہ تھا جس کی بدولت چٹا گانگ سے لیکر درہ ٔ خیبر تک اوربحیرۂ عرب کے
ساحل سے لے کر کوہ ہمالیہ کے دامن میں پھیلی وادیوں تک مختلف قبائل ،
برادریوں ، راجواڑوں ، گروہوں اور فرقوں میں منقسم مسلمان آپس میں نہ مٹنے
والے اختلافات بھلا کر اور نسلی ، لسانی ، علاقائی اور ثقافتی تفاخر اور
منافرتیں مٹا کر باہم شیروشکر ہوجانے پر مجبور ہوگئے ۔ جس کے نتیجے میں
عظیم مملکت پاکستان معرض وجود میں آگئی ۔
اس نوزائیدہ مملکت کو ہندوستان کی سرزمین پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے
نظریۂ پاکستان کے فروغ کی اس سے کہیں زیادہ اشد ضرورت تھی جتنی کہ اس کے
قیام کے لیے ، کیونکہ نظریہ ہی ہندو اور مسلمانوں میں بنیادی فرق اور
پاکستان کی بنیاد تھی ، اگرنظریہ کو درمیان سے نکال دیا جائے تو بھارت اور
پاکستان کے درمیان سرحد بے معنی ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مکار ہندو نے
کمال عیاری سے دو قومی نظریہ کی دیوار میں دراڑیں ڈالنے کے لیے شروع دن سے
ہی پُر فریب حربے استعمال کیے ۔ کبھی’’ ہندو مسلم ایک قوم ‘‘کے نعرے لگائے
گئے تو کبھی مسلمانوں میں زبان ، کلچر ، رنگ و نسل کا زہر بھرنے کی کوشش کی
گئی اورکہیں علاقائی منافرتیں بیدار کرنے کے لیے نیشنل ازم کو اجاگر کیا
گیا ۔ ہندوؤں کے ان تمام مکروہ ہتھکنڈوں کے جواب میں اشد ضرورت اس امر کی
تھی کہ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر نظریہ ٔ پاکستان
کو فروغ دیا جاتا اورقومی معاشرت کی بنیاد خالصتاً اسلامی تہذیب ، تشخص ،
روایات اور طرززندگی پر رکھی جاتی ، مدرسوں ، سکولوں ، کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں ترجیح بنیادوں پر اسلامی تشخص کو اُبھارا جاتا ۔ دور
جاہلیت کی لسانی ، علاقائی ، ثقافتی عصبیتوں اور منافرتوں کا قلع قمع اسلام
کے سنہری اصولوں اخوت ، مساوات اور عدل و انصاف کے ذریعے کیا جاتا ۔آئین ،
سیاست ، معاشرت ، معیشت ، تعلیم ، عدلیہ ، میڈیا سمیت ہر شعبے اور ہر ادارے
میں ہر سطح پر بنیادی نظریہ کے مطابق اسلامائزیشن کا عمل اولین ترجیع
قراردیا جاتا ۔یوں قومی یکجہتی و ہم آہنگی کی ایسی فضا قائم ہو جاتی کہ جس
میں رنگ ، نسل ، زبان ،کلچر ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی ، بنگالی اور
ہر طرح کی تقسیم و تفریق ایک قومی دھارے میں شامل ہوکر ختم ہوجاتی ۔ ۔ !!
بانیٔ پاکستان اور مصور پاکستان کے ارشادات و فرمودات بھی پاکستان میں ہر
ادارے اور ہر شعبہ میں ہر سطح پراسلامائزیشن کے حوالے سے واضح اور اظہر من
شمس ہیں اور بلاشبہ تحریک پاکستان میں کروڑوں مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں
، ہجرتیں ، بے انتہا صعوبتیں اور اذیتیں بھی ایک مکمل اسلامی نظام کے قیام
کی غماز ہیں لیکن بعدکے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اسلامائزیشن کے اس اہم
اور اولین فرض کو صرف قرار داد مقاصد تک محدود رکھا اور عملی طور پر جو کچھ
بھی کیاوہ لبرل اور سیکولر سوچ کا عکاس ہے ۔ ان آزاد خیال ، ’’ روشن خیال
‘‘ اور لبرل سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنے طرز عمل سے پاکستان کے ہر
ادارے اور ہر شعبے میں لبرل سوچ کو پروان چڑھایا ۔ نتیجہ میں اسلام ، نظریۂ
پاکستان اور قیام پاکستان کا اصل مقصد عوام و خواص کے فہم و شعور سے محو
ہوتا چلا گیا اور بھانت بھانت کے تصورات اور نظریات پروان چڑھتے گئے ،
اسلامی معاشرت کی بجائے مغربی کلچر اپنی تمام تر آزاد خیالیوں کے ہمراہ
غالب ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ بھٹو دور تک محافل شراب و کباب ، رقص و
موسیقی ایوان اقتدار کا اسٹیٹس بن گیا (جو کہ طبقہ اشرافیہ میں اب تک ہے )
۔ عبادات اور رسومات میں ہندو رسوم و رواج بدستور اثرپذیررہا ۔ آئین بدستور
1937ء کا انگریز کا بنایا ہوا اب تک چل رہا ہے ، اس میں اسلامائزیشن کے عمل
کی بجائے ، اسلامی دفعات کی تحلیل و ترمیم کو ترجیح دی گئی ۔ قیام پاکستان
کے بعد اگر سیاست کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جاتی تو پاکستان کبھی نہ
ٹوٹتا ۔مگر جیساکہ اقبال نے فرمایا تھا
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
وہ قوم جو چٹا گانگ سے لیکر درہ خیبر تک اسلام کی بنیاد پر باہم متحد و
منظم تھی ،لبرل سوچ کے حامل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے طرز عمل اور باہمی
رسہ کشی کے نتیجے میں پارٹی بازی اور تفرقہ بازی کا شکار ہوکر باہم دست و
گریباں ہوگئی ۔ جس سیاستدان کو اقتدار میں جگہ نہ ملی اس نے ایک نئی جماعت
بنا ڈالی اور اس کو برسراقتدار لانے کے لیے بسا اوقات بھارت جیسے ازلی دشمن
کی پشتیبانی حاصل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا ۔ سہروردی اور شیخ مجیب کی
عوامی لیگ، جگتوفرنٹ اوردیگر کئی سیاسی پارٹیاں اس کی مثال ہیں ۔ چنانچہ اس
پارٹی بازی ، بھانت بھانت کے نظریات و تصورات کے نتیجے میں قومی اتحاد وملی
یکجہتی کا جنازہ اُٹھ گیا اور پھر یہ لبرل طرز سیاست ہی تھی جس نے مشرقی
پاکستان کے سو ا کروڑ ہندوؤں کو تیس کروڑ مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ سقوط
ڈھاکہ کی صورت میں کرنے کا موقع دیا ۔ لبرل سیاست کے نتیجے میں گانگریس
مشرقی پاکستان میں ایسے ہی متحرک تھی جیسا کہ قیام پاکستان سے پہلے ۔ بعد
ازاں یہی ہندو مجیب الرحمن کی عوامی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور انہوں نے
لفظ مسلم نکال کرنیشنل عوامی لیگ رکھ لیا ۔ اسی عوامی لیگ نے پاکستانی قوم
کے ملی اتحاد میں پہلا سوراخ بنگالی زبان کے نام پر کیا ۔ فروری 1948ء میں
ایک ہندو رکن نے اسمبلی میں بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے کی قرار
داد پیش کی اور اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اپنے بہت سے
مطالبات منظور کرنے پر مجبور کردیا ۔ ان ہندوؤں نے مشرقی پاکستان میں معاشی
عدم استحکام اور عدم مساوات کا نعرہ بلند کیااور پاکستان کو توڑنے میں اپنا
بھر پور کردار ادا کیا ۔ امریکی دانشور رش بروک ولیمز نے 1970میں عوامی لیگ
کی انتخابی مہم کے حوالے سے لکھا ہے ۔ ’’ اس قدر وسیع اور جنگی مہم کثیر
سرمایہ اور اخراجات کے بغیر ممکن نہ تھی اور یہ سرمایہ اس جماعت اور قائدین
کو ہندوؤں نے فراہم کیا تھا ۔ کیونکہ اس کا پروگرام اس کیمونٹی کے لیے قابل
قبول تھا ‘‘۔اس کی بجائے پاکستانی سیاست کی بنیاد اگر اسلامی اصولوں پر
رکھی جاتی تو یقینا ہندو اقلیت کو مسلم اکثریت کی تقدیر کا اس قدر بھیانک
فیصلہ کرنے کا موقع ہرگز نہ ملتا ۔
کسی بھی قوم کی تعمیر اور فکری و نظریاتی نشو نما میں تعلیم کا بنیادی
کردار ہوتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ضروری تھا کہ شعبہ تعلیم کو بھی
اسلامی نظریات سے ہم آہنگ کیا جاتا لیکن لبرل ذہنیت کے غلبہ نے حکمرانوں کو
اس کی ضرورت محسوس نہیں ہونے دی ۔ نتیجہ میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم
بدستور وہی رہا جو انگریز نے چھوڑا تھا ۔مشرقی پاکستان کے 1300 سو نجی ہائی
سکولوں اور 47نجی کالجوں کے 95فیصد ہندو مالک تھے ، جن کے کمروں میں قائد
اعظم محمد علی جناح کی بجائے گاندھی اور نہرو کی تصویریں لگی ہوئی تھیں ۔
ڈھاکہ یونیورسٹی اور اور اس سے ملحقہ کالجوں اور صوبے بھر کے سکولوں میں
درس و تدریس پر مامور ہندو اساتذہ نے اپنے بیوی بچے نو کلکتے اور دیگر
بھارتی شہروں میں بھیج دیے تھے اور خود پاکستان کو توڑنے کے مشن پرگامزن
تھے ۔ ان ہندو اساتذہ نے مسلمان طالب علموں کی برین واشنگ اس طرح سے کی کہ
مشرقی پاکستان کے مسلمان نوجوانوں کی اکثریت ہندوؤں کے دام فریب میں آگئی ۔
غرض ہر شعبۂ زندگی اور ہر ادارے میں اسلامی فکر کی بجائے لبرل سوچ غالب
آگئی تھی ۔مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی عملہ کے متعلق لارنس زائرنگ
اپنی کتاب Pakistan, The Enigma of Development میں لکھتا ہے ’’چار سو سول
افسران ( سی ایس پی) ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے ۔ معاشرے اور
عوام میں ناراضگی ان افسروں کی کارکردگی پر نہیں بلکہ رویے پر تھی ۔ سی ایس
پی افسران پر نوآبادیاتی ذہنیت رکھنے اور گورے انگریز سے بڑھ کر تحکمانہ
انداز اختیار کرنے کا الزام تھا ۔ ‘‘لبرل بیوروکریسی کا طرز رہن سہن ، لباس
، چال ڈھال اور زبان تک انگریزوں والی تھی ۔الطاف گوہر نے ہفت روزہ ’’
صحافت ‘‘ 21دسمبر 1977میں لکھا ’’ مغربی پاکستان والے اُردو زبان کا ذکر تو
بہت کرتے تھے مگر بولتے تھے صرف انگریزی ۔جب کہ بنگالی انگریزی بولنے سے
گھبراتے تھے ۔ ہندوؤں نے اس فرق کا فائدہ اُٹھا کربنگالیوں کے ساتھ زبان و
ثقافت میں مماثلت کی بناء پر اپنا اشتراک عمل بڑھا لیا ۔ رہ گیا اسلام کا
ناطہ تو وہ ہوا میں تو برقرار نہ رہ سکتا تھا جب زندگی کے کسی شعبے میں کسی
اسلامی قدر کا کوئی نشان نہ تھا تو دلوں میں اس کی جھلک کیونکر آتی ۔ وہی
کچہریاں لگتی تھیں ، وہی جھوٹی شہادتیں ، وہی جبر و استعداد کے طریقے ، وہی
انگریزی طرز کے الیکشن اور وہی ووٹوں کی دھاندلیاں ، اسلام تو بس لفظوں کا
ایک کھیل تھا ‘‘۔
اسلام کی بجائے لبرل اور سیکولر ذہنیت کے غلبہ کے نتیجے میں بانی ٔ پاکستان
، مصور پاکستان اور پاکستان کے لیے بے انتہا قربانیاں دینے والے عوام کا
اسلامی فلاحی پاکستان کا خواب محض خواب بن کر رہ گیا اور نظریہ ٔ پاکستان
کی جگہ بھانت بھانت کے نظریات اور تصورات اپنی جڑیں مضبوط کرتے چلے گئے
یہاں تک کہ قومی یکجہتی و ملی سلامتی کے دشمن عناصر نے پاکستانی قوم کو ایک
لڑی میں پرونے والی دو قومی نظریہ کی ڈور پر ایک بار پھر رنگ و نسل ، زبان
، کلچر اور نیشنل ازم کی میٹھی اور کند چھریاں چلانے کا ہنر آزما ڈالا اور
نتیجہ میں صرف کچھ ہی عرصہ میں وحدت اسلامیہ بکھر کر پارہ پارہ ہوئی ،
بنگال الگ ہوگیا اور ایک عظیم اور آفاقی نظریہ کی حامل قوم کو گاؤ ماتا کی
پجارن اور مشرکہ عورت کے یہ زہر آلود الفاظ سہنے پڑے کہ’’ دوقومی نظریہ کو
خلیج بنگال کی لہروں کی نذر کر دیا گیاہے ‘‘ ۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ غلیظ ترین دشمن کے یہ تند و تلخ نشتر ہمیں صرف اور
صرف پاکستانی حکمرانوں کے لبرل طرز فکر و عمل کی وجہ سے سہنے پڑے ؟ ۔۔ کیا
یہ لبرل ازم نہیں تھا جس کی وجہ سے دو قومی نظریہ اور اسلامی تصورِ سیاست
کو پس پشت ڈال دیا گیا ؟ کیا یہ لبرل ازم نہیں تھا جس کی وجہ سے ملک میں
اسلام اور دوقومی نظریہ سے متصادم اورمتضاد نظریات اور تصورات پروان چڑھے ؟
کیا اسی لبرل ازم کی وجہ سے ملک میں مغربی و ہندوستانی کلچر،نیشنل ازم ،
کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ کو فروغ نہیں ملا ؟ کیا یہ لبرل ازم کا شاخسانہ
نہیں ہے کہ قوم نے اسلامی نظام زندگی کا تصور بھلا کر نسلی ، لسانی اور
ثقافتی بنیادوں پر مہاجر ، پشتون ، سندھی ، بلوچی اور بنگالیوں کے حقوق کی
جنگ لڑناشروع کردی ؟
ماضی کے ان زخموں اور تلخیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے آج ہمارے حکمران
اعلانیہ اور فخریہ یہ کہتے ہیں کہ ’’قوم کا مستقبل لبرل پاکستان سے وابستہ
ہے ‘‘اور عملی طور پر اس کا ثبوت ہولی و دیوالی کی ہندوانہ رسموں میں شریک
ہوکر کیا جاتا ہے ۔اس کا واضح مطلب یہ متصور ہوگا کہ انڈیا اور کشمیر میں
مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی جارہی ہے آپ اس میں بھی شریک ہیں ۔ کشمیر
میں آج بھی پاکستانی پرچم لہرایا جاتاہے اور ایسا صرف اسلام کے رشتے کی وجہ
سے ہے ۔ لبرل پاکستان کا تصور اور ہندو نواز پالیسیاں تحریک آزادیٔ کشمیر
پر کیا اثرات مرتب کریں گی ؟
نظریہ ٔ پاکستان ہی وہ واحد جذبۂ متحربہ ہے جو ساحل سمندر سے لیکر سیاہ چن
کے گلیشئرز تک محاذ وں پر ڈٹے ہوئے جانثار سپاہیوں کے حوصلے اور مورال کو
بلند رکھتا ہے ۔ اپنی بنیاد سے انحراف کرتے ہوئے لبرل پاکستان کا تصور اور
دشمن کی ہولی و دیوالی کی رسموں میں شرکت وطن کے ان جانثار سپاہیوں کے
حوصلے اور مورال پر کیا اثرات ڈالیں گے ؟
پاکستان محض ایک ریاست کا نہیں بلکہ ایک طویل تاریخ کا نام ہے جسے 711ء میں
محمد بن قاسم ؒ کے ساتھ آنے والے عرب مجاہدوں ، سلطان محمود غزنوی ؒ کے
ہمراہ ہندوستان کے طلسم کدوں اور سومنات جیسے بت کدوں سے کفر وشرک کا آخری
حصار توڑنے کے لیے شہادت پانے والے اور شہاب الدین غوریؒ ، شاہ اسماعیل
شہید ؒو سیدا حمد شہیدؒ کی ہمراہی میں غلبۂ دین کی جدو جہد میں شہید ہونے
والے اسلام کے جانثار سپاہیوں نے اپنے خون سے رقم کیا ہے ۔لبرل پاکستان کا
تصور پاکستان کی اس سنہری تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔ نیزیہ بھی غور
کرنا چاہیے کہ کیا قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کی منزل لبرل
پاکستان تھا ؟ کیا لبرل پاکستان کا تصور ان شہیدوں کی روحوں سے غداری نہیں
ہے ؟
آج لبرل نظریات کا حامل طبقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے نام پر پڑھایا
جانے والا نصاب زہر آلود اور نفرت پر مبنی ہے لہٰذا اسے تبدیل کیا جائے
۔یعنی صاف الفاظ میں انڈیا سے دوستی کا تقاضا ہے کہ اپنی تاریخ اور نظریات
کو بھلا دیا جائے ۔جبکہ دوسری طرف بھارت تو کٹر ہندو ریاست بن چکا ہے ۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں جب کہ ملک میں پہلے ہی انارکی فضا ہے
،بھارت سمیت ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر ملکی سلامی اور قومی یکجہتی کے
خلاف زبان ، نسل ، کلچر ، علاقائیت اور صوبائیت کو ہتھیار کے طور پر
استعمال کرنے خواہاں ہیں ، بلوچستان، قبائلی علاقوں اور کراچی میں انہیں
بنیادوں پر تخریب کاری ہورہی ہے ، لبرل پاکستان کا حکومتی تصور دشمن قوتوں
کے ہاتھ مضبوط کرنے اور ملک میں مزید نظریاتی انتشار اور تفریق و تقسیم کا
باعث ثات ہوگا ۔ ان حالات میں قوم کو نظریاتی ہم آہنگی اور ملی یکجہتی کی
ضرورت ہے اور وہ صرف اپنے بنیادی نظریہ سے جڑنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ،
اپنی بنیاد سے ہٹ کر کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا
نتیجہ سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات کے علاوہ نہیں نکلے گا ۔ |