مئی۱۹۷۱ء میں بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس
اسٹڈیز کے ڈائریکٹرسبرامنیم نے یہ نظریہ پیش کیاکہ''لاکھوں مہاجرین کوغیر
معینہ مدت تک پالنے کے بجائےاقتصادی نقطہ نظرسے بہترہوگاکہ بنگلہ دیش
کامسئلہ جنگ کے ذریعے حل کردیا جائے۔''ان کاکہناتھا کہ مشرقی پاکستان زیادہ
دیرتک مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے پیش گوئی بھی کی کہ پاک بھارت جنگ کے
دوران بھارتی صنعتیں متاثرنہیں ہوں گی اوریہ کہ بنگلہ دیش کے مسئلے کاجنگی
حل بھارت کی استعداد سے باہر نہیں۔ انہوں نے پشین گوئی بھی کی کہ پاک بھارت
جنگ کے نتیجے میں چین مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے یقین ظاہرکیاکہ پاکستان
کی فوجی حکومت بھارت کے ہاتھوں شکست کومجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی سمجھوتے
پر ترجیح دے گی تاہم انہوں نے بھارت کومغربی محاذپراچانک پاکستانی حملے کے
امکانات سے خبردارکیا۔سبر امنیم کے ان خیالات کوبھارت کے سرکاری حلقوں میں
بہت پذیرائی حاصل ہوئی اورنئی دہلی میں ہونے والے کئی فیصلے ان خیالات کے
زیراثر کیے گئے۔
بھارتی رہنماؤں کی کئی تحریروں اورتقریروں سے بھارت کے اس دعوے کی نفی ہوتی
ہے کہ مشرقی پاکستان پراس کے حملے کامقصد مصیبت زدہ عوام کی امداد تھی۔ جے
پرکاش نرائنن نے بنگلہ دیش کے موضوع پربندکمرے میں ہونے والے ایک سیمینار
میں انکشاف کیا کہ ''بھارت نے مشرقی پاکستان کی آزادی کے لئے مداخلت کا
فیصلہ خدائی فوجدارکے طورپرنہیں کیاتھابلکہ اس فیصلے کاواحد محرک ہماراقومی
مفاد تھا۔ ظاہرہے کہ بنگالیوں کی ہلاکت اور ان کی جدوجہدکے بارے میں بھارتی
پروپیگنڈے اورتارکین وطن سے اظہار ہمدردی کا ڈرامہ محض مشرقی پاکستان
پرحملے کیلئےرچایا گیاتھا۔''دی ٹائمز (لندن)نے درست لکھا تھا کہ مارچ سے لے
کر نومبر۱۹۷۱ء میں فوجی حملے تک بھارتی مداخلت میں ایک سست رومگرمسلسل عمل
کے تحت اضافہ ہوتا چلاگیا۔ بھارت نے پہلے سے مشرقی پاکستان پرحملے کامنصوبہ
تیارکر رکھا تھا۔کلدیپ نیرنے اس امرکی تصدیق کی ہے کہ بھارت کاارادہ مئی،
جون میں پاکستان پرحملہ کرنے کاتھا،مگرچیف آف اسٹاف نے مشورہ دیا کہ مشرقی
بنگال میں مون سون کی وجہ سے وسیع تر فوجی کارروائی نامناسب ہوگی۔ان کے
خیال میں''اس مقصد کیلئےسردیوں کاموسم بہترین ہوگا''۔کلدیپ نیر نے مزید
انکشاف کیاکہ''درحقیقت بھارت نے قیام پاکستان کے فوراًبعدہی مشرقی پاکستان
پرقبضے کاایک پندرہ روزمنصوبہ تیار کیاتھا۔یہی وہ منصوبہ تھاجسے اب جدید
تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بروئے کارلایاجارہا ہے’’۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ سے بہت عرصہ پہلے ڈھاکاکے گردونواح میں سادہ کپڑوں میں
ملبوس بھارتی فوجی دیکھے گئے۔ بعدازاں مسز گاندھی نے خود اپنے بیان میں
کہاکہ''گوریلوں کی تربیت اورانہیں بھارتی اسلحے کی فراہمی ہی ''مشرقی
پاکستان'' کے بحران کاحتمی حل ہے۔''اوریہ حل''آزاد بنگلہ دیش کے سواکچھ
نہیں۔''ایک بنگالی ہندوصحافی ایس براتاکے انکشافات مزیدحیران کن ہیں،جن کے
بقول مکتی باہمنی دراصل بھارتی سپاہیوں کی ایک تنظیم تھی اور یہ کہ''اگروہ
بھارت میں رہتے ہوئے یہ بات کہتے توانہیں یقیناًگرفتارکرلیا جاتا''۔
اس امرکی واضح شہادتیں موجود ہیں کہ مکتی باہنی تمام نہیں تواس کابڑاحصہ
بھارتی فوجیوں پرمشتمل تھا۔ ٹائمز(لندن)کایہ تبصرہ بالکل بجاتھاکہ''فوجی
کاروائی کے بعدبھارت سے اسلحہ کی فراہمی رک گئی۔ اب بھارت کااگلااقدام یہ
تھا کہ پاک فوج کے اقدام میں رکاوٹ کیلئے ذرائع مواصلات کوسبوتاژکرنے
اورباغیوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے مشرقی پاکستان میں تخریب کار بھیجے
جائیں۔ابتداء میں بھارت نے مکتی باہنی کواسلحہ اورگولہ بارودفراہم کیا،
لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ متعینہ مقاصدکاحصول مکتی باہنی کے بس کی بات
نہیں توبھارتی فوج بھی میدان میں کودپڑی''۔
‘‘دی ٹیلیگراف''نے اپریل میں شائع ہونیوالی ایک خبر میں کہاکہ''قرائن بتاتے
ہیں کہ بھارتی اسلحہ سے بھری ہوئی ایک ٹرین مدارپورکے قریب علیحدگی پسندوں
کے پاس پہنچ چکی ہے۔ایک غیرملکی اخبارکے مطابق انڈیا نے مشرقی سرحد کے ساتھ
چوکیاں قائم کررکھی تھیں،جہاں سے بھارتی اسلحہ مشرقی پاکستان
پہنچایاجاتاتھا۔''ایسی کئی اوررپورٹوں سے اس امرکی تصدیق کی گئی کہ بھارت
تخریب کاروں کوبراہِ راست اسلحہ فراہم کررہاہے۔''گوریلا سرگرمیوں کے
مراکززیادہ ترایسٹ بنگال رجمنٹ اورایسٹ پاکستان رائفلزمیں موجود تھے۔طالب
علموں خصوصاً مکتی باہنی فوج میں شمولیت کے خواہش مند ہندو نوجوانوں میں سے
رضاکاربھی بھرتی کئے گئے،جن کااہم مقصد سبوتاژ کی کارروائیاں کرناتھا۔ان
رضا کاروں کوبھارتی فوج کے قائم کردہ پچاس سے زیادہ تربیتی مراکزمیں تربیت
دی گئی،دوسری طرف بائیں بازوکی نیشنل عوامی پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی کے
گوریلاگروپ نے بھارتی سپاہیوں کے تعلق سے دوسری طرف بائیں بازوکی نیشنل
عوامی پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی کے گوریلاگروپ نے بھارتی سپاہیوں کے تعلق سے
مشرقی پاکستان کے اندرونی علاقوں کواپنی تخریبی سرگرمیوں کامرکزبنایا۔بھارت
نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں کوپناہ دینے کے علاوہ اس کے رضا کاروں کی
تربیت کا انتظام بھی کررکھاتھا۔ اس نے بعض موقعوں پرانہیں توپیں
اورمارٹرفائربھی مہیا کیے۔ اب اس معاملے میں شک کی کوئی گنجائش بھی باقی
نہیں رہی کہ متحدہ پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کرکے بنگلہ دیش بنانے
کاکھلم کھلا اعتراف خودمودی نے ڈھاکہ کے ایک اجتماع میں کیاہے۔
بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کوپاکستان کی خدادادجغرافیائی نعمتوں
کاادراک ہی نہیں کہ بھارت کاافغانستان اوراس سے جڑی ہوئی تمام ریاستوں سے
زمینی کاروبارصرف براستہ پاکستان ہی ممکن ہے۔ مودی نے دیکھاکہ ''ہارٹ آف
ایشیا''کانفرنس کاجہازاگرمِس ہوگیاتوافغانستان کے معاملے پرمیرا سیاسی
اوراقتصادی وجودفناہوجائے گا،اس نے پیرس میں دومنٹ کی ملاقات میں نجانے
کیااعتراف کیاکہ اگلے چنددنوں میں بنکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کی
ملاقات کے ساتھ ساتھ اپنی وزیرخارجہ کوپاکستان بھیج کرسارک کانفرنس آنے
کاعندیہ بھی دے دیااورہمارے حکمران اسی کواپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی
سمجھ بیٹھے ہیں۔
ایک بہتر ین عسکر ی ما ہربریگیڈئرعثمان خالدمرحوم کی رائے میں ڈھاکاکا قرض
سری نگر میں چکایاجاسکتاتھااوراس حوالے سے پاکستان کوکئی نادر مواقع بھی
ملےلیکن سیاسی طورپرمضبوط نہ ہونے اورنظریاتی عدم یکسوئی کی وجہ سے یہ اہم
مواقع ضائع کردئیے گئے۔صورتحال یہاں تک بھی رہتی تو ٹھیک تھالیکن ستم یہ
بھی ہے کہ جس ملک نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اس کے ساتھ دوستی کے وہ راگ
چھیڑدیئے گئے ہیں جن کی بے سُری تانوں نے آج ہرکشمیری کوبے چین کررکھا
ہے۔پاکستان کی سیاسی اورعسکری اشرافیہ کے پاس یقیناًاس سوال کاتسلی بخش
جواب نہیں ہے کہ سقوطِ ڈھاکاکاحساب بے باق کرنے کیلئےقدرت نے جونادرمواقع
فراہم کئے ان سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا گیا؟ہم کسی کوذمہ دارٹھہرائیں یانہ
ٹھہرائیں لیکن تاریخ ان لوگوں کاتذکرہ
ضرورکرے گی جنہوں نے مواقع حاصل ہوتے ہوئے بھی سانحہ مشرقی
پاکستان کا قرض چکانے سے گریزکیا۔
نابیناجنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی
جوقوم دیاکرتی ہے تاوان میں آنکھیں
|