جو قوم محنت و مشقت سے جی چرائے وہ
خود کفیل ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی دست نگر ہو کر رہ جاتی ہے اسکی عمدہ مثال
متحدہ عرب امارات کے امیر ترین ممالک ہیں۔ دولت کی ریل پیل کے باوجود بھی
وہاں کے لوگ کچھ کر دکھانے سے جیسے عملاًمعذور ہیں۔ نتیجتاً ان کے کام کاج
کا انحصار بہت حد تک دوسرے ممالک کی افرادی قوت پر ہے۔ ان امیر ترین ممالک
کے باشندے اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہر چھوڑا بڑا کام دوسروں سے ہی کروائیں تو
معاملہ کسی حد تک قابل فہم ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی عیش پرستی
وفورِ دولت کی دین ہے۔ مگر ہماری آرام طلبی اس لحاظ سے مضحکہ خیزہے۔کہ ایک
جانب غربت و بے روزگاری کا رونا رویا جاتا ہے تو دوسری جانب ہم محنت و مشقت
سے دامن کش ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ ناخواندہ افراد بھی اب مزدوری کو
کسرشان سمجھتے ہیں۔ ہم میں سے ایسے غیرتمندوں کی کمی نہیں ہے ۔ جو غربت و
افلاس سے جوجھنا تو پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے پاس پڑوس میں کسی کے
یہاں کوئی محنت طلب کام کرلیں۔ جسکی خاطر اسکو محنت کشوں کی ضرورت ہو۔ یہ
دراصل اس عجیب و غریب سوچ کا نتیجہ ہے ۔ جو مزدوری اور محنت کشی کے متعلق
ہمارے سماج میں جڑ پکڑتی جارہی ہے ۔ ہم یورپ کے لوگوں کی طرح ہر اس جائز
کام کو مستحسن نظر سے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جسمیں جسمانی محنت درکار
ہو۔ ٹھاٹ باٹ اور جھوٹی شان و شوکت کو مطمع نظر بنانے والوں کے یہاں محنت
مزدوری خلاف توقیر ہے۔ مصنوعی آن بان کے شکار لوگوں کو یہ حقیقت ذہن نشین
کیوں کر ہو۔ کہ اگر ایک غریب شخص روپیہ پیسہ کے حوالے سے تہی دست ہے تو اہل
ِزر مثلاً تاجر ، ٹھیکیدار، ٹرانسپورٹر اور جاگیر دار،بیروکریٹ وغیرہ بھی
تو افرادی قوت اور مختلف ذہنی و تکنیکی صلاحیتوں کی احتجاج رکھتے ہیں۔
بالفاظ دیگر ان کی دولت و جاگیر اسوقت تک بے سود ہے جب تک محنت کش مزدور،
باہنر کاریگر اور پڑھے لکھے باصلاحیت نوجواں ان کا ہاتھ نہ بٹائیں ۔ یہ
دوطرفہ انحصار ہی ہے جس پر معاشرت بالخصوص معیشت کا دارومدار ہوتا ہے۔ خون
پسینے کی کمائی ہرگز کسی فرد کیلئے باعث خفت نہیں ہوسکتی ۔ بزرگا ن ِ دین
اور دنیا کے عظیم انسان چھوٹے سے چھوٹے کام کی انجام دہی میں جھجکتے نہیں
تھے۔ افلاطون کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مصر میں سیاحت کے سفر کا خرچہ وہاں
تیل بیچ کر پورا کرتا تھا۔ مشہور ماہر نباتات ’’لینہ‘‘ جوتے سیتا تھا۔
شیکسپئرتھیٹر کے باہر ٹکٹیں بیچا کرتا تھا۔ بیشتر پیغمبروں نے کوئی نہ کوئی
ایسا کام اپنا لیا تھا جسے ہم آج حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ رسولِ
اکرمؐ کو محنت کشوں کے ساتھ کافی محبت تھی ۔ چنانچہ کسی مزدور کے کھردرے
ہاتھ دیکھ لیتے تو فوراً چوما کرتے تھے۔ ایک کاریگر کو دیکھا جس کا ہاتھ
سوجھ گیا تھا۔ آپ ؐنے اسکے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا : ’’دوزخ کی آگ
کبھی بھی اس ہاتھ کو نہیں جلائے گی اس ہاتھ کو خدا اور اسکا رسولؐ پسند
کرتے ہیں۔ جو شخص بھی محنت کرکے اپنی زندگی گزارے گا ، خدا کی اس پر نظر
رحمت ہوگی ‘‘۔اآنحضرت ؐ کاہلی اور بے کاری سے کافی متنفر تھے اور فرماتے
تھے کہ ـخدایا سستی ،کاہلی ،بے کاری عاجزی اور بد حالی سے تیری پناہ چاہتا
ہوں (الجامع الصغیر ج ۱ ص ۷۵ بحوالہ انسان اور کائنات شہید مطہری)امام
خمینیؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایک بار ان کے گھر
میں انگیٹھی خراب ہوگئی ایک ماہر کاری گر کو بلایا گیا۔اتفاق سے یہ کاری گر
انقلاب مخالف تھا اور امام خمینیؒ کے واسطے اس کا دل کینہ وحسد سے بھرا ہوا
تھا ۔چنانچہ اس کاری گرنے سوچا کہ وہ آج اسی بہانے اپنے دل کی بھڑاس نکالے
گا۔چنانچہ وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اتنے میں امام خمینی بھی اس کے
سامنے پہنچ کر کہنے لگے کہ کام کرتے کرتے تمہارے ہاتھ سیاہ ہو گئے ہیں۔کاری
گر نے بہت ہی ترش لہجے میں کہا کہ کام کرنے سے ہی تو ہاتھ کالے ہوتے ہیں ۔
آپ جیسے بے کار لوگوں کے ہاتھ کیسے سیاہ ہو سکتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے سخت
رد عمل دکھانے کے بجائے ایسا کا م کیا کہ وہ کاری گر اپنے اس غیر اخلاقی
عمل پر پشیمان ہو کر زار و قطار رونے لگا ۔چنانچہ امام خمینیؒ نے اس کاریگر
ہاتھوں کو بوسہ دے کر کہا کہ ہنر مند کے ہاتھ رسول اﷲ ؐ کو بھی بہت پسند
تھا اور مجھے بھی ان ہاتھوں سے محبت ہے۔چنانچہ رسول ِ اسلامؐ کا ارشاد
گرامی ہے ’’ان اﷲ یحب المومن المحترف یعنی خدا وند عالم اس مومن کو دوست
رکھتا ہے جو صاحبِ فن و حرفت ہو۔‘‘محنت و مشقت کو اسلام میں جہاد کا درجہ
حاصل ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ’’ الکاد لعیالہ مجاہد فی سبیل اﷲ‘‘جو
شخص اپنے عیال کی خاطر محنت و مشقت کرتا ہے وہ راہِ خدا میں جہاد کرنے والے
مجاہد جیسا ہے‘‘-
لیکن اگرہم بحیثیتِ مجموعی اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اکثروبیشتر افراد
محنت و مشقت سے بد دل نظر آئیں گے ۔ ہمارے نوجواں تعلیم یافتہ ہوں یا غیر
تعلیم یافتہ ایسے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں جسمیں محنت بہت کم اور
معاوضہ بہت زیادہ ہو۔ طرفہ تماشہ یہ کہ صرف اور صرف سرکاری نوکری کے خواب
دیکھنا جواں نسل کا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے ۔ جسے دیکھئے ایک موٹی رقم ہاتھ
میں لئے تیار بیٹھا ہے کہ کوئی دلال کہیں سے آجائے جو سرکاری نوکری کے سبز
باغ دکھا کر یہ رقم لے جائے ۔ یہ اسی سماجی طرز فکر کا نتیجہ ہے ۔ جس کے
مطابق ہنر مندوں اور محنت کشوں کو پست نظر سے دیکھا جاتا ہے۔دلیل کے طور
پرایک مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ مثلاً کسی نوجوان دوشیزہ کو ازدواجی رشتے
کے لئے دوخواستگار نوجوان لڑکوں میں سے ایک کے انتخاب کا معاملہ در پیش ہے
ایک لڑکا ذہین ،محنتی ،کابل،اور اول درجے کا ہنر مند ہے اور دوسرا غبی ذہن
، کاہل ،بے ہنرکام چور چوتھے درجےکا سرکاری ملازم (class 4th employee)
ہے ۔اب اگر اس معاملے کا حل ہمارے سماجی سوچ و اپروچ کے مطابق کرنا ہو تو
معاشرے میں پنپ رہے غالب رجحان کے مطابق موخرالذکر ہی کا انتخاب یقینی
ہے۔جس سے یہ بات مترشح ہے کہ ہنر مندی کی قدرو قیمت روز بروز گھٹتی جا رہی
ہے۔ جبکہ بقول ِ حضرت علی ؑ ’’قیمۃ کل مری مایحسنہ‘‘ یعنی ہر شخص کی قدر و
قیمت وہ ہنر ہے جسکا وہ حامل ہو۔اس قسم کے سماجی رجحان کے منفی اثرات کا ہی
نتیجہ ہے کہ محنت کشی کا میدان مقامی مزدوروں اور کاریگروں سے خالی ہوتا
دکھائی دیتا ہے۔ جواب غیر ریاستی محنت کشوں سے مملو ہوتا جارہا ہے۔ بازار
ہو یا کھیت کھلیان ، زیر تعمیر عمارتیں ہوں یا برک کلن(brick killen) ،
پلوں کی تعمیر ہو یا زیر مرمت خستہ حال سڑکیں ہر جگہ یہ لوگ مصروف کار نظر
آتے ہیں۔ تندہی ،جانفشانی اور محنت کشی کے بل پر نہ صرف یہاں کے مقامی
باشندوں سے انہوں نے اپنی مہارت کا لوہا سے منوا لیا ہے بلکہ یہ بھی باور
کرایا ہے کہ مقامی کاریگروں اور ہنر مندوں سے وہ میدان مارنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔ اس جواب طلب سوال سے مفر ممکن نہیں ہے کہ یہ غیر ریاستی مزدور و
ہنر مند اور کاری گر جس گاؤں ،قصبہ ، یا شہر کا رخ کرتے ہیں تو وہاں مقامی
ہنر مند وں اور مزدوروں کام کاج کافی حد تک چوپٹ ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور
پر اگر کسی بازار میں ایک غیر ریاستی حجام نمودار ہوجائے تو اس بازار میں
کام کررہے مقامی حجام اسکا مقابلہ نہیں کرپاتے ہیں۔ ان ہنرمندوں کی
کارکردگی سے ہمیں یہ احساس ہوچلا ہے کہ ان کے بغیر بہت سارے کام ہوہی نہیں
سکتے۔ چنانچہ مکان بنوانے کا خیال ذہن میں ابھرا نہیں کہ یہ لوگ ہمیں
یادآجاتے ہیں ۔ سر کے بال بنوانے ہوں تو انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ فصل
کٹائی کے موسم میں ہر زمیندار ان کی منت سماجت کرتا ہے کہ اسی نہ اسی کے
کام آجائیں ۔ روز بروز ان کی کارگزاری کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔یہ لوگ کام
کا ج کی تلاش میں علی الصباح جوق در جوق چند ایک مخصوص پبلک مقامات پر
نمودار ہوتے ہیں سرینگر کے پائین شہر کے ایک چوک میں غیر ریاستی مزدوروں کی
بھیڑ بھاڑ رہتی ہے کہ یہ چوک’ بہاری سٹاپ ‘‘ سے بھی موسوم ہے ۔
البتہ اس بات کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی باک نہیں ہوناچاہئے کہ وہ ذوق و
شوق جو ایک کارگزار میں ہونا چاہئے ان غیر ریاستی میں اعلیٰ پیمانے پر پایا
جاتا ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں اسکا فقدان ہے۔ ہم ہر کام کو اپنے شایان شان
نہیں سمجھتے ۔ لہٰذا تساہل پسندی اور ہم میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اور
ہمارے کام میں وہ ندرت عنقاء ہوتی ہے جو غیر ریاستی کاریگروں اور مزدوروں
کا خاصہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مکان کی تعمیر کا اسکی تزئین کاری کے وقت ہم بھی
اسی غیر ریاستی معمار کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور اپنے جان پہچان والے کشمیری
معمار کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ معاملہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے
کہ بہاری معمار میں کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو یہاں کے مقامی معمار میں نہیں
پائی جاتی ہیں۔ ہمارے کاریگروں کے لئیؤ یہ امر لازمی ہے کہ وہ غیر ریاستی
کاریگروں کی خوبیوں کو جانچنے کی نظر پیدا کریں اور پھر انہیں اپنی کاریگری
میں شامل کرنے کا اہتمام کریں۔ تاکہ وہ اپنے ہی وطن میں بے وطن اور اپنے ہی
گھر میں بے گھر نہ ہوجائیں۔ اہلیان کشمیر کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس
مسئلے کی حساسیت کو محسوس کریں۔ وادیٔ کشمیر معاشی لحاظ سے اتنی مستحکم
نہیں ہے ۔ کہ یہاں کے لوگوں میں نوکر شاہی کا مزاج پروان چڑھے ۔ اس سے مراد
ہرگز یہ نہ لی جائے کہ ان غیر ریاستی محنت کشوں کو یہاں سے نکال باہر کرنا
چاہئے ۔ ایسا اقدام اور سوچ سراسر غیر انسانی ہے ۔ البتہ اس بات کا ضرور
خیال رہے کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ’’اول خویش بعد درویش ‘‘ کے اصول کو
نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔
ہر کام کی انجام دہی اگر اپنے دائرۂ اختیار میں ہو تو اسے خود ہی پایۂ
تکمیل تک پہنچانا چاہئے اور اگرا فرادی قوت کی ضرورت پڑے تو اولیت مقامی
مزدوروں اور کاریگروں کو ہی دی جانی چاہئے۔ انکی عدم دستیابی میں پھر غیر
ریاستی مزدوروں اور کاریگروں کو کام پر لگانا قدرتی امر ہے۔ فی الحقیقت یہ
ترجیحات کہیں پر بھی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ ہر فرد ذاتی منفعت کی حصولیابی
کا رسیا ہے اجتماعی فائدے کو پیش نظر رکھنا یہاں کوئی جانتا ہی نہیں ہے۔
معمار، مزدور ، حجام ، ترکھان کی حیثیت سے بہاریوں کا سرگرمِ عمل دکھائی
دینا تو کسی حد تک قابل فہم ہے۔ لیکن ان ہی غربت کے ستائے ہوئے غیر ریاستی
باشندوں سے اب امامت کا کام بھی لیا جانے لگا ہے ۔ میرا اشارہ ہائیگام
سوپور کے ایک گاؤں میں ہوئے اس واقع کی طرف ہے ۔ جسمیں چند سال قبل ایک غیر
ریاستی مزدور ایک کم سن مقامی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا تھا۔
یہ مزدور تو ابتداعاً گاؤں میں مزدوری کرنے آیا تھا۔ لیکن گاؤں والوں کی
دریا دلی دیکھئے کہ انہوں نے اسے پیش نماز بنا دیا۔ اور پھر اسکا نتیجہ کیا
نکلا۔ وہ ہمارے چشم کشا ہے یہ واقعہ دینی اور سماجی فرائض کے تئیں ہماری
سردمہری کی واضح علامت ہے۔ پیش نماز کا منصب تو دینی اور سماجی اعتبار سے
ایک اہم مقام ہے۔ اسی منصب کو ایسے مزدور کے حوالے کرنا جو نہ صرف دینی
علوم سے نابلد ہے بلکہ یہاں کے سماجی ، سیاسی ، ثقافتی حالات و کوائف سے
بھی لاعلم ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہم بھی اسکے رہن ، سہن اور کردار سے ناواقف
ہیں۔ اس بات سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ امامت جسے عظیم فرض منصبی کو
بھی اب یہاں کے لوگ ایک بوجھ تصور کرنے لگے ہیں۔ جسکو ڈھونے کے لئے اسی غیر
ریاستی مزدور کو ہہی کام پر لگایا جاتا ہے۔ صورت حال یہی رہی تو عنقریب
صاحب نظر محسوس کریں گے کہ وادیٔ کشمیر کے جسم میں بہار کی روح کارفرما ہے۔
جب یہ غیر ریاستی مزدورو کاریگر یہاں سے کچھ عرصے کیلئے اپنے اپنے گھر کو
جائیں گے تو یہاں کاروبارِ زندگی بہت حد تک متاثر ہوتا ہوگا۔ |