ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرسا مہینہ ہے
اس کے شروع ہوتے ہی عالمِ اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے فرزندگانِ
اسلام کے ہاں چہک مہک ،چمک دمک پھیل جاتی ہے اور ہر عاشق کے چہرے پر ایک
پُر نور ابتسام پایا جاتا ہے۔آپ ؐ دو جہانوں کے لیے رحمت قرار پائے ہیں اور
تمام نبیوں کے امام بھی ہیں خدا نے آسمان و زمین کوتخلیق کرنے کی وجہ ہی
خدا کا محبوب ہے اگر رسولِ رب ذولجلال نے دنیا میں تشریف نہ لانا ہوتا تو
کچھ بھی نہ ہوتا۔ احمد مجتبیٰ ﷺ کی پیدائش سے قبل ان کے دادا حضرت
عبدالمطلب ؓ نے خواب میں ایک سرخ درخشاں ستارہ دیکھا جو زمین کی پستیوں سے
طلوع ہو کر آسمان کی بلندیوں تک پرواز کر گیا حتیٰ کے اس کی تابانی چاند پر
غالب آگئی۔ حقیقی طور پر جب نورِ محمد ﷺکے بطن بی بی آمنہ ؓ میں صورت پذیر
ہوتے ہی نیلگوں آسمان پر گھنگور گھٹائیں چھا گئیں ایسی برکھا ہوئی کہ چاروں
اطراف خوشحالی چھا گئی خوب کثرت سے پھل آیا کھیتوں میں غلہ بہتات پیدا ہوا
اور اہلِ عرب نے اس سال کو عیش و مسرت کا سال قرار دیا بارہ ربیع الاول پیر
صبح و صادق خیر البشر ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی اس وقت بہار کا موسم تھا نہ
سردی کی شدت نہ گرمی کی تیزی خشک زمین کو بارانِ رحمت نے سیراب کردیا
بلبلیں چہچہا رہی تھیں ،کلیاں چٹک چٹک کر ’’یامصور‘‘ کہہ رہی تھیں پھول مہک
کر فضاء کو معطر بنا رہے تھے رات کی سیاہی دور ہو چلی ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم چل
رہی تھی ہر طرف سے یہ صدا آرہی تھی نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ظہور ہونے والا ہے زمین و آسمان کی ہر شے مشتاق تھی محسنِ اعظم ﷺ کے لیے جس
کے فیض کا چشم تا قیامت جاری رہے گا ۔اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں صراحت سے
اپنے ساتھ اپنے محبوب کا تذکرہ فرمایا ہے اور آپ ؐ پر درپیش مشکلات سے نجات
کے کے لیے وحی کا نزول کیا اٹھائے گئے اعتراضات پر خود جواب دیا ۔سب کے
قلوب میں ایک امنگ ہے اور سب کے سینوں میں شوق اور ارمان کی بستیاں آباد
ہیں کہ محمد ﷺ پیارا اﷲ کا دُلارا یتیموں کا سہارا،بے چاروں کا چارا ہر
آنکھ کا تارا کلیجے کی ٹھنڈگ جلوہ افروز ہونے کو ہے، نہ صرف عرب و عجم بلکہ
پورے عالمَِ انسانی کی کایا پلٹ گئی صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی،قیصر و
کسریٰ کے فلک بوس بروج گر کر پاش پاش ہوگئے ،آتش گدوں کی آگ معتدل ہوگئی ۔انسان
تو انسان ، جن حور و ملائکہ اور سارے نبیوں نے زمین و آسمان پر شادمانی
کی۔ابلیس کے گھر صفِ ماتم بچھ گئی استبداد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلاموں
کی دنیا میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ خدا کی بڑائی جب یہ نور ربانی جلوہ گر
ہوا تو آمنہ ؓ جو اپنے شوہر کی یاد میں ملول تھیں اس موہنی صورت کو دیکھتے
ہی شاد ہوگئیں۔حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور جشن بھرپور
خشوع و خضوع سے منایا خدا نے بھی اپنے حسِین پیغمبر کا نام رکھا اور اُس کے
حکم سے ان کے دادا نے بھی یہ ہی نام رکھا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں میرا
پوتا دنیا بھر میں تعریف کا مرکز ہو۔ اﷲ نے اپنے محبوب کو برگزیدہ اور اہلِ
عرب میں ممتاز قریشی قبیلے بنوہاشم کے ہاں پیدا فرمایا جو نسب اور رتبے میں
کمال واقع ہوتے تھے ان کو جنم دینے والی والدہ سیدہ بی بی آمنہ ؓ نے تین
روز تک دودھ پلایا اور پھر حضرت ثوبیہ ؓ کے سپرد کیا کہ وہ اب آپ ؐ کو دودھ
پلائیں جب تک کسی دائی کا بندوبست نہیں ہوجاتا آپ ؐ کے چچا حضرت امیر حمزہ
ﷺ نے بھی انہی ثوبیہ ؓ سے دودھ پیا اس لیے آپ سیدالمرسلین ؐ کے دودھ شریک
بھائی بھی ہیں آپ ؐ چھے سال کے تھے جب آپ کی والدہ محترمہ بی بی آمنہ ؓ
دنیا سے رخصت ہوگئیں اور جب آٹھ سال کے ہوئے تو آپ ﷺ کے داد حضرت عبدلمطلب
ؓ انتقال کر گئے حضورِ اقدس ﷺ نے زندگی کے ابتدائی چار سال صحرا میں قبیلہ
بنی سعد کے پاس بسر کیے تاکہ عربی میں فصاحت حاصل کرسکیں ، اونٹ پر سواری
آسکے ، بہترعلوم سیکھ سکیں جبکہ اﷲ کے رسول پہلے سے ہی تمام علوم پر
عبوررکھتے تھے حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کو یہ رفیع المرتبت ہستی سونپ دی گئی آپؓ
جس اونٹ پر سوار ہو کر آئی تھیں وہ بہت کمزور تھا حتیٰ کہ وہ ہمیشہ بدوی
عورتوں کے قافلے سے پیچھے رہ جاتا مگر جب حضورِ انور ﷺ کو لے کر سوار ہوئیں
تو اس میں غیب سے طاقت آگئی اس کے قدموں میں سرعت پیدا ہوگئی آپ ؐ ان کے
گھر تشریف رکھنا تھا کہ حالات ایسے ہوگئے کہ مٹی کو بھی ہاتھ ڈالتے تو سونا
ہوجاتی تھی ،بکریاں اس قدر دودھ دینے لگیں کہ سب سیر ہوکر پیتے ان کرشماتی
معجزات سے قسمت کی کایا پلٹی تمام گھر آپ ؐ کا گرویدہ ہوگیا اور آپ کی خاطر
داری میں کوئی کمی باقی نہ رہنے دی گئی ۔عرب ایک ایسی قوم جو ابتدائے
آفرینش سے گمنامی کے عالم میں ریوڑ چراتی پھرتی تھی ان کے اذہان نہایت
پسماندہ تھے ان میں آخری نبی ﷺ جو تشریف لائے اور اب سینکڑوں برس ہوچکے ہیں
کہ یہ اسی شان و شوکت، درخشندگی اور تابندگی سے کرۂ ارض کے ایک عظیم حصے پر
مسلط ہیں یہ سب ایمان پر استقامت اورنبی کریم ﷺ کو مشعلِ راہ بنانے کااجر
ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے عرب میں مناقشات ختم کیے انہیں اتحاد کا درس دیا، فرانس
میں تغیر لانے والا نپولین بونا پارٹ بھی یہ کہہ گیا کہ ـ’’سیدنا محمد (ﷺ)
عظیم انسان تھے جب آپ دنیا میں تشریف لائے تواہلِ عرب صدیوں سے خانہ جنگی
میں مبتلا تھے دنیا کے محاز پر دیگر اقوام نے جو عظمت و شہرت حاصل کی اس
قوم نے بھی سردارِ عظیم ﷺ کی قیادت میں اس طرح ابتلاء و مصائب کے دور سے
گزر کروہ مقام پایا اپنی روح و نفس کو تمام آلائشون سے پاک کر کے تقدس و
پاکیزگی کا جوہر حاصل کیا‘‘۔حضور صلوۃ وسلام کے خصائص تمام نبیوں سے برتر
ہیں آپ ؐ تمام انسانیت کے رہبرِ کامل ہیں آپ ؐ بارہ ربیع الاول تمام عیدوں
کا مظہر و موجب ہے اسے بھرپور جاہ وحشم اور عقیدت کے ساتھ غلامانِ محمد ؐ
ہر سال مناتے ہیں اور محافلِ میلاد کا انعقاد فرزندگانِ اسلام کو بشاش کر
دیتا ہے ہادی برحق کی آمد کا یوم بہت ہی با مسرت ہوتا ہے اور ہر امتی اسے
ایمان کا تقاضا سمجھتا ہے کہ وہ اُس دن کو منائے جب سید الاانبیا ء نے اس
دنیا کو اپنی تشریف آوری سے جگ مگایا اور اپنی کرامت سے پہلے اہلِ عرب اور
پھر جہاں بھر میں انقلاب لائے آپ ؐ معلمِ کائنات ہیں اور آپ ؐ قیامت تک آنے
والے ہر شخص کے لیے رہنمائی حاصل کرنے کا زریعہ ہیں حضرت مآ ب مصطفی ﷺ کی
تشریف آوری سے خدا کی نعمتیں کمال کو پہنچ گئیں شریعت پر تکمیل کی مہر لگ
گئی نبوت کے خزانوں کے دروازے پوری طرح کھول کر اور اس کی تمام دولتیں
نچھاور کر کے اس کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے گئے ،مینائے نبوت کے
منہ پر مہرلگادی جا چکی ہے ۔دنیا بھر میں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہرمذہب آپ ؐ
کا معترف ہے اور ان کی تعلیمات سے مستفیض ہو رہا ہے ۔دنیا بھر میں پندرہ
کروڑ سے زائد لوگوں کا نام محمد ہے اور یہ سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا
نام ہے کئی بیسٹ سیلرز جو کہ مسلمان بھی نہیں ہیں مگر اپنی کتب میں ہمارے
نبی ؐ کی ثناء ضرور بیان کرتے ہیں او ر ملتفت ہیں۔آج بحیثیت امتی ہر کوئی
چاہتا ہے کہ اُسے عاشقِ رسول ؐ مانا جائے مگر حیف ہے تو وہ یہ کہ اُن کی
سمجھائی ہوئی باتوں اور اعمال سے ہم اغماض کرتے چلے جا رہے ہیں فقط ریلی
میں شریک ہونے ،سال بعد محافل منعقد کر کے عاشقی کا حق ادا نہیں ہوتا بس
کہلوایا جا سکتا ہے اس لیے روزمرہ کے معمولات میں آپ ﷺ کی جمال سے لبریز
سوانح حیات کو سامنے رکھ کر سیکھنے کی ضرورت ہے عمل کرنے کی ضرورت ہے جب
روزِ محشر نبی کہہ دیں کہ اس کے عشق کے اطوار اچھے ہیں روزِ آخر حضور ؐ ہر
امتی کی شفاعت کرائیں گے شفاعت گر ہیں وہ جو ذمہ دار اچھے ہیں۔
ملے ہیں آپ ﷺ کے در سے مرادوں اور اغراض کے گوہر سب کو
جو ناکارہ تھا اس دنیا میں جوپھر چلا آپ ؐ کی بتلائی راہ پر وہ بھی کامیاب
آیا |