بہت دفعہ سوچا کہ پیارے نبی محمد کریمﷺ نے
ہند کے خلاف جہاد کی نام لے کر بشارتیں کیوں سنائی تھیں؟ پھر جب کبھی اس
ہند اور اس پر قابض ہندو کو دیکھا تو جواب فوراً ہی مل گیا۔ ہندو مذہب کے
ماننے والے اپنی مذہبی کتابوں کے مطابق 33کروڑ ’’خداؤں‘‘ کے پجاری تو ہیں
ہی، لیکن یہ مشرکین مکہ کی مانند اول دن سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن اور
اہل اسلام کے سفاک ترین قاتل بھی ثابت ہوئے ہیں۔ دور کیا جائیں، اس وقت
پورے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں کروڑوں مسلمان اس بات پر سراپا احتجاج ہیں
کہ ریاست اترپردیش میں بھارت کی تنظیم ہندو مہاسبھا کے قا ئم مقام صدر
کملیش تیواڑی نے امام کائنات محمد رسول اﷲ ﷺ ،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ عنہا اور ان کے جاں نثار صحابہؓ کی شان میں انتہادرجہ کی گستاخی کر ڈالی
ہے۔ غم و غصے اور ایمانی جذبوں سے لبریزمسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ کملیش
تیواڑی کو فوری پھانسی دی جائے کہ ہرمسلمان اپنی جان سے بھی بڑھ کر حرمت
رسولﷺ سے محبت کرتا ہے۔ مسلمانوں کے غیظ و غضب کو دیکھ کر اترپردیش حکومت
نے ملعون تیواڑی کو اس کی درخواست پر حفاظتی حراست میں تو لے لیا ہے لیکن
ابھی تک اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی ہے کیونکہ
بھارت مسلمانوں کو انتہائی دردناک طریقوں سے موت کی وادی میں دھکیلنے اور
کروڑوں مسلمانوں کی زندی جہنم زار بنانے والے مودی کی حکومت ہے جس نے عنان
حکومت ہی مسلم دشمنی پر سنبھالی ہے۔ اس ظلم پر ممتاز بھارتی صحافی معصوم
مراد آبادی لکھنے پر مجبور ہیں کہ’’ ہندو مہاسبھا کے کارگزار صدر کملیش
تیواڑی نے توہین رسالت کے جرم کا ارتکاب کر کے مسلمانان ہند کے سینوں کو
چھلنی کر دیا ہے۔ نبی آخر الزماں ﷺکے تعلق سے انتہائی نازیبا، غلیظ اور
توہین آمیز بیان دے کر کملیش تیواڑی نے نہ صرف اپنی ذہنی خباثت اور گندگی
کو انڈیل کر رکھ دیا ہے بلکہ ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں کی اسلام دشمن
ذہنیت بھی ثابت کر دی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی
برسراقتدار آئی ہے تب سے فرقہ پرستوں اور مسلم دشمن عناصر کے حوصلے اتنے
بلند ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی اوقات ہی بھول بیٹھے ہیں۔ ان شرپسند عناصر کے
ساتھ حکومت کی نرم روی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب پانی سر سے اونچا بہ رہا ہے۔
حد یہ ہے کہ تاریخ کی عظیم المرتبت ہستی پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے جن کے
خلاف مسلمان ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے، چہ جائیکہ تحریری طور پر
ایسے بیان جاری کئے جائیں جن سے مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگ جائے۔ یہ
واقعہ مغربی اترپردیش کے شہر سہارنپور میں پیش آیا جہاں کملیش تیواڑی نے
باقاعدہ ایک تحریری بیان جاری کر کے رسول اکرم ﷺکی شان میں گستاخی کے جرم
کا ارتکاب کیا۔ یہ خبر پورے اترپردیش میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس
کا اثر پڑوسی ریاستوں میں بھی محسوس کیا گیا۔ تمام مسلمان سراپا احتجاج
سڑکوں پر نکل آئے اور شاتم رسول کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کرنے لگے،
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور احتجاج کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے۔‘‘
جیسے ہی ملعون کملیش تیواڑی کا یہ بیان سامنے آیا، بھارتی مسلمانوں نے اپنے
حالات کو دیکھتے ہوئے چوطرفہ مہم کا فیصلہ کیا اور پھر جمعیۃ شباب الاسلام
مغربی یوپی کے جنرل سیکرٹری مولانا انوار الحق نے تیواڑی کے سر کی قیمت
51لاکھ مقرر کی۔ یہ اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ تیواڑی کو فوری طورپر حفاظتی
تحویل میں لے لیا گیا اور مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش شروع کر دی
گئی کہ تیواڑی کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اب مسلمانوں کو چائیے کہ وہ
پرامن طور پر قانونی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔
جس روز تیواڑی نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر انہیں کوئلوں پر لوٹنے پر
مجبور کیا ، اس سے عین قبل مراٹھواڑہ (اورنگ آباد) کے مشہور و مقبول اخبار
’’لوک مت‘‘ نے کلمہ طیبہ لکھ کر (نعوذباﷲ) اﷲ تعالیٰ اور محمد رسول اﷲﷺ کے
توہین آمیز خاکے بنا کر مسلمانوں کے قلب و جگر کو کرچی کرچی کیا۔ مسلمانوں
نے کیا کرنا تھا……؟ احتجاج، بیانات اور مذمتی یادداشتیں …… اور وہ یہ سب
کچھ اب تک کر رہے ہیں لیکن مودی کی حکومت میں اس سب کی بھلا کیا پروا ہو
سکتی ہے؟ بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اخبار’’لوک مت‘‘ ایسی حرکت کوئی
پہلی بار نہیں کر رہا۔ 7سال پہلے اس اخبار نے اورنگ آباد کی سب سے بڑی مسجد
کو ’’ہند مخالف دہشت گردی‘‘ کا اڈا قرار دیا تھا۔ اس وقت بھی مسلمانوں نے
شورشرابا اور احتجاج کیا اور پھر چند ہی روز میں حسب روایت خاموشی چھا گئی
تو اخبار نے اب پاکستانی آئی ایس آئی کا نام لے کر اسلام اور مسلم دشمنی
میں بدترین زہر اگلتے ہوئے حدیں ہی عبور کر ڈالی ہیں۔ ’’لوک مت‘‘ کی ناپاک
حرکت پر خاموش اور ملعون کملیش تیواڑی کو حفاظتی تحویل میں لئے جانے والے
اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے حرمت رسول ﷺکا معاملہ کس قدر حساس
ہے۔وہ اس سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جس کسی نے بھی روئے زمین پر ایسی جسارت
کی اس کے ساتھ کیا بیتا اور بیت رہا ہے وہ ایک عبر ناک داستان ہے۔ ایک عالم
کو کو یاد ہے کہ 30ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنڈس پوسٹن نے ایسے ہی
آگ لگاتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کو شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے
دنیا بھر میں اپنے اس انداز میں جذبات کا اظہار کیا تھا۔ آج حالت یہ ہوئی
کہ اس اخبار کا ایڈیٹر اپنے عہدے سے مستعفی ہے۔10سال گزرے، اخبار ایسی جرأت
و جسارت سے باز ہے۔ اور تو اور، مسلمانوں کو قدموں کی دھول سمجھ کر ڈنمارک
کے اس اخبار کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے یورپ کے درجنوں اخبارات بھی
اپنے اس فعل شنیع سے باز آ چکے…… دور کیوں جائیں…… فرانس کے اخبار چارلی
ایبڈو ہی کو دیکھ لیں کہ جس نے گستاخانہ خاکوں اور مسلمانوں کی دل آزاری کو
اپنی پالیسی کا مرکزی حصہ بنایا ہوا تھا۔ 7جنوری 2015ء کو اس میگزین کے
دفتر پر حملہ ہوا…… ایڈیٹر اور کئی گستاخ کارٹونسٹ مارے گئے تو چند ہفتوں
بعد اس میگزین کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ آئندہ ایسے خاکے اور توہین آمیز
مواد شائع نہیں کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے
والوں کو نہ تو زمین اپنے اوپر پناہ دیتی ہے اور نہ آسمان اپنے نیچے جگہ
دیتا ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ ایسے گستاخوں کی زندگی موت سے بھی کہیں اذیت
ناک ہے تو وہ چوروں اورچوہوں سے بدتر حال میں ایام زیست گزارنے پر مجبور
ہیں۔ شیطان رشدی سے لے کر تسلیمہ نسرین اور گستاخ کارٹونسٹوں سے لے کر
بھارتی حفاظت میں سانسیں پوری کرتے تیواڑی کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں
کہ جو گھٹ گھٹ کر زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔حیرانی تو اس بات پر ہے کہ بھارت
کے اطراف و اکناف میں لاکھوں مسلمان مسلسل مظاہرے اوراحتجاج کر رہے ہیں
لیکن باقی سارے عالم اسلام بشمول پاکستان اس توہین پر مکمل خاموشی ہے جیسے
کچھ ہو ا نہیں ۔
بہر حال ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف توگستاخوں پر روئے زمین تنگ ہے
تودوسری طرف انہی گستاخوں کو سب سے زیادہ تحفظ و چھتری مہیا کرنے والا ہی
بھارت ہے۔ شیطان رشدی کا معاملہ ہو یا تسلیمہ نسرین کا…… انہیں بھارت ہی
میں جائے پناہ اور چھتر چھایا نصیب ہوتی ہے کیونکہ بھارت اصل میں کائنات کے
بدترین مشرک ہندوؤں ہی کا تو دیس ہے جس دیس کے ان باسیوں کے خلاف جہاد کی
صدائیں ہمیں اس کی حقیقت سے آشنا کرتی ہیں کہ اس کے خلاف جہاد سے جہنم سے
آزادی ملے گی۔ |