حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ
نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ’’ اور اپنے نزدیک ناطے
والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا(الشعرا۲۱۴)تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا قریش کے لوگوں(یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ )تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو
(نیک اعمال کے بدل)خرید لو(بچالو)میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں
آسکتا (یعنی اسکی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کرسکتا)عبدمناف کے بیٹو!میں
اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا،اے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن
عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا، صفیہ میری
پھوپھی !اللہ کے سامنے میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے فاطمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا میری بیٹی ! تو جو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے
میں تیرے کچھ کام نہیں آسکوں گا، (صحیح بخاری )
میرے بھائیوں جیسا کہ میں نے یہ حدیث جو کہ صحیح بخاری سے کی ہے اسکو میں
آج کو معاشرے کے پیش نظر پیش کررہا ہوں۔ آپ لوگوں نے سنا ہی ہوگا کہ ہم
جیسے نام نہاد مسلمان جو خود نبی کا امتی اور عاشق رسول کا دعویٰ کرتے ہیں
نہ نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں نہ اللہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں
مگر ایک امید پر ہم گناہ پر گناہ کیئے جاتے ہیں کہ ہم تو نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے امتی ہیں ہماری تو وہ سفارش کریں گے اور ہم جنت میں جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بے شک وہ ہماری سفارش کریں گے مگر اللہ کے حکم سے اور جو
بدعت اور شرک سے پاک ہوا اس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سب سے اہم بات یہ کہ جس
نے نیک اعمال کیئے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اس حدیث میں بتا دیا کہ اے فاطمہ اے میری پھوپھی جو کچھ مانگنا ہے مجھ سے
مانگ لو مگر میں اللہ کے سامنے تمہارے کام نہیں آسکوں گا نہ سفارش کرسکوں
گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر افسوس ہائے افسوس کہ یہ حدیث ہمارے علماء کیوں بیان
نہیں کرتے؟ اور ہم اپنے اعمال کرنے کے بجائے کیوں امید کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟کیا ہم اس حدیث کو صرف اپنے دنیاوی فائدے کی خاطر نظر انداز
کر دیں سوچو میرے بھائیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میرا لکھنے کا مقصد صرف اصلاح
کرنا اور حق بیان کرنا ہے اگر مجھ سے لکھنے میں کوئی غلطی ہوجائے تو میں
اللہ سے معافی کا طلبگار ہوں بے شک وہ نہایت مہربان بخشنے والا ہے اگر اپ
میری تحریر کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ای میل بھجے
M.Adnan.Alam
NEWSONE CHANNEL
[email protected] |