آزادی صحافت یا کچھ اور

20 دسمبر 2015 ء کو معمول کے مطابق اخباری مطالعہ کرنے کے لئے جونہی روزنامہ کھولا تو دیکھتا ہی رہ گیا حالانکہ اخبار میں نے پڑھنے کے لئے کھولا تھا نہ کے دیکھنے کے لئے
’’کون سی جاہ ہے جہاں جلوہٗ معشوق نہیں
شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر‘‘
کے مصداق میری بھی نظر فرنٹ پیج پر ہی موجود اک اشتہار پر ٹھہر سی گئی سُنا تھا کہ تصویریں بولتی ہیں مگر یہ تصویر جس میں ایک حسینہ سُرخ جوڑا زیب تن کئے ہاتھ میں سُرخ موبائل پکڑے لیٹی تھی جو نہ جانے کیا کہنا چاہتی تھی کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ اشتہار والی لڑکی آخر کہنا کیا چاہتی ہے اور ایسا اشتہار دینے کا مقصد کیا ہے سو تھوڑی ہی دیر میں یہ باور ہوا کہ گویا اشتہار ملک کی مشہور ٹیلی کام کمپنی کا ہے جس میں یا تو وہ موبائل کی مشہوری کر رہے تھے یا پھر عورت کی (جس طرح کی ماڈلنگ تھی اُس سے کچھ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے )کیونکہ ایک اسلامی معاشرے کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے میری سوچ بھی ذرا اسلامی طرز کی سی ہے جس کو بعض روشن خیال لوگ شدت پسندی کا نام بھی دیتے ہیں چنانچہ اس گروہ بندی کے تحت مجھے یہ اشتہار کچھ معیوب سا لگا جو کہ ان نام نہاد مسلمان لوگوں کے درمیان سٹیٹس سمبل ہے جو جتنا بے باک ہوگا وہ اُتنا آزادی نسواں کا حامی ہو گا حالانکہ اسلام میں سٹیٹس سمبل اخلاق کی بنیاد پر ہے نہ کہ بے باکی کی بنیاد پر آپ میں سے بہت سے لوگوں نے وہ اشتہار دیکھا ہوگا اور ہر کسی نے اپنے سٹیٹس کے مطابق اس پر تبصرے کئے ہوں گے اور بظاہر اس اشتہار میں کوئی اتنی بھی غیر اخلاقی بات نہیں جو میں نے اس پر تبصرہ شروع کر دیا ہے الحمداللہ اس تصویر میں ماڈل نے پورے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں مگر اعتراض یہ ہے کہ ان کپڑوں میں سے نسوانی اعضاء الگ الگ نظر آتے ہیں جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ اسلام نے تو عورت کو پردے میں رہنے اور ستر پوشی کا حکم فرمایا ہے یہاں پر ستر پوشی صرف ستر کپڑے سے چھپانے کا نام نہیں بلکہ ایسے کپڑے پہننے سے اجتناب ہے جس سے ستر ظاہر ہو مگر نہ جانے کیوں ہمارا میڈیا دن رات عورت کی تشہیر کرنے پر تُلا ہوا ہے عورت گھر بھر کی زینت اسے بازار کی زینت بنا دیا گیا (یہاں پر عید میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے کچھ لوگوں کو جواب دینا بھی بنتا ہے جوکہ اس شعر پر اعتراض کرتے ہیں !
’’سونا آیا تے سج گئے نیں گلیاں بازار‘‘

تو اُن عزیز لوگوں کے گوش گزار کرتا چلوں کہ آپﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اور جب بھی کسی خاص شخصیت کی آمد ہوتی ہے تو پھر گلیوں و بازاروں کو سجانا ہی پڑتا ہے اور بازار سجانے سے اُسی کو تکلیف ہوتی ہے جس کا اُس تقریب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور بلا شبہ بازار بُری چیز ہے مگر عورت کے لئے جس کو بازار کی رونق بنا دیا گیا ہے پر اس بات پر کسی غیرت مند کو اعتراض نہیں )
ایسے ایسے اخلاق باختہ اشتہارات آ رہے ہیں کہ بندہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر خبریں تک نہیں سُن سکتا کیوں کہ نہ جانے کب کونسا اشتہار
آ جائے اور بندہ بیٹھا بیٹھا پانی پانی ہو جائے یہ تو صرف ایک اشتہار کی بات ہے جو کہ پرنٹ میڈیا میں دیکھا وگرنہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے کتنے ہی اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں عریانی کو روشن خیالی کا درجہ دے کر عورت کی تشہیر کی جا تی ہے حال ہی میں ایک معروف برانڈ کے شیمپو کی کمرشل میں عورت کو رات کے وقت ڈانس کلب میں دکھایا گیا ہے جو کہ شیمپو استعمال کرنے کی بدولت بڑے فخر سے کہتی ہے کہ اب رات کے وقت بھی گھر سے باہر جانے کی آزادی ہے’’اب کچھ نہیں چھُپانے کو بہت کچھ ہے دُنیا کو دکھانے کو‘‘ بندہ پوچھے کہ گھر سے باہر جانے کی آزادی ہمارا مذہب یا اس عورت کے گھر والے دیں گے کہ شیمپو بنانے والے؟ اسی طرح بلیڈ کی کمرشل میں عورت کا کیا کام؟مطلب کے مقصد یا بلا مقصد ہر اشتہار میں عورت کو ضروری خیال کیا جاتا ہے تو کیا عورت ک بغیر اشتہارات نہیں چل سکتے؟

اگر عورت سے تعلق والی کسی چیز کی کمرشل دینی ہے تو صرف اس پروڈکٹ کا ہلکا سا تعارف ہی کافی ہوتا ہے اور ہر ذی الشعور انسان سمجھ جاتا ہے کہ کمرشل کا مقصد کیا ہے مگر پاکستانی میڈیا تو فحاشی کو جنم دے رہا ہے ایسی ایسی کمرشل اور اس انداز سے دکھائی جاتی ہیں کہ اللہ کی پناہ ! معصوم بچے بھی ایسی کمرشل کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ یہ کس چیز کی کمرشل ہے ؟ بندہ کیا بتائے اور اگر اس بات پر نام نہاد روشن خیالی کا رونا رونے والے پوچھیں کہ اگر بچوں کو بتائیں گے نہیں تو بچوں کو پتہ کیسے چلے گا تو عرض کرتا چلوں کہ ہمارے والدین نے ہمیں وقت سے پہلے ایسی کوئی باتیں نہیں بتائی جس کا تعلق پوشیدہ باتوں سے تھا تو کیا آج ہم کچھ نہیں جانتے؟ سب کچھ جانتے ہیں مگر آج بھی ہم میں کچھ شرم اور کچھ حیا باقی ہے اور میڈیا سے گزارش ہے کہ اخلاق سے عاری اشتہارات اور پروگرام کی تشہیر نہ کرے کیوں کہ پیمرا کے آرڈیننس 2015 ء کی شق نمبر 03 کی ذیلی شق نمبر (a) کے مطابق لائسنس ہولڈر کوئی ایسا مواد نشر نہیں کرے گا جو کہ اسلامی اقدار ،نظریہ پاکستان یا قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے بانیانِ قوم کے خلاف ہو(e) کے مطابق کوئی ایسی چیز جو نازیبا، اخلاق باختہ یا فحش ہو 14-(03), کے مطابق اشتہارات میں فحاشی ، تشدد ، یا انسانی جان و جائیدادلینے کے لئے خطرے میں ڈالنے والی سر گرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔ تو کوئی بتائے گا کہ فحاشی کیا ہوتی ہے اُس کو کس کیٹگری میں گردانا جاتا ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ میں جس کو فحاشی و عریانی کا نام دُوں وہ روشن خیال لوگوں کے نزدیک آزادی نسواں اور وقت کی ضرورت ہو اس لئے میری پیمرا (PEMRA)سے گزارش ہے کہ وہ میڈیا کی اس قِسم کی بے ہودگی پر نظر رکھے اور آزادی صحافت اور روشن خیالی کے نام پر بے حیائی پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں نمٹے کیونکہ معاشرتی لحاظ سے یہ بعض طبقوں کے نزدیک روشن خیالی ہو سکتی ہے مگر اسلامی اقدار کے قطعََ منافی نہیں ہو سکتی اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کی اشتہار بازی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا!
M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 53832 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More