دعائے خلیلؑ اور نوید مسیحاؑ……ولادت تا عطائے رسالت
(M Jehan Yaqoob, Karachi)
رسول اکرم ﷺمکہ مکرمہ کے مقام شعبِ بنی
ہاشم (بعد میں یہ مقام شعب ِ ابی طالب کہلایا)میں عام الفیل،جس سال ابرہہ
نے ہاتھیوں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی
تھی،ربیع الاول بمطابق 22اپریل 571 عیسوی، موسم بہار میں پیر کے دن صبح کے
وقت پیدا ہوئے۔تاریخ ولادت میں متعدد اقوال ہیں،جن میں دو،آٹھ،نو،بارہ شامل
ہیں۔واﷲ اعلم !
آپ ﷺاکثر پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے آپ ﷺسے پیر کے دن روزہ
رکھنے سے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا:
پیر کے دن میری ولادت ہوئی تھی اور اسی دن مجھ پر نزولِ وحی کی ابتدا ہوئی
تھی۔(مسلم شریف)
آپ ﷺکی والدہ محترمہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا۔ آپ ﷺکے والدمحترم جناب عبداﷲ
بن عبدالمطلب آپ ﷺکی پیدائش سے تقریباً چار ماہ پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔
آپ ﷺکی پیدائش کے وقت دایہ کے فرائض سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓکی والدہ شفا ٔبنت
عمرو نے انجام دئیے۔
آپ ﷺکی ولادت سے قبل،شکم مادر میں جلوہ افروز ہونے کے وقت سے ہی غیر معمولی
واقعات پیش آنا شروع ہوگئے تھے ،سیرت کی کتابوں میں ’’ارہاس ‘‘جکے عنوان سے
ان واقعات کو جم کیا گیا ہے ،ہم ذیل میں چند ایک واقعات کو ذکر کرنے پر
اکتفا کریں گے:
جب آپ ﷺپیدا ہوئے توحضرت آمنہ ؓ نے خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک
ایسا نور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں ۔ (مسند احمد)
آپ ﷺکی ولادت کے بعدحضرت آمنہ ؓ نے جناب عبدالمطلب کو ان کے پوتے کی
خوشخبری بھجوائی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے اور آپ ﷺکو اٹھا کر خانہ کعبہ
میں لے گئے، اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا اور آپ ﷺکے بارے اﷲ تعالی سے خوب
دعائیں کیں اور آپ ﷺکا نام محمد(جس کی سب سے زیادہ تعریف کی جائے)رکھا، اس
امید پر کہ آپ ﷺکی تعریف کی جائے گی۔ آپ ﷺکی ولادت سے لے کر آج تک تمام
آسمان و زمین والے آپ ﷺکی تعریف کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے
گا۔
جناب عبدالمطلب نے آپ ﷺکی پیدائش کے ساتویں دن عرب کے دستور کے مطابق آپ
ﷺکاختنہ اور عقیقہ کیااورعقیقے کی دعوت میں قبیلہ والوں کو مدعو کیا۔ دعوت
میں شریک ہونے والے لوگوں نے جب عبدالمطلب سے پوتے کے نام کے بارے پوچھا تو
جناب عبدالمطلب نے جواب دیا:
میں نے ان کا نام محمدرکھا ہے اور مجھے ہر طرف سے اس نام کی گونج سنائی دے
رہی ہے۔(بیہقی)
آپ ﷺ کا نام حضرت آمنہ ؓ نے ایک خواب کی بنا پر ’’احمد‘‘(سب سے زیادہ تعریف
کرنے والا)رکھا تھا۔
آپ ﷺکو آپ کی والدہ کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺکے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے
دودھ پلایا، ان کے بعد سیدہ حلیمہ سعدیہ ؓنے دودھ پلایا۔عرب کے شہری
باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی آب و ہوا کی خاطردودھ پلانے
والی دیہاتی عورتوں کے سپردکردیا کرتے تھے، تاکہ ان کے جسم طاقتور اور
اعصاب مضبوط ہوں اور وہ خالص عربی زبان سیکھ سکیں ۔ اسی دستور کے مطابق آپ
ﷺکو بھی سیدہ حلیمہ بنت ابی ذویب،جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا،کے سپرد
کیا گیا۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبدا لعزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی۔ اس
طرح حارث کے بچے اور بچیاں آپ ﷺکے رضاعی بہن بھائی ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں
عبداﷲ، ا نیسہ اور حذافہ،ان کا لقب شیماتھا،یہ آپ ﷺکو گود میں کھلایا کرتی
تھیں ۔ رضاعت کے دوران حلیمہؓنے آپ ﷺکی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ
وہ حیرت زدہ رہ گئیں ۔ آپ فرماتی ہیں کہ :
قحط سالی کے دنوں میں ہمارے پاس ایک کمزور گدھی تھی ،جس سے تیز چلابھی نہیں
جاتاتھا اورایک اونٹی تھی جو بہت ہی کم دودھ دیتی تھی۔ میرے ہاں بھی غربت
کی و جہ سے دودھ بہت کم آتا تھا ،جس کی و جہ سے میرا بچہ بے قراری سے
بلکتااورروتارہتاتھا۔ جب میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مکہ پہنچی تو میرے ساتھ
روانہ ہونے والی عورتیں مجھ سے پہلے مکہ پہنچ کر دودھ پلانے کے لیے نومولود
بچے حاصل کر چکی تھیں ۔ مجھے پتا چلا کہ اب ایک ہی نومولود بچہ باقی ہے اور
وہ بھی یتیم ہے۔ میں نے اسے غنیمت سمجھ کر لینے کا ارادہ کر لیا۔جب میں نے
جا کر اس بچہ کو دیکھا تو وہ اتنا خوبصورت لگاکہ اس جیسا بچہ میں نے پہلے
کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے اس کو اپنی گودمیں لیا اور جیسے ہی میں نے
اسے اپنے سینے سے لگایا تو مجھے اتنا سکون ملا جس کا بیان الفاظ میں کرنا
مشکل ہے۔جب میں نومولودکو لے کر واپس لوٹی تو وہ میری کمزور سی گدھی اتنی
تیز چلنے لگی کہ پورے قافلے سے آگے نکل گئی اور کوئی بھی سواری اس کا
مقابلہ نہ کر سکی۔
میرے شوہر نے جب اونٹنی کے تھنوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی دودھ سے بھرے
ہوئے تھے۔ میرے سینے میں بھی اتنا دودھ بھر گیا کہ آپ ﷺنے بھی خوب پیٹ بھر
کر پیا اور میرے دوسرے بیٹے نے بھی جی بھرکرپیا۔
آپ ﷺکو گھر میں لانے کے بعد میری بکریوں نے بھی بہت زیادہ دودھ دینا شروع
کر دیا۔
سیدہ حلیمہ سعدیہ ؓکی پرورش میں آپ ﷺنے جب دو سال گزار لیے تو وہ آپ
ﷺکوحضرت آمنہ ؓکے سپرد کرنے کے لیے اس حال میں گھر سے روانہ ہوئیں کہ آپ
ﷺکی جدائی کے غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ نبی کریم ﷺکی والدہ
محترمہ آمنہؓ بنت وہب نے جب ان کی یہ حالت دیکھی توپوچھا:
کیا تم میرے بچے کو کچھ دن اوراپنے پاس رکھنا چاہتی ہو؟
سیدہ حلیمہ سعدیہ ؓنے عرض کیا : جی ہاں! اگر آپ کچھ مزید عرصہ انھیں میرے
پاس رہنے دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔
میری اس درخواست پر انھوں نے خوشی سے مجھے اس کی اجازت دے دی۔ آپ ﷺکی پہلی
مرتبہ آمد ہی سے میرے گھر میں اﷲ تعالی کی برکتوں کا نزول شروع ہو چکا
تھا،اب نبی کریم ﷺکے دوبارہ تشریف لانے سے میرا گھر خیر وبرکات کے اعتبار
سے تمام قبیلے والوں کی توجہ کامرکزبن گیا۔ آپ ﷺمزید دو سال تک حلیمہ
سعدیہؓکے پاس رہے۔
سیدہ حلیمہ سعدیہؓکے رضاعی ماں ہونے کی و جہ سے آپ ﷺہمیشہ ان کے قبیلے
والوں کا ہرطرح سے خیال رکھتے۔ غزو ہ ٔحنین کے موقع پر جب حلیمہ سعدیہ ؓکے
قبیلے کے کچھ لوگ گرفتار کر کے آپ ﷺکے پاس لائے گئے تو آپ ﷺنے ان کے ساتھ
حسن سلوک کرتے ہوئے انھیں رہا فرما دیا۔
رسول اکرم ﷺکا پوری زندگی میں دو مرتبہ سینہ مبارک چاک کیا گیا۔پہلی مرتبہ
جب آپ حلیمہ سعدیہؓ کی زیر تربیت،اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دن اپنے ہم
عمربچوں کے ساتھ کھیل میں اور بعض روایات کے مطابق اپنی رضائی بہین کے ساتھ
جانور چرانے میں مصروف تھے کہ جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے
آپ ﷺکولٹاکرآپ ﷺکا سینہ مبارک چاک کیا، آپ ﷺکا دل مبارک نکالا اور اس میں
سے گوشت کا ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ ٹکڑا شیطان کا حصہ تھا جو باہر
نکال دیا گیا ہے۔ پھر آپ ﷺکے دل مبارک کوسونے کے طشت میں زم زم کے پانی سے
دھو کر اس کی جگہ پر رکھ کر سی دیا۔اطلاع ملنے پرحلیمہ سعدیہؓ اور ان کے
گھر کے لوگ فورا آپ ﷺکے پاس پہنچے تو دیکھا آپ ﷺکا چہرہ مبارک اترا
ہواتھا،پھر سیدہ حلیمہ آپ ﷺکو لے کر گھر تشریف لے آئیں ۔(مسلم شریف) اور
دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر،جس کی تفصیلات حدیث و سیرت کی کتابوں میں
موجود ہیں۔
واقعہ شقِ صدرکے بعدحلیمہ سعدیہ ؓ کو آپ ﷺکے بارے خطرہ محسوس ہوا۔ انھوں نے
اس واقعہ کے بعد آپ ﷺکوحضرت آمنہ ؓ بنت وہب کے پاس مکہ پہنچا دیا اور آپ
ﷺنے اپنی والدہ محترمہ کے سایہ ٔ محبت میں تقریباً دو سال گزارے پھر وہ بھی
داغ مفارقت دے گئیں،اس کا واقعہ یہ ہواکہ حضرت آمنہ،ننھے محمد(ﷺ) اپنی
خادمہ ام ایمنؓ اور اپنے سرپرست جناب عبدالمطلب کے ساتھ یثرب(مدینہ)تشریف
لے گئیں، جہاں آپ ﷺکا ننھیال اور آپ ﷺکے والد محترم کی قبرتھی۔ یثرب میں
ایک ماہ رہ کر واپس مکہ آرہی تھیں ، راستے میں بیمار ہوگئیں اور ا بوا ٔ
نامی مقام پر پہنچ کر وفات پاگئیں اور انھیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ والدہ
محترمہ کی وفات کے بعد آپ ﷺکے دادا جناب عبدالمطلب آپ ﷺکو لے کر مکہ مکرمہ
تشریف لائے۔ آپ ﷺکے دادا آپ ﷺکی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔وہ آپ ﷺکو اپنی اولاد
سے بھی بڑھ کرچاہتے تھے۔ ان کی ایک خاص مسند تھی جس پران کے علاوہ کوئی
دوسرا نہیں بیٹھ سکتا تھا ،لیکن وہ اپنی مسند پر آپ ﷺکو بٹھاتے ، آپ ﷺکی
پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺکو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا کرتے
تھے۔ ابھی آپ ﷺکی عمر آٹھ سال اور دو ماہ ہی ہوئی تھی کہ آپ ﷺکے دادا بھی
وفات پا گئے۔
بے سایہ کردیا رب نے سایہ دار کو
آپ ﷺکے دادا محترم وفات سے پہلے یہ وصیت کر کے گئے تھے کہ میرے بعد میرے اس
پوتے کی کفالت ابو طالب کریں ۔ چنانچہ جناب عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق
جناب ابوطالب نے آپ ﷺکی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ جناب ابو طالب آپ ﷺکے
والد محترم کے سگے بھائی تھے۔وہ آپ ﷺسے بہت زیادہ محبت کرتے اورآپ ﷺکو اپنے
بچوں سے بھی زیادہ چاہتے تھے۔ وہ بہت زیادہ مالدار نہیں تھے لیکن آپ ﷺکی
کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد اﷲ رب ا لعزت نے ان کے تھوڑے سے مال میں
خوب برکت پیدا فرمادی تھی اور ان کا تھوڑا سا مال ان کے پورے کنبے کی
ضروریات کے لیے کافی ہو جاتا تھا۔
آپ ﷺاپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں جب بارہ سال کی عمر کو پہنچے ،توجناب
ابو طالب نے تجارت کے لیے ملک شام جانے کاارادہ کیا اور اس سفر میں آپ ﷺکو
بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ بصرہ شہر کے قریب ایک پادری بحیرہ راہب رہتاتھا،جس
کا نام جرجیس اور لقب بحیرہ تھا، وہ انھیں دیکھ کر اپنے گرجا سے باہر نکل
آیا اور اس قافلے کی میزبانی کی۔ اس نے آپ ﷺکے سر پر بادل کو سایہ کرتے
ہوئے دیکھ کر آپ ﷺکے چچا اور قافلے والوں کو بتایاکہ یہ دونوں جہاں کے
سردار ہیں اور اﷲ تعالی انھیں رحمت عالم بنا کر بھیجیں گے۔ جناب ابو طالب
نے اس سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟
اس نے جواب دیا: جب تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا
نہیں تھا جو انھیں سجدہ کرنے کے لیے نہ جھکا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی
اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انھیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اوران
کی صفات ہماری آسمانی کتب(تورات اور انجیل)میں بھی موجود ہیں ۔ بحیرہ راہب
نے جناب ابوطالب سے کہا کہ آپ انھیں ملک شام لے کر نہ جائیں کیوں کہ وہاں
انھیں یہود سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔چنانچہ جناب ابو طالب نے آپ ﷺکو اپنے چند
غلاموں کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھیج دیا۔(ترمذی شریف)
جب آپ ﷺکی عمر مبارک بیس سال کی ہوئی تو ذی قعدہ کے مہینہ میں عکاظ نامی
مقام پر ایک جنگ،جنگ فجار ہوئی، جس میں ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل
اور دوسری طرف قیس اور غیلان کے قبائل تھے۔ اس جنگ میں پہلے قیس کا پلہ
بھاری تھا،لیکن بعد میں قریش کا پلہ بھاری ہو گیا۔ اس میں بہت سے لوگ ہلاک
ہو گئے لیکن بعد میں دونوں نے صلح کر لی اور جس گروہ کے زیادہ مقتول تھے،
دوسرے گروہ نے ان مقتولوں کی دیت ادا کی۔ اس جنگ میں آپ ﷺبھی اپنے چچاؤں کے
ساتھ شریک ہوئے اور انھیں تیر اٹھا اٹھا کر پکڑاتے تھے۔
اس جنگ کے فورا بعداسی مہینے میں قریش کے پانچ قبائل (بنو ہاشم، بنو مطلب،
بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم)کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے حلف
الفضول کے نام سے یادکیاجاتاہے۔۔ اس معاہدے کی وجہ یہ تھی کہ یمن کا ایک
زبید نامی آدمی سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے سامان
خرید لیا لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس آدمی نے مختلف قبائل سے مدد کی درخواست
کی، لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ چنانچہ اس نے ابوقبیس پہاڑ پر
چڑھ کر اپنی مظلومیت ظاہر کی اور مددکے لیے آواز بلند کی۔ اس کی آواز سن کر
زبیر بن عبدالمطلب نے لوگوں میں اصلاح کی تحریک شروع کی۔ آپ ﷺبھی اس کے
ساتھ اس مہم میں شریک ہوگئے۔ ان تمام قبائل کے سردار ،قبیلہ بنو تمیم کے
سردار عبداﷲ بن جدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور سب نے مل کر یہ معاہدہ کیا
کہ آج کے بعد مکہ میں کسی کاظلم برداشت نہیں کیاجائے گا،ہر مظلوم کی مدد کی
جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد عاص بن وائل
سے زبیدی کاحق لے کر اس کے حوالے کیاگیا۔ رسول اکرمﷺنے فرمایا:۔
میں عبداﷲ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدے(حلف الفضول)میں شریک ہوا
کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں بھی
مجھے ایسے معاہدے کے لیے بلاجائے تو میں یقینا اسے قبول کروں گا۔ (بیہقی)
نبی کریم ﷺجب جوان ہوئے تو تجارت کی طرف رجحان بڑھا ،لیکن آپ ﷺکے پاس اتنی
رقم نہ تھی کہ تجارت کرسکیں۔ مکہ کے نہایت شریف خاندان کی مال دار بیوہ
خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلدکوجب آپ ﷺکی صداقت،دیانت،امانت اور خوش اخلاقی
کا علم ہوا توانھوں نے آپ ﷺکی خوبیوں سے متاثر ہو کر درخواست کی کہ آپ ﷺان
کی رقم سے تجارت کریں اور انھوں نے یہ پیش کش بھی کی کہ وہ آپ ﷺکو دوسروں
سے بڑھ کر اجرت دیں گی۔خدیجہ نے اس سفر کے دوران اپنا غلام میسرہ بھی
بھیجا۔ آپ ﷺجب ان کا مال لے کر تجارت کرنے شام گئے تواس تجارت میں بہت نفع
ہوا۔ آپ ﷺجب واپس مکہ تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ نے اپنے مال میں ایسی برکت
دیکھی جوپہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ دیکھ کروہ حیران رہ گئیں اور ان کے
غلام میسرہ نے بھی آپ ﷺکی عمدہ صفات کے بارے میں حضرت خدیجہ کو آگاہ کیاجس
سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنی ایک سہیلی،نفیسہ بنت منبہ کوبھیج کرآپﷺکونکاح
کی پیش کش کی۔آپ ﷺنے ان کی اس خواہش کااپنے چچاؤں کے سامنے اظہار کیا۔ آپ
ﷺکے چچا سیدناحمزہ اس رشتہ کا پیغام لے کرسیدہ خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کے
پاس گئے، جسے انھوں نے بخوشی قبول کیا اور اس کے بعدسیدہ خدیجہ کانکاح آپ
ﷺسے کرا دیا۔نکاح کے وقت آپ ﷺکی عمر 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ کی عمر40سال
تھی۔رضی اﷲ تعالیٰ عنھا! آپ ﷺنے اپنی بھرپور جوانی کے 25 سال صرف ایک بیوہ
عورت کے ساتھ گزار دیے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ﷺنے آخری عمر میں
جو شادیاں کیں وہ دینی مصلحت کے تحت کیں نہ کہ اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کی
غرض سے،جیساکہ دشمنان اسلام پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
۔آپ ﷺکی تمام اولاد،سوائیابراہیم ؓ کے،جوماریہ قبطیہ ؓسے پیداہوئے،سیدہ
خدیجہؓ سے ہی تھی۔ جن میں پہلے قاسمؓ، پھر ز ینبؓ، پھر رقیہؓ، پھر ام
کلثومؓ، پھر فاطمہؓ، پھر عبداﷲؓ،جن کا لقب طیب و طاہرپیدا ہوئے۔ آپ ﷺکے
تمام بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے، البتہ تمام بیٹیوں نے عہد نبوت پایا
،اسلام لائیں اور ہجرت بھی کی اوروہ سب آپ ﷺکی زندگی میں ہی فوت ہوگئیں،
سوائے سیدہ فاطمہ ؓ کے ،جوآپ ﷺکے بعد چھ ماہ زندہ رہیں ۔(سیرت ابن ہشام)
جب آپ ﷺکی عمر مبارک 35 سال کی ہوئی تو ایک زوردار سیلاب آیا،جس سے بیت اﷲ
کی دیواریں پھٹ گئیں، اس لیے قریش مجبور ہو گئے کہ بیت اﷲ کا مقام و مرتبہ
برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرنو تعمیرکریں ۔ اس موقعے پر انھوں نے یہ متفقہ
فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال مال ہی استعمال کریں گے۔
زانیہ کی اجرت، سود کی آمدنی اور کسی سے ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں
کریں گے۔ جب حلال مال اکٹھا کیا گیاتو وہ مال اتنا نہیں تھا کہ جس سے بیت
اﷲ کو اس کی اصل بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جا سکے، لہذا انھوں نے مال
کی کمی کی و جہ سے شمال کی طرف سے کچھ حصہ تعمیر میں شامل نہیں کیا، بلکہ
اس پر ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر چھوڑ دی۔ یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا
ہے۔ جب خانہ کعبہ کی عمارت حجراسود تک بلند ہوچکی تو حجر اسود کو اس کی جگہ
پر نصب کرنے کے بارے میں قریش کے درمیان جھگڑاہوگیا۔ہرقبیلہ کے سردارکی
خواہش تھی کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو۔یہ جھگڑا پانچ دن تک
چلتارہااور اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ قریب تھا کہ حرم میں خون خرابہ
ہوجاتا۔اتنے میں ایک عمر رسیدہ شخص ابوامیہ مخزومی نے یہ تجویز پیش کی کہ
صبح مسجد حرام کے دروازہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اسے منصف مان لیں ۔
سب لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی۔ اﷲ تعالی کی مرضی ،کہ سب سے پہلے آپ
ﷺمسجدحرام میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ ﷺکو دیکھتے ہی پکار اٹھے:
ھذا الامِین رضِیناہ ھذا محمد (یہ امین ہیں ، ہم ان سے راضی ہیں،یہ
محمدہیں۔)
آپ ﷺکو معاملے کی تفصیل بتائی گئی توآپ ﷺنے ایک چادر منگوائی جس میں اپنے
دست مبارک سے حجر اسودکورکھااور تمام قبائل کے سرداروں سے کہا:
تم لوگ اس چادرکو کناروں سے پکڑکر اسے حجر اسود کے مقام تک لے چلو۔
جب وہ وہاں لے گئے تو آپ ﷺنے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی
مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔یہ اتناعمدہ فیصلہ تھا ، جس پر تمام لوگ راضی ہو
گئے۔
آپ ﷺکی رسالت کا تذکرہ اﷲ تبارک وتعالی نے تورات، انجیل اور دیگر آسمانی
کتب میں بھی کیا اور سابقہ انبیائے کرام علیھم السلام سے عالم ارواح میں
اور ان تمام انبیائے کرام علیھم السلام نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنی امتوں
سے عہدوپیمان بھی لیاکہ اگر وہ نبی (حضرت محمد ﷺ)تمہارے دور میں آجائیں تو
تم ان کی ہر ممکن مدد اور اتباع کرو۔ ہرآنے والانبی آپ ﷺکی خوشخبری لے کر
آیا۔ آپ ﷺکی بعثت سے قبل معاشرہ کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہواتھا اور ہر
طرف ظلم و ستم کااندھیراچھایاہواتھااورمظلوم کی آہ وبکااورفریادرسی کے لیے
کوئی مسیحا نہیں تھا۔ اجیسے جیسے رسول اکرم ﷺکی بعثت کا زمانہ قریب آتا
جارہاتھا، عرب میں یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشوا اس بارے میں زیادہ باتیں
کرنے لگے تھے، کیونکہ انھوں نے اپنی اپنی مذہبی کتب میں آپ ﷺکے متعلق جو
کچھ پڑھا تھا، اس کے آثار دن بہ دن ان کی نگاہوں کے سامنے آتے جارہے تھے۔
ذیل میں ان کتب سابقہ سے آپ ﷺ کی رسالت کی بشارتوں کو نقل کیا جاتاہے:
زبور میں آپ ﷺکی رسالت کی بشارت:اﷲ عزوجل نے داؤد علیہ السلام سے فرمایا:
’’اے داؤد، عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گاجس کانام احمد اور محمدہوگا۔
وہ اپنی قوم میں صادق اور سردار ہو گا۔ میں اس سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا
اور نہ ہی وہ مجھ سے کبھی ناراض ہوگا۔ اے داؤد، میں نے محمد اور ان کی امت
کو تمام امتوں سے زیادہ افضل بنایاہے۔ اس لیے کہ ان کی امت وہ کام کرے گی
جو ان سے پہلے کے انبیا نے کیے۔میں نے ان کی امت کو 6ایسے انعامات دیے ہیں
جو انعامات ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دیے:
1-اگر وہ بھولے سے کوئی غلطی کربیٹھیں گے تو میں ان کی پکڑ نہیں کروں گا۔
2-وہ غلطی ہو جانے کے فورا بعد توبہ کرلیں گے تو میں ان کی توبہ قبول کرلوں
گا۔
3-جو چیز وہ صدقہ کریں گے، میں آخرت میں اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دوں
گا۔
4-میرے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں ۔میں ان کو اپنے خزانوں میں سے کثیر تعداد
میں اور بہتر خزانہ دوں گا۔
5-وہ پریشانی کے وقت صبر کریں گیاورساتھ ساتھ اِنالِلہِ و اِنآ اِ لیہِ
راجِعون پڑھیں گے تومیں انھیں جنت نعیم دوں گا۔
6-وہ مجھ سے جو بھی دعا مانگیں گے ،میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ہاں! اگر
کسی مصلحت کے طور پرقبول نہ کروں تواس کااجرآخرت میں ضرور دوں گا۔
تورات میں رسول اکرم ﷺکی نبوت کی بشارت:سیدناکعب احبارؒ،جو کہ سابق یہودی
عالم تھے،بیان کرتے ہیں کہ :
ہم نے تورات میں محمد ﷺکے بارے پڑھا ہے کہ:’’ وہ اﷲ کے رسول اور برگزیدہ
بندے ہوں گے، نہ تیز مزاج اور نہ سخت دل ہوں گے، نہ بازاروں میں شور و غل
کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے، بلکہ درگزر اور معاف کرنے
والے ہوں گے۔ مکہ میں پیدا ہوں گے اور طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے۔ ان کی
حکومت شام تک پھیلی ہو گی اور ان کی امت خوب حمد و ثنا ٔبیان کرنے والی ہو
گی۔ وہ ہر خوشی، غم اور ہر حال میں اﷲ عزوجل کی حمد و ثنا بیان کریں گے ہر
بلند مقام پر اﷲ کا نام اونچا کریں گے۔تحریف در تحریف کے باوجود اس وقت
دستیاب نسخوں میں بھی یہ بشارتیں موجود ہیں،ملاحظہ فرمائیے!
اﷲ کا آخری نبی محمد ﷺفاران(مکہ)کی پہاڑیوں سے دس ہزار قدوسیوں(صحابہ )کے
ساتھ جلوہ گرہوا۔(کتاب پیدائش)
وہ (نبی ﷺ)عربی ہو گا اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کا ہاتھ اس کے خلاف
ہوگا۔(کتاب پیدائش)
انجیل میں آپ ﷺکی رسالت کی بشارت:
سیدناعیسی علیہ السلام اپنی قوم کو فارقلیط کے نام سے آپ ﷺکی بشارت سناتے
تھے جس کا معنیٰ محمد یا احمد ہے۔عیسی علیہ السلام نے فارقلیط(آپ ﷺ)کے جو
اوصاف ذکر فرمائے ہیں وہ تمام کے تمام آپ ﷺپر صادق آتے ہیں:’’ وہ پوری دنیا
والوں کو گناہوں سے روکے گااور انھیں حق سکھائے گا اور وہ صرف وہی دین
بتائے گا جو بذریعہ وحی اسے عطا کیاجائے گا‘‘۔
انجیل میں کہیں آپ ﷺکی بشارت تسلی دہندہ ،کہیں مددگار،کہیں وکیل، کہیں شفیع
کے الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے۔ ان سب کا مفہوم احمد ہی سے ادا ہوتا ہے ،جو
حبیب پاک خاتم المر سلین ﷺ کا نام نامی اسم گرامی ہے۔
رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’اﷲ رب ا لعزت نے سیدنا عیسی بن مریم علیہما السلام
کو وحی کے ذریعے اطلاع دی کہ میرے حکم کے بارے میں سنجیدہ رہواورمذاق نہ
کرو، اے نیک عورت کے بیٹے! غور سے سنو اور اطاعت کرو۔ میں نے تمھیں بغیرباپ
کے پیداکیاہے اس لیے کہ تم تمام لوگوں کے لیے میری نشانی بن جاؤ۔ صرف میری
عبادت کرو اور مجھ ہی پر توکل کرواور اپنی قوم پر یہ واضح کردو کہ اﷲ تعالی
حق ہے جسے کبھی موت نہیں آتی۔ عربی نبی کی تصدیق کرو جن کے بال گھنگھریالے،
پیشانی کشادہ ،ابروملے ہوئے، آنکھیں سیاہ ، رخسار سفید اورداڑھی گھنی ہو
گی۔ان کے چہرہ اقدس پر پسینہ موتیوں کی طرح اور اس کی خوشبو مشک کی
طرح،گردن چاندی کی صراحی کی طرح حسین، ہنسلی کی ہڈیاں سونے کی طرح خوبصورت،
سینے سے لے کر ناف تک انتہائی خوبصورت بال ، پاؤں اور ہتھیلیاں گوشت سے
بھری ہوئی ہوں گی اور شخصیت اتنی بارعب ہو گی کہ جب لوگوں کے درمیان بیٹھیں
گے تو تمام لو گوں پر چھاجائیں گے اور جب چلیں گے تو ایسا لگے گا جیسا کہ
پہاڑ سے اتر رہے ہیں۔(بیہقی)
قوم کے اندر پھیلی ہوئی خرافات اور برائیوں کو دیکھ کر آپ ﷺغم زدہ رہنے لگے
اوریہ سوچنے لگے کہ انھیں کس طرح ہلاکت سے بچایا جائے؟ یہ غم ،کڑھن اور
خواہش بڑھتی گئی، یہاں تک کہ آپ ﷺرمضان کے مہینے میں جبل نورپرواقع غار
حرامیں جا کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی
عبادت کرنے میں مصروف ہو گئے ۔مہینہ پورا کر کے آپ ﷺبیت اﷲ تشریف لائے، بیت
اﷲ کا طواف کرنے کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے۔ تین سال تک آپ ﷺکا یہی
معمول رہاپھر جب آپ ﷺکی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی توآپ ﷺکو سچے خواب
آنا شروع ہو گئے، پھر روشنی نظر آنے لگی اور بے جان چیزوں کی آواز سنائی
دینے لگی۔
رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں : میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو نبوت ملنے
سے پہلے مجھے سلام کیاکرتاتھا۔(مسلم شریف)
تیسرے سال رمضان کے مہینے میں جب آپ ﷺکی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن
ہو گئی،اور 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق 10 اگست 610 عیسوی میں آپ
ﷺغارِ حرا میں اﷲ تعالی کی عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ
السلام سامنے آئے اور کہا:
اِ قراء(پڑھیے)
۔ آپ ﷺنے فرمایا: ما انا بِقارِی (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ) جبرائیل علیہ
السلام نے آپ ﷺکو اپنے سینے سے لگاکر دبایا پھر کہا :
اِ قراء(پڑھیے)۔ آپ ﷺنے دوبارہ وہی جواب دیا:ما انا بِقارِی (میں پڑھا ہوا
نہیں ہوں ) سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺکو تیسری بار سینے سے لگاکر
دبایا اور کہا:
اِقرا بِاسمِ ربِ الذِی خلق خلق الاِنسان مِن علق اِقرا ورب الارم الذِی
علم بِالقلمِ علم الاِنسان ما لم یعلم
(اے محمد ﷺ)اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے ،جس نے (پورے عالم کو)پیدا کیا۔جس
نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑاکریم ہے۔ جس
نے قلم کے ذریعے(انسان کو)علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا
اسے علم نہ تھا۔(سورہ علق)
ان آیات کو سیکھ کر آپ ﷺگھر تشریف لائے۔ اس وقت آپ ﷺکا دل گھبراہٹ کی وجہ
سے کانپ رہاتھا۔ آپ ﷺنے سیدہ خدیجہ ؓسے فرمایا:
مجھے کمبل اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھادو۔ انھوں نے آپ ﷺکو کمبل اڑھا دیا۔کچھ
دیر بعد آپ ﷺکی گھبراہٹ ختم ہو ئی توآپ ﷺنے سیدہ خدیجہ ؓ کو غار والا پورا
واقعہ سنایا اور کہا:
مجھے اپنی جان کے بارے میں خوف محسوس ہورہاہے۔
سیدہ خدیجہ نے آپ ﷺکو تسلی دیتے ہوئے کہا:
اﷲ کی قسم، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالی آپ ﷺکوکبھی رسوا نہیں کرے
گااس لیے کہ آپ ﷺ(رشتے داروں کے ساتھ )صلہ رحمی کرتے ہیں،بے سہارالوگوں کا
بوجھ اٹھاتے ہیں ، تنگ دست لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمانوں کی میزبانی
کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ اس کے بعدآپ ﷺکو اپنے
چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں جو کہ عیسائی عالم تھے اور
انجیل کا عبرانی زبان میں ترجمہ کررہے تھے۔ اس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہو
چکے تھے۔سیدہ خدیجہ نے کہا: بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی باتیں سنیں ۔
ورقہ بن نوفل نے کہا: اے بھتیجے، سناؤ۔
آپ ﷺکے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، آپ ﷺنے وہ پورا واقعہ سنایا۔ اس واقعے
کو سنتے ہی انھوں نے کہا:
یہ تو وہی ناموس(وحی لانے والا فرشتہ)ہے جو موسی ٰعلیہ السلام پرنازل ہوا
تھا، پھر کہنے لگے:
کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں ، جب آپ ﷺکی قوم آپ ﷺکویہاں سے نکال دے گی۔
آپ ﷺنے پوچھا:کیا واقعی! میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟
ورقہ نے کہا: جی ہاں! جب بھی کوئی رسول آپ جیسا پیغام لے کر آیا تو اس سے
ضرور دشمنی کی گئی۔ اگر میں نے تمہارا وہ(نبوت والا)زمانہ پا لیا تو ضرور
تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدہی ورقہ وفات پاگئے اورکچھ عرصہ تک
آپ ﷺپر وحی کا سلسلہ بندہوگیا۔(بخاری شریف)
آپ ﷺبہت زیادہ غمگین رہنے لگے۔کئی مرتبہ آپ ﷺپہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے کر
گئے تاکہ وہاں سے لڑھک جائیں، لیکن آپ، ﷺجب بھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے
تو جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے کہ :اے محمد ﷺ!آپ اﷲ کے
برحق رسول ہیں ۔ اس تسلی سے آپ ﷺکے دل کو قرار آجاتا اور آپ ﷺواپس گھرتشریف
لے آتے۔(بخاری شریف)
وحی کی یہ بندش اس لیے تھی تاکہ پہلی وحی کی و جہ سے آپ ﷺپر جو خوف طاری
ہوگیا تھا وہ ختم ہوجائے اور آپ ﷺکے دل میں دوبارہ وحی کی آمد کا شوق
وانتظار پیدا ہوجائے۔ جب آپ ﷺکا شوق وانتظار اس لائق ہوگیا کہ آیندہ وحی کی
آمد پر آپ ﷺاس بوجھ کو بآسانی اٹھالیں گے، تو جبرائیل علیہ السلام دوبارہ
تشریف لائے۔ آپ ﷺنے دوبارہ وحی نازل ہونے کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا
’’: میں چل رہا تھا۔ اچانک مجھے آسمان سے ایک آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ
اٹھاکر دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان وزمین
کے درمیان ایک کرسی پر اس طرح پر پھیلا کر بیٹھا ہے کہ آسمان کے کنارے اس
سے چھپ گئے ہیں ۔ میں اس منظر سے خوف زدہ ہو کر اپنے اہل خانہ کے پاس آیا
اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو،مجھے کمبل اڑھادو۔ اہل خانہ نے مجھے کمبل
اڑھادیا اس کے بعد اﷲ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں :
یٓایہا المدثِر قم فانذِر وربک فکبِر وثِیابک فطہِر والرجز فاہجر(سورہ ا
لمدثر 74:آیات 1تا5)
(اے کپڑا اوڑھنے والے۔ اٹھیے اور(لوگوں کو عذاب الٰہی سے)ڈرائیے۔اور اپنے
رب کی بڑائی بیان کیجیے۔ اوراپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔ اور(بتوں کی)ناپاکی
سے دور رہیے۔)
آپ ﷺکو نبوت ملنے سے پہلے جنات آسمان سے قریب ہو کر فرشتوں کی باتیں بآسانی
سن لیا کر تے تھے ،لیکن جب رسول اکرم ﷺکو نبوت عطا کی گئی تو وحی کو ان کی
دخل اندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے جنات پر پابندی لگا دی گئی۔اب جو بھی
شیطان باتیں سننے کی کوشش کرتا، اسے انگاروں سے ماراجاتا۔ جب جنات کے
آسمانی باتیں سننے پر پابندی لگی تو وہ آپس میں کہنے لگے: اﷲ تعالی نے
ضرورزمین پرواقع ہونے والے کسی عظیم کام کا فیصلہ کیا ہے۔اس لیے وہ اس کی
تلاش کے لیے زمین میں مختلف ٹولیوں کی صورت میں پھیل گئے۔ ان میں سے ایک
جماعت نے آپ ﷺکو مکہ کے قریب وادی نخلہ میں صحابہ کرامؓ کو فجر کی نماز میں
قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایاتو وہ جماعت فورا سمجھ گئی کہ یہی وہ عظیم کام
ہے جس کی وجہ سے ہمارے آسمان پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لہٰذا یہ
جماعت اسی وقت آپ ﷺپر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی تبلیغ کرنے
لگی۔ (بخاری،مسلم)
آپ ﷺپرحسب ذیل طریقوں سے وحی نازل ہوئی :
فرشتہ انسانی شکل اختیار کرکے آپ ﷺکو مخاطب کرتا پھر جو کچھ وہ کہتا آپ
ﷺاسے یاد کرلیتے۔کبھی صحابہ کرامؓ بھی فرشتہ کو دیکھتے تھے۔کبھی آپ ﷺفرشتے
کو اس کی اصل حالت میں دیکھتے۔ اسی حالت میں وہ اﷲ تعالی کے حکم سے آپ
ﷺپروحی نازل کرتا۔آپ ﷺ نے فرشتے کواصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا۔کبھی
آپ ﷺکے پاس وحی گھنٹی کی آوازکی صورت میں آتی۔ وحی کی یہ صورت سب سے سخت
ہوتی۔ جب فرشتہ آپ ﷺسے ملتا اور وحی آتی تو سخت سردی کے موسم میں بھی آپ
ﷺکی پیشانی پرپسینہ آجاتا تھا۔ آپ ﷺاونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ بوجھ کی وجہ
سے زمین پر بیٹھ جاتی۔براہ راست اﷲ تعالی نے پردہ کے پیچھے سے آپ ﷺسے گفتگو
فرمائی جیسے معراج کی رات میں نمازاورسورہ بقرہ کی آخری دوآیات کا تحفہ
دیااور شرک نہ کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ کیا۔کبھی آپ ﷺپرسچے خواب کی
صورت میں وحی نازل ہوتی۔ آپ ﷺجو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح آپ ﷺکے سامنے
آجاتا۔فرشتہ آپ ﷺکودکھائی دئیے بغیر آپ ﷺکے دل میں بات ڈال دیتا تھا۔
(بخاری شریف)
نبی اکر م ﷺنبوت سے پہلے بچپن ہی سے عمدہ صفات کے حامل تھے اور آپ ﷺکی
زندگی بھی نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام برائیوں سے پاک تھی۔ آپ ﷺتمام لوگوں
سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے اور مہمانوں کی خوب
مہمان نوازی کرتے اور کبھی وعدہ خلافی نہ کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺاپنی قوم میں
بہترین کردار، فاضلانہ اخلاق اور بہترین عادات کی و جہ سے ممتاز تھے۔ سیدہ
خدیجہ فرماتی ہیں کہ آپﷺبے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے، مہمان کی میزبانی فرماتے
اورمصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ (بخاری)
آپ ﷺنے فرمایا:مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی،
بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھاجوجاہلیت کے
زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں ۔(بیہقی)
آپ ﷺکا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات مجموعہ تھا، جو متفرق طور پر لوگوں
میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ ﷺبچپن ہی سے صحیح سوچ، دوربینی اور حق پسندی کے
بلندمعیارپرفائزتھے۔ آپ ﷺنے اپنی عمدہ عقل اور روشن فطرت سے لوگوں کے
معاملات اور جماعتوں کے احوال کامطالعہ کیا اور وہ جن بے ہودہ باتوں میں
مشغول تھے ان سے بے زاری کا اظہار کیا۔ جب قوم میں برائیاں عام تھیں اس وقت
بھی آپ ﷺنے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا۔ آپ ﷺنے پوری بصیرت
کے ساتھ لوگوں کے درمیان عملی زندگی کا وقت گزارا۔ جو کام اچھا ہوتا آپ ﷺاس
میں شرکت فرماتے اور ہر برے کام سے دور رہتے تھے۔ آپ ﷺنے نہ توکبھی آستانوں
کا ذبیحہ کھایا اور نہ ہی غیر اﷲ کے لیے منعقد کیے گئے تہواروں میں شرکت
کی۔ آپ ﷺکو بچپن ہی سے خودساختہ معبودوں سے نفرت تھی اور آپ ﷺخود ساختہ
معبودوں کی قسم کھانا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺکے سامنے
غیراﷲ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کا گوشت پیش کیاگیاتوآپﷺنے اسے کھانے سے
انکارکردیا۔(بخاری شریف)
٭٭٭٭٭٭
|
|