ننھی بسمہ: کس جرم میں ماری گئی
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
جب میڈیا پر اس سانحے کی خبر چلی تو کونسا دل ہے جو اداس نہ ہوا، ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔ لیکن عوام کے نام نہاد خادموں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ بلکہ الٹا ان کے بیانات نے دکھی والدین کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ سندھ کے سینئر وزیرِ تعلیم نثار کھوڑو صاحب فرماتے ہیں کہ بچی کے انتقال پر افسوس ہے لیکن ’’بلاول کی زندگی سب سے زیادہ مقدم ہے۔‘‘ |
|
وی آئی پی موومنٹ کے باعث ایک معصوم بچی
اپنی جان سے گئی، ایک ماں کی گود اجڑ گئی، ایک باپ سے اس کی بیٹی جدا ہوگئی۔
یہ ایک الم ناک سانحہ ہے۔ لیکن سانحے سے بھی بڑا سانحہ پی پی پی کے رہنماؤں
کے وہ ظالمانہ بیانات ہیں جو انہوں نے اس سانحے کے بعد میڈیا پر جاری کیے۔
پہلے تو اس سانحے کا مختصر احوال بیان کرتا چلوں۔ سوال اسپتال میں ٹرام
سینٹر کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور پی پی پی کے
شریک چئیر مین بلاول بھٹو زرداری موجود تھے۔ ان کی آمد کے باعث پروٹوکول کے
باعث اسپتال میں لوگوں کی آمد و رفت روک دی گئی۔ لیاری کے رہائشی فیصل کی
بیٹی دس ماہ کی بسمہ سردی اور ٹھنڈ کے باعث سینے کی تکلیف میں مبتلا تھی
اور س کا سینہ جکڑا ہوا تھا، اس کی سانس رک رہی تھی۔ فیصل اپنی بچی کو سول
اسپتال لے کر گئے لیکن دونوں وی آئی پیز کی آمد اور پروٹوکول کے باعث راستے
بند تھے، کم و بیش ایک گھنٹے تک ٹریفک جام میں گاڑی میں انتظار کرنے کے بعد
فیصل نے پیدل ہی اسپتال جانے کا فیصلہ کیا لیکن اسے اسپتال کے گیٹ سے واپس
کردیا گیا، وہ کہتا رہا کہ میری بچی کی حالت نازک ہے لیکن اس کی شنوائی
نہیں ہوئی۔ بعد از خرابی بسیار جب وہ بچی کو اسپتال میں لے جانے میں کامیاب
ہوا تو ڈاکٹر نے سے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ اس کی ننھی بچی اب اس دنیا
مین نہیں ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ صرف دس منٹ پہلے آجاتا
تو اس کی بچی کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
جب میڈیا پر اس سانحے کی خبر چلی تو کونسا دل ہے جو اداس نہ ہوا، ہر آنکھ
اشک بار ہوگئی۔ لیکن عوام کے نام نہاد خادموں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ بلکہ
الٹا ان کے بیانات نے دکھی والدین کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ سندھ کے سینئر
وزیرِ تعلیم نثار کھوڑو صاحب فرماتے ہیں کہ بچی کے انتقال پر افسوس ہے لیکن
’’بلاول کی زندگی سب سے زیادہ مقدم ہے۔‘‘ ایک محترمہ کہتی ہیں کہ مرنے والا
تو واپس نہیں آسکتا، اگر ہمارے استعفے سے بسمہ کی واپس آسکتی ہے تو میں
اپنی پوری قیادت کی جانب سے معافی مانگتی ہوں۔ ( واہ صاحب کیا مشروط معافی
مانگی ہے۔)
وزیر اعلیٰ سندھ اس سانحے کے بعد لیاری پہنچے لیکن غریب والدین کے گھر جانے
کے بجائے نادیہ گبول کے گھر پر ان کو بلایا ۔ وہاں بچی کے والد کو نوکری کی
پیش کش کی ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ بچی بیمار تھی، اب اس کا انتقال
ہوگیا تو یہ اللہ کی مرضی تھی۔صوبائی وزیر صحت فرماتے ہیں کہ مرنا انسان کے
بس میں نہیں ، یہ تو اللہ کی مرضی ہے اور یہ معمول کی بات ہے۔ساتھ ہی انہوں
نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ فرمایا کہ اسپتال میں کسی کے داخلے پر پابندی نہیں
تھی۔
یہ سارے بیانات دراصل اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے یہ نام نہاد
رہنما عوام کو کیا سمجھتے ہیں۔ اب یہ عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی تقدیر
کا مالک کسے بناتے ہیں۔ ان لوگوں کو جو ان کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں۔ |
|