ابھی دوستوں کے بچوں کو پڑھانا باقی ہے

سانحہ پشاورکے شہداء کومختلف طریقوں سے خراج تحسین پیش کیاگیا۔پھول جیسے ان بچوں کا اس کمسنی میں یوں بے دردی سے قتل عام واقعی بہت بڑاسانحہ ہے اوریہ صرف ان بچوں کے والدین کے لئے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے ایک بہت بڑاصدمہ ہے۔سانحہ کے بعدمیجرعمران رضاکانغمہ’’بڑادشمن بناپھرتاہے‘‘یوں زبان زدخاص وعام ہواکہ پورے ملک میں ہربچہ، جوان، مرداورعورت اسے گنگناتارہا۔ سانحہ کی پہلی برسی کے موقع پرایک اورخوبصورت نغمہ ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھاناہے‘‘ ، جانب مقبولیت بہت تیزی سے قدم بڑھاتاچلاجارہاہے اورچند دنوں میں ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔نغمہ توواقعی بہت زبردست ہے اوراس کے پس منظرمیں دشمن سے انتقام لینے کاایک نیااورانوکھاطریقہ بیان کیاگیاہے۔یعنی جس نے ہمارے پھول جیسے بچوں کو بے دردی سے موت کی وادی میں پھینکا،انکے لئے اس نغمے میں سخت سے سخت سزا تجویز کی گئی ہے ۔وہ یہ کہ انکے بچوں کوتعلیم کے زیورسے آراستہ کیاجائے۔ یہ تجویز بھی دلچسپ ہے اورسزادینے کاطریقہ بھی نادر ہے۔لیکن اس سلسلے میں یہ امرسمجھ سے بالاترہے کہ ہمارے شاعراورادیب ایسے ایسے ہوائی قلعے تعمیرکرتے ہیں ، جس کاحقیقت سے دوردور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کا جب موڈہوتاہے، اپنے تخیل کو پروازدیتاہے اورپھرزمینی حقائق کو یکسرنظراندازکرکے ، اہل وطن کو ناممکنات کی وادیوں کی سیرکراتے ہیں۔’’دشمن کے بچوں کو پڑھانے ‘‘ کالطیفہ خاصامضحکہ خیز ہے، کیونکہ پہلے توآج تک ہمارے دشمن کی صحیح طورنشاندہی نہیں کی گئی ہے اوربالفرض ہم نے دشمن کی نشاندہی کی اورپوری وثوق سے ہمیں دشمن کاسراغ ملاہے ، توہم نے انکے بچوں کو کیوں کرپڑھائیں گے۔ جب ہم نے انہیں دشمن کے بچے کہہ کر پکارا، توانکے ساتھ ہماراایساکیاتعلق رہا، جس کی بنیاد پرہم انہیں پڑھاسکے۔کیونکہ پڑھانے کے لئے تواوروں کے بچوں کو اپنے بچے سمجھناہوتاہے اورپڑھانے والے کو باپ کادرجہ حاصل ہوتاہے۔لہذاتعلیم وتعلم کے عمل میں پیار،محبت اوردوستی کی ضروت ہوتی ہے اورہربچے کو اپنابچہ کہہ کرپکارناہوتاہے ، ناکہ دشمن کابچہ۔ تاہم اگروطن عزیزمیں تعلیم کی یوں قدردانی ہوتی ہے، توپھردشمن کے بچوں کو پڑھانے سے پہلے ذراان حقائق پر سوچنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں اپنے باشندوں کے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ2015 کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح 55سے لیکر 58فیصد تک ہے ۔ ہمارے تقریباً 70لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، جس کی شرح تقریباً 20فی صدہے۔ اسی حساب سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرہے، جہاں سب سے زیادہ بچے سکول سے باہرہیں ، جبکہ پہلے نمبرپر نائیجیریاہے۔یہ توہماری شرح تعلیم ہے۔میعارتعلیم کی بحث اس سے الگ ہے۔ 80فی صدبچے، جوسکول جاتے ہیں ، وہ ایک طبقاتی نظام تعلیم کے تحت مختلف گروہوں میں منقسم ہیں ۔غریب کے بچے حکومت کے بنائے ہوئے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں ، جہاں انکو پڑھانے کے لئے اساتذہ کی بہت کمی ہوتی ہے بلکہ اکثرعلاقوں میں ایک استادپورے ادارے کو کنٹرول کرتاہے۔اسی طرح بعض علاقوں میں سکول کی عمارت سرے سے موجودہی نہیں ہوتی اوراساتذہ بچوں کو کسی درخت کے سائے میں ، پرانے کھنڈرمیں یاکھلے آسمان تلے علم کے نورسے منورکرتے ہیں۔دوسری طرف قوم کے صاحب حیثیت لوگوں کے بچے انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ۔جہاں تعلیم کامعیارنسبتاًاچھاہوتاہے۔لیکن بحیثیت مجموعی بہت کم ادارے ایسے ہوتے ہیں ، جہاں بچوں کو میعاری تعلیم دی جاتی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی ہمارامعیارتعلیم، خواہ وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ہویاسرکاری میں، بہت پست ہے۔پاکستان میں کاروباراورپیسہ کمانے کی غرض سے بھی تعلیمی میدان میں بہت بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ ایک خاص طبقہ پروان چڑھتاہے۔ انکے لئے آگے جانے کے تمام راستے کھلے ہوتے ہیں۔ جبکہ عام لوگوں کے بچے مشکل سے پرائمری سے آگے جاتے ہیں ۔ زیادہ ترپرائمری ہی میں تعلیم کو خیربادکہہ دیتے ہیں یازیادہ زیادہ سے زیادہ مڈل اورمیٹرک کے بعدمستقل طورپر تلاش معاش کے چکرمیں پڑتے ہیں۔غریب والدین کی آنکھیں بھی اپنے بچوں کی کمائی پرہوتی ہیں۔یوں ہمارے بازاروں ، سڑکوں اوربس اڈوں میں بے شمارچھوٹے چھوٹے بچے سگریٹ، نسوار، سویٹس، گرم انڈے یابچوں کے کھلونے فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں اوریابھیک مانگتے ہیں ، تاکہ انکے پورے دن کی تگ ودوسے انکے گھرکاچولہاجلے۔یہ ایسے لوگوں کے بچے ہوتے ہیں ، جوپاکستانی قومیت رکھتے ہیں ، جواپناحق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، جو پاکستان کے کرکٹ کے میچ کے لئے اپنے کام سے ناغہ بھی کرتے ہیں اوراسکی جیت کے لئے نوافل اوردعائیں بھی پڑھتے ہیں۔جو اپنے بدن کو سارادن تپتی دھوپ میں جلاکر دووقت روٹی کماتے ہیں۔جوکارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں ، سڑکوں کی کھدائی کرتے ہیں ، کھیت کھلیانوں میں سخت محنت کرتے ہیں اورانکی خون پیسے سے پورے دیس میں ہریالی نظرآتی ہے ۔بازاروں انواع واقسام کے پھل پھول ، اناج، غلے اور سبزیاں سے سجتے ہیں۔یہ لوگ سرکاری اورغیرسرکاری محکموں میں چھوٹی چھوٹی ملازمتیں بھی کرتے ہیں ۔یوم آزادی کے موقع یہ لوگ پاکستانی جھنڈوں کو بھی ہوامیں لہراتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اندراصلی اورحقیقی حب الوطنی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ وطن عزیز کیلئے ہروقت اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے کے لئے تیارہوتے ہیں ۔ یہی لوگ پاکستان کابہت بڑاسرمایہ ہے اوریہی لوگ ہمارے دوست ہیں،لیکن پھربھی انکے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نہ وہ سکول جاتے ہیں، نہ کالج اورنہ کسی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرسکتے ہیں۔دشمن کے بچوں کو پڑھانے کانعرہ بلندکرنے سے پہلے ہمیں اپنے اردگرد ایسے بے شمار دوستوں کے بچوں کو پڑھاناچاہئے، جن کی زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے تاریک ہوتی جارہی ہے اوراگرہم نے ابھی سے انہیں نہ پڑھایا، تویادرکھیں ! کل ہمارے یہی دوستوں کے بچے ہمارے دشمن ہونگے۔
MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 119921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.