سکول سے باہر بچوں کا ہدف اور پیف!

 اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اہالیانِ صوبہ پنجاب کو یہ خوشخبری دے دی ہے کہ 2018ء تک پنجاب میں کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ہوگا۔ یعنی اگلے سوا دو برس میں سکولوں سے باہر تمام بچوں کو سکول میں داخلے کا ہدف پورا کرلیا جائے گا۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، تو تعلیمی اہداف کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں، ان کے حکم پر تین ماہ میں فلائی اوور بن جاتے ہیں، گیارہ ماہ میں دانش سکول کی عالیشان عمارات تعمیر ہوجاتی ہیں، کئی کلومیٹر پر محیط میٹرو چند ماہ میں مکمل ہوجاتی اور غریبوں کے لئے سستے سفر کے لئے تیار ہوجاتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب میں 80لاکھ کے قریب سکول جانے کی عمر کے بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ عمر پانچ سے سولہ سال تک ہے۔ یہ بچے ورکشاپوں پر کام کرتے ہیں، چھوٹے ہوٹلوں پر بیرے ہیں، یا ان کے برتن دھوتے اور میز صاف کرتے ہیں، یا چھوٹی دستی صنعت سیکھتے ہیں، یا گلیوں میں کچرا چُنتے ہیں، یا کھیتوں میں کام کرتے ہیں، اور یا پھر گلیوں میں آوارہ پھرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے ’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ کی سکیم کا آغاز کررکھا ہے، حکومت کے پاس یہ ہدف مکمل کرنے کے لئے دو سال اور تقریباً دو ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ اسی ہدف تک پہنچنے کے لئے گزشتہ سالوں سے حکومت ہر سال اپنے اساتذہ کے ذریعے دیہات میں اُن بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے، جو سکولوں سے باہر ہیں، سرکاری سکولوں کے اساتذہ مضافات اور دوردراز دیہات میں جاتے اور بستی بستی گھوم پھر کر ان بچوں کے بارے میں معلومات لیتے ہیں، جن کی عمر سکول جانے کی ہے اور وہ کبھی سکول نہیں گئے۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ استاد صاحب ایک بستی میں گئے وہاں کسی ایک صاحب کے پاس بیٹھ کر بستی بھر کے بچوں کی معلومات اکٹھی کرلیں، اور واپس آگئے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ محکمہ تعلیم کے تمام دفاتر نے سرکاری سکولوں سے حاضری چیک کی، نئے داخلوں کا حساب لگایا اور نجی سکولوں سے ڈیٹا اکٹھا کرلیا،معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ اگر کسی ایک دفتر نے اپنے ہرکارے کو کسی سرکاری سکول میں بھیجا تو کچھ ہی دیر بعد محکمہ تعلیم کے کسی ماتحت دفتر کا ہرکارہ بھی اسی قسم کا فارم اٹھائے سکول میں آدھمکا، کچھ ہی دیر بعد قریبی سرکاری ہائی سکول کا کوئی ٹیچر پہنچ گیا اور اگلے روز کسی سرکاری پرائمری سکول کی ہیڈ ٹیچر خود آگئیں۔ مذکورہ نجی سکول نے اگر دس نئے داخلے کئے ہیں تو سرکاری طور پر کم از کم پانچ لوگوں نے وہی تعداد اپنے ہی طور پر آگے پہنچادی، یو ں وہ دس بچے پچاس بچے بن گئے، حکومت کے داخلے بڑھتے گئے۔

دوسری طرف جب گلی محلے، ورکشاپوں، ہوٹلوں، کام سیکھنے کی جگہوں وغیرہ کو دیکھتے ہیں، توجگہ جگہ مزدوری کرتے معصوم بچے ہمارے منصوبوں کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ ’’آؤٹ آف سکول‘‘ بچوں میں سے حقیقت تو یہ ہے کہ شاید یہ فیصد کے حساب سے ایک تک بھی نہ پہنچتے ہوں۔ مگر حکومت کے دعوے کچھ مختلف ہوتے ہیں، اس لئے کہ اُن کے اعداد وشمار کے مطابق لاکھوں بچے داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کی کوششیں تو کسی حد تک قابل ستائش ہیں، مگر عملی اور زمینی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ بھی بات تسلیم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے کہ حکومت نے سکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوششیں شروع کررکھی ہیں، مگر جتنے بچے سکولوں سے باہر ہیں اگر ان کو سکولوں میں لایا جائے گا تو ان کے لئے کمرے اور دیگر سہولتیں ناکافی ہیں، اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ پہلے سکولوں کے لئے مناسب عمارات بنوائے، پانی ، بجلی،فرنیچر ، چاردیواری اور واش رومز وغیرہ کا بندوبست کرے تب جا کر نئے داخلوں کے لئے ماحول تیار ہوسکتا ہے۔ حکومت نے داخلوں میں اضافے کے لئے ہی ایک نیا قدم اٹھایا ہے کہ پنجاب کے تقریباً ایک ہزار سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ سکول ہیں جو سرکاری طور پر ناکام ہو چکے ہیں، جہاں بنیادی سہولتیں (تعلیم سمیت) اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ فاؤنڈیشن نے یہ سکول بڑے سکولز کی چینز، این جی اوز اور دیگر لوگوں کو دینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے ایک تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فاؤنڈیشن پنجاب حکومت کا ایک کامیاب ترین منصوبہ ہے، جس پر حکومت اور عوام دونوں کو پورا اعتماد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم شدہ سرکاری سکول دوبارہ زندہ ہوجائیں گے، مگر بڑے سکولوں کی چینز اور این جی اوز کی بجائے اگر یہ سکول بے روز گار تجربہ کار لوگوں کو دے دیئے جاتے تو ہزاروں خاندانوں کا معاشی مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 493636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.