نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ

1857؁ء کی جنگ آذادی اپنے اِختتام کو تھی ۔ستائیں ہزار کے قریب اہلِ اِسلام کو تختہ دَار پر لٹکا دیا گیا۔سات دِن مسلسل قتلِ عام جاری رہا، دِہلی سے شاملی تک علماء کے لاشے لٹک رہے ہیں ۔بچوں کو کچل دیا گیا، عورتوں کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جس کو تصور میں لاتے ہی دِل دہل جاتا ہے۔
گرتے ،سنبھلتے،جھومتے ،دار و رسن کو چومتے
اہل جنوں تیرے حضور آہی گئے کشاں کشاں

اُن نازک حالات کو بھانپ کر ایک مردِ قلندر محمد قاسم نانوتویؒ اور اُنکے رُفقاء نے فیصلہ کیا کہ ایسے اِدارے قائم کئے جائیں جو مسلمانوں کے تشخص کو برقرار رکھنے میں مدد دیں۔اُن اِداروں میں اَفراد سازی کی جائے اور ایسے رِجال پیدا کئے جائیں جو مغربی ،فکری یلغار کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو جائیں ۔ چنانچہ اِخلاص پر مبنی کاوشیں رنگ لائیں ،برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض پر مدارس ِدینیہ کا دائرہ کار پھیلتا گیااور ان مدارس نے علمی ، فکری، نظریاتی طور پرایسا مضبوط و مستحکم کام کیا کہ پوری دنیا دھنگ رہ گئی۔سید ابوالحسن علی ندویؒ ان مدارس کا تعارف کچھ یوں بیان کیا کرتے تھے ’’مدرسہ سب سے بڑی کار گاہ ہے،جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے۔جہاں دین کے دَاعی اور اِسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں ، مدرسہ عالمِ اِسلام کا پاور ہاوس ہے،جہاں سے اِسلامی آبادی بلکہ اِنسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے۔مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب و نِگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں ، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری اِنسانی زِندگی کی نگرانی کی جاتی ہے۔جہاں کافرمان پورے عالم پر نافذ ہے ، عالم کا فرمان اس پر نافذ نہیں ۔مدرسہ کا تعلق کسی تقویم ،کسی تمدن ، کسی عہد ، کسی کلچر ،زبان و اَدب سے نہیں کہ اُسکی قدامت کا شبہ اور اُسکے زوال کا خطرہ ہو، اُسکا تعلق براہ راست نبوتِ محمدیﷺ سے ہے جو عالمگیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی ، اُسکا تعلق اُس اِنسانیت سے جو ہر دَم جواں ہے، اُس زِندگی سے ہے جو ہر وقت رَواں دَواں ہے۔مدرسہ َدر حقیقت قدیم و جدید کی بحث سے بالاتر ہے۔وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوتِ محمدیﷺکی اَبدیت اور زندگی کی ’’نمو‘‘اور’’ حرکت ‘‘ دونوں پائے جائیں ۔

یہی وہ حقیقت ہے جس سے خوفزدہ ہو کر آج مغربی قوتیں کبھی تو مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں اور کبھی اپنے تنخواہ دار اداروں ( این جی اوز ) کے ذریعے مدارس کے نصاب پر سوالات اُٹھاتی ہیں۔کبھی اپنے ذر خرید تجزیہ نگاروں سے مدارس کی کردار کشی کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔کبھی مدارس کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی بوسیدہ تعلیمی نظام کے طعنے دیئے جاتے ہیں ۔جبکہ ہر ذی شعور اِنسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ایک ڈاکٹر کا اپنا شعبہ ہے ، ایک وکیل کا اپنا شعبہ ہے، ایک تاجر کا اپنا دائرہ کار ہے،پھر ان شعبوں کی اپنی اپنی تقسیم ہے۔اگر آج ایک موچی اُٹھ کر جراحی کے شعبے میں عمل دَخل دینے لگے تو سراسر جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

جم خانوں ، کلبوں،فارمز ہاؤسز سے اُٹھ کررات کے اندھیرے میں منہ کے حجم سے بڑا ،کالے شیشوں والا چشمہ لگا کر مدارس ،مدارس، مدارس کی رَٹ لگانے والی مخلوق کیا جانے کہ کھجور کی چٹائی پر بیٹھ کر قال اﷲ و قال رسول ﷺکی صدا بلند کرنے میں کیا لطف ہے۔اُنہیں اَب کیسے سمجھایا جائے کہ وطنِ عزیز میں اِس وقت سب سے منظم تعلیمی نظام ہے تو مدارسِ دینیہ کے پاس ہے،اگر کوئی منظم این جی اوز ہیں تو وہ مدارس ہیں جو بغیر کسی فیس کے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم بھی دے رہے ہیں اوراُنکے اَخراجات کا بوجھ خود اُٹھانے کے ساتھ ساتھ مفت رہائش بھی مہیا کررہے ہیں،جو تعلیم کو پیشہ نہیں فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔نہ تو کوئی حکومت مالی مدد فراہم کرتی ہے اور نہ کوئی حکومتی اِدارہ،تمام خدمات مدارسِ دینیہ َاپنے بل بوتے پر سر انجام دیتے ہیں۔اُنہیں کون سمجھائے کہ مدارس آپ کے ملک کی تہذیب و تمدن کے محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا بھی دفاع کرتے ہیں ۔یہی وہ چند وجوہات ہیں جن سے خائف ہو کر’’ صاحب بہادر‘‘ وقفے وقفے سے پابندی کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور چھوڑتے رہیں گے۔البتہ چند دن پہلے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی مدارس دینیہ کے حوالے سے دی گئی بریفنگ اُن قوتوں کے لئے ایک بہترین جواب ہے جو پاکستان اور مدارس کو جدا کر کے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس طرح اِسلام اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اُسی طرح مدارس اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور رہیں گے۔اَب وہ کیسے ،کس طرح اور کیوں ۔ ۔ ۔؟ اگر جاننا چاہتے ہیں تو حضرت اقبالؒ کو ہی پڑھ لیجئے فرماتے ہیں کہ’’ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ مُلااور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟۔جو کچھ ہوگا میں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔اگر ہندوستان کے مسلمان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بلکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ہندوستان میں آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعے کے سوا کوئی مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملتا‘‘۔
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
Muhammad Umer Qasmi
About the Author: Muhammad Umer Qasmi Read More Articles by Muhammad Umer Qasmi: 16 Articles with 18008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.