جنگ احد ۔۔۔۔ مدینہ میں تیاریاں
شب جمعہ6 شوال3ہجری کو اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد سعد بن معاذ اسید بن
حضیر اور سعد بن عبادة چند افراد کےساتھ مسلح ہو کر مسجد میں اور پیغمبر
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے دروازے پر نگہبانی کے لئے کھڑے
ہوگئے۔مشرکین کے شب خون مارنے کے خوف سے صبح تک شہر مدینہ کی نگرانی کی
جاتی رہی۔
فوجی کمیٹی کی تشکیل
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں رہ
جائیں اور شہر میں رہ کر دفاع کریں تو مسلمانوں کی قدر و قیمت گر جائے گی
اور دشمن گستاخ ہو جائیں گے اور کیا تعجب ہے کہ جب دشمن شہر کے نزدیک ہوں
تو ایسی صورت میں ایک داخلی سازش کے ذریعہ منافقین اور یہود دشمن کی فتح
یابی کے لئے زمین ہموار کر دیں۔ دوسری طرف شہر میں رہنے کا فائدہ یہ تھا کہ
قریش اس بات پر مجبور ہوں گے کہ شہر پر حملہ کر دیں اور اس صورت میں شہر
میں جنگی ٹیکنیک کو بروئے کار لانے سے دشمن پر میدان تنگ ہو جائے گا اور وہ
شکست کھا جائیں گے اور شہر میں رہنا سپاہیوں میں دفاع کے لئے زیادہ سے
زیادہ جوش پیدا کرے گا۔قریش بھی اسی فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں
رہ گئے تو در ختوں کو کاٹ کر نخلستان میں آگ لگا کر ان کو ناقابل تلافی
اقتصادی نقصان پہنچایا جائے گا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دفاعی حکمت عملی کے تعین کے لئے اپنے
اصحابہ کرام سے مشورہ کے لئے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میں حضور صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے اعلان کیا کہ اگر آپ لوگ مصلحت سمجھیں تو ہم مدینہ میں رہیں
اور دشمنوں کو اسی جگہ چھوڑ دیا جائے جہاں وہ اترے ہیں تاکہ اگر وہ وہیں
رہیں تو زحمت میں مبتلا رہیں اور اگر مدینہ پر حملہ کریں تو ہم ان کے ساتھ
جنگ کریں۔
عبداللہ بن ابی نے اٹھ کر کہا کہ” یا رسول اللہ! ابھی تک دشمن اس شہر پر
فتح یاب نہیں ہوئے ہیں اور کوئی دشمن اس پر کامیابی نہیں حاصل کرسکا ہے۔
ماضی میں ہم نے دشمن کے ساتھ جب بھی میدان میں لڑائی کی ہے شکست سے دوچار
ہوئے ہیں اور جب بھی دشمن نے یہ چاہا ہے کہ وہ ہمارے شہر میں آئے تو ہم نے
ان کو شکست دی ہے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اس لیے کہ اگر
وہ وہیں رہے تو بدترین قید میں ہیں اور اگر انہوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو
ہمارے بہادر ان سے لڑیں گے اور ہماری عورتیں اور بچے کوٹھوں سے ان پر
پتھراؤ کریں گے اور اگر وہ پلٹیں گے تو شکست خوردہ، ناامید اور بغیر کسی
فائدے کے واپس جائیں گے۔ مہاجر و انصار کے بزرگ افراد حسن نیت کے ساتھ اسی
خیال سے متفق تھے۔ لیکن نوجوان جن کی تعداد زیادہ تھی شہادت کے مشتاق تھے
خاص کر وہ لوگ جو بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ دشمن سے روبرو
لڑنے کے لئے بے قرار تھے اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خواہش
ظاہر کر رہے تھے کہ ہمیں دشمن سے مقابلہ کے لئے میدان کارزار میں لے چلیں۔
اس اکثریت میں لشکر اسلام کے دلیر سردار حضرت حمزہ بھی تھے ۔ انہوں نے
فرمایا ”اس خدا کی قسم جس نے قرآن کو نازل فرمایا ہم اس وقت تک کھانا نہیں
کھائیں گے جب تک شہر سے باہر دشمنوں سے نبرد آزمائی نہ کرلیں۔“جوان سال
افراد کچھ اس طرح کا استدلال پیش کررہے تھے کہ اے خدا کے پیغمبر ہم اس بات
سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں دشمن یہ نہ خیال کر بیٹھیں کہ ہم ان کے سامنے آنے سے
ڈر گئے اور ہم شہر سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ہم کو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا
کہ قریش اپنے وابستگان کی طرف واپس جائیں اور کہیں کہ ہم نے محمد کو یثرب
میں مقید کر دیا اور اس طرح اعراب کو ہمارے سلسلے میں دلیر بنا دیں۔ (مغازی
ج۱ ص ۲۱۹)
فیصلہ کن ارادہ
جوانوں کے اصرار کی بنا پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اکثریت کی
رائے کو قبول فرمایا۔ پیغمبر نے مسلمانوں کو نماز جمعہ پڑھائی اور اپنے
خطبہ میں ان کو جہاد کی دعوت دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ دشمن سے جنگ کرنے
کے لیے تیار ہو جائیں پھر آپ نے نماز عصر جماعت کے ساتھ پڑھائی اس کے بعد
فوراً گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ جنگی لباس زیب تن فرمایا اپنی ٹوپی خود سر
پر رکھی تلوار کو کمر سے حمائل کیا جب اس صورت سے آپ گھر سے باہر تشریف
لائے تو وہ لوگ جو باہر نکلنے کے سلسلے میں اصرار کر رہے تھے، شرمندہ ہوئے
اور اپنے دل میں کہنے لگے کہ جس بات کی طرف پیغمبر کا میلان نہیں تھا ہمیں
اس کے خلاف اصرار کرنے کا حق نہیں تھا“ اس وجہ سے وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ” اب اگر آپ چاہیں تو مدینہ میں رہیں“
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” یہ مناسب نہیں ہے کہ پیغمبر
لباس جنگ پہن لے اور قبل اس کے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کی سرنوشت کو
روشن کرے وہ لباس جنگ کو اتار پھینکے اب ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کرتے جاؤ خدا
کا نام لے کر جادہ پیما ہو جاؤ اگر صابر رہو گے تو کامیاب رہو گے۔
لشکر اسلام کی روانگی
روانگی کے وقت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تین نیزے طلب فرمائے اور
ان میں تین پرچم باندھے مجاہدین کا عمومی پرچم تھا جو کہ علی ابن ابی طالب
کو دیا۔ قبیلہ ”اوس“ کا پرچم ”اسید بن حضیر“ اور قبیلہ خزرج کا پرچم ”سعد
بن عبادة“ کے سپرد کیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن عصر کے
وقت ایک ہزار افراد کے ساتھ اس حالت میں مدینہ سے باہر نکلے کہ آپ خود
گھوڑے پر سوار تھے اور نیزہ ہاتھ میں تھا۔ مسلمانوں کے درمیان صرف سو افراد
کے جسم پر زرہ تھی۔ جب لشکر اسلام مقام شیخان پر پہنچا تو ناگہاں ایک گروہ
ہمہمہ کرتا ہوا پیچھے سے آن پہنچا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول یہ ”عبیداللہ بن
ابی“ کے ہم پیمان یہودی ہیں آپ نے فرمایا کہ ان تک یہ بات پہنچا دو کہ ہم
نصرت سے بے نیاز ہیں اس کے بعد فرمایا کہ ”مشرکین سے جنگ کرنے کے لئے
مشرکین سے مدد نہ لی جائے۔“
لشکر توحید کے کیمپ میں
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے شیخان کے پاس پڑاؤ ڈالا اور محمد بن
مسلمہ کو50 افراد کے ساتھ لشکر اسلام کے خیموں کی حفاظت کے لئے مامور
فرمایا۔اس مقام پر خود اپنی مرضی سے جنگ میں شرکت کرنے والے نوجوان آپ کے
پاس آئے اور جنگ میں شرکت کی اجازت چاہی۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے جنگ میں ان کی شرکت کی موافقت نہیں فرمائی۔ حضرت سے ان لوگوں نے کہا کہ
رافع بن خدیج ایک ماہر تیر انداز ہے اور رافع نے بھی اونچے جوتے پہن کر
اپنے قد کی بلندی کا مظاہرہ کیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رافع
کو شرکت کی اجازت دے دی۔ سمرہ بن جندب نے اعتراض کیا اور کہا کہ میں رافع
سے زیادہ قوی ہوں، میں ان سے کشتی لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے۔ کشتی لڑو، سمرہ نے رافع کو پٹک دیا تو
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی شرکت کی اجازت دےدی۔ (مغازی
ج۱ ص ۲۱۶)
عبداللہ بن حجش نے پیغمبر سے عرض کیا کہ اے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
دشمنوں نے وہاں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ میں نے پہلے ہی خدا کی بارگاہ میں یہ دعا
کی تھی کہ دشمنوں سے مقابلہ ہو اور وہ مجھ کو قتل کر دیں۔ میرا پیٹ پھاڑ
ڈالیں میرے جسم کو مثلہ کر دیں تاکہ میں ایسی حالت میں خدا کا دیدار کروں
اور جس وقت وہ مجھ سے پوچھے کہ کس راہ میں تیری یہ حالت کی گئی ہے؟ تو میں
کہوں کہ اے خدا تیری راہ میں۔ (مغازی ج۲ ص ۲۱۹)
عمرو بن جموں ایک لنگڑے انسان تھے ان کے چار بیٹے تھے جو پیغمبر کے ساتھ
جنگوں میں شیر کی طرح لڑتے تھے، جب جنگ احد پیش آئی تو ان کے عزیز و اقارب
نے ان کو شرکت سے منع کیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پیر میں لنگ ہے فریضہ
جنگ کا بار تمہارے دوش پر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے بیٹے تو پیغمبر کے
ساتھ جا ہی رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ ”وہ لوگ تو جنت میں چلے جائیں اور میں
یہاں تمہارے پاس رہ جاؤں؟ ان کی بیوی نے دیکھا کہ ہتھیار سچ رہے ہیں اور
زیر لب یہ دعا کر رہے ہیں کہ ”خدایا مجھ کو میرے گھر واپس نہ پلٹا“ ان کے
بیٹوں نے ان سے اصرار کیا کہ وہ جنگ میں شرکت سے اجتناب کریں وہ پیغمبر کی
خدمت میں پہنچے اور کہا ”اے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرے لڑکے نہیں
چاہتے کہ میں آپ کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کروں۔ بخدا میری خواہش ہے کہ اس
لنگ زدہ پیر کو بہشت کی زمین پر گھسٹوں۔
پیغمبر نے فرمایا کہ:”خدا نے تجھ کو معذور رکھا ہے اور جہاد کے فریضہ کا
بار تیرے کاندھوں سے اٹھ گیا ہے۔“
انہوں نے قبول نہیں کیا نتیجتاً رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے
بیٹوں سے فرمایا کہ اگر تم ان کو نہ روکو تو تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں
ہے۔ شاید خدا ان کو شہادت نصیب کرے۔ آفتاب غروب ہوا جناب بلال نے اذان دی،
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجاہدین اسلام کے ساتھ نماز جماعت ادا
کی۔ ادھر دشمن کی لشکر گاہ میں عکرمہ بن ابی جہل کو چند سواروں کے ساتھ
خیموں کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |