دور تک نعمان کی نطروں نے ریڈ ٹائیٹس اور
وائٹ شارٹ شرٹ میں ملبوس باریک ہیل پہنے پارس کا تعاقب کیا ۔۔۔
‘‘آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے ۔۔۔میڈم ‘‘نعمان نے دل ہی دل میں سوچا ۔۔۔
کہاں آُپ اور کہاں میں ‘‘اس کے گہرے سانولے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ کر
چلی گئی ۔۔
ہر طرف شییشے لگے ہویے تھے ۔۔۔۔۔اپنے آفس میں شییشوں کے اس پار بیٹھی پارس
پر سے اس کا نگاہ ہٹانا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔
بمشکل اس نے خود پہ قابو پایا ۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوئی انسلٹ وہ فراموش
کر چکا تھا
زندگی میں پہلی بار نعمان سکندر اس قدر بے قابو تھا ۔۔۔
حیرانی اور خوشی کے ملے جلے احساس کے ساتھ وہ آگے بڑھا
چلتا ہوا وہ آفس کے مینجر کے پاس پہنچا ۔۔۔اور اپنی سیٹ کا پوچھا ۔۔۔مینجر
کے بتانے پہ وہ مینجر کے ساتھ والی
سیٹ پہ آ بیٹھا ۔۔۔
سامنے پڑی فائیل اس نے کھولی ۔۔اس کی نظریں فائل کے صفحات پہ تھیں مگر
۔۔۔۔صرف وہ ایک چہرہ اسے نظر آ رہا تھا ۔۔۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔‘‘ اہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ‘‘
وہ فائل بند کر کے سر تھام کر بیٹھ گیا۔۔۔اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو رہا
تھا ۔۔۔
=================
فرح کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔۔۔وہ ایک بار پھر بہت بری ترح پھنس چکی تھی ۔۔۔
اس کا چہرہ آنسؤؤں سے تر تھا ۔۔۔اسے کمزوری اور نقاہت محسوس ھو رہی تھی
۔۔۔۔وہ بہت گھبرا رہی تھی ۔۔۔
اندر سے آتی تیز میوزک کی آواز سے وہ الجھن کا شکار ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
ویسے کیا قیمت ہو سکتی ہے اس خوبصورت مورنی کی ۔۔۔‘‘
ارے نہیں ۔۔۔نہیں ‘‘اسے تو ابھی سنورنا ہے تراشنا ہے ۔۔۔ پھر تم دیکھنا اس
کی قیمت ‘‘
اماں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارے اماں تمھارہ دماغ تو بہت چلتا ہے ‘‘
واہ واہ کیا آئیڈیا ہے ‘‘۔۔۔۔
تو دیکھنا پھر ہماری قسمت ‘‘۔۔۔۔کروڑوں کا گیم ہے ۔۔۔‘‘
اسے کچھ گانا بجانا بھی اتا ہے کیا ۔۔۔‘‘کوئی ڈانس وانس ۔۔۔
حسنہ نے فرح کے ارد گرد گھومتے ہوئے کہا ۔۔۔
یرے یہ تو کسی شریف گھرانے کی پیداوار لگتی ہے ‘‘بہت مشکل ہو جائے گی
‘‘‘اماں نے کہا
دیکھ تو کیسی چمک ہے اس کے چہرے پہ ۔۔۔‘‘ کیسا نور ہے ‘‘
چھوڑ اماں ۔۔۔ہمیں ان باتوں سے کیا لینا۔۔۔۔‘‘حسنہ نے سر مارتے ہویے کہا
۔۔۔
ادھر بیٹھ تو اماں کے پاس ۔۔۔کب سے کھڑی فرح کو حسنہ نیے اماں کے پاس
بٹھایا
میں تیرے لیے بریانی لے کر آتی ہوں ‘‘
حسنہ نے چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا ۔۔۔
===================
رار کے دو بج کر پینتالیس میٹ ہو رہے تھے ۔۔۔
وہ ابھی تک اس اندھیرے ً سڑک کے بیچ بیٹھا ہوا رو رہا تھا ۔۔۔زمین پہ گھٹنے
ٹیکے آسمان کی طرف دیکھے
جا رہا تھا ۔۔۔پچھلے دو گھنٹوں سے ارد گرد سے بے نیاز تاروں بھرے آسمان کو
دیکھے جا رھا تھا ۔۔۔۔اسے نجانے کیا سرور مل رہا تھا ۔۔۔یوں جیسے اس کی
آنکھیں پتھر ہوں ۔۔۔بنا چھپکے ۔۔۔
کچھ دیر بعد اس دور سے تہجد کی آزان کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔
اس نے اپنے سر کو جھکا لیا ۔۔۔سر کو جھکانا اس کے لیے انتہائی دشوار تھا
۔۔۔۔
آنسو تیزی سے اس کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے ۔۔۔
زمین پہ پنجوں کا سہارہ لیے اس نے اٹھنے کی کوشش کی ۔۔۔
زرا سی لڑکھڑاھٹ کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
اپنے پیچھے کی طرف گری ہوئی چادر کو اس نے اٹھا کر جھاڑہ اور اپنے ارد گرد
لپئٹ لیا ۔۔۔
آہستہ آہستہ چلتے ہویے وہ کوٹھے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا ۔۔۔
جہاں پرانے دکھوں کے ساتھ ساتھ بہت نئے غم الم اور پریشانیاں اس کی راہ
دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔
===============
وہ اندر بڑھا تو تو دروازہ کھولتے ہی جگن جو کب سے اس کے انتطار میں بیٹھی
تھی ۔۔۔بھگ کر اس کی طرف لپکی ۔۔۔
اور اس کے کندھے سے سر ٹکا کر رونے لگی ۔۔۔
وہ اس آفتاد پہ حیران رہ گیا ۔۔۔
اس نے جھٹکے سے جگن کو پیچھے ہٹایا ۔۔۔۔
پیچھے ہٹو ۔۔۔‘‘ کیا بد تمیزی ھیے ۔۔۔‘‘
جگن لڑکھڑاتے ہویے زمین پہ جا گری ۔۔۔
سرخ ساڑھی میں میک اپ سے مبرا چہرہ لیے ۔۔۔اس کی آنکھوں سے انسو ٹپک پڑے
۔۔۔۔
اتنے ظالم نہ بنو۔۔۔‘‘پلیز میری مجبوری سمجھو ‘‘۔۔۔۔جگن نے کھڑے ہوتے ہویے
۔۔۔اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔۔
میں بہت مشکل میں ہوں پلیز ۔۔۔میری مدد کرو۔۔۔‘‘
سب جھوٹ ہے ۔۔۔‘‘
جھوٹی ہو تم ۔۔۔‘‘وہ اسے گھورتے ہوئے مدھم آواز میں بولا ۔۔۔
جگن نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔تو اس نے ھاتھ چھڑا کر زور دار تھپڑ اسے
مارا۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔ |