دلوں کا زنگ اور اسکی سیاہی کیا ہے؟
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے فرمایا نبی
پاکﷺ نے جب مومن کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے دل پر
ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو
اس نقطہ کو رگڑ کر صاف کر دیا جاتا ہے اور (اگر وہ ایسا نہیں کرتا) اور
گناہوں میں بڑھتا ہی رہتا ہے تو وہ نقطہ بھی بڑھتا رہتا ہے حتی کہ اس کے
تمام دل کو ڈھانپ لیتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کے بارہ میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے(ترجمہ)’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر انکے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیاہ
ہے‘‘ ( المطففین:۱۴)
اس حدیث شریف سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ گناہ کے ارتکاب سے دل پر ایک سیاہ نقطہ
لگ جاتا ہے اور اگر توبہ و استغفار نہ کیا جائے تو وہ نقطہ بڑھ کر تمام دل
کو ڈھانپ لیتا ہے۔مقصد یہ نہیں کہ دل فی الواقعی سیاہ ہو جاتا ہے بلکہ اسے
گناہوں کی نحوست اور دلوں کا زنگ کہہ لیجئے کہ دل گناہوں کی نحوست کی وجہ
سے اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔اور جب مومن توبہ و استغفار کرتا ہے اور
اپنے گناہوں پر شرمندہ و پشیمان اور اصلاح کی جانب مائل ہوتاہے تو ا س گناہ
کی نحوست کو دور کر دیا جاتا ہے۔
اور اپنے گناہوں پر شرمندگی و پشیمانی اسے ہوتی ہے جس کا دل (ضمیر) زندہ ہے
اور ضمیر کی خلش اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ گناہ
کی نشانی کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور
تو اس بات سے ڈرے کہ لوگ میری اس حرکت پر مطلع ہو جائیں (المشکوٰۃ)۔
اور اگر کوئی شخص گناہوں کا ارتکاب محض اس وجہ سے کرتا ہے کہ یہ تو زمانے
کا دستور ہے اور سوسائٹی کا حصہ ہے اور لوگ بھی تو یہ کام کر رہے ہیں پھر
میں اگر کر لیا تو اس میں کیا حرج ہے جب روز قیامت باز پرس ہوگی تو دیکھا
جائے گا کہ’ ہمہ یاراں دوزخ اور ہمہ یاراں بہشت‘ تو یہ اس بات کی نشانی ہے
یہ اس کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے کہ اس کے دل میں گناہوں کے ارتکاب سے کوئی
خلش نہیں یا کھٹک محسوس نہیں ہوتی۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جب کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ
و استغفارکی جائے تاکہ دل سیاہ ہونے سے بچ جائے اور اللہ کی رحمت متوجہ ہو
جائے۔ |
|