حضور اکرمﷺ کا کردار
(Zulqarnain Hundal, Gujranwala)
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو ایمان نامکمل ہے
قارئین میں ایک عام سا گنہگار سا آدمی ہوں میرے پاس اتنا علم نہیں کے آپﷺ
کی سیرت و کردار بیان کر سکوں۔آپﷺ نبیوں کے سردار اﷲ تعالی کے محبوب و آخری
پیغمبر ہیں آپﷺ کی شان بیان کرنا مجھ جیسے ادنی شخص کے بس کی بات نہیں۔آپﷺ
کے کردار سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں غیر مسلم بھی متاثر ہیں
آپﷺ کبھی غصہ نہ کھاتے نہ قہقہہ لگاتے با وقار انداز اپنائے رکھتے۔آپﷺ
ہمیشہ ہنس مکھ رہتے کسی کے سلام کا انتظار کیے بغیر خود آگے بڑھ کر سلام
کرتے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے چھوٹوں کو بھی سلام میں پہل کرتے۔نوکر چاکر
اور ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے کوئی بھی شخص آپﷺ کو پکارتا چاہے کسی
بھی حیثیت کا مالک ہوتا بڑی ہمدردی سے اسکی طرف رجوع فرماتے۔ ملاقاتی
مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو انکا ہاتھ تھام کر ان سے گفتگو کرتے کوئی سخت
کلامی کرتا تو مسکرا کر خاموش ہو جاتے صبر کرتے آپﷺ کی حیا مثالی
تھی۔اصولوں میں بے لچک رویہ اختیار کرتے عدل و انصاف کے قائل تھے لیکن اگر
کوئی گنجائش ہوتی تو رحمت کو افضل تر سمجھتے۔ سر بزم گفتگو میں جتنے نرم
تھے جہاد کے میدان میں اتنے ہی گرم اور ثابت قدم۔آپﷺ تاریخ انسانی کے پہلے
راہنما ہیں ا ولین قانون ساز ہیں جنہوں نے عورت کو مردانہ شاون ازم سے نجات
دلائی عورت کو مرد کے برابر مساویانہ حقوق دلائے مغرب میں تو آج بھی عورت
کو جائیداد میں حصے کا حق حاصل نہیں لیکن آپﷺ نے چودہ سو سال پہلے کم و بیش
عورت کو یہ حق دیا آپﷺ کی تعلیمات میں عورتوں کے حقوق پر بڑا ذور دیاگیا ہے
یہاں تک کہ آپﷺ کا فرمان ہے کہ’’ ماں کے قدموں میں جنت ہے‘‘آپﷺ فتح مکہ کے
موقع پر فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے قریش کے سردار لرز رہے تھے
انہیں احساس تھا کہ انہوں نے کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں وہ خوف زدہ تھے لیکن آپﷺ
نے فرمایا’’لوگو آج تم سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا اﷲ تمہیں معاف کرے‘‘
کتاب تلاش سے ایک مغربی نو مسلم کا بیان ہے کہ’’ اگر چہ میں اس بے بس مقصد
زندگی سے مطمئن نہیں تھا لیکن اس سے بچاؤ کی صورت نہ تھی اس لیے عام لوگوں
سی زندگی گزار رہا تھا اپنی دفتری جاب کے تحت میں بڑے آدمیوں کی زندگی کے
حالات پڑھ رہا تھا ابھی محمدﷺ کا باب شروع ہوا تھا کہ میں ایک جملہ پڑھ کر
چونک گیا لکھا تھا اے نبیﷺ ان سے کہہ دو کہ میں تو بس تمہارے جیسا ہی ایک
انسان ہوں یہ جملہ پڑھ کر میں چونکا ارے خدا یہ کہہ رہا ہے کیا یہ خدا
مسلمانوں کو کہہ رہا ہے اور کیا خدا محمدﷺ سے کہہ رہا ہے؟ جس کو اس نے سب
انسانوں سے عزت کا مقام دیا ہے یہ فقرہ میرے دل میں سوئی کی طرح چبھ گیا یہ
کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا جس شخص کو تمام انسانوں کا سردار بنائے اس سے کہے
کہ تم لوگوں سے کہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں دوسرے مذہبوں
میں تو جو شخص خدا کی طرف سے بھیجا جاتا ہے وہ یا تو کوئی دیوتا ہوتا ہے یا
کوئی اوتار ۔ان کی بات چھوڑئیے ہمارے ہاں تو وہ لوگ جو گرجے میں دعائیں
کرتے ہیں اور پادری کہلاتے ہیں ان کا مرتبہ بھی عام انسانوں سے زیادہ ہوتا
ہے تو صاحبو یہ جملہ میرے حلق میں اٹک گیا میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی میں
اس شخصیت کے متعلق مزید باتیں جانوں میں نے حضور اکرمﷺ پر لکھی ہوئی کئی
کتابیں پڑھ ڈالیں جوں جوں پڑھتا گیا حیرت میں ڈوبتا گیا پھر میں نے حضرت
محمدﷺ کی بائیو گرافی غور سے پڑھی وہ عرب کا مطلق العنان حکمران تھا
مسلمانوں کا سردار اور اپنے علاقے میں سب سے زیادہ محترم حیثیت کامالک اس
کے با وجود اس کے گھر میں کوئی نوکر نہ تھا وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھوں سے
کرتے اپنے کپڑوں پر اپنے ہاتھوں سے پیوند لگاتے اپنے جوتوں کو خود مرمت
کرتے مویشیوں کو اپنے ہاتھوں سے چارہ ڈالتے اپنے ہاتھ سے دودھ دوہتے میری
دانست میں دنیا بھر میں کوئی حکمران ایسا نہیں ہوگا جو اپنے کام اپنے
ہاتھوں سے کرتا ہو اور زندگی یوں گزارتا ہو جیسے کوئی عام آدمی گزارتا ہے
میں نے محسوس کیا جیسے اس کے کردار میں مساوات ۔جمہوریت۔ اوررحمت یوں سموئی
ہوئی ہے جیسے گلاب کے پھول میں خوشبو سموئی ہو میں اس ہستی کے کردار سے اس
قدر متاثر ہوا کہ میں نے اسلام کو جانے بغیر قرآن کا مطالعہ کیے بغیر اسلام
قبول کر لیا میں نے محسوس کیا کہ ایسا انسان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا کبھی
خود فریبی میں مبتلا نہیں ہو سکتا لہذا جس مذہب کا وہ پرچار کرتا ہے وہ
مذہب لازما سچا ہے‘‘۔ بے شک آپﷺ سب سے افضل ہیں نبیوں کے سردار مگر آپﷺ نے
اس کے برعکس عام انسانوں سی زندگی گزاری۔آپﷺ کے کردار کی مثال ملتے نہیں
ملتی آپﷺ وہ شخصیت ہیں جنکی تعریفیں مخالف بھی کرتے۔حضرت علی رضی اﷲ نے
اپنے ایک شاگرد سے کہا آؤ تمہیں میں بی بی فاطمہ رضی اﷲ کی کہانی سناتا ہوں
جو آقا ﷺ کی چہیتی بیٹی ہیں ’’ فاطمہ روز خود اناج پیستیں چکی چلاتیں اور
کنویں سے پانی کے مشکیزے بھر کر لاتیں اور گھر کے دوسرے کام کاج بھی کرتیں
جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ایک دفعہ مدینہ میں کچھ جنگی
قیدی لائے گئے میں نے کہا کہ اپنے والد سے درخواست کریں کے جنگی قیدیوں سے
ایک خاتون آپ کو دے دیں۔فاطمہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں مگر بہت زیادہ
بھیڑ کے باعث بات نہ کر سکیں اور بات کئے بغیر گھر واپس لوٹ آئیں اگلے دن
حضور ﷺ خود ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا فاطمہ بتاؤ کیا بات تھی؟ حضرت
فاطمہ رضی اﷲ نے سر شرما کر جھکا لیا یہ دیکھ کر میں نے خود بات کی اور عرض
کیا فاطمہ سارا دن گھر کے کام کر کے تھک جاتی ہیں ان کے ہاتھوں میں چھالے
پڑ جاتے ہیں جنگی قیدیوں میں سے ایک خاتون ان کو دی جائے جو انکا ہاتھ بٹا
دیا کرے یہ سن کر نبی کریم ﷺ ایک ساعت کے لیے خاموش رہے پھر بولے فاطمہ اﷲ
سے ڈرو تقوی کو اپناؤ جب تم سونے لگو تو تیتیس بار سبحان اﷲ تیتیس بار
الحمداﷲ اور چونتیس بار اﷲ اکبر پڑھو۔نوکر کی نسبت تقوی تمہارا بہتر مددگار
ثابت ہوگا‘‘۔صاحبو ہمارے پاس قرآن ہی نہیں محمدﷺ بھی ہیں جس طرح قرآن بے
مثل کتاب ہے حضرت محمدﷺ بے مثل انسان ہیں قرآن لفظوں میں اﷲ تعالی کے
احکامات ہیں حضرت محمد ﷺ کی شکل میں اﷲ کے احکامات ہیں دوستو تفرقے میں نہ
پڑو ہم سب مسامان ہیں اور آپﷺ کے پیرو کار ہیں آپﷺ سے ہی عظمت ہے۔
اشکوں سے ترے دین کی کھیتی ہوئی سیراب
فاقوں نے ترے دہر کو بخشا سرو ساماں
انسان کو شائستہ و خود دار بنایا
تہذیب و تمدن ترے شرمندۂ احساں |
|