کچھ اس کا علاج اے چارہ گر

تدبر، فہم و فراست، مومن کے ہتھیار ہیں۔

چند دن قبل رات کو ٹی وی گردانی کرتے ہوئے ایک پروگرام پر نظر رکی۔ غالبا چینل 24 کے نام سے تھا۔ پروگرام کا نام یاد نہیں رکھ سکا۔ (شائد انکشاف.)

ایک خوبصورت اور نگاہ و دل کو لبھالینے والی اینکر کراچی کے کسی بیوٹی سیلون پر کام کرنیوالی خواتین کے پردے چاک کرنے میں مصروف تھی۔ دس سے پندرہ خواتین برقعے میں ملبوس اس لڑکی کے رحم و کرم پر تھیں اور یہ اینکر ان پر تابڑتور حملے کرنے میں مصروف تھیں۔ بیوٹی سیلون کی آڑ میں جسم فروشی کا کام ہورہا تھا اور اس چینل نے وہاں چھاپہ مارا اور سب کچھ دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا۔ ایک لڑکی جسکی عمر اس نے بائیس سال بتائی کاکہنا تھا کہ اسے باڈی مساج کرنے کی جاب پر رکھا گیا ہے مگر اینکر اس کے منہ میں یہ الفاظ ڈالنے پر بضد تھی کہ وہ یہاں کچھ اور بھی کرتی ہے۔اپنے سے چار چھوٹی بہنوں اور دو بھائیوں کے ساتھ ایک ماں کی کفالت اس لڑکی کے سر پرتھی۔اینکر کے سوال پر کہ کیا اسکے گھر والے جانتے ہیں کہ وہ یہاں کام کررہی ہے؟ اس لڑکی کا خاموش ہوجانا ایک قدرتی امر تھا۔ اس کی مجبوری اس کی آنکھوں سے عیاں تھی.

ایک پختہ عمر کی خاتون سے یہی سوال کیا گیا کہ وہ کوئی باعزت کام کیوں نہیں کرسکتی۔

میں فیکٹری میں کام کے لیے گئی وہاں مینجر نے استعمال کرنا چاہا۔ گھروں میں برتن مانجنے کی کوشش کی تو مالک نے پکڑلیا۔ جہاں بھی گئی کسی نہ کسی حوالے سے مردوں کی درندگی کا ہی سامنا کیا۔ تو یہاں کیا مسئلہ ہےِ پیسے اچھے مل جاتے ہیں گھر کی روٹی چل رہی ہے اور کیا چاہیے؟ آپ ٹی وی والے برائی دکھاتے ہو کیوں کہ برائی واقعی ہے مگر یہ بھی تو بتاؤ ہم کہاں جائیں؟؟ ہر کوئی برانہیں ہوتا کون چاہے گا جو ایسے راستے پر جائے؟ کراچی میں آئے دن ڈکیتی کے واقعات ہورہے ہیں کیایہ سب جوان لڑکے واقعی ڈکیتیاں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا مجبوری کسی چیز کا نام نہیں؟؟

یہ الفاظ اس عورت کے تھے جو وہاں بقول اس خوبصورت اینکر کے وہاں سے باڈی مساج کا "دھندہ" کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ پروگرام کرنے والی لڑکی کی ساری تیزی ان سوالوں میں کہیں گم ہوچکی تھی۔ اور ایک وقفے کے بعد حاضر ہونے کے بہانے نے اینکر کو سنبھل جانے کا موقع فراہم کر دیا.

میرا سوال ہے کیا ہمارا میڈیا ایسے پروگرامز میں لوگوں کو پکڑتے ہوئے خواتین کو ایسے سامنے لا کر اپنی ریٹنگ تو بڑھا لیتا ہے مگر کیا یہ واقعی ضروری ہے کہ اس عورت کے کیمرے کے سامنے بھی پیش کیا جائے؟؟؟ کیا اخلاق نام کی چیز میڈیا سے مفقود ہوچکی؟ برائی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر اور دور رس نتائج کا حامل کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا؟؟ ہم کسی کو دو وقت کی روٹی نہیں کھِلا سکتے تو کیا اس کے منہ کا نوالہ چھیننے کا حق رکھتے ہیں؟ ہم زمہ داری ادا کرنے سے پہلے کسی پر اپنا حق کیسے استعمال کر سکتے ہیں.اسلام کے اولیں دور میں غلامی وہاں کے معاشرے کے مروجہ اصولوں میں سے ایک تھی۔اسلام نے اسے اُسی فہم اور فراست سے حل کرنیکی کوشش کی جو دین کا خاصہ تھی۔ اگر غلامی ایک ہی دن میں ختم کرنیکی کوشش کی جاتی تو عورتوں کی ایک بڑی تعداد اسی پیشے کی طرف آجاتیں مگر دین کے پیش نظر معاشرے کی بہتری اور سوسائٹی کی فلاح و بہبود بھی تھی۔ تبھی اس نازک دور کو فہم اور تدبر سے حل کرنے کے اقدام کیے گئے، راتوں رات برائی کبھی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس پروگرام میں جتنی بھی عورتیں پکڑی گئیں سوال کرنے والی ایک سے بھی یہ بات نہ نکلواسکی کہ وہ بغیر کسی مجبوری کے یہ کام کر رہی ہے۔ جب عورت نے سوال کیا کہ وہ کہاں جائیں کس کے پاس کام کریں تو یہاں ایک لمحے کو رکئے اور سوچئے کہ بحثیت ایک زمہ دار میڈیا کے کیا یہ اس شعبے کی بھی زمہ داری نہیں کہ وہ محض ایسے عورتوں کے اپنی ریٹنگز بڑھانے کے لیے پردہ سکرین پر لانے کی بجائے ان کےروزگار کا بھی انتظام کرتا، کیا ہی اچھا تھا کہ سوالات کی بوچھاڑ کرنے والے ان تکالیف کا بھی احساس کرتے جن سے دوچارہو کر ایسا طبقہ جنم لیتا ہے۔ معاشرہ اس زمہ داری سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا۔ یہ کہنا کہ ہماری زمہ داری محض یہاں تک تھی، اس سے آپ باقی کے فرائض سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ یہاں فہم اور تدبر کا تقاضا تھا کہ ایسے عورتوں کو صرف اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کی خاطر سامنے نہ لایاجاتا ان کے حالات دیکھے جاتے ان کی تکالیف کا احساس کیا جاتا۔ کیا ہم میں سے ایک بھی شخص اس تئیس سالا لڑکی جو اپنے سے چار چھوٹی بہنوں دو چھوٹے بھائیوں اور ماں کا پیٹ پال رہی تھی کا ہاتھ تھامے گا؟ کیا سب کچھ ارباب اختیار پر ڈال دینے سے ہم پاک ہوجائیں گے؟؟؟ ایسی عورتیں پکڑی گئی ہیں اچھی بات ہے ان کو سزا ہوگی ...کہنے دیجیے کہ یہ عورتیں بھی پولیس کے ہاتھوں استعمال ہونگی, یہ چھپ کر اپنے خاندان کی کفالت کررہی تھیں مگر اب یہ کام نہیں کر سکیں گی. کیوں کہ یہ جیل جائیں گی. انکی جگہ اب انکی بہنیں نکلیں گی. وہ اس زمہ داری کو نبھائیں گی. اور کسی روز پھر ایک عزت دار اٹھے گا اور ان کو سامنے لاکھڑاکرے گا. سلسلہ در سلسلہ چلتا رہے گا. برائی جنم لیتی رہے گی . بس ہم بنیادی زمہ داری سے عہدہ براہ نہیں ہونگے. شائد ہم اندھے ہیں. بصارت سے نہیں بصیرت سے. فہم سے تدبر سے.
Muhammad Asif Mehmood
About the Author: Muhammad Asif Mehmood Read More Articles by Muhammad Asif Mehmood: 8 Articles with 6008 views محدود علم کے بعد اس سے بھی محدود عمل.
لکھنے کاشوق. بے مہار سوچ. کسی حد تک سچا بہت حد تک ڈپلومیٹک.
.. View More