میری بیٹی یونس!!!

تھوڑی دیر کی بوندا باندی کے بعدموسلادھار بارش ہونے لگی، کچھ ہی پل میں نشیب وفرازکا سارا علاقہ ، ندی اور نالے سب جل تھل ہوگئے،پوری زمین مسطح معلوم ہونے لگی ،مگرابھی بھی بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، رفتہ رفتہ پانی کا بہاؤ تیز ہی ہورہاتھا اور جب پانی نکلنے کے راستے بند ہوچکے ہوں ، تو پانی میں طغیانی اور سیلابی کیفیت پیدا ہونا کچھ بعید نہیں تھا،اس کے بعد جب تباہی مچی، تو اللہ کی پناہ! ہر طرف واویلا مچ گیا ، جس طرف توجہ مبذول کرو، بس ایک ہی آواز، بلکہ چیخ وپکار؛ ارے دیکھو وہ ڈوب رہا ہے!بھاگو گھر گرنے والا ہے، لو یہ گھر بھی پانی کی نذر ہوگیا! ہائے میری بچی ڈوب گئی!کوئی اس کو بچاؤ!یا اللہ کرم! بھگوام دیا کرو ،ہم تو لٹ گئے!الغرض اب صرف دہائی دینے والے اور شوروغوغا کرنے والے ہی باقی رہ گئے تھے اورسب اس قدر بے حال اور بد حال ہوچکے تھے کہ کسی کو نہ تو کسی دوسرے کی کرب والم کی داستان سننے کی فرصت تھی اور نہ ہی کوئی اپنی مصیبت سے اس قدر بیزار تھا کہ کسی دوسرے کی آہ وبکاکوکوئی معنی دے!چترا موہن اور اس کے خاندان کی بدقسمتی کی کہانی ان لوگوں سے کوئی مختلف نہیں تھی،گھر میں پانی گھس چکا تھا، سب کی جان کے لالے پڑ چکے تھے اور کسی کو اپنے زندہ بچ جانے کی کوئی امید بھی نہیں تھی،چترا گردن بھر پانی میں حیات وموت کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی اوروہ امید سے بھی تھی، کچھ ہی دن باقی تھے جب اس کی آگن میں ایک پھول کھلنے والا تھا، مگربارش، اوہ !طوفان نے اس کی امید کے سارے دیے بجھادیے، لمحہ بہ لمحہ پانی کا بہاؤ تیزہی ہورہا تھا، پانی پہلے کمر تک، پھر سینے تک اور پھر گردن تک!چترا کا شوہر موہن کا دل بھی ڈوبنے لگا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی کائنات سمٹتی جارہی تھی ، وہاں کوئی نہیں تھا جو ان کے درد کوسلے اور پھر چترا کی تکلیف کا کیا ٹھکانہ ، ایک طرف پانی اپنی پوری سرکشی کے ساتھ اسے موت کے منھ میں ڈھکیل رہا تھا، تو دوسری طرف زہ کے درد سے اس کو اپنی موت وقت سے پہلے ہی آتی معلوم ہورہی تھی،اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔مگر قدرت کی گھڑی اب بھی برابر سیدھی چل رہی تھی، چترا کو گو اپنی موت کا یقین ہو چلا تھا، مگر دوسری طرف قدرت اس کی حفاظت کا سارا انتظام مکمل کرچکی تھی۔
 
دو سمبر کی شب جب جنوب ہند میں چنئی کا کورمنڈل ساحلی علاقہ پوری طرح پانی کی زد میں آچکا تھا،خاص طور پر اورپکم علاقہ میں سیلابی بارش نے جم کر تباہی مچائی تھی،اس وقت یونس کو اپنے کسی دوست کا خیال آیا، جو اورپکم میں رہتا تھا ،اس طوفان سے کسی کوبچا کر نکال لانا کوئی آسان کام نہیں تھا، مگر’ ہمتِ مرداں مددِ خدا ‘یونس ایک ملاح اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ نن گمبکم سے ایک کشتی میں سوار ہوا ،وہ گردو پیش کے حالات سے بے خبر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ اسے کسی عورت کے کراہنے کی آواز آئی،اس نے ہر طرف نگاہ دوڑائی، مگر اسے کسی کے وجود کا کوئی پتہ نہیں چلا، مگر جب اس نے اپنی تمام تر حسیات کو سمیٹتے ہوئے اس آواز کی طرف توجہ دیا، تو اسے پاس ہی میں ایک عورت بالکل نحیف آواز میں کراہتی ہوئی نظر آئی،جو گردن بھر پانی میں ڈوبتی جارہی تھی، وہ تیزی سے اس کی طر ف بڑھا اوراس کو کشتی میں سوار کرلیا،پھرجلد ہی اس کو یہ احساس ہوگیا کہ وہ عورت زہ کی درد میں مبتلا ہے اور وہ عورت چترا تھی۔ سب سے پہلے اس نے افراد خانہ کو کسی محفوظ جگہ پرروکا، پھر چترا کو قریب ہی کسی اسپتال میں لے گیا جہاں چترا نے ایک بچی کو جنم دیااور اس وقت یونس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب موہن نے اس کو یہ خوش خبر دی کہ وہ اپنی بیٹی کا نام یونس رکھے گا، ایسے وقت ایک انسان کا جذباتی ہونا فطری بات ہے اور پھر محمد یونس نے نہ تو صرف ان کی جان بچائی تھی، بلکہ چترا کے علاج کا سارا صرفہ بھی جیبِ خاص سے ادا کیا تھا۔
 
یہ حادثہ چنئی میں کوئی پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا،بلکہ اگر تجزیہ نگاروں کی مانیں، تو ہر دس سال میں بارش چنئی میں ایسی تباہی ضرورلاتی ہے، مگر اس سال بارش کی وجہ سے جو تباہی اور ہلاکت ہوئی ہیں اس نے سو سال کا رکارڈ توڑ دیا،سیکڑوں اموات ہوئیں، بے شمار لوگ بے گھر ہوئے،کئی معصوم بچے بھوکے پیاسے دم توڑ دیے۔
 
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ مصیبت کے وقت انسان فطرتاً ایک دوسرے کا ساتھ دیتا ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے اس آفت میں انسانیت کی خدمت میں وہ کارہائے شیشہ وآہن انجام دیا جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، بلاتفریق مذہب وملت اورذات پات سیکڑوں انسانوں کے لیے مسجدوں کا دروازہ کھول دیا گیا،ان کے قیام وطعام کا بہترین انتظام کیا گیا۔آج کے اس عدم رواداری اور مذہبی عدمِ برداشت کے ماحول میں بھی مسلمان اور مسلم تنظیموں نے انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے برسات متاثرین کی جانی اور مالی بہترین اور بے لوث خدمت کیں، جن کا برادرانِ وطن نے بھی باچشمِ نم اعتراف کیا، چنانچہ وکنیش نامی تمل نوجوان نے مسلمانوں کی ان بے لوث خدمات کا اعتراف اپنے ان لفظوں میں کیا ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں مسلمانوں نے اخوت وبھائی چارگی اور اپنی وسعتِ ظرفی کا بہترین مظاہرہ کیا، مجھے لگتا ہے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے اونچے اور بلند اقدار کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتیں۔

ہندوستان کی پوری مسلمانی تاریخ میں وطن اور برادرانِ وطن کے تعلق سے مسلمانوں کے جذبۂ ایثار اور انسانیت کی بے لوث خدمات کا یہ کوئی پہلا اور نایاب کارنامہ نہیں تھا، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک ہندوستان کسی نامساعد حالات سے دوچار ہوا ، یا کوئی ہندوستانی اغیار کی آنکھوں کا تنکا بنا ،تو مسلمانوں نے اپنی جان پر کھیل کر اپنے ملک اور برادرانِ وطن کی حفاظت کی، جنگِ آزادی سے لے کر آج تک کی تاریخ میں کوئی کبھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں نے دشمنوں کے سامنے پشت دکھائی ہو۔ چنئی میں متاثرین کے ساتھ مسلمانوں کا حسنِ سلوک اور ان کا نایاب کارنامہ یقیناًامن کے ٹھیکہ داروں اور شیطان کے پوجاریوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے،انسانیت کے سوداگروں غور کروکہ اب بھی مسلمانوں میں انسانیت کی ہمدردی کا جذبہ کس قدر زندہ ہے؟ تم جو یہ کہتے ہوکہ مسلمان دہشت گرد ہیں، ہندو مسلمان کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، مسلمان ہندوعورتوں اورلڑکیوں کو بھگا لے جاتے ہیں، کیا اب بھی تم یہی کہو گے ؟کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ہاں تمہیں شرم آئے گی بھی کیسے، تمہاری غیرت تو مر چکی ہے، تمہاری انسانیت کا جنازہ، تو اسی وقت اٹھ گیا جب تم نے ہندتوا کو گلے لگایا اور بھگوا کرتہ زیب تن کیا۔ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو!کہ جس نے تمہیں انسانیت کا صحیح مفہوم بتایا، ظلم کی بھٹی میں تپتی ہوئی انسانیت کو آبِ حیات عطا کیا ، آج تم اسی قوم کو بے نام کرنے کا عزم لے کراٹھ کھڑے ہوئے؟ اگر تمہاری رگوں میں ابھی بھی انسانیت کی ہمدردی کا جذبہ زندہ ہے ،تو توبہ کرلو ان خباثتوں سے جو نہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی تم اپنی ان کوششوں سے مسلمانوں کو کبھی ختم کرسکتے ہو، کیونکہ مسلمان وہ لوہاہیں، جو آگ میں تپانے سے مختلف شکلیں اختیار کرلیتا ہے، کبھی اس کی ایک شکل خود آہن گر کے لیے بھی گھاتک بن جاتی ہے۔اس لیے اٹھو اور بیدار ہو، انسانیت کے سوداگر مت بنو، بلکہ انسانیت کی ہمدردی کاجذبہ لے کر چہاردانگِ عالم میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کا علم بردار بنو، صرف زبان سے ہی اپنی یکجہتی کا اعتراف مت کرو، بلکہ ہندو مسلم بھائی چارگی اور یکجہتی کا ثبوت تمہارے اعمال سے بھی ظاہر ہوں، ورنہ آج اگر پانی میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو بچانے کے لیے ایک مسلمان کھڑاہوگیا اور کل کو جب ہم خود باہم دست وگریباں ہوں گے ،عدم رواداری اور مذہبی عدمِ برداشت کا طوفان ہمیں موت کی منھ میں دھکیل رہا ہوگا ،تو بتاؤ کہ اس وقت انسانیت کی ہمدردی کے لیے کون کھڑا ہوگا؟اب بھی وقت ہے ، اٹھو اور افقِ عالم پر ہندی یکجہتی کی صدا بلند کرو! اگر اب بھی بیدار نہیں ہوئے اور تمہاری رگوں میں انسانیت کی ہمدردی کا لہو گرم نہیں ہوا،تویاد رکھو کہ ایک دن تاریخ تمہارے ساتھ اس ملک کو بھی اپنے دامن میں جگہ نہیں دپائے گی!!!
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73414 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.