نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!
(Sami Ullah Malik, Gujranwala)
کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت
طیارہ جدہ ائرپورٹ پررک گیا۔باہررات کااندھیراچھایا تھا مگر معتمرین کے
حریمِ قلب میں روشنیوں کی تیزروچمک جگمگارہی تھی،روح کی آنکھ کے فنجان سے
بادہ مسرت آنسوبن کرچھلک رہے تھے۔اپنااپنا دستی سامان اٹھا ئے ہم بھی طیارے
کی سیڑھیوں سے اترے توعجیب خوشی وشادکامی کااحساس رگ وپے میں جاگزیں
ہورہاتھا۔ جدہ شریف کی سرزمین پر صحیح سلامت قدم رکھنا ہم سب پر اللہ کا
ایک بہت بڑا انعام تھا۔ ا س ساعت زریں کے شکرانے میں جی چاہتا تھا کہ اس
پاک سرزمین اور کشورِ حسین کو محبانہ بوسہ دیا جائے مگر حال یہ تھا!
راستوں کاعلم تھانہ سمتوں کی خبر
شہر نامعلوم کی چاہت مگرکرتے رہے
جدہ ایک ساحلی شہر ہے ۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ بن عفان نے اس
کا یہ نام رکھاہے ۔قبل ازیں اس کانام شعیبہ بتایا جاتاہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ
یہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ یہاں حضرت حوا علیہ االسلام مدفون ہیں،ا سی
مناسبت سے یہ جدہ کہلاتاہے جس کے لغوی معنی نانی یا دادی کے ہیں ۔ زمانہ
خلافت کے جدہ اور آج کے جدید شہر جدہ میں ایک نام کے سوااورکوئی مماثلت
نہیں ۔ جب میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کر کے دن کی روشنی میں واپس جدہ
ائرپورٹ آرہاتھاتو یہاں چپے چپے پر فلک بوس عمارات،ہوٹل،کارگا ہیں ،
شاہراہیں اور مصروف ترین بازار دیکھ کر یہی لگا کہ شہر کی تعمیر میں بے
اندازسونا اور لعل جواہرات لٹا کرا سے ایک کنکریٹ جنگل بنادیا گیا ہے۔ ہر
چیز سے یہی ٹپک رہا تھا کہ یہ ایک جدید ترین شہر ہے۔ اقبال اسے دیکھتے تو
ماتھا پیٹ کر چیختے!
میں ناخوش وبیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو
جدہ شریف میں١٥مربع کلو میٹر پرپھیلاکنگ عبدا لعزیز انٹرنیشنل ائر پورٹ
١٩٨١ء میں تعمیر ہوا، یہ سعودی عرب کے طیران گاہوں میں تیسرا سب سے زیادہ
مصروف ہوائی اڈہ ہے ۔ یہاں شاہی خاندان اور ملکی فضائیہ کے لئے بھی ایک الگ
طیران گاہ ہے۔ شایدسوائے ایک ا سرائیل کے یہاں تمام ملکوں کی پروازیں دن
رات آتی جاتی رہتی ہیں ،عجب یہ کہ ا س آمدورفت میں کبھی ایک لمحے کا بھی
توقف نہیں ہوتا۔ ائر پورٹ کا وسیع وعریض حج ٹرمنل اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ہمہ
وقت مشغول رہتاہے جب کہ اس میں بیک وقت ۸۰ ہزارحاجیوں کے سفری لوازمات کی
خانہ پری کرنے کی گنجائش ہے ۔ دل تھام کر سنئے اس وسیع،دیدہ زیب اورجدید
ترین سہولیات سے لیس ٹرمنل کی تعمیرمیں کسی انگریزکی صناعی کا عمل دخل نہیں
بلکہ اس کا سہرا بنگلہ دیش جیسے پسماندہ گنے جانے والے ملک کے ایک ماہر
انجینئرعبدالرحمن خان کے سر جاتاہے۔ دنیا کا عجوبہ تاج محل کامقبرہ بھی کسی
گورے کا نہیں بلکہ ایک مسلم گلکار کی تخلیقی کاریگری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے
مگر آہ! اب وہ ہاتھ ہم سے چھن گئے ہیں ۔ عبدالرحمن کی اس غیر معمولی مہارت
و تکنیکی صلاحیت کے اعتراف میں انہیں١٩٨٣ئ میں فن تعمیر کے شعبے میں بے
مثال وبہترین کار کردگی پرآغا خان ایوارڈ دیا گیا ۔ دعاہے اس فانی تمغے سے
بھی بڑا لافانی انعام خان صاحب کو یومِ دین پر اللہ کے حضور سے ملے۔ یہ حج
ٹرمنل بیجنگ اور دبئی طیران گاہوں کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ہوائی
اڈہ ہے۔ یہاں پہنچ کر دنیائے دل کی کیفیات کا حا ل واحوال بیان سے باہرہیں
۔ رن وے پر چند گز کے فاصلے پرہی ایک شاندار گاڑی میں ہمیں سوارکیا
گیااورسواریوں کو گاڑی اس جگہ چھوڑ آئی جہاں سے امیگرئریشن لوازمات کی
تکمیل اور اپنا سامان وغیرہ اٹھا نے کاکام انجام پذیرہوناتھا۔ یہاں اتنی
بھیڑ بھاڑتھی کہ پوچھئے ہی مت۔ کچھ دیر تک لوازمات کی تکمیل کے بعد اب ہم
اپنا اپنا سامان اٹھانے لگے،مگر ہمارے ایک خدا مست معززساتھی کواپنا سا مان
تلاشنے میں مشکل آئی،وہ اپنی اٹیچی کارنگ تک بھول گئے تھے۔ میں سمجھ
رہاتھاشایدان کی اٹیچی ہمیشہ کے لئے کھو گئی ۔اسی ادھیڑبن میں کچھ دیر
گزرنے کے بعد ان کارختِ سفرملا۔ ارضِ حرم میں کوئی اپنے آپ میں کھو جائے،
اپنوں سے بچھڑ جائے، مال واسباب سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اہلِ دل اور اربابِ
نظر اسے کھونا نہیں پاناکہتے ہیں کیونکہ اس کھونے سے پانے کے نئے دروازے
کھل جاتے ہیں۔ میں کہتاہوں یہاں جسے اپنے خاکی وجود کو پاک فضاؤں میں تحلیل
کر نے کا خدادادفن آیا جان لیجئے وہ ساحلِ مراد سے لگ گیا۔ ذرااس دورکونگاہِ
تصور میں لایئے جب لوگ پاپیادہ سفرمحمودپرآیاجایاکرتے،وہ آتے تواپنی
جھولیاں بھر بھرکرلے جاتے۔ ان کے مقابلے میں ہم یہاں آکرصرف سہولیات کی
پوٹلیاں اور مزے کے بوجھ اپنے کند ھوں پرلادتے رہتے ہیں۔ انشااللہ ماضی
بعید کا ذکر آنے والی قسطوں میں چھیڑوں گا۔
اگلے مرحلے پرہمیں ٹریول ایجنسی کی مقررہ گاڑی میں سوارکیاگیا۔ رات کی
تاریکی اپنے جوبن پرتھی ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی لبیک لبیک کی دلربا صدائیں
پھرسے گونجنے لگیں ۔ ہماری منزل اب روح ودل کی طراوت مکہ معظمہ تھی۔
معتمرین نے چشمِ قلب وجگرکھول کرضرورمحسوس کیاہوگاکہ ابھی تک صرف اپنے
وطن،اہل خانہ ، گھربار اور لبا س سے جداہوئے تھے ، اب یکایک ہماری زبان بھی
بدل گئی ۔ بالفاظ دیگر ہمارے معمولات تلپٹ ہو ں ، اپنی پسند وناپسند کی
لگام ہم سے چھوٹ جائے ، ذاتی خواہشات اللہ کی مشیت وہدایت تلے دب جائیں، جو
اللہ کا فرمان وہ ہمارا بے چوں وچرا ایمان ، جس کا وہ حکم کرے وہ سر آنکھوں
پر ، جس سے وہ روکے اس سے ہم بلا سوال واستفہام رک جائیں یعنی ہم سب تسلیم
ورضا کے پیکر ہوجائیں یا اہل دل کی اصطلاح میں کہیں توفنافی ا للہ ہو کر
رہیں۔ شوق کے پنچھی کی وارفتگی قابل ِدیدتھی ۔ وہ یہ سوچ کرپھولے نہیں سما
رہا تھا آیا یہ سچ ہے کہ میں اس سرزمین انبیاء میں پہنچا جو محبانِ خداور
متبعین رسول ۖ کا مر کز وملجاہے ، جواتقیاواصفیا کی آرزوؤں کا مسکن ہے،
جہاں قدم قدم پر منزل ہے
اس دیس میں ہے اللہ کا گھر
وہ پیارے نبی کا پیا ر اگھر
ہر شئے ہے جہاں فردوسِ نظر
انوار کی بارش آٹھ پہر
شوق کے پنچھی نے سر گوشی کے انداز میں پوچھا کیا وفورِ محبت واحترام میں
جدہ کی زمین کو بوسہ دینے کا من کررہاہے؟ مگر ذرا دل کی آنکھ کھول کردیکھئے
یہاں زمین ہے ہی کہاں ؟یہ تو چاروں طرف آسمان ہی آسمان ہے، آسمان بھی ایسا
جوعام انسانی پہنچ کی رسائی سے ماوراہے ، یہاں کوئی طیارہ اڑ نہیں سکتا ،
صرف حب وعشق کی پرواز ہی ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کے پر توحید باری کے ایمانی
ویزے ا ور اتباع رسولۖ کی ایقانی راہ داری سے بنے ہوں ۔ ہر ایک طائر لاہوتی
کی قوتِ پرواز ان ہی ہر دوچیز کی رہین منت ہوتی ہے ۔ یہ ود چیزیں........
حبِ الہٰی اور حب رسولۖ .... ہوئیں توان کے طفیل آپ کے بے تکان سفر کے لئے
آسمان کی پہنائیاں حا ضر ہیں، جایئے جہاں جی کرے ....... مگر یاد رکھئے یہ
سفر مشروع ہے اور اول تاآخر اللہ کی قبولیت و محبت سے مشروط ہے ۔ محبت بھی
ایسی جس کے بدلے میں اللہ آپ سے محبت کر ے۔ ان سات پیاری پیاری آیات ِ محبت
کی زادِ راہ ساتھ ر کھنا نہ بھولئے : اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند
کرتاہے(بقرہ: ١٩٥)اللہ توبہ کر نے والوں کو پیار کرتاہے (بقرہ۔٢٢٢) اللہ
پاک صاف لوگوں کو پیار سے نوازتاہے۔(بقرہ٢٢٢ اللہ توکل کر نے والوں سے محبت
کرتاہے(آل عمران۔١٥٩) اللہ منصف مزاجوں سے انس رکھتاہے( المائدہ۔٤٢) اللہ
متقین(یعنی پر ہیز گاروں )کو عزیزرکھتا ہے(آل عمران ٧٦) اللہ کے محب وہ ہیں
جو اللہ کی راہ میں جاں فروشی کر تے ہیں(الصف۔٦١)اللہ صبر کر نے والوں کو
پیار کرتاہے(آل عمران۔١٤٦)میں نے شوق کے پنچھی سے کہا اللہ سے محبت کا دم
بھرنے والے کافی ہیں مگرخود وہ صرف اپنے خوش بخت بندوں کو پیار کی یہ سندیں
اعزازا عطا کر تاہے ، کسی کو فرسٹ ڈویژن ،کسی کو ڈسٹنکشن ، کسی کو گریس
مارکس اور کسی کے لئے ری اپئیر درج ہوتا ہے ، فیل ائر کسی کے نام نہیں لکھا
جاتا جب تک کوئی شخص خود دم ِواپسیں تک فیل ہونے پر مصر نہ رہے۔ رسول اللہ
ۖ کے عزیز ترین عم محترم ابو طالب کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ میں نے کہا ہم
تو ا نہیں اسنادِ محبت وہدایت کے حصول کے لئے بیم و امید کا فیس لے کر
حرمین کے مکاتبِ تزکیہ و تصفیہ میں داخلہ چاہتے ہیں ۔ یہ تمام اسنادِ حب
ہماری منتظر ہیں مگر ان کا تقاضاہے کہ بس انہی کی روشنی میں اپنی زندگی کا
اندھیرا دور کریں ، توبہ کا سرمایہ لٹا لٹاکر اپنی باقیماندہ زندگی سرتاسر
حب الہٰی کے رنگ (بقرہ ۔(١٣٨ میں رنگ جائیں ، خداخوفی اور انسانیت کے اعلی
مدارج پر فائز ہونے کی اڑانیں بھریں۔ یہ ہم سے ہوا تو حب الہی کا سلیقہ بھی
آگیااور آپ ۖ سے بے پایاں محبتوں کاقرینہ بھی آ گیا۔ اللہ کے رسول کیا دعا
فرماتے: اے اللہ مجھ کو اپنی محبت عطا کر، اوراس کی محبت جو تیری محبت سے
مجھے قریب کر دے اور اپنی محبت کو میرے لئے آبِ سرد سے محبوب کر (ترمذی
،احمد، حاکم..... بحوالہ رموز عشق ڈاکٹرمیرولی الدین) صحرائے عرب میں ٹھنڈا
پانی کون سی نعمتِ بے بدل ہوتی ہے ،و ہ آج ہم چشمِ تصور وا کر کے بھی سمجھ
نہیں سکتے۔ البتہ تاریخ کے ان اوراق کی گردانی کریں جن میں قدیم عرب کے
ریگزار وںمیں پانی کی بوند بوند کی قیمت سونے کے مول سے زیادہ درج ہوئی ہے،
تو پتہ چلے گا آبِ زلال کی عرب میں کیا قدر وقیمت تھی ۔میرے والدین( اللہ
ان کی اور قارئین کرام کے تمام اموات کی مغفرت فرمائے )جب حج کی سعادت حاصل
کر کے واپس لوٹے تو والدہ نے اپنی رودادِ حج سناکر مجھ سے کہا مختار!اللہ
کا احسان دیکھ، ایک روز اتفاقاً صحنِ کعبہ میں تمہارا کوئی جان پہچان والا
بشیرا حمد ووین (پانپور)ملا ۔ا س بیٹے نے ہمارا بہت خیال رکھا ،وہ وہاں
دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا تمہاری کیا خدمت کی؟ والدہ نے اس
زمانے میں کشمیری خواتین کوازبرڈھیر ساری دعائیں بشیراحمد کودے کرکہا کہ وہ
فرشتہ تھا،ا س نے ہماری یہ بڑی خدمت کی کہ ٹھنڈے پانی کے گلاس پلاپلا کر
ہمارے لئے طواف اور سعی صفا ومروہ آسان بنایا۔یہ آج سے تیس بتیس سال قبل کی
بات ہے جب منرل واٹر جیسی سہولیات ابھی دستیاب نہ تھیں۔ اب آپ قرون اولیٰ
کوزیرنظررکھ کرخیال کریں کہ اس وقت شدتِ گرمی میں قلتِ آب کاکیاحال رہاہوگا
جب العطش العطش کی صدائیں معمولات زندگی ہواکرتی تھیں۔انہی صبرآزماحالات
میں پیغمبراسلامۖ اللہ کی محبت کو ترجیحاً مابارد یعنی ٹھنڈے سے زیادہ دل
پسند فرماتے ہیں اور اسی کی زیادتی کے لئے دست بدعا ہوتے ہیں ۔ یہ دعائے
رسول ۖ اللہ کے محبت کی کلیدی اہمیت سمجھانے میں درسِ موعظت ہے۔اللہ تعالیٰ
مومن کے اسی محبت بھرے رشتے کواسلوبِ وحی میں واشگاف کرتاہے: کہہ دیجئے
میری نما زاور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت، (سب کچھ)اللہ رب
العالمین کے لئے ہے(الانعام۔١٦٢) یعنی عبادات و مالی ایثار ہی نہیں بلکہ جس
زندگی سے محبت اور موت سے کراہت انسان کی فطرت ہے ، وہ سب اللہ وحدہ لاشریک
پر بخوشی قربان۔یہی رنگِ محبت ہم سے دروانِ حج اورمابعدحج مطلوب ومقصود ہے۔
بندے کی اللہ سے محبت یک طرفہ معاملہ نہیں، صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے
مرفوعاً روایت ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے کسی مومن بندہ کو چاہتاہے توجبرئیل
کوپکارتاہے اورفرماتاہے کہ میں فلاں بندے کوچاہتاہوں تو بھی اس سے محبت
رکھ، جبرئیل اس سے محبت کر تے ہیں اورپھرآسما ن والوں میں منادی کر دیتے
ہیں کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت رکھتے ہیں تم بھی اس سے محبت رکھو ۔
پھر اس بندے کے لئے زمین پر ہر دلعزیزی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔
گاڑی ہوا سے باتیں کر تے ہوئے جانبِ حرم جارہی ہے۔ سڑک ہموار ہو،گاڑی
تیزرفتارہواورشبِ تار کا بسیرا ہو تو کا ہے کوپتہ چلے ہم کس بستی،کس
بیابان، کسی صحرا سے جارہے ہیں ۔ ہمیں کوئی سنگِ میل بھی نہ دکھائی دیا،حد
نظر تک اپنے آگے پیچھے،دائیں بائیں تیزگام گاڑیاں،مساجد،بالاوپست
عمارتیں،بجلی کے تیز بلب اور اذکار کے کتبے دِکھ رہے تھے۔ سبحان اللہ،الحمد
للہ،اللہ اکبر، لاالہ الااللہ،صل علی وغیرہ کلمات جابجا نگاہوں میں گھومتے
رہے۔ جدہ شریف سے مکہ معظمہ تک کاسفر٦٥کلومیڑطویل ہے اوراس میں لگ بھگ
دوگھنٹے گزرجاتے ہیں۔ یہ سفرکاٹتے ہوئے پتہ چلاکہ ہماراقافلہ شمیسی نام کی
بستی پہنچاجسے پیغمبراسلامۖ کے زمانے میں حد یبیہ کہاجاتاتھا۔آج اس مقام
پرایک مسجد آبادہے جہاں صحابہ کرام کامسلح جتھہ صلحِ حدیبیہ کے پس منظر میں
فروکش ہواتھا۔حد یبیہ کانام کیوں بدل دیا گیاہے،اس پرگمان کے گھوڑے بھی
دوڑایئے، کوئی معقول وجہ فہم کی گرفت میں نہ آئے گی۔ اسلامی تواریخ کی
ثقاہت کے لئے میری حقیر نگاہ میں لازم یہ ہے کہ ان تمام بستیوں کا ناک
نقشہ، خد وحال اورنام وغیرہ اسی طرح محفوظ رکھے جانے چاہیے جس طرح تاریخ
اسلام میں یہ درج تھے۔ ظاہر ہے کہ اگران چیزوں کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو
اللہ تعالی مومنین کوسیروفی الارض یعنی زمین میں گھوموپھرو(انعام ۔ا١)کا
حکم نہ دیتا۔ بالفرض اگرزمین پرنافرمان قوموں پراللہ کے غضب وقہر کی
نشانیاں اوررحم کی علامات ہی موجودنہ ہوں توتذکیری سیروسیاحت کاکوئی تک
نہیں بنتا۔ |
|