چہ مہ گوئیاں۔۔اور۔۔زلزلے کے جھٹکے
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
کل رات نماز عشاء کے لیے مسجد چلا گیا تو
مسجد میں لوگ چہ مہ گوئیاں کرتے رہتے تھے،کوئی کیا تو کوئی کیا کہ رہا
تھا،میں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ مسجد میں دنیاوی باتوں پر اﷲ تعالیٰ سخت
ناراض ہوتے ہیں اور پھر ان کو ایک حدیث شریف سنا لیا کہ جب کوئی بندہ مسجد
میں فضول گفتگو کرتا ہے تو ایک فرشتہ آکے اس کو کہتا ہے کہ اے اﷲ کے دوست
خاموش ہو جا،پھر جب باتیں کرتا ہے تو پھر فرشتہ کہتا ہے کہ اے اﷲ کے مبغوض
بندے خاموش ہو جا ،پھر بھی جب وہ آدمی خاموش نہیں ہوتا اور اسی طرح باتیں
کرتا رہتا ہے تو پھر فرشتہ اعلان کر دیتا ہے کہ اے اﷲ کے دشمن خاموش
ہوجا،تو ذرا سوچئے کہ اﷲ تعالیٰ اس بندے کو کیسے کیسے مخاطب کرتا ہے پہلی
مرتبہ تو بہت ہی اچھے لہجے میں فرماتے ہیں کہ اے اﷲ کے دوست خاموش ہوجا،پھر
جب خاموش نہیں ہوتا اور اسی طرح اپنے فضول گفتگو میں مگن رہتا ہے تو پھر اس
کو وسری اورتیسری مرتبہ کیسے مخاطب کرتا ہے؟اﷲ تعالیٰ تو اپنے بندے کو
بخشنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں کہ میرا بندہ کیسے دوزخ سے بچھ کر جنت میں
جائے گا مگر ہم ہیں کہ ہم نے اپنے رب کو بلا رکھا ہے،اس کو پس پشت ڈالا
ہے،کہ اس کو منانے کے سرے سے فکر ہی نہیں کرتے بلکہ وہ تو ہمیں منانے کے
درپے ہے کہ میرا یہ بندہ بڑا نازونیاز میں پائے اور اس کو کبھی تکلیف ٹچ
بھی نہ کریں مگر ہمیں اسی رب کا منانے کا کوئی پروانہیں ہے۔بقول شاعر
کیا عجب ریت دیکھوچلانے ہم گئے
ناراض بھی ہم تھے اور منانے بھی ہم گئے
اﷲ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے،ایک ماں اپنی
اولاد پر کتنی مہربان ہوتی ہے؟اس کے لیے ہمارے پاس کوئی آلہ نہیں کہ ہم اس
مہربانی کو اس آلے کے ذریعے تھولے،ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک دفعہ حجاج بن
یوسف نے اپنی ماں سے پوچھا کہ اے اماں جان مجھے اﷲ تعالیٰ بخش دے گا؟تو
اماں جان نے اسے کہا کہ اے بیٹے تُو نے تو بہت ظلم کئے ہیں بہت سے صحابہ کو
آپ نے جام شہادت پلایا ہے اے بیٹے اﷲ آپ کو کیسے بضش دے گا؟تو اس پر حجاج
بن یوسف نے کہا کہ اے اما ں جان مجھے اﷲ تعالیٰ ضرور بخشے گا،اے اماں جان
اگر مجھے آپ کے سامنے آگ میں ڈال دیا جائے تو آپ مجھے برداشت کروگی؟اماں
جان نے کہا کہ کبھی نہیں،اس پر حجاج بن یوسف نے کہا کہ جب آپ مجھے آگ میں
برداشت نہیں کرسکتی تو وہ اﷲ جو سترماؤں سے زیادہ مہربان ہیں وہ مجھے کیسے
آگ میں برداشت کرے گا۔
دیکھو اﷲ تعالیٰ تو پانے بندوں کو بخشش کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں،میرا رب
رحیم وکریم ہے وہ اس دنیا میں سب کو رزق دیتا ہے کافروں کو بھی رزق دیتا ہے
اور مسلمانوں کو بھی رزق دیتا ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی میں نے اپنے اس مسجد والوں کو سمجھایا مگر وہ
سمجھ نہیں رہے تھے میں نے ان کو اﷲ تعالیٰ سے ڈرانے کے لیے اور بھی کچھ
واقعات سُنائیں،مگر ان میں سے ایک بڈھا بابا تھا وہ کہنے لگا کہ ارے مولوی
صاحب یہ دیکھو ہم پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں ،نہ بجلی ہوتہ ہے نہ
گیس،اگر بجلی نہ ہو تو پھر بھی گذرا ہو جاتا ہے اور اگر گیس نہ ہو تو پھر
زندگی گذارنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہمیں بہت تکلیف اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم گیس
بل بھی دیتے ہیں ہمیں حکومت تو کوئی مفت گیس نہیں دے رہا ہے،میں نے اس بابا
کو کہا کہ یہ سب کچھ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے،بندوں پر جب دنیا میں کوئی
ظالم بادشاہ بھی مسلت ہوجاتا ہے تو یہ اسی قوم کی بداعمالی کا نتیجہ ہوتا
ہے،میں نے اس بابا کو کہا کہ بس اب اپنی اس موضوع کو ختم کردوں یہ سارا کہ
سارا کام ہم سے خراب ہے،کہ ہم نے اپنے رب کو بُلا کر رکھا ہے،اب وہ
بڈھابابااسی طرح مسجد میں اپنے اس ختم نہ ہونے والے موضوع پر لگا تھا میں
نے ان کو بارہا سمجھایا کہ باباجان آپ ابھی شیخ فانی ہوچکے ہیں اب آپ کو اﷲ
تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے وہ بابا کہنے لگے کہ کیسے شیخ فانی ؟شیخ
فانی کیا ہوتا ہے؟میں نے اس کو سادہ پشتو میں سمجھا دیا کہ’’اس دی خپی پہ
قبر کی دی بس اﷲ طرف تہ متوجہ شہ‘‘کہ اب آپ کے پاؤں قبر میں ہیں بس اﷲ کی
طرف متوجہ ہو جاؤں،ورنہ اﷲ تعالیٰ ہم سب پر ایک سخت ترین اور دردناک عذاب
بیجھ دیں گے ایسا عذاب کہ ہمیں اوروں کے لیے نمونہ بنا دیں گے۔پھر میں نہ
اسی بابا کو کہا کہ پچھلی مرتبہ آپ نے زلزلے کو دیکھا نہیں یہ ہمارے لیے
سگنل ہوتے ہیں کہ بس اپنے کو قیامت کے سختی کے لیے تیار رکھو،ابھی اسی بابا
سے یہ باتیں ختم ہوگئی تو گھر کی طرف روانہ ہوا،پھر تومیں پشاور آگیا رات
کو تقریباً بارہ بجنے کے بعد ایک زور دار زلزلہ آیا تو مجھے بھی اﷲ یاد
آگیا،پھر اسی وقت استغفار کرتا رہا اور اپنے ساتھ ان باتوں کو دہراتا رہا۔اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو پنے امان میں رکھے،اﷲ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کی صحیح سمجھ
عطاء کریں۔(آمین) |
|