دسمبر برا ہے نہ پاکستان

ہم من حیث القوم دسمبرکے مہینے کو رنج و الم کا مہینہ قرار دے چکے ہیں اس لئے ٹی وی زیادہ دیکھنے والے پاکستانیوں کو ا ب ماہ دسمبر کی ہر صبح سے ڈر لگتا ہے کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے، انہی خدشات میں مبتلاسولہ دسمبر کی صبح بیدار ہوا ،اخبار پکڑا تو معصوم شہیدوں کے چہرے دیکھے نہیں گئے،کلیجہ کٹنے لگتا ہے ، عام طور پرمیں اب ان ٹی وی پروگراموں سے بھی بچتا پھرتا اور کان لپیٹتا پھرتا ہوں جن میں پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے والے حکومت کو ہر روز رخصت کرکے سوتے ہیں لیکن اس سے اگلے ہی روز وزیر اعظم اور انکی ٹیم کا کوئی رکن ملک میں کسی نہ کسی نئے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے ۔ پھر ان سب کی مایوسی دیکھنے والی ہوتی ہے ، لیکن آج ٹی وی پر شہدائے پشاور کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریب دکھائی جانی تھی سو ٹی وی آن کیا تو وزیر اعظم نواز شریف کا مغموم چہرہ سامنے تھا جس پر16دسمبر کے اس سانحے کی داستان کرب کا ایک ایک لفظ صاف پڑھا جا سکتا تھا ، محسوس ہوا کہ اس سانحے نے انہیں پہلے سے کہیں مضبوط بنا دیا ہے ،جگر گوشوں سے بچھڑ کر اپنے حال پرصابر و شاکر دھرتی کی ان عظیم ماؤں سے مخاطب اپنے ملک کے پر عزم وزیر اعظم کو دیکھ کر 16دسمبر کے دن کی نحوست آہستہ آہستہ چھٹنے لگی اور پھر انہوں نے نہ صرف اس خوف کے دن کا عنوان بدل ڈالا بلکہ میرے دل کی حالت بھی ،اس اندوہناک سانحے کے دن کو انہوں نے’’قومی عزم تعلیم کا دن ‘‘قرار دے دیا اور اے پی ایس کو شہدا ء یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا وہ چٹان جیسے مضبوط لہجے میں قوم سے مخاطب تھے اور شہدا ء کے ورثاء کے ساتھ ایک عہد کی تجدید کرتے نظر آئے ۔

’’شہید بچوں کے لہو کا حساب لیں گے ،شہدا کے لہونے ملک کی سمت متعین کردی،علم کی شمع بجھانے والوں کو ختم کردینگے ،وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کا ناسور ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا‘‘
وزیر اعظم کا پریقین لہجہ انکی سچائی اور ارادے کی پختگی کی گواہی دے رہا تھا ،ان کا ایک ایک لفظ میرے دل میں اتر رہا تھا، مجھے یقین ہونے لگا کہ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت سے نجات پانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمارے ملک کا مستقبل ہمارے آج سے بہت مختلف ہوگا ، اسی دم مجھے ان مایوسی پھیلاتے جعلی دانشورنما ان ٹی وی اینکرزپر غصہ آنے لگاجنہیں شاید تنخواہ ہی مایوسی پھیلانے کی ملتی ہے وہ اپنا پورا زور اپنے ملک اور قوم کو کمتر ثابت کرنے میں لگا رہے ہوتے ہیں ،انہیں یہ کام کرتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوا کہ ہمارا ملک کتنی عظیم قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا ،تب سے لے کر اب تک قربانیاں ہیں کہ رکنے کانام نہیں لے رہیں مگر انہیں ان قربانیوں کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں، دوسری جانب انتہا درجے کی مصیبتیں اور خاندان سمیت جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹ کر 14سال بعد اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک روشن صبح نظر آرہی ہے ،برف سے ڈھکے پہاڑوں، سمندروں کی گہرایؤں، آسمانوں کی وسعتوں اور گھنے جنگلوں میں قوم کی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے میرے جوانوں کا سپہ سالار مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہا ہے وہ ہر روز دشمن کو للکا ر رہا ہے اور دشمن ہماری آنکھوں کے سامنے ڈر کے بھاگ رہاہے مگرنرم بستروں میں خواب خرگوش کے مزے لینے اس فتح کو شکست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے مایوس دانشوروں کی آنکھیں یہ منا ظر دیکھنے سے قاصرہیں، آنسوؤں سے شرابور چہرے لئے ننھے فرشتوں کو اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کرتی انتہائی صابر و شاکرثابت قدم مائیں اپنے بیٹے قطار اندر قطار کھڑی وارتی چلی جا رہی ہیں میرے وطن کی یہ مائیں کتنی عظیم ہیں جواپنے ہاتھوں سے بیٹے وار رہی اور صبرکر رہی ہیں یہ مائیں کسی گئی گزری قوم کی نہیں ہو سکتیں اورمیری دھرتی جنازے اٹھااٹھا کر نہ تھکنے والے جوانوں کی دھرتی ہے ، شہیدوں کو سلیوٹ کرتے میرے وطن کے جوان دل میں شہادت کا جذبہ اور آرزو لئے ہوئے ہیں کیا کسی ناکام ریاست اور عام سے ملک کی مائیں اتنی بڑی قربانیاں دے سکتی ہیں کیا اپنی جوانیاں نچھاور کرنے کے خواہشمند جوان کسی اور قوم کے پاس موجود ہیں ،ہماری مائیں کسی عظیم مقصد کے بغیر اپنے بیٹے یونہی نہیں قربان کرتی چلی جا رہی ہیں انکی قربانیوں کے فلسفے کو سمجھو،غور کرو اور سچ ہے کہ دنیا بنی ہی غورکرنے والوں کے لئے ہے اور ان’’ دانشوروں‘‘ ہی نہیں منتخب ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں سے بھی وطن کی آزادی سے لے کر اسکی بقاء کے لئے دی گئی ہر قربانی تقاضا کرتی ہے کہ اپنے عظیم ملک کو بنانے والوں اور بچانے والوں کو پہچانو،اغیار کی مثالیں دے دے کر اپنے ملک کو اپنی قوم کو کوسنا بند کرو، بدکلامیوں سے قوموں کی تعمیر ہوتی ہے نہ ملک آگے جاتے ہیں اور نہ نیا پاکستان ہی اس طرح وجود میں آسکتا ہے اپنے ملک کو محبت کی نظر سے دیکھنا شروع کروتمہیں بہت کچھ ٹھیک لگنے لگے گااپنے ملک کوبات بے بات بے وجہ ہی گالی دینے اور اسکو توڑنے ،بند کرنے کی دھمکیاں دینے والے اپنی کوتاہیوں،نالائقیوں ،ھڈ حرامیوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے والو ایک مرد قلندر کی وزارت عظمیٰ کو بھی تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلوقدرت نے جسے3بار یہ منصب دیا ہے ۔ حسد ،بغض ،کینے سے نجات پاؤ اور اس میں رب کی مصلحت کو تلاش کرو ہمارے خیالات سوچیں اورعمل اچھا برا ہو سکتا ہے مگرکوئی مہینہ کوئی دن نہس نہیں،سوچو ہم دسمبر بھی برا نہیں ،بارہ کے بارہ مہینے ہم سے سچائی ،کردار اور اچھائی کاتقاضا کرتے ہیں گالی تو گالی ہیجنوری میں دی جائے یا دسمبر میں نفرت پھیلانا اور گالی دینا بند کرو تو یہ مہینہ بھی اچھا ہو جائے گا اور ملک کے لئے قربانی کابھی کوئی مخصوص مہینہ یا دن مقرر نہیں قربانی تو قربانی ہے ہر موسم محبت اور قربانی کا ہے ا ورہم چاہیں تو ملک کے لئے ہروز قربانی دے سکتے ہیں ہر وقت اس جذبے کو فروغ دے سکتے ہیں اسی طرح چاہیں تو بارہ مہینے مایوسی پھیلاتے پھریں ،دسمبر برا ہے نہ پاکستان برا جو کوئی بھی ہے ہمارے اندر موجود ہے اسے نکال دیا تو ہم سب بھی پاک وطن کے پاک شہری بن جائیں گے دنیا کے ملکوں کی مثال دے کرملک ،نظام ،سیاست اور عوام کے منتخب کئے گئے اداروں کو گالی دینے والوان ملکوں کی مثال بھی نظرمیں رکھو جنہوں نےٍ ایٹم بم کھا کر پھر حوصلے ہمت سے ترقی کی منازل طے کیں میرا وطن میری دھرتی تو بڑی پاک ہے اسکی بنیادوں میں لا الہ الااﷲ کانعرہ لگانے والوں کالہو شامل ہے ، اسلئے اسے نفرتوں سے پاک کرو، اسے ذاتی خواہشات کی بھینٹ مت چڑھاؤ،ہمارے دکھ اور سکھ سانجھے ہیں انہیں محسوس کرو،کوئی پتھر ہو تو الگ بات مگر معصوم شہیدوں کو یاد کرکے ہر آنکھ روئی ہر دل تڑپا ہے اور کلیجے میں درد کی لہریں اٹھتی محسوس ہوئی ہیں اس اذیت، درد کی اس لہر اور اسکی ہر ٹیس سے ہم نے قوت حاصل کرنی ہے ،جس سے ایک نئی قوم وجود میں آئے گی ، یہ طے ہے کہ اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ، شہادت کے اس جذبے کو ہار ہو ہی نہیں سکتی ،حق نے غالب آنا ہے کہ خالق نے حق کے لئے غلبہ متعین رکھ چھوڑا ہے تو ہمیں کون ہرا سکتا ہے ؟پان کی پیک سے لے کر غلیظ خیالات کی گندگی سے وطن کے گلی کوچوں اور اسکی ناموس کو داغدار کرنے والے میرے بھٹکے ہوئے ہم وطنو اپنے رستوں ،گلی کوچوں اور بازاروں سے محبت کرنا سیکھو اور دل میں اس محبت کی شمع کو روشن کرو یہ محبت کی شمع جل اٹھی تو اپنے درودیوار کو داغدار کرنے کی ہمت نہیں پڑے ہوگی، بس اس شمع محبت کو حرص و ہوس ،بغض اور نفرت کی ظالم ہواؤں اور آندھیوں سے بچا کر رکھنا ہو گا اورآنے والے روشن کل کی کرنوں کو محسوس کرنا ہو گا امید سے بھی بڑھ کر یقین رکھنا ہوگا کہ ان لازوال اور بے مثال قربانیوں کے بعدآنے والا ہمارا کل بہت روشن ہے ۔
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 76347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.