احسن تقویم - حوصلہ افزا منفرد و مشہورناول

مقصد حیات میں صرف دو باتیں بنیادی ہیں۔ پہلی یہ کہ میرا مقصد " کیا ہے " اور دوسری یہ بات کہ مجھے" حاصل کیسے کرنا ہے " یوں کہہ لیں کہ پہلا حصہ " تلاش" ہے اور دوسرا " تکمیل" ہے۔ یقین مانیں بحثیت مسلمان ہم میں سے ہر ایک کے لیے دونوں حصے پانا بےحد آسان ہے۔ غور کریں کہ آپ جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو اسکے ساتھ ہمیشہ یوزر گائیڈ یا مینوئل ضرور ہوتا ہے۔ جس میں دو بنیادی باتیں ہوتی ہیں پہلی استعمال کا طریقہ یا مسلوں کی وجہ اور حل ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ اگر پروڈکٹ کو ٹھیک کروانا ہو ، کھولنا ہو تو کسی ماہر کے پاس جانے کی ہدایت ہوتی ہے۔ جو لوگ ایسے ہی عمل کرتے یوزر گائیڈ پر تو وہ آسانی سے چیز کا استعمال بھی کرتے ، خیال بھی رکھتے اور خرابی کی صورت میں کسی اچھے ماہر کے پاس جاتے۔

چچا یہ جو گلی کے نکڑ والے گھر میں رہتے ہیں یہ کون لوگ ہیں روزانہ بہت سا گوشت خرید کر جاتے مجھ سے ... فرید نے حیرت سے سبزی والے نعمت چچا سے پوچھا تو آگے سے انہوں سے کہا او یار یہ اپنے حیات صاحب کا گھر ہے . گارمنٹس کا کام ہے ان کا ..بہت اچھے اور بھلے آدمی ہیں ...مہمانداری بہت ہے انکے ہاں اور دوسرا انکے کام پر جو ملازم کام کرتے انکا کھانا بھی گھر سے ہی جاتا ہے روز. .. ان کے ملازم مجھ سے بھی کتنی سبزی لے کر جاتے.... بہت بھلے آدمی ہیں کبھی کبھی آتے ہیں خود بھی، اگر اس دفعہ آے تو تجھ کو دکھاؤں گا بھی اور ملواؤں گا بھی

واہ چچا کیا بات ہے ان کی ورنہ آجکل کہاں اچھے اخلاق والے اور مہمانداری والے لوگ نظر آتے ...وہ دیکھا نہیں جو ابھی ایک آدمی گاڑی میں آیا تھا کیسے اکڑ کے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی بات کر رہا تھا.....فرید نے کہا، تم ابھی نیے آے ہو اس لئے پتا نہیں لوگوں کا یہاں کے۔ ویسے بھی ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کا ہوتا ہے فریدیا ...ہم نے تو اپنی روزی کمانی ہے کوئی جسے بھی خریدے ...اچھا چھوڑ تو ایسا کر دو کلو گوشت بنا دے وہ سامنے والے گھر دینا ہے سبزی کے ساتھ ...آج صبح صبح ہی انکا بچہ کہہ کر گیا ہے ...چچا نعمت نے سبزی کے اوپر پانی کا چھینٹا لگاتے ہوے کہا اچھا چچا ابھی بناتا پانچ منٹ میں ...فرید نے مرغیوں کے پنجرے کے پاس جاتے ہوے جواب دیا

شفیق دیکھو کون آیا ہے باہر کب سے گھنٹی بجا رہا ہے، پتا نہیں کیا آخر آ گئی اسے. کمرے میں سے ایک خاتون کی آواز گونجی اور شفیق بھاگم بھاگ گیٹ کی طرف بھاگا. دیکھا تو خالہ جمیلہ کھڑی تھیں، انہوں نے گیٹ کھلتے ہی اندر پاؤں رکھتے ہوے کہا، اتنی دیر لگا دی آتے آتے، سوے ہوے تھے کیا سب، بندہ پوچھے صبح کے دس بج گئے اور نیدیں ہی پوری نہیں، اب شفیق نے کیا کہنا تھا چپ چاپ سنتا رہا کہ پتا اندر باجی جی نے خود ہی سنبھال لینا

حمید صاحب میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں لیکن مجھے ایسا جب کرنا ہی نہیں ہے تو میں کیوں اس کی گہرائی میں جاؤں یا اپنا فائدہ کا سوچوں. میں ایک سادہ سا آدمی اور کاروبار بھی سادگی سے کرتا. کاروبار کا سادہ اصول ہے کہ مال خریدو اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دو. اس میں جو میرا اصول ہے وہ یہ ہے بھائی کہ مال معیاری ہو اور منافع مناسب کہ جس میں میرے گاہک بھی خوشی اور آسانی سے خرید سکیں. آپکا کہنا بجا ہے کہ مارکیٹ میں لوگ دوگنا منافع کما رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں. اس بات پر مجھے بحث نہیں کرنی. یہ میرا کاروبار ہے میں چاہے اپنا مال خریدی قیمت پے آگے بیچ دوں یا مفت دے دوں یہ میری مرضی ہے. منافع کا جو اصول پھچلے پانچ سالوں سے چلتا آ رہا ہے بس وہی رہے گا....... حمید صاحب نے جب حیات صاحب کا اصولی اور دو ٹوک رد عمل دیکھ لیا تو بات ختم کرنا ہی سہی لگا اور جیسا آپ کہتے ہیں ویسا ہی ہو گا کی بات کر کے کمرے سے باہر نکل گئے

ارے او فیقو چاچا ، ارے ہمری اماں کو کہیں دیکھت ہے تنے ، ارسل نے گھر آتے ہی سامنے کھڑے شفیق سے اپنے مخصوص ڈرامائی انداز سے پوچھا. ارے کیا ارسل بابو، سیدھی سیدھی زبان سے پوچھا کریں بات ہم سے کیوں الجھاتے مجھے. شفیق نے بیچارگی کی صورت بنا کر پوچھا تو ارسل نے قریب آ کر شفیق کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا فیقو چاچا پیار سے پوچھتا تم کو واقعی پروا نہیں، قسم سے ابھی اگر میں ذرا رعب اور دھاڑ کر پوچھوں تو آپ کب کے فوت ہو چکے ہوتے. لیکن کیا کریں شریف ماں باپ کی اولاد جو ٹھہرے، پیار ، تمیز سے بات کرنی پڑتی.... اچھا اچھا چل رہنے دے بہت ہو گیا تیرا ناٹک، نظر آ رہی تمیز جو مجھے شفیق چھوڑ کر فیقو فیقو کہتا رہتا، چاچا شفیق نے بھی آگے سے پیار جتاتے بات کہہ دی. ارے اچھا جناب شفیق صاحب چھوڑیں یہ سب باتیں اور جو پوچھا ہے وہ بتائیں. باجی جی خالہ جمیلہ کے ساتھ ذرا سامنے والوں کے گھر گئی ہیں، کھانا تیار ہے آپ کھا لیں تب تک وہ بھی آ جائیں گی. شفیق چاچا نے ارسل کی بات کا جواب دیتے ہوے کہا. ارے وہ آج خالہ بھی آئی ہوئی ہیں، اچھا ہے ذرا مزے کی گپ شپ لگے گی، اچھا آپ کھانا لگاؤ میں کپڑے بدل کر آ رہا، ارسل نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوے کہا

میاں ۔ ۔ ۔ میاں ۔۔ ۔ ۔ ۔ جلدی گھر چل، تیری امی فوت ہو گئی ہیں ۔ ۔ ۔ میاں ۔ ۔ ۔ میاں، گھر سے تھوڑا دور گراؤنڈ میں اپنے ہم عمر بچوں ساتھ بنٹے کھلیتے جب میں نے دور سے بھاگتے آتے علی کو یہ آواز دیتے ہوے سنا تو فورا کھیل چھوڑ کر میں گھر کی طرف بھاگا، راستے میں میرا چھوٹا سا ذہن اس سوچ میں تھا کہ رات ہی پتا چلا کہ گھر آنے والی ایک بیمار عورت میری امی ہیں اور اب وہ فوت بھی ہو گیں، یہ کیا بات چلو چاچی جی سے پوچھوں گا۔ انہی سوچوں میں جب گھر کے قریب آیا تو بہت سارے لوگ جمع تھے ۔آ گیا میاں ، آ گیا چلو جلدی لے کے جاؤ اسے اسکی ماں پاس۔ اسکے بعد کوئی پتا نہیں کس نے اٹھایا اور جلدی سے کمرے میں لے گیا جہاں بہت رونے کی آوازیں آ رہی تھیں، یہاں پڑے بیڈ پر پچھلی رات میری امی نے مجھے پاس لپٹا کر بہت پیار کیا تھا۔ اب اسی بیڈ کے پاس روتی ہوئی چاچی نے مجھے اپنی گود میں لے کر پیار کرنا شروع کیا اور روتے ہوے کہنے لگی ، میاں او میاں تیری امی مر گئی میاں۔ ۔ ۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ مجھے رونا کیوں نہیں آ رہا اس وقت ، میں تو بس چاچی کی گود میں لیٹا پاس بیڈ پر بند آنکھوں والی اس عورت کو دیکھ رہا تھا جس کو کل رات سے میں نے امی کے نام سے جانا تھا۔ تبھی میں نے ایک عورت کو کہتے سنا کہ اس بیچارے کو کیا پتا اپنی ماں کی تکلیف کا ، یہ تو خود ابھی چار سال کا ہے ، نہ اس نے ماں کا پیار دیکھا نہ ہی مرنے والی کو بیٹا کا پیار نصیب ہوا ، جب سے یہ پیدا ہوا تب سے ہی مرنے والی کو کینسر جڑ گیا اور باقی کی عمر لاہور ہسپتال گزر گئی بیچاری کی ، میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کینسر کیا ہوتا ، میں نے تو کسی کو جڑا ہوا نہیں دیکھا تھا اپنی امی کے رات سے ۔ ۔ ۔ ۔

نتیجہ سے پہلے ہی ہارنے کی بات کرنا واقعی اچھا نہیں ہے مگر تھوڑا سا ہار جانے کو سوچنا اچھا کہ تب آپکو ڈر لگے گا ، دل دھڑکے گا آپکا ، رونا آے گا آپکو پھر آپ رب کو یاد کرو گے اور اس سے جیتنے کی دعا کرو گے ، حوصلہ مانگو گے تو یقین کرو پھر اس لمحے آپکی سوچ بدل جائے گی اور آپکا ذہن اور دل سکوں میں آ کر نتیجے سے بے پروا ہو جائے گا اور " رب جو چاہے " کی حالت میں آ جائے گا جس میں جیت ہوئی تو رب کی برکت ، ہار ہوئی تو رب کی مصلحت ۔ ۔ ۔ تو آپ سب میرے ساتھ پوری ہمت و جوش سے یک جا ہو کر بولیں کہ میرے دل کی دھڑکن ، میرے دماغ کی سوچ، میرے رب کی، دین ہیں، اور میں، اپنی پوری کوشش، کرنے کے بعد، نتیجہ رب پے چھوڑتا ہوں ، اور میں، رب کی رضا میں، بے حد خوش ہوں کیوں کہ ، جب رب ملتا ہے، تو سب ملتا ہے۔ ۔۔ ۔ جب سپیکر سلمان نے اپنے مخصوص انداز میں اپنےحوصلہ افزالیکچر کا اختتام کیا تو ھال میں موجود سب لوگوں نے بھر پور تالیاں بجا کر انکو اس وقت تک پزیرائی دی جب تک وہ اپنی سیٹ پر واپس نہیں گے جہاں
تھوڑی دیر وقفہ کرنے کے بعد انکو سوال و جواب سیشن کے لئے پھر ڈائس پر آنا تھا ۔ ۔

شام کو کام سے آنے کے بعد ابھی حیات صاحب گھر داخل ہوے ہی تھے کہ ارسل روزانہ کی طرح پاپا آ گے ، پاپا آ گے کہہ کر لپٹ گیا ۔ تبھی فاریہ بیگم بولی ، حال دیکھو ارسل اپنا، اچھے خاصے بڑے ہو گے تم پھر بھی چھوٹے بچوں کی طرح بول بول کر لپٹ جاتے باپ کو ، کوئی کہے گا کہ تم کالج میں پڑھتے ہو ۔ ۔ ۔ ارسل خیر ہے سنانے دےاپنی ماں کو باتیں ،جلتی ہے ہمارے پیار سے، حیات صاحب نے ذرا مسکرا کر ارسل کو سینے سے لگاتے ہوے کہا ۔ ۔ اسی دوران جب انکی بیٹی نمرہ نے سلام کرتے پانی دیا تو پھر حیات صاحب بولے کہ جو بھی ہے نہ ارسل نہ اسکی ماں ، جو پیار میری نمرہ مجھ سے کرتی کوئی اور نہیں ، دیکھو اور کسی کو خیال نہیں پانی پوچھنے کا، صرف میری پیاری بیٹی کو ہے ، حیات صاحب نے ایک ہاتھ سے گلاس لیتے اور دوسرے ہاتھ سے نمرہ کے سر پر پیار کرتے کہا ، یہ سن کر ارسل فورا بولا جی نہیں اس لڑکی کو آپ سے کام ہے تبھی اتنا خیال کر رہی آپکا ، اچھا چلو پھر کیا کام بھی تو اس نے اپنے ابو سے ہی کہنا ، جی بیٹا کیا ہوا ، کام ہے ، حیات صاحب نے پانی پی کر گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوے نمرہ سے پوچھا ، کچھ نہیں ابو ، بس وہ کالج والوں کا ٹرپ جا رہا ہے ناران کاغان تو آپ سے پوچھنا تھا کہ میں بھی چلی جاؤں کہ میری پوری کلاس جا رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اچھا پہلے کھانا تو کھانے دو اپنے ابو کو پھر کر لینا باتیں ، جب فاریہ بیگم نے اپنے شوہر کے چہرے کے تاثرات اس بات پر تھوڑے بدلتے دیکھے تو فورا یہ بات کر کے بات تبدیل کی اور پھر حیات صاحب صرف یہ کہہ کر کہ اچھا سوچتے ہیں بیٹی جی کھانا کھانے کے بعد ، اٹھ کھڑے ہوۓ اور اپنے کمرے کی جانب چل دیے۔ چلو ارسل باہر چاچا شفیق کو کھانا دے کر آؤ اور تم نمرہ چلو میرے ساتھ کچن میں ، یہ کہتے ہوۓ فاریہ بیگم بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ۔ ۔

امی جی کیا ہے آخر ، کیوں نہیں دی ابو نے اجازت جانے کی ۔ ۔ نمرہ نے بے چارگی سے فاریہ بیگم کےسینے سے لگتے ہوۓ کہا ،تو انہوں نے کہا، دیکھو بیٹا جب والدین کسی بات سے منع کر دیں تو اچھے بچے مان لیا کرتے ہیں ، تبھی تو میں وجہ آپ سے پوچھ رہی کہ انکار تو ابو نے کیا، آپ نے تو نہیں ۔ ۔ نمرہ نے رو دینے والے انداز میں کہا ۔میں نے اس پر کوئی بات نہیں کی ابھی تمھارے ابو سے ، خیر پوچھوں گی بعد میں ، ویسے میری بھی وہی مرضی جو انہوں نے کہا ، فاریہ بیگم نے بات ختم کرتے ہوۓ کہا اور ہاں آج تمہاری خالہ جمیلہ آئی تھی جب تم کالج تھیں، انکی بھانجی آ رہی یہاں کوئی ٹیسٹ دینے جاب کا تو وہ ہمارے گھر رہے گی ایک دو دن تو تم ذرا خیال رکھنا اسکا۔ ۔اب نمرہ کا موڈ پہلے بھجا ہوا تھا تبھی یہ کہتے اٹھ کر اپنے کمرے میں چل دی کہ اچھا جب وہ آے گی تو سوچوں گی ، اور پیچھے فاریہ بیگم اسکو اس غصے میں دیکھ کر بس مسکرا ہی گیں ۔ ۔ ۔

اوے یار اسے کچھ نہ کہو ، اس کی امی مر گئی ہیں ، جب دوران کھیل مجھے ایک لڑکے نے مارنا چاہا تو فورا دوسرے لڑکے نے اسے ٹوکا تب میں نے سوچا کہ امی مر جانے سے اتنا خیال کیوں کرنے لگ پڑے ، سب لوگ مجھے پاس بلا کر پیار بھی کرتے اور کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ ۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ چاچا جی کی آواز آئی بلانے کی تو بھاگ کر ان کے پاس گیا۔ چل میاں تجھے تیری امی سے ملوا کر آؤں ، چاچا جی نے یہ بات کر کے مجھے حیران ہی کر دیا تبھی پوچھا ، چاچا جی وہ تو مر گئی ہیں ۔ ۔ ۔ تو چل بس میرے ساتھ آ بیٹھ سائیکل پر ۔ ۔ چاچا جی نے یہ کہہ کر مجھے سائیکل پر بٹھایا اور لے کر چل پڑے اس طرف جہاں ایک نئی دنیا تھی میرے دیکھنے کو ۔ ۔

وہ دیکھ فرید ، یہ ہیں حیات صاحب کونے کے گھر والے، لگتا ادھر ہی آ رہے ، فرید نے اپنے چاچا کی آواز پر گلی میں دیکھا تو اچھے قد کاٹھ والے آدمی انہی کی دکان کی طرف آ رہے تھے پھرذرا فاصلے سے ہی انکی آواز آئی ، چاچا نعمت کیا حال ہیں کیسا جا رہا کام ، اچھا کیاچکن کا کام بھی شروع کر دیا ہمیں بھی آسانی ہو گئی ۔ بس صاحب جی یہ میرا بھتیجا ہے فرید اسکو لگوا کر دیا یہ کام کہ اسکا باپ یرقان سے مر گیا تو پھر اسکو کام کرنا پڑا ورنہ یہ تو پڑھ رہا تھا ، چاچا نے بھی مکمل جواب دیا تو حیات صاحب نے ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کر کہا ، شاباش جوان ، ذمہ دار ہونا اچھی بات ہے، یہ بھی اچھا کہ تم نے نوکری ڈھونڈنے میں وقت ضایع کرنے کی بجاے اپنا کام شروع کیا اور یاد رکھنا اگر تم ایمان داری سے کرو گے تو بہت کماؤ گے اپنے کام میں ۔ بہت شکریہ سر جی آپ تو خود اچھے و بڑے کاروباری آدمی ہیں ، آج پہلی دفعہ آپ سے ملاقات ہوئی، بہت اچھا لگا بس ایک بات کرنی کہ سر جی مجھے کوئی اچھا سا مشورہ دے دیں جو میرا کام چلا دے ۔ فرید سے جب یہ پوچھا تو حیات صاحب نے اسکی دکان کا ایک جائزہ لیتے ہوۓ کہا پہلی بات یہ کہ صفائی کا خاص رکھنا دکان کی بھی ، مال کی بھی اور اپنی بھی ، دوسری بات تم میں پہلے ہی ہے جو میں نے نوٹ کی کہ تم اخلاق سے پیش آتے بس اسی طرح سب کو ملنا برابری کے ساتھ چاہیے کوئی کلو چکن لے یا پاؤ یا پھر صرف مرغی کے پنجے ۔ چل چاچا ذرا آپ بھی مجھے دو کلو کھیرے تول دیں ، اچھا جوان میں چلتا مگر اگلی دفعہ آؤں تو مجھے فرق نظر آے دکان میں بھی اور تم میں بھی اچھا ، حیات صاحب نے اس کے پاس سے جاتے ہوۓ یہ بات کہی تو فرید نے بھی آگے سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ، جی ضرور سر جی میں سمجھ گیا آپ کی بات ایسا ہی ہوگا انشاللہ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال و جواب کا سیشن جاری تھا سپیکر سلمان کے لیکچر کے بعد ۔ ۔ ۔ سر ، میرا نام سائرہ ہے اور میں ایک ٹیچر ہوں میرا سوال یہ ہے کہ ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے ہے کہ کوسش کرو اور اسکا نتیجہ رب پر چھوڑ دو ، مگر دوسری طرف یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ مزدور کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو تو سر مجھے یہ جاننا ہے کہ مزدوری جلدی اور پوری دینے کا حکم جب ہم عام بندوں کے لئے ہے تو یہ کیسے ہو سکتا کہ ہمارا پالنے والا رب ہمیں کوشش کے باوجود اچھا نتیجہ نہ دے۔ ۔ ۔ سوال ختم ہوا تو سپیکر سلمان ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دینے کو سیٹ سے اٹھ کر ڈائس کی طرف چل دیے ۔ ۔ ۔

اچھا سوال کیا آپ نے ۔ پہلے تو یہ سمجھیں کہ اس دنیا میں مالک اور مزدور دونوں دنیاوی ضروریات سے بندھے ہوۓہیں ۔ دونوں ایک خاص کام کی کوشش میں ایک دوسرے پر نظر رکھے ہوۓ اور محتاج بھی ۔ ایک بندہ زیادہ کام، کم قیمت میں کروانا چاہتا تو دوسرا کم محنت، میں زیادہ قیمت کا خواہش مند ۔ دوسری طرف رب اور بندے کے معاملے میں ایک بے نیاز ہے اور دوسرا محتاج ،اور پھر کام ہونے اور مزدوری دینے کے بعد مالک کو کوئی پروا نہیں ہوتی مزدور کہاں گیا ، آگے کیا کرے گا مگر رب ایسا نہیں کرتا ۔ دنیا میں مزدوری پہلے سے طے، مگر رب ایسا نہیں کرتا ۔ اکثر ہوتا آپ 100 مانگتے رب آپ کو 1000 دیتا یا کچھ بھی نہیں دیتا۔ کیوں کہ رب بندے کی کوشش کے سوچنے ، کرنے اور مکمل ہونے تک ساتھ ساتھ ہوتا۔ ہماری دور کی نظر اور سوچ کی ایک حد ہے مگر رب ہماری پوری زندگی کا احاطہ کے ہوۓ ہے ۔ ہم اپنے ہر کام کا وقتی نتیجہ اچھا چاھتے مگر رب وہ نتیجہ دیتا جو آپ کی آگے آنی والی زندگی کو بھی بہتر بناے ۔ مثلا ایک بندہ نوکری کے لئے بار بار ہر جگہ کوشش کرتا اور چاہتا بس مل جائے مگر کیا پتا اسکو رب نے کاروبار میں سیٹ کرنا ہو یا کم تنخوا کی بجاے زیادہ پے والی جاب دلانی ہو ، اسی طرح ٹیچر کی پوری کوشش کرنے پر بھی بچے پھر بھی کلاس میں نکمے رہتے یا فیل ہوتے تو رب چاہتا ہو کہ بچہ کسی اور فیلڈ میں اچھا تو تبھی وہ فیل یا نکما ہو آپکی کلاس میں۔ ایسی کئی باتیں ہیں سوچنے کو اس وجہ کو جاننے کو ۔ پھر رب نے اس کائنات کو اک وسیع سسٹم کے تحت چلانا نہ کہ ہماری محدود سوچ اور ویژن سے ۔ برے نتیجہ سے رب کا ہمیں کچھ سکھانا یا مظبوط کرنا مقصد ہوتا ہے اور یاد رکھیں ایک بات کہ "نتیجہ اچھا یا براصرف ہم انسانوں کو لگتا ہے ، رب کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے" ۔ تبھی تو بہت لوگوں کی سوچ اور حالات ہار کر ہی بدلتے ہیں کہ اکثر کامیابی کا راستہ برے نتیجہ یا ہار میں چھپا ہوتا ہے۔جیسے رب نے یہ فرمایا کہ ہر کسی کواسکی کوشش کے حساب سے ملتا وہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی کہ عملوں کا دار و مدار نیت پر ہوتا تو آپ جہاں بہت کوشش کریں وہاں اچھی نیت پر ضرور نظر رکھیں۔ اور آخر میں یہ کہ جتنی کوشش کر لیں رات ہو کر رہتی ہے کیوں کہ رب کا نظام ہے کہ اس طرف رات ہو گی تو دنیا کے دوسرے حصے میں دن آے گا۔ امید ہے آپکواپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا شکریہ ، اور اس کے بعد پر جوش تالیوں نے بھی تصدیق کر دی کہ باقی سب لوگوں کو بھی سپیکر سلمان کی بات بخوبی سمجھ آ گئی تھی۔

میں چاچا جی کے ساتھ سائیکل پر آگے بیٹھا ہوا اپنی سوچوں میں گم تھا کہ چاچا جی نے کہا چل میاں یہ لگی بریک، شاباش اتر، میں سائیکل سائیڈ پے کھڑی کروں ذرا ۔ پھر چاچا جی ہاتھ پکڑ کر ایک چار دیواری میں دروازے سے اندر لے کر گے تو میں اور حیران رہ گیا ۔ ۔ کھلا سا میدان ، کچھ پودے چھوٹے اور کہیں بڑے بڑے درخت،زمین پر لمبی لمبی ڈھیریاں، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی۔ ۔ ۔ چاچا جی آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے۔ ۔ میں کبھی ڈھیری کے اوپر چڑھتا کبھی نیچے۔ ۔ ایسے ہی چاچا جی کے پیچھے پیچھے ، تبھی میرا پاوں ایک ڈھیری کے اوپر تھا کہ چاچا جی کی نظر پر گئی اور ساتھ ہی انکی زور سے آواز آئی ۔ ۔ او میاں خیال کر خیال قبر کے اوپر پاوں نہیں رکھتے ۔ ۔ تب میں نے جانا "قبر " کسے کہتے اور کیسے کی ہوتی ۔ تھوڑی دیر بعد چاچا جی ایک قبر کے پاس رکے جس پر کچھ سوکھے ہوۓ پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھی۔ تب چاچا جی نے کہا لے میاں یہاں ہیں تمہاری امی ۔ ۔ چل اب دعا کر ۔ ۔ یہ کہہ کر چاچا جی نے ہاتھ پھیلا کر دعا مانگنی شروع کی اور میں ہاتھ اٹھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ امی تو نظر نہیں آ رہیں ، اس قبر کے اندر کیسے گئیں۔ یہ کیسا ملنا ہوا ۔۔ ۔ مجھے تب آخری بار بہت پیار کرتی اپنی امی بہت یاد آ رہی تھی۔ ۔ میں تو یہ سوچتا آیا سارا راستہ کہ امی ویسے ہی مجھے ساتھ لٹا کر بہت پیار کریں گی ۔ ۔یا شاید چاچا جی دعا کے بعد قبر کے اندر لے کر جائیں ملوانے کو اور اس سے پہلے دعا کرنا پڑتی ہو ۔ ۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا ، چاچا جی نے دعا ختم کر کے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور واپس چلنے کو کہا ۔ ۔ اب میں واپسی پر مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا کہ شاید قبر سے امی نکل آئیں ۔ ۔ ۔ ایسا تو نہ ہوا مگر ایسی بیقراری ہوئی کہ دل کیا وہاں کے پرسکوں خاموش ماحول میں ہی رہ لوں۔ ۔ ۔ مگر تھوڑی دیر بعد میں پھر سائیکل پر آگے بیٹھا چاچا جی کے ساتھ واپس جا رہا تھا مگر بے حد نئی سوچوں کے ساتھ۔ ۔ ۔

جمعہ کا دن تھا بچے کالج میں تھے ، حیات صاحب آج دکان بند ہونے کی وجہ سے گھر پر تھے اور اخبار پڑھ رہے تھے فاریہ بیگم ساتھ بیٹھی بریانی پکانے کو چاول صاف کر رہی تھی تبھی انہوں نے حیات صاحب کو مخاطب کرتے پوچھا، میں جانتی کہ آپکے پاس اچھی وجہ ہی ہو گی نمرہ کو ٹرپ پر نہ جانے کی اجازت دے کر مگر مجھے بھی بتا دیں تاکہ مجھے بھی کچھ اچھا سیکھنے کو مل جائے آپ سے...یہ بات سن کر حیات صاحب مسکرا کر بولے کہ کمال ہے ویسے، بات کرنا اور کچھ پوچھنا تو کوئی آپ سے سیکھے....پھر انہوں نے اخبار سائیڈ پر رکھی اور بولے...فاریہ تم جانتی ہو کہ نمرہ مجے بہت عزیز اور پہلے کبھی نہیں روکا کسی ٹرپ سے بس اس دفعہ ٹرپ والی جگہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے اسکی خواہش بھی بہت شدید.... تبھی اسکی اس خاص خواہش کو دبانا اسکی تربیت کا اک حصہ سمجھتا کہ اسکو پتا چلے کہ ہر خوبصورت خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا...وہ لڑکی ہے اسکو اگلے گھر جانا ہے...جہاں ضروری نہیں اسکو ہمارے جیسا ماحول ہی ملے، کیا پتا وہاں جا کر اسے اپنی خواہشوں کو روندنا پڑے، اپنا من مارنا پڑے اسی لئے نمرہ کو ابھی سے اپنی خواھشات کو قابو کرنا آنا چاہیے کہ اسے پتا ہو کہ اگر کوئی بہت شدید خواہش ہو تو پوری نہ ہونے پر کیسے صبر کرتے ہیں اور کیسے سمجھوتہ کرتے ہیں...اور میرے خیال میں یہ وقت اسکو سکھانے کے لئے بہترین ہے...میں نہیں چاہتا کہ کل اگلے گھر جا کر میری بیٹی مادی خواہشوں کے پورے نہ ہونے جھگڑا کرے ، روے اور سسرال میں جا کر اپنے باپ کا گھر یاد کرے جہاں اسکی ہر خواہش پوری ہوتی تھی ..... فاریہ بیگم نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا اور یہ بھی دیکھا کہ باتیں کرتے حیات صاحب کی آنکھیں پرنم ہو گیں تھی جسے چھپانے کے لئے انہوں نے اخبار اٹھا کر دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا تھا

چاچا نعمت واقعی بہت حیران تھا اپنے بھتیجے فرید کی تبدیلی سے ، اس نے حیات صاحب کے مشورے پر بہت اچھے سے عمل کیا تھا. دکان میں ہر چیز ایک ترتیب سے لگائی اور پھر مرغیوں کے پنجرے کو خود ہی نیلا روغن کیا. اپنے گوشت والے پھٹے پر بھی نیلی رنگ کی نئی شیٹ بچھائی جسے وہ ہر گاھک کے جانے کے بعد چمکا کر رکھتا تھا. گند ڈالنے والا بڑا ڈبہ پیچھے چھپا کر رکھا جہاں سے نہ نظر آے اور نہ ہی بدبو آے. ہر روز تین وقت پانی کا چھڑکاؤ بھی کرتا تھا اور نیچے زمین پر چونے سے ویلکم بھی لکھ دیتا تھا. پھر اس نے ایک سلوکا سلوا لیا تھا جسے وہ کام کے وقت اپنے صاف ستھرے کپڑوں کے اوپر پہن لیتا تھا اور روز گھر جا کر دھوتا تھا. روزانہ نہا کر آنا، صاف کپڑے پہننا، ایمانداری، اچھا اخلاق اور دکان و گوشت کی صفائی سے اسکے کام پر واقعی اثر پڑا تھا اور چاچا نے نوٹ کیا تھا کہ وہ جتنا مال منگواتا تھا شام سے پہلے ختم ہو جاتا تھا. اسکے دیکھا دیکھی چاچا نعمت بھی اب اپنی دکان و مال ویسے ہی صاف رکھنے کا سوچ رہا تھا

مغرب کا وقت ہونے جا رہا تھا اور ارسل ٹیوشن پڑھ کر اپنی اکیڈمی سے نکل رہا تھا کہ اچانک اسکے ساتھ باھر نکلتے دوست بابر نے اسے کہا، وہ سبز کپڑوں والی لڑکی دیکھ یار ، قسم سے پٹاخہ لگ رہی ہے، لگتا ہے اس سامنے والی اکیڈمی میں پڑھنا پڑے گا اب ، بہت ہی پوپٹ لڑکیاں پڑھتی وہاں پر...بابر نے دوسری اکیڈمی سے چھٹی کے بعد نکلتی ہوئی لڑکیوں میں سے ایک کو دیکھ کر کہا...ارسل نے جب اس طرف دیکھا تو واقعی اسے وہ لڑکی پیاری لگی تھی. گو کہ ارسل اپنے دوست کی طرح ایسی باتیں اور فقرے نہیں کہتا تھا لیکن وہ لڑکیوں کو دیکھ ضرور لیتا تھا. اسکی عمر ایسی تھی کہ اسے اب لڑکیوں میں کشش محسوس ہوتی تھی اوپر سے اسکے دوستوں کی ایسی جملہ بازی اور تحریک دیتی لڑکیوں کی طرف متوجہ ہونے کی. وہ جانتا تھا کہ اسکے دوست بابر کی کافی لڑکیوں کے ساتھ دوستی ہے جسکے وہ میسیجز بھی پڑھایا کرتا تھا موبائل سے.. اور ارسل کا بھی دل کرتا تھا کہ اس کے پاس بھی موبائل ہو جس پر کسی لڑکی سے دوسرے دوستوں کی طرح باتیں کر سکے. جبھی اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ آج ابو سے موبائل لے کر دینے کا ضرور کہے گا کہ اب صرف لڑکیوں کو دیکھتے رہنے سے کام نہیں چلے گا. ویسے بھی اب پڑھائی کی وجہ سے کافی وقت وہ گھر سے باہر گزارتا ہے تو ضروری ہے رابطے کے لئے موبائل ہو.. ایسی ہی باتیں سوچتے جس سے وہ حیات صاحب کو قائل کر سکے، ارسل گھر کی طرف رواں دواں تھا جہاں اسے
اسکی سوچ کے مطابق ہی ملنے والا تھا

حیات صاحب مغرب کی نماز کے لئے مسجد گئے ہوے تھے، خالہ جمیلہ کی بیٹی بھی آج عصر کے بعد آ گئی تھی جو اب نمرہ اور فاریہ بیگم کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی. فاریہ بیگم کو یہ مہمان تھوڑی شوخ اور تیز بھی لگی تھی اپنی باتوں کے انداز سے ، نمرہ آپ کے گھر ٹی وی کیوں نہیں ہے ؟ جب یہ بات مہمان سارا نے پوچھی تو نمرہ نے کہا، بس ضرورت ہی نہیں پڑتی، میں اور ارسل پڑھائی میں مصروف رہتے، ابو اور امی کو بھی شوق نہیں ہے...پھر بھی دنیا میں کیا ہو رہا ہے پتا تو چلے، آگے سے سارا نے دوسرا سوال داغ دیا تو فاریہ بیگم نے کہا اخبار آتا ہے نا گھر میں دنیا کے متعلق جاننے کو اور ویسے بھی کون سا کچھ کام کا آتا ٹی وی میں سواے بے حیائی کے...ایسی بات بھی نہیں آنٹی جی، بندہ اچھے پروگرام دیکھے بس، نہ دیکھے بےحیائی کے پروگرام ، اب فاریہ بیگم کو ایسے اسکا بحث کرنا اچھا نہیں لگا لیکن پھر بھی مسکرا کر بولیں ، بیٹا جس چیز میں فائدہ اور نقصان دونوں ہوں تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ زیادہ کیا ہے. مانتی ہوں کہ ٹی وی دیکھنے کا فائدہ ہے لیکن نقصان زیادہ ہے اس لئے ہم نے نہیں رکھا ہوا...چلیں خیر کوئی نہیں میں تو اس لئے پوچھا کہ ٹائم پاس کیسے کرتے آپ لوگ...سارا نے ایک اور سوال پوچھا تو نمرہ نے کہا، ایسے ہی پوری فیملی آپس میں بات چیت کر کے یا اچھی کتابیں ، رسالے وغیرہ پڑھ کر اور ویسے بھی سارا فری وقت ہی کتنا ملتا....اس سے پہلے سارا کوئی اور سوال پوچھتی نمرہ نے اپنی امی کے چہرے کو دیکھتے ہوے سارا کو اپنے کمرے میں ہی لے کر جانے کا سوچا...اچھا آؤ سارا تم کو اپنا کمرہ دکھاؤں جہاں تم بھی میرے ساتھ ہی رہو گی. یہ کہہ کر وہ دونوں کمرے کی طرف چل دیں. ساتھ ہی باہر گیٹ پر بائیک کے ہارن کی آواز آئی تو فاریہ بیگم نے بھی اٹھتے ہوے کہا لو لگتا ہے ارسل بھی آ گیا اب میں ذرا اسکے لئے کھانا لگا لوں، آتے ہی بھوک لگی ، بھوک لگی کا شور مچا دینا اس نے

میرا سارا دن کھیلتے رہنا ، مرضی سے سونا اور کھانا پینا تب بند ہو گیا جب چاچا جی نے مجھے ایک سکول میں داخل کروا دیا. میں نے بہت بچوں کو روتے ہوۓ سکول جاتے دیکھا تھا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے سکول جاتے رونا نہیں آیا پہلے دن سے لے کر اب تک جب میں پانچویں جماعت میں ہو گیا ہوں. روز اسمبلی میں لہک لہک کر " لب پے آتی ہے " پڑھنا، ٹاٹ بچھانا ، آدھی چھٹی کے وقت تختی پر گاچنی لگانا، اور آخری پیریڈ میں کلاس میں کھڑے ہو کر پہاڑے دہرانا " اک دونی ، دونی ....دو دونی چار" میرے ہر روز کے پسندیدہ کام تھے. یا پھر کسی مہمان کے آنے پر میرے ماسٹر صاحب کی یہ آواز ؛ او میاں ، اٹھ شاباش ، فٹافٹ جا، باہر کھوکے سے دو سموسے اور دو کپ چائے لے کر آ" بستہ بھی کبھی ایک نہیں رہا میرا، کبھی گھر آیا کسی اچھی دکان کا پکا شاپر میرا بستہ ہوتا یا کبھی چاچی جی کے ہاتھ کا سیا کپڑے کا تھیلا...سکول آتے وقت مجھے روزانہ ایک روپیہ ملتا گھر سے جس میں سے آٹھ آنے کا چھٹی وقت برف کا گولا خریدتا اور گھر جاتے جاتے مزے سے چوستا جاتا. باقی کے آٹھ آنے کا شام کو عصر کی نماز پڑھ کر بڑا گول والا پاپڑ خریدتا جس کو میں پھر قبرستان جا کر اپنی امی کی قبر کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرتے کھاتا اور ان کو سارے دن کی ایک ایک بات بتاتا

ابو جی آ گے...ابو جی آ گے....حیات صاحب نماز پڑھ کر آے تو ارسل عادتاً یہی کہتے لپٹ لپٹ گیا. کیسا ہے میرا یار، سارا دن غائب رہتا اور اس وقت یاد آ جاتی میری، حیات صاحب نے جب خود ہی غائب رہنے کی بات کر دی تو ارسل کو اور کیا چاہیے تھا فورا بات کہہ ڈالی اپنے دل کی ... تبھی تو ابّا حضور آپکو کہنا تھا کہ میں کالج میں پڑھتا اب، کالج بھی جانا ہوتا اور اکیڈمی بھی، بازار بھی جانا پڑتا کبھی کبھی تو اب موبائل لا دیں نا تاکہ آپ سے رابطے میں رہوں تاکہ آپکو پتا چلے میں کہاں ہو، کب گھر آؤں گا وغیرہ وغیرہ....تب حیات صاحب نے فاریہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوے ذرا لمبی سے سانس بھرتے ہوے کہا ...ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو کہ ضرورت تو واقعی ہی ہے اب ...خیر اچھا کل دیکھیں گے، سوچتے ہیں اس بارے میں بھی کچھ اب....یہ ہوئی نہ بات، ارسل نے جواب میں بس اتنا ہی کہا کہ وہ جانتا تھا کہ ابو نے آرام سے بات سن کر سوچنے کا کہا ہے تو لگ رہا ہے مان ہی جائیں گے

اس اثنا میں گھر میں سے ارسل کو اک نئی آواز سنائی دی. دیکھا تو نمرہ کے ساتھ کوئی لڑکی اندر داخل ہوئی، دونوں نے ابو کو سلام کیا پھر امی نے کہا. سارا یہ ہے میرا اکلوتا بیٹا ارسل، اس گھر کی رونق بھی ہے یہ.... اسکے بعد جو بھی امی نے کہا اسکو بھول کر ارسل تو سارا کو تکتے ہی رہ گیا اور اس سوچ میں کہ یہی وہ لڑکی ہے جس سے اسکو دوستی ہو سکتی ہے کہ سارا کا شوخ پن و جلوہ اسکے چہرے و لباس سے نظر آ رہا تھا پھر اسکے ہاتھوں میں پکڑا موبائل دیکھ کر ارسل اور بھی خوش ہو گیا کہ اس سے رابطہ کرنا بھی آسان. اب ارسل دل سے خوش ہو کر اپنے موبائل کے انتظار میں تھا تبھی وہ اپنے ابو ساتھ اورجڑ کر بیٹھ گیا لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ حیات صاحب نے اسکے تکنے اور جڑنے کو دیکھ بھی لیا ہے اور سمجھ بھی لیا ہے، آخر باپ تھے اسکے اور تبھی اسی وقت انہوں نے موبائل دینے یا نہ دینے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا.....
آج حیات صاحب مارکیٹ کی طرف سے اپنے کام پر جا رہے تھے جب انکی نظر اچانک فرید کی دکان پر پڑی تو وہ حیران رہ گے. انکو نہیں پتا تھا کہ وہ نوجوان ایسے بہترین سے عمل کرے گا انکے مشورے پر. انکو یہ دیکھ کر اچھا لگا تبھی انہوں نے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کی اور فرید کی دکان کی طرف چل پڑے. دکان پر چکن خریدنے والوں کا تھوڑا رش تھا مگر جب فرید نے حیات صاحب کو دیکھا تو کام چھوڑ کر فورا انکی طرف لپکنے لگا. "نہیں ابھی تم کام ختم کر کے آؤ میں تب تک چچا نعمت ساتھ باتیں کرتا." فرید نے حیات صاحب کی بات سن کر سر ہلایا اور جلدی جلدی کام نبٹانے لگا اور حیات صاحب، چاچا نعمت کے ساتھ حال و احوال میں مصروف ہو گے

پتا نہیں مجھے کیا ہو جاتا تھا، سکول میں ہوتا تو بہت دل لگتا دوستوں ساتھ باتیں کرنے کا اور سکول کے کام کا لیکن گھر آ کر بس خاموشی اور تنہائی ہی اچھی لگتی.چونکہ میں نخرہ نہیں کرتا تھا اور ہر کسی کا کہنا مانتا تھا تو سب مجھے پسند کرتے تھے . چاچا جی کے بھی بچے تھے لیکن مجھ سے بڑے تبھی ان سے زیادہ گھل مل نہ سکا. فارغ اوقات میں یا تو قبرستان جاتا امی کی قبر پر یا پھر ادھر ادھر اکیلا ہی آوارہ گردی، سکول کی کتابوں کے علاوہ جو مجھے اچھا لگتا تھا وہ تھا کہانیاں.....ٹارزن کی ، عمرو عیار کی ، ایکشن والی ، ڈراؤنی قسم کی بھی، ایسی جو ذرا ہٹ کر ہوں جس کو پڑھ کر میں آنکھیں بند کر کے کھو جاؤں کہیں..پتا نہیں کیوں مجھ پریوں والی ، پیار والی کہانیاں تب کبھی بھی نہیں اچھی لگتی تھی شاید اس لئے کہ مجھے یہ کہانی عملی طور پر ہی پڑھنی اور سمجھنی تھی

تم نے تو کمال کر دیا جوان، بہت خوشی ہوئی تمہاری دکان میں اور خود تم میں تبدیلی دیکھ کر. یہ لو تمہارا انعام، حیات صاحب نے بات کرتے ایک ہزار کا نوٹ فرید کی طرف بڑھایا. نہیں سر، اسکی ضرورت نہیں ہے آپکا مشورہ کی کافی ہے اور میرا تو کام بھی بڑھ گیا ہے اب ماشاللہ سے . فرید نے نوٹ کو پیچھے کرتے ہوے کہا. دیکھو اگر تم یہ انعام لو گے تو پھر ایک اور اچھا مشورہ ملے گا تمکو، ایسے نہیں. حیات صاحب نے مسکرا کر کہا تو مجبورا فرید نے قبول کرتے کہا کہ یہ پھر آخری دفعہ لے رہا سر جی، آگے سے نہیں ورنہ میں بھی آپکے مشورے پر عمل نہیں کروں گا، تبھی آگے سے حیات صاحب نے کہا، اچھا اچھا جوان پتا ہے بہت خود دار اور محنتی ہو، تم نے اپنا کام و دکان تو سیٹ کر لیا اب اپنی دکان کو اچھا سا نام دو اور ایک بورڈ لگواؤ اور پھر یہ نام تمہاری پہچان بنے گا. اب میں چلتا کہ پہلے ہی دیر ہو گئی لیکن اگلی ملاقات تفصیلی کروں گا تم سے. بہت اچھا سر جی ایسا ہی کروں گا بہت شکریہ آپکے مشورے اور اس انعام کا. فرید نے حیات صاحب کا سلام کے لئے بڑھایا ہوا ہاتھ تھام کر جواب دیا. تبھی حیات صاحب، چچا نعمت کو بھی سلام کرتے اپنی گاڑی کی طرف بڑھے یہ سوچتے کہ اب انکے مقصد میں ایک اور بہترین جوان شامل ہو گیا ہے جس کی بات وہ فرید سے اگلی ملاقات میں کریں گے

سر، سپیکر سلمان سے میرا رابطہ ہو گیا تھا اور انہوں نے اگلے ہفتے میں وقت دینے کا کہا ہے. ایک اچھے تعلیمی ادارے کے چیئرمین کو جب انکے پی اے نے یہ بتایا تو انہوں نے کہا چلو بہت اچھا ہوا یہ بھی، تم ان سے معاوضہ کی بات کرو اور ایک دن مقرر کر کے فائنل کرو یہ سیمینار . سر میں نے پوچھا تھا، وہ تعلیمی اداروں میں اپنے لیکچر کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے، صرف کارپوریٹ لیول پر لیتے ہیں لیکن آنے ، جانے اور رہائش کا انتظام ادارے کے ذمہ ہی ہوتا ہے. پی اے نے آگے سے جواب دیا اچھا ، واقعی ؟ کیا بات ہے انکی....شاید یہی رضاکارانہ اور اچھی نیت ہی وجہ ہے جو انکو اتنی پزیرائی ملتی ہے اور لوگ انکو نہ صرف سنتے بلکہ عمل بھی کرتے ہیں . خیر انکا اخلاص اپنی جگہ لیکن ہم سپکیر سلمان کو کوئی بہترین تحفہ ضرور دیں گئے کہ ہمارا ادارہ ایسے لوگوں کی دل سے قدر کرتا ہے. تم فی الحال باقی معاملات طے کرو ، تحفے کا معاملہ میں خود ہی دیکھتا ہوں

گھر میں فاریہ بیگم اور سارا تھی بس آج، باقی لوگ اپنے اپنے کام پر گئے تھے. سارا کا ٹیسٹ کل ہونا تھا تو وہ تیاری کے لئے ایک کتاب کھولے بیٹھی تھی لیکن فاریہ بیگم نے جو پاس ہی بیٹھی سبزی بنا رہی تھی محسوس کیا کہ سارا اپنے موبائل پر بھی کسی کے ساتھ مصروف تھی جو مسکرا مسکرا کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد میسج کرنے لگ پڑتی. فاریہ بیگم نے اسے تو کچھ نہیں پوچھا نہ کہا، لیکن خود ہی اٹھ کر باہر برآمدے میں آ گیں تاکہ سارا "ذرا اچھے سے تیاری" کر لے اپنی.ادھر ارسل بھی رات سے بہت خوش تھا ایک تو جو ابو نے موبائل کی بات کی اور دوسرا گھر میں آنے والی مہمان کی وجہ سے. اگرچہ اسکی سارا سے زیادہ بات چیت نہیں ہوئی تھی لیکن نظروں اور مسکراہٹ کے تبادلے سے بہت بیقرار تھا بات مزید آگے بڑھانے کو، تبھی آج اسکا کالج میں دل نہیں لگ رہا تھا اور جی میں تھا کہ فورا گھر بھاگ جائے لیکن وقت تو جیسے آج رک رک کر چل رہا تھا۔ ۔ ۔۔ ۔

نمرہ ایک بات تو بتاؤ، سچ سچ بتانا....جی پوچھیں سرکار، نمرہ نے ذرا مسکراتے ہوے اپنی سہیلی کو جواب دیا... دونوں فری پیریڈ میں گراؤنڈ میں بیٹھی ہوئی تھیں...تم اتنی کیوٹ ہو، مختلف ہو تو پھر تم کسی کی مرکز نگاہ نہیں ٹھہری کیا اب تک؟ کوئی ایسا خاص جو تمہیں اچھا لگتا ہو یا کسی نے تمہیں چاہا ہو؟؟ سدرہ کے پوچھنے پر نمرہ نے کہا، او لڑکی، یہ فلموں، ڈراموں اور افسانوں والی باتیں مجھ سے نہ کیا کر....ویسے بھی میری تربیت میں مجھے محبت جیسے فطری جذبے کا بتایا گیا ہے لیکن اگر یہ کسی اچھے و باعزت رشتے کے ساتھ منسوب ہواور لڑکی کے لئے وہ رشتہ صرف شوہر کے ساتھ ہے...... تو یار میں نے کب فلرٹ کرنے کا پوچھا ہے، میرا مطلب کوئی شادی کرنے کے لئے کوئی لڑکا پسند کیا ہے تم نے...سدرہ نے ذرا وضاحت سے پوچھا تو پھر نمرہ نے بھی وضاحت سے ہی جواب دیا کہ.. وہ تم نے کہاوت سنی ہے نا " جس کا کام اسی کو ساجھے" تو سدرہ جی میری شادی کی فکر اور لڑکا ڈھونڈنے کا کام میرے والدین کا ہے میرا نہیں ہے. آجکل جو شادی کے بہانے سے لڑکا ، لڑکی کی دوستیاں ہوتی ، دھوکے ہوتے وہ اسی وجہ سے کہ ہم لڑکیوں نے اپنا اصل کام چھوڑ کر والدین کے کرنے والے کام اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں. مجھے تو خود کو اچھا بنانا ہے ، تعلیم یافتہ ہونا، مظبوط کردار کا بننا ہے ، ویسا ہی جیسے ہمارا رب کہتا ہے کہ میں پردہ اختیار کروں، خود کو ڈھانپ کر رکھوں، اپنی محبت ، رومانوی گفتگو، جسم، بننا سنوارنا وغیرہ کو صرف اپنے شوہر کے لئے محفوظ رکھوں. میں صرف ایک لڑکی ہی نہیں ہوں میں ایک بیٹی بھی ہوں، بہن بھی ہوں، بیوی بھی بننا اور پھر سب سے بڑھ کر مجھے ماں بھی بننا ہے. تو مجھے ان تمام رشتوں کو نبھانے کے لئے مظبوط کردار کا بننا ہے تاکہ میرے شادی سے پہلے کے اور بعد کے تمام محترم رشتے مجھ پر فخر کر سکیں....سمجھ آ گئی تم کو سدرہ صاحبہ، نمرہ نے پوری توجہ سے سنتی اپنی سہیلی کو کہا. قسم سے بہت ہی اچھی سوچ ہے تمہاری، خیر تم نہ سہی کوئی اور ہی تم پے فدا ہو جائے پاگلوں کی طرح تب تم اسے کیسے قابو کرو گی...سدرہ نے پھر پوچھا ... اچھا دیکھیں گے جب کوئی آے گا ایسا فی الحال تو چل اٹھ اب ، بیل ہو گئی ہے...نمرہ نے اٹھتے ہوے کہا. اور پھر دونوں کلاس لینے چلی گیں

ارسل دوپہر کو گھر آیا تو یہ جان کر اسے مایوسی ہوئی کہ سارا بازار گئی ہوئی ہے، آج اس نے سوچا تھا کہ اکیڈمی سے بھی امی کو بہانہ کر کے چھٹی کرے گا لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا تو بس پھر اس نے کھانا کھایا ، تھوڑا ریسٹ کیا اور اکیڈمی چلا گیا. اسکے اندر کے جذبات ، بیقراری عروج پر تھی، کچی عمر کے پہلے لگاؤ کی وجہ سے اس کا کہیں بھی دل نہیں لگ رہا تھا. خیر وقت بھی تو گزارنا تھا نا رات کے ہونے تک، پہلے صرف ابو کا انتظار تھا موبائل کے حوالے سے اب سارا کا انتظار بھی اسکو لگ گیا تھا

اسلام وعلیکم ابو جی، نمرہ نے ابو کے گھر آنے پر سلام کیا تو حیات صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے جواب دیا اور کہا ، ادھر بیٹھو میرے پاس، لگتا ابھی تک ٹرپ والی ناراضگی اچھے سے ختم نہیں کی تم نے ہاں... اچھا یہ دیکھو تمھارے لئے کیا لایا میں....کمرے میں فاریہ بیگم اور ارسل بھی تھے، سارا ابھی بازار سے آئی نہیں تھی..... یہ لو ایک موبائل تمہارا اور دوسرا ارسل کا.....ابو کا یہ کہنا تھا کہ ارسل نے خوشی سے لپٹ لپٹ کر ابو سے پیار کا اظھار کیا، اسکو جتنی خوشی تھی وہ بیان نہیں کر پا رہا تھا....اچھا سنو دونوں موبائل میں سم بھی موجود ہے اور پانچ سو کا بیلنس بھی میں نے ڈلوا دیا ہے....چلو شاباش اب مسکرا کر دکھاؤ مجھے شاباش اور موبائل کو چلا کر اچھے سے سمجھ لو اسکا سسٹم ، اور ہاں ایک دوسرے کو مس بیل بھی دو تاکہ نمبر آ جائیں دونوں کے پاس . اور نمرہ تم اپنی امی کے موبائل اور میرے موبائل میں بھی نمبر محفوظ کر دینا اچھا... یہ کہہ کر حیات صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے اور بچے موبائل میں مصروف

حیرت ہے حیات صاحب آپ نے بچوں کو موبائل لا دیے، میں تو سمجھ رہی تھی کہ آپ انکار کر دیں گے. فاریہ بیگم نے رات کو سونے سے پہلے حیرانگی سے پوچھا....پہلی بات تو یہ ہے فاریہ جی کہ آجکل موبائل واقعی میں ضرورت بھی ہے بچوں کی اور دوسروں کے دیکھا دیکھی فطری خواہش بھی، کبھی نہ کبھی تو اسکا واسطہ پڑنا ہی ہے تو اچھا ہے کہ ابھی سے اسکا اچھا و برا استعمال کا فرق خود سے سیکھ جائیں.ویسے بھی آجکل کے دور میں ایسی خواہش کو دبا دبا کر ختم کرنے کی خواہش بیوقوفی ہے کہ بچے بہت تیز، اگر ایسی چیزوں کا ہم خود انکو اچھا استعمال نہیں بتائیں گے تو بچے پھر باہر سے اور دوسروں سے اکثر غلط استعمال ہی سیکھتے ہیں. بے فکر رہو تم فاریہ بیگم باپ ہوں انکا کچھ سوچ سمجھ کر ہی لا کر دیے ہیں اور ویسے بھی دونوں سم پوسٹ پیڈ ہیں جس کا بل مجھے آتا رہے گا تو پتا چل جائے گا انہوں نے کہاں ، کس وقت ، کس سے رابطہ کیا ہے. تم بھی ابھی نہ بتانا انکو، جب تک انکو خود پتا چلے گا تب تک مجھے اندازہ ہو جانا ہے کہ بچے بہتر استعمال کر رہے یا نہیں. پھر انکی اسی حساب سے تربیت کروں گا میں....حیات صاحب نے بات ختم کی تو فاریہ بیگم نے مسکرا کر سر ہلاتے ہوے دل میں رب کا شکر ادا کیا کہ حیات صاحب جیسے آدمی انکے شوہر ہیں جن کی ہر سوچ ، بات اور تربیت کا انداز ہمیشہ سے ہی مختلف ہوتا ہے

یااللّه، اے میرے مالک، تیرا بہت بہت شکر ہے ۔ ۔ ربّا مجھے مزید اپنا شکر گزاربندہ بنا۔ ۔ مجھے ہمت دے ۔ ۔ مجھے حوصلہ دے۔ ۔ میرے سارے کام سنوار دے یا رب۔ ۔۔ مجھ سے کبھی بھی ناراض نہ ہونا ، مجھے کبھی بھی خود سے دور نہ کرنا یا اللّه ۔ ۔ ۔ میرے ذمہ جتنے بھی ذمہ داریاں اور حقوق ہیں انکو بہترین سے اور آسانی سے ادا کرنے کی توفیق دے۔ ۔ میں سرخرو ہو کر تیرے پاس آؤں یا اللّه۔ ۔ ۔ مجھے برائی سے بچنے اور اچھائی کرنے کی سوچ ، کوشش ، عمل اور مستقل مزاجی عطا فرما، مجھے خود اپنی ، اپنی اولاد کی ، اپنے خاندان اور دوسرے لوگوں کی بہترین تعلیم و تربیت کرنے کی ہمت عطا فرما ، یا اللّه تیری مخلوق میں سے کوئی بھی مشکل و پریشانی میں ہے تو سب کو حل فرما کر آسانی پیدا فرما۔ ۔۔ ۔ ۔ یا اللّه ، یا اللّه ۔ ۔ ۔ حیات صاحب تہجد پڑھ کر دعا میں مصروف تھے کہ مسجد سے بلند ہوتی اذان کی آواز نے انھیں فجرہونے کا احساس دلایا۔ حیات صاحب کبھی کبھی ہی ایسے باہر لان میں آ کر کھلے آسمان تلے خاموشی و تنہائی میں تہجد پڑھتے تھے۔ پھر وہ اذان ختم ہونے پر اٹھے ، اندر جا کر فاریہ بیگم کو جگایا اور بچوں کو بھی جگانے کا کہہ کر مسجد روانہ ہو گے۔ ۔ ۔ ۔

گھر میں سب ناشتے میں مصروف تھے تبھی ساراکی آواز آئی، انکل آج میرا ٹیسٹ ہے آٹھ بجے، تو کوئی چھوڑ کے آ سکتا مجھے سنٹر۔ ۔ ۔ کوئی مسلہ نہیں، ارسل کالج جاتے آپکو چھوڑ آے گا ۔ حیات صاحب نے ارسل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا تو ارسل نے دل میں خوشی کو چھپا کر معصوم نظروں سے دیکھ کر ٹھیک ہے کا اشارہ دیا۔ ۔ جہاں حیات صاحب نے ارسل کو پہلی تربیتی آزمائش میں ڈالا وہاں اسی وجہ سے کچھ دیر بعد ہی ارسل اپنی بائیک پر سارا کو بیٹھا اسکے سنٹر کی طرف رواں دواں تھا ۔ ۔ ۔ پتا نہیں راستہ چھوٹا کیوں لگ رہا تھا اسے آج ۔ ۔ اگرچہ ارسل پہلے ہی بائیک معمول سے آہستہ چلا رہا تھا پھر بھی سارا نے کہا ۔ ۔ آہستہ چلا لو بائیک میرا دوپٹہ ڈھل جاتا بار بار سر سے۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ہی سنٹر آ گیا اور ارسل نے سائیڈ پر بائیک روک دی ۔ ۔ ۔ اچھا میں نے بارہ بجے تک فری ہو جانا ۔ ۔ لینے آ سکتے مجھے۔ ۔ سارا نے پوچھا تو اور کیا چاہیے تھا ارسل کو تبھی کہا ۔ ۔ ۔ کیوں نہیں مگر گھر نہیں بتانا آپ نے کہ میں نے چھوڑا واپسی پر بھی ۔ ۔ ۔ اچھا نہیں بتاؤں گی۔ ۔ تم اپنا موبائل نمبر بتاؤ میں تمہیں مس بیل دیتی ۔ ۔ ۔ پھر بارہ بجے یہیں آ کر مجھے کال کرنا میں آ جاؤں گی باہر ۔۔ ۔ سارا نے اسے مس بیل دیتے ہوے ہدایت دی ۔ ۔ ۔ ارسل نے نمبر محفوظ کرتے کہا کہ آپ پہلی لڑکی جس کا نمبر سب سے پہلے ایڈ کر رہا ہوں اپنے پہلے موبائل پر۔ ۔ ۔ تو سارا نے فٹ سے کہا، جھوٹ نہ بولو، میں دوسری ہوں پہلی لڑکی تو نمرہ ہو گی۔ ۔ تو ارسل نے فورا کہا ، او ھو۔ ۔ وہ تو بہن ہے میری ۔ ۔ تبھی سارا نے خاص ادا سے پوچھا، اچھا تو میں کون ہوں پھر ۔ ۔ ۔ تب پہلی دفعہ اس فطری لگاؤ کا شکار ارسل سواے شرمانے اور مسکرانے کے کوئی جواب نہ دے پایا۔ پھر سارا خدا حافظ اور میں انتظار کروں گی کا کہہ کر خود کالج کے اندر جانے لگی اور ارسل نے اسکے آخری سوال اور انتظار کا دھرکتے دل سےخوش ہوتے ہوے بائیک سٹارٹ کر کے اپنے کالج کا رخ کیا۔ ۔

سپیکر سلمان چائے کے وقفے میں کچھ لوگوں ساتھ بات چیت میں مصروف تھے کہ ایک صاحب نے پوچھا ، سلمان صاحب سنا ہے آپ چہرہ شناس بھی ہیں تو میرا بھی چہرہ پڑھ کر کچھ بتائیے، سپیکر سلمان نے ہلکا سا مسکراتے ہوۓ جواب دیا ، جناب ابهی آپ نے غلط وقت پر سوال پوچھا ہے کیوں کہ آپکی سوچ ابهی اس ٹیبل پر ہے کہ وہاں جمع لوگ وہاں موجود سموسے نہ ختم کر دیں ۔ تو آپ ذرا اپنے لئے پہلے لے ہی آیئں پھر بتاتا میں آپکو ۔ ۔ اس جواب کے بعد وہاں موجود لوگوں کا قہقہ بلند ہوا اور ان صاحب نے بھی بات کا مزہ لیا اور کہا کمال ہے بس مجھے اور نہیں پوچھنا کچھ اور ہنستے ہوۓ سموسہ لینے چلے گے ۔ پھر ایک دوسرے صاحب نے پوچھا، سلمان صاحب مقصد حیات ، زندگی کا مقصد ، مقصد تلاش کرو وغیرہ بہت سنتے بھی اور پڑھتے بھی مگر کچھ واضح نہیں ہوتا کہ کیسے پتا چلے مقصد کا ، کہاں اور کیسے تلاش کرے ایک عام بندہ بھی جو نہ تو زیادہ پڑھا لکھا ھو اور نہ زیادہ علم رکھے ۔ ۔ آپ ہی اپنے سادہ انداز میں سمجھا دیں۔ ۔ ۔ بہت اچھی اور پتے کی بات پوچھی آپ نے اور اچھے وقت پر بھی کہ اس وقفے کے بعد میں نےاسی موضوع پر گفتگو کرنی ہے۔ ۔ چلیے پھر ھال کی طرف چلتے وقفہ بھی ختم ہونے کے قریب۔ ۔ سپیکر سلمان نے کہا تو باقی لوگ بھی 'چلیں پھر چلتے' کا کہتے ہوۓ ھال کی طرف روانہ ہو گے۔ ۔

مقصد حیات میں صرف دو باتیں بنیادی ہیں۔ پہلی یہ کہ میرا مقصد " کیا ہے " اور دوسری یہ بات کہ مجھے" حاصل کیسے کرنا ہے " یوں کہہ لیں کہ پہلا حصہ " تلاش" ہے اور دوسرا " تکمیل" ہے۔ یقین مانیں بحثیت مسلمان ہم میں سے ہر ایک کے لیے دونوں حصے پانا بےحد آسان ہے۔ غور کریں کہ آپ جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو اسکے ساتھ ہمیشہ یوزر گائیڈ یا مینوئل ضرور ہوتا ہے۔ جس میں دو بنیادی باتیں ہوتی ہیں پہلی استعمال کا طریقہ یا مسلوں کی وجہ اور حل ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ اگر پروڈکٹ کو ٹھیک کروانا ہو ، کھولنا ہو تو کسی ماہر کے پاس جانے کی ہدایت ہوتی ہے۔ جو لوگ ایسے ہی عمل کرتے یوزر گائیڈ پر تو وہ آسانی سے چیز کا استعمال بھی کرتے ، خیال بھی رکھتے اور خرابی کی صورت میں کسی اچھے ماہر کے پاس جاتے۔ تو دوستو ہم انسان بھی ایک پروڈکٹ ہیں اپنے رب کی اور ہمارا مینوئل یا یوزر گائیڈ قرآن پاک کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ جس میں زندگی گزارنےکا طریقہ بھی ہے ، مسلوں کا حل بھی ہے اور اگر ہمیں خود سمجھ نہ آے تو نبی حضرت محمّد صل الہ علیہ وسلم کی صورت میں بہترین ماہر بھی موجود ہیں رہنمائی کو۔ تو مقصد کیا ہے؟ کا پتا ہمیں قرآن و سیرت دونوں کو سمجھ کے پڑھ کر ہر ایک کو مل سکتا ہے۔ حتی کہ مقصد حیات کو جاننے کے لیے غیر مسلمان بھی اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں کا وہ بھی جانتے کہ ہر انسان کا مینوئل صرف رب کا کلام ہے جس کا آخری ورژن قرآن ہے۔ جس کو پڑھنے اور ریسرچ کرنے کے بعد پتا چلا کہ ہر انسان کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے " دوسروں کے کام آنا" جو کہ عبادت اور حقوق العباد میں بھی اعلیٰ درجہ رکھتا کہ آپکی وجہ سے سوسائٹی میں کیا مثبت تبدیلی آئی؟ آپکے ہونے سے اس دنیا میں کیا فرق پڑا؟آپ نے دوسروں کو کیسے آسانیاں دی؟ آپ نے دوسروں کے لیے کیا کچھ کیا؟ جیسے سوره العصر میں ہے جو "دوسروں" کو حق بات اور صبر کی تلقین کرتے ہیں" آپ پوری دنیا میں ، جب سے وجود میں آئی ہے تمام اچھی شہرت کے مقبول و معروف لوگوں پر ریسرچ کریں تو آپ جانیں گے کہ انہوں نے دوسروں کو فائدہ دے کر ہی عزت و نام کمایا۔ تو جناب اس دنیا میں ہر انسان کا صرف یہی ایک مقصد ہے۔ فرق صرف دوسری بنیادی بات " تکمیل" کا پڑتا کہ اب اسکو " حاصل " کیسے کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تمام پھل دار درختوں کا ایک ہی مقصد اور وہ ہے "پھل " پیدا کرنا اب پھر کوئی درخت سیب پیدا کر کے ، کوئی آم پیدا کر کے ، کوئی انگور وغیرہ وغیرہ کر کے مقصد کو پورا کر رہے۔ تو دوستو ، اب مقصد کی تلاش مکمل کر کے اگلے سٹیپ پر زور دیں کہ اب ہر بندہ کس طرح اپنے حصے کا کام کر کے اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کرے۔ ۔ ۔ تو اس پر بات میں کل کے سیشن میں کروں گا تو پوری امید انشاءلله بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی اور جو رہ جائے تو وہ اس سیمینار کے آخری دن سوال و جواب کے سیشن میں کلیر ہو جائے گی۔ ۔ ۔۔ آپ سب کی توجہ اور بھرپور شرکت کا بہت شکریہ۔ ۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے بعد سپیکر سلمان تالیوں کی گونج میں اسٹیج سے نیچے جانے لگے ۔ ۔ ۔ ۔

حیات صاحب نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد مسجد واپسی پر فرید کی دکان پر گے تو ایک دفعہ پھر صفائی کے ساتھ ساتھ دکان کے بورڈ پر لکھا نام " فرید چکن سینٹر " دیکھ کر بہت خوش ہوۓ اور اسے شاباش دیتے ہوۓ کل شام عصر کے بعد تیار رہنے کا کہا کہ حیات صاحب اسے کسی خاص جگہ پر لے کر جانا چاھتے تهے۔

ارسل جہاں خوش تھا آج ، وہیں پر سارا کے کل واپس جانے پر بہت اداس بھی ہو گیا تھا لیکن اب اس کے پاس اسکا موبائل نمبر تھا تو ذرا دل کو تسلی بھی تھی کہ سارا نے خود بھی رابطہ میں رہنے اور کسی بھی وقت کال کر لینے کی بھی مسکرا کر اجازت دی تھی۔ ارسل نے تو آج اپنے موبائل پر کئی گانے بھی ڈلوا لیے تھے جن میں سے وہ آج بار بار یہی سن رہا تھا۔ ۔ " پہلی نظر میں کیسا جادو کر دیا ۔ تیرا بن بیٹھا ہے میرا جیا۔ ۔ ۔

حیات صاحب مارکیٹ کمیٹی کے اجلاس میں مخاطب تھے۔ ۔ ۔ دیکھیں کاروبار میں منافع مناسب ہی ہونا چاہیے بس ، ہمیں صرف اپنی جیب نہیں بڑھنی بلکہ گاھک کا بھی سوچنا کہ وہ بھی آسانی سے قیمت ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔ کوئی خوف خدا بھی ہونا چاہیے ہمیں ۔ مانتا ہو کہ دکانوں کا کرایہ زیادہ، بجلی کا بل ، کام کرنے والوں کی تنخواہیں بھی نکالنی ہوتی۔ ۔ لیکن میرے حساب سے سچ پوچھیں تو ان سب کا خرچہ نکلنا کوئی مشکل نہیں کاروبار میں ، یہ صرف بہانے ہوتے اپنے دوسرے اخراجات چھپانے کے۔ ۔ اکثر مالکان اپنی شاہانہ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے نا جائز منافع میں اضافہ کرتے، غلط طور پر قیمت مقرر کرتے،عجیب حال یہ ہے کہ 100کی چیز کی قیمت 500 رکھتے ، پھر 50 پرسینٹ ڈسکاؤنٹ کا لالچ دے کر 250 میں بیچ کر بھی بےحد فائدہ کماتے ، اب یہ کھلی بے ایمانی اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ ۔۔ دوسرا آجکل جو دکان داری کا ایک اور غلط رواج آ گیا کہ دکان کی اچھی سے سجاوٹ کرو، مہنگا بورڈ ، روشنیاں، فرنیچر، شیشے وغیرہ سیٹ کرو اور پھر ہلکی کوالٹی کا مال زیادہ قیمت پر بیچ دو۔ اوپر سے یہ اصول کہ کوئی چیز نہ واپس ہو گی نہ ہی تبدیل جو کہ اسلامی تجارت کے اصولوں کے مکمل منافی ہے ۔ ۔ یہ پورا حق ہے گاھک کا کہ وہ خریدنے کے بعد بھی چیز پسند نہ آنے پر پورے پیسے واپس لے یا تبدیل کرواے لیکن یہاں گاھک دکان سے اتر کر ہی واپس آ جائے تو اکثر دکان دار ٹھیک سے بات ہی نہیں کرتے ۔ خدارا رب کا خوف کریں ، اپنے گھر والوں کو حلال کمائی کھلائیں۔ جائز منافع لیں، گاھک کو اچھی چیز دیں، خرابی کا پہلے ہی بتا دیں ، خراب کو ٹھیک کے ساتھ مکس کر کے نہ بیچیں، اور تبدیلی و واپسی کا اصول اپنائیں۔ جھوٹے ، فریبی ، دھوکہ والے ڈسکاؤنٹ کا لالچ دینا بند کریں۔ آسانیاں پیدا کریں خریداروں کے لیے، خوش کریں انکو ۔ اور جو لوگ یہ کہتے کہ یہ سب کرنے سے کاروبار نہیں چلتا تو آپ سب کے سامنے میرا کاروبار ہے اور رب کا شکر میں بےحد خوش بھی ہوں اور سکوں میں بھی ،رب کا فضل کہ میرے کاروبار میں گاہکوں کا رش پوری مارکیٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ میں چاہتا آپ سب بھی ایسے ہی اقدام سےحلال کمائی کریں اور برکت والی ترقی پائیں شکریہ، مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ ۔ ۔

بڑی کلاس میں بھی آ کر بھی میں پڑھائی میں بہت اچھا نہیں رہا بس درمیانہ سا ہی۔ میٹرک میں دوسروں کے کہنے پر سائنس رکھ تو لی لیکن بائیو ، کیمسٹری ، فزکس اور ریاضی میں بس پورے پورے نمبر لے کر ہی پاس ہوتا۔ مجھے بس کرکٹ کھیلنا اچھا لگتا یا بزم ادب کے پروگرام میں حصہ لینا۔ اکیلے ہی آوارگردی کرنا، ارد گرد کی چیزوں و ماحول کا گہرائی سے جائزہ لینا اور نئی نئی باتیں و کام سیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ۔ مجھے سب کہتے تھے پتا نہیں "میاں" کس پر چلا گیا ہے، نہ اسکی ماں ایسی تھی نہ ہی باپ۔ جہاں میری امی میرے بچپن میں ہی فوت ہو چکی تھیں وہیں پر مجھے اپنے ابو کا بھی کچھ نہیں پتا تھا ، چاچا جی بتاتے کہ کسی دوسرے ملک میں ہیں ۔ ۔ انکی میری امی سے کبھی نہیں بن سکی بس انہوں نے طلاق تو نہ دی لیکن جب روزگار کے لیے پہلی دفعہ کویت گۓ تو بس پھر واپس نہیں آے کبھی ۔ اور اب کہاں ، کون سے ملک ، زندہ ہیں یا نہیں ، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ۔ ۔

فرید عصر کے بعد تیار تھا ، اس کا چکن ویسے بھی تقریباً بک چکا تھا جو تھوڑا سا تھا بنایا ہوا وہ نعمت چچا نے اپنے ذمہ لے لیا تھا بیچنے کو۔ تھوڑی دیر بعد وہ حیات صاحب کی گاڑی میں انکے ساتھ جا رہا تھا۔ ایک دوسرے علاقے میں جا کر ایک پرائیویٹ سکول کے باہر حیات صاحب گاڑی سائیڈ پے کھڑی کر کے اترے اور پھر فرید کو ساتھ لے کر سکول میں داخل ہو گۓ۔ جس کلاس روم سے آوازیں آ رہیں تھیں وہاں داخل ہوے تو فرید حیران کہ وہاں بچوں کی بجاے مختلف عمروں کے لوگ بیٹھے ہوے تھے اور ایک صاحب استاد کی طرح کھڑے تھے۔ سب نے حیات صاحب کو سلام کیا تو جواب دینے کے بعد حیات صاحب نے فرید سے کہا ، یہ غنی صاحب ہیں اس سکول کے مالک بھی اور بہت اچھے استاد بھی اور سامنے بیٹھے لوگ کوئی عام نہیں بلکہ خاص تعلیم لے رہے۔ پھر باقی سب کو مخاطب کر کے بولے ، دوستو یہ ہے آپ سب کا نیا دوست اور اس اسپیشل کلاس کا اسپیشل سٹوڈنٹ فرید ، جسکی اپنی چکن کی دوکان ہے میرے ہی گھر کے پاس۔ پھر فرید کو مزید بتانے لگے کہ جیسے میں تمہیں لے کر آیا یہاں، ایسے ہی ان میں سے بھی کچھ کو میں نے اور کچھ کو غنی صاحب نے دریافت کیا ہے۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو بہت محنتی ، ہمت والے اور اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو کر اپنے حالات بدلنے والے ہیں۔ ان سب کے وسائل بہت محدود ہیں لیکن انکا کچھ کر دکھانے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ میں اور غنی صاحب ان سب کو اپنے محدود وسائل میں رهتے ہوے اپنے کام کو بڑھانے کے طریقے بتاتے ہیں اور پھر یہ سب ان پر بہترین سے عمل کر کے دن با دن کامیاب ہو رہے مثلا وہ خان بابا گلیوں میں پھر پھر کر چنے بیچتے تھے مگر آج مختلف سکول و کالج کی کینٹین میں پیکنگ میں چنے اور دوسرے نٹس سپلائی کرتے۔ وہ کریم بھائی بھی ایسے ہی اپنی قلفیاں سپلائی کرتے، مسعود صاحب مختلف اداروں میں دوپہر کا کھانا سپلائی کرتے جس کو ان کی بیگم گھر میں تیار کرتی۔ جو سستا بھی پڑتا اور صاف سھترا گھر کا ۔ اسلم صاحب حجام ہیں اور شام کو مختلف گھروں میں جا کر ان لوگوں کے اورانکے بچوں کے بال کاٹتے جو انکو فون پر بلاتے۔ حمید صاحب جو ہیں یہ گھر میں ہی مختلف کیک تیار کرتے اور مختلف دکانوں کو سپلائی کرتے۔ اور باقی لوگ بھی ایسے ہی مختلف کام کرتے، ہم ہفتہ میں ایک دن ایسے اکھٹے ہوتے ، یہ سب اپنی اپنی پراگریس بتاتے، ایک دوسرے کو اپنے تجربہ سے آگاہ کرتے پھر ہم انکو نیے مشورہ دیتے اور حوصلہ بڑھاتے۔ روزمرہ استعمال کی بنیادی تعلیم اور استعمال ہونے والے سادہ عام انگلش کے الفاظ بھی سکھاتے اور اس کے علاوہ کسی کو کام بڑھانے کے لئے تھوڑا بہت قرضہ چاہیے ہوتا وہ بھی ہم دیتے بغیر کسی سود کے۔ ایسے ہی یہ سب اپنے حالات بھی بدل رہے ، اپنے خاندان میں بھی خوش حالی لا رہے اور عملی طور پر ہمت سے اپنے مشکل حالات کا مقابلہ کر رہے تو رب بھی انکے لئے نئی راہیں کھولتا جاتا اور آسانیاں پیدا فرما رہا. تم اب ان سے ملو اور خود پوچھو کہ اب یہ کیسا محسوس کرتے ہیں میں ذرا غنی صاحب سے ضروری باتیں کر لوں۔ یہ کہہ کر حیات صاحب اور غنی صاحب کمرے سے باہر نکال گۓ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر بعد حیات صاحب باہر سے واپس آ گئے، تب تک فرید نے باقی سب لوگوں سے اچھی علیک سلیک کر لی تھی اور وہ واقعی بہت متاثر ہو رہا تھا وہاں موجود لوگوں کی ہمت و لگن سے۔ کچھ دیر بعد ہی وہ واپسی کے سفر پر تھا کہ آج کے لئے اتنا ہی کافی تھا اسکے لئے ، پھر حیات صاحب نے اسے دکان پر چھوڑا اور خود اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گۓ۔ فرید نے سب کچھ نعمت چچا کو بتایا تو ان کے دل میں بھی حیات صاحب کی قدر اور بڑھ گئی اور دونوں نے شکر ادا کیا کہ حیات صاحب جیسے آدمی انکی بھلائی و رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔

حیات صاحب کو آتے ہی بچوں نے گھیر لیا اور حال احوال میں مصروف ہو گئے، تبھی باتوں باتوں میں نمرہ نے کہا" ابو جی پتا نہیں کون مجھے بار بار فون کر رہا ، پہلی دفعہ جب کال آئی تو میں نے اٹینڈ کیا کہ ہو سکتا کسی جاننے والا کا ہو کہ میرا نمبر نیا تو سب کو بتا رہی ، مگر دوسری طرف کوئی انجان آدمی کی آواز تھی۔ ۔ میں نے ہیلو کہنے کہنے کے بعد کوئی بات نہیں کی مگر وہ بار بار تنگ کئے جا رہا، یہ دیکھیں ابھی بھی آ رہی اسکی کال" نمرہ نے کال آنے پرموبائل ابو کو دیا تو انہوں نے او کے کر کے ہیلو بولا مگر دوسری طرف سے کوئی آواز نہیں آئی، حیات صاحب نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا اور ڈانٹا تب دوسری طرف سے کال کٹ کر دی گئی۔ ۔ حیات صاحب نے اسکا نمبر اپنے پاس نوٹ کرتے کہا ، فکر نہ کرو میں اسکا علاج کرواتا صبح اور نمبر بھی بلاک کرواتا۔ ۔ اور شاباش بہت اچھا کیا تم نے مجھے بتا کر ۔ ۔ اچھی بیٹیاں ایسے ہی اپنے مسلے والدین کو بتایا کرتی ہیں۔ کوئی انجان آپکو کال کرے یا کہیں باہر تنگ کرے تو کبھی بھی نہیں چھپانا یا بتاتے ڈرنا۔ مجھ سے شرم آے تو اپنی امی کو بتاؤ لیکن بتانا ضرور ہے، مظبوط کردار کی بیٹیاں والدین کا فخر ہوتی ہیں۔ مجھے بہت اچھا لگا آج، شاباش ایسے ہی ہونا چاہیے میری بیٹی کو ، حیات صاحب نے نمرہ کو پیارکرتے ہوۓ کہا۔ ۔جہاں حیات صاحب خوش ہوۓ وہاں پر نمرہ کو بھی بہت حوصلہ ملا ابو کے دوستانہ رویے سے ۔ ۔ ۔ چلو پھر آج سب باہر سے آئس کریم کہا کر آتے نماز اور کھانا کھانے کے بعد ۔ ۔تھوڑی دیر بعد ہی یہ بات کہہ کر تو حیات صاحب نے تو خوش ہی کر دیا بچوں کو ۔ ۔ ۔ ۔

رات گہری ہو چکی تھی اور حیات صاحب کتاب پڑھنے میں مصروف تھے تبھی فاریہ بیگم بولی ، اچھا کیا آپ نے کہ ہمیں باہر لے گئے اور آئس کریم کھلا دی میرا اپنا بہت دل تھا کھانے کو۔ ۔ ۔ او ھو، کوئی حال نہیں آپکا ، آپ بتا دیا کریں تو ہم ہر روز ایسے باہر چلے جایا کریں۔ ۔ حیات صاحب نے مسکراتے ہوۓ کہا ، نہیں اب ایسی بات بھی نہیں ، پتا مجھے جتنا آپ نے لے کر جانا، پتا نہیں آج کیسے ٹائم نکال لیا ہمارے لیے ، اچھا خیر ویسے مجھے بھی آج اچھا لگا نمرہ کا آپکو بتانا ، لیکن مجھے ارسل کی فکر ھو رہی کہ میں نوٹ کر رہی وہ بہت استعمال کرتا موبائل ، پتا نہیں کس کو میسج کرتا رہتا، فاریہ بیگم نے بات ختم کی تو حیات صاحب بولے ہاں ، میں نے بھی نوٹ کیا ہے ، آج بھی باہر جاتے ، آئس کریم کھاتے بھی بار بار میسج کر رہا تھا ، خیر دیکھتے ہیں، میری نظر ہے اس پر ، بل آنے پر پتا چل ہی جانا مجھے، رب بہتر کرے گا انشاللہ ، یہ کہہ کر حیات صاحب کتاب میں مصروف ، فاریہ بیگم سونے میں ، نمرہ پڑھائی میں مصروف اور ارسل رات کے اس وقت میسج کی بجاے روز کی طرح ڈائریکٹ کال میں مصروف سارا کے ساتھ اس بات سے بے خبر کہ کال کیا گیا نمبر اور وقت کہیں محفوظ ھو رہے جس کا پتا اسکے ابو کو لگ جانا بل آنے پر۔ ۔ ۔

آج کانفرنس کا دوسرا سیشن چل رہا تھا اور مختلف اسپیکرز اپنے اپنے موضوعات پر بات کر رہے تھے مگر ھال میں موجود تقریباً سب کو سپیکر سلمان کے لیکچر کا انتظار تھا کہ سبھی انکو ہمیشہ سے ہی سب غور سے سنتے تھے ۔ وہ مشکل باتوں کو سادہ الفاظ میں اور اپنے منفرد انداز میں کچھ ایسے بتاتے تھے کہ انکی باتیں دل پر اثر رکھتی تھیں۔ ۔ تبھی جب انکا نام پکارا گیا تو ہمیشہ کی طرح جس پر جوش انداز اور بھرپور تالیوں کے ساتھ انکا استقبال کیا گیا وہ واقعی ہر کسی کے لیے قابل دید تھا۔ سپیکر سلمان نے روسٹروم پر آ کر سب کو سلام کہہ کر عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بات شروع کی، کل جہاں ہم نے مقصد کی تلاش پر بات کی تو آج ہم تکمیل مقصد پر نظر دوہراتے ہیں۔ غور کریں کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے نیا موبائل یا لیپ ٹاپ لیا ھو تو اسکے ساتھ چارجر نہ ھو ؟ کوئی ٹی وی، ڈی وی ڈی پلیئر ، کوئی فریج کوئی الیکٹرانکس کی پروڈکٹ جس کی پاور کیبل نہ ھو ؟ اچھا چلو ساتھ نہیں ملی تو کیا آپ ویسے ہی بیٹھیں رہیں گۓ یا بازار سے جا کر خود لے آئیں گۓ ؟ جب ھال سے جواب آیا تو سپیکر صاحب نے کہا ۔ ۔ جی ہاں ، اول تو سب ساتھ ہوتا ،اگر نہیں تو ہم کو ہر صورت لے کر آنا ہی ہوتا کہ تبھی چیز میں جان پڑتی ، وہ چلتی ہے اور اپنے ہونے کا مقصد پورا کرتی ہے۔ آپ کسی سپر اسٹور پر جائیں اور نظر دوہرائیں تو ہر چیز کوئی نہ کوئی فایدہ دیتی ہیں انسان کو۔ ۔ اور تمام چیزوں کو بنانے میں کوئی نہ کوئی انسان ضرور ہوتا ہے۔ یہ مائیک بھی کسی نے بنایا ، یہ پروجیکٹر بھی ، یہ مارکر بھی ، اس ھال میں موجود ہر چیز کا کوئی نہ کوئی موجد ہے اور ہر چیز کا اپنا اپنا ایک منفرد مقصد ہے۔ اب سوال یہ کہ انکو بنایا کیوں کسی نے ؟ کیا تھا اگر یہ مائیک نہ بنتا ، یہ پنکھے ، بلب ، گاڑی ، جہاز وغیرہ نہ بنتے، کیوں سوچا کسی نے ان پر ، کیوں غورفکر کی ، کیوں اپنا وقت ، دماغ لگایا؟ ۔ ۔ کس نے کہا انکو یہ سب کرنے کا ؟ کیا صرف اپنے لیے بنایا ؟ اپنی کمائی و روزگار کے لیے ؟ اپنی شہرت کے لیے؟ اور کیا یہ سب دنوں میں بن گیا؟ کیا کسی بھی چیز کی تکمیل فورا ھو جاتی ہے؟

یاد رکھیں کامیابی اور ناکامی میں بنیادی فرق "کوشش و انتظار" کا پڑتا ہے۔ جلد باز لوگ ایک دو بار کوشش و انتظار کر کے پیچھے ہٹ جاتے اورسمجھ دار لوگ صبر سے بار بار کوشش کرتے اور بار بار ناکام ہوتے مگر وہ پیچھے نہیں ہٹتے جب تک منزل مل نہ جائے۔ کیونکہ وہ جانتے کہ کسی بھی چیز کی تکمیل فورا نہیں ہوتی اور وقت لگتا کہ یہ اس کائنات کااٹل اصول ہے۔ خود رب نے پہلا بندہ تخلیق کیا تو اسکو بھی بہت عرصہ یونہی رکھا پھر کہیں جا کر اسے حضرت آدم بنایا۔ یاد رکھیں، رب تو کن سے فیکون کر سکتا ہے لیکن ہم انسان نہیں، تبھی اس نے ہمیں اس فرق کو بتانے اور سکھانے کو بہت سی نشانیاں بیان کیں مثلا اس نے خود اس کائنات کو تخلیق کرنے میں چھ دن لگاے، پہلے زمین مکمل کی پھر آسمان کی طرف گیا۔ غور کریں کہ اس نے اپنے مقصد کو پانے کے لیے کیسے پلان سے ، ترتیب سے اور وقت لگا لگا کر اس کائنات کی تکمیل کی، وہ چاہتا تو فورا کر سکتا لیکن نہیں۔ ۔ کیوں کہ انسان کو بتانا و سمجھانا مقصود تھا۔۔ پھر اپنے ہر نبی کو بھی فورا آسانیاں نہیں دی،پڑھ کے تو دیکھیں ذرا قرآن کو کہ کس قدر قربانیاں دینی پڑیں ہر پیغمبر کو ، پریشانیاں سہنی پڑیں، کتنا وقت لگانا پڑیں اور ان سب کے ساتھ کتنا غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے اپنے نبی کو چالیس سال کی عمر کے بعد نبوت ملی اس سے پہلے وہ کیا غار میں جا کر غور و فکر نہیں کرتے تھے؟ کیا پھر انہوں نے دین کی تکمیل کے لیے سالوں کوشش نہیں کیا؟ کتنی جنگیں، قربانیاں ، پریشانیاں اٹھایں انہوں نے، پڑھا ہے نا آپ نے؟ قرآن کو لے لیں، کیا یہ فورا نازل ھو گیا؟ کیا یہ تھوڑا تھوڑا اور وقفے وقفے سے نازل نہیں ہوا؟ نماز کی تکمیل ہر رکن کو بتدریج اور وقت دے کر ہی ہوتی ہے۔ آپ سجدہ میں قیام و رکوع کے بعد ہی جا سکتے ،ہر نماز اپنے مقرر وقت میں ہی ادا ہوتی، سورج مشرق سے مغرب کبھی فورا نہیں آتا، میں آپکو ہزاروں مثالیں دے سکتا سمجھانے کو اور آپ خود بھی غور کر سکتے رب کے کارخانہ قدرت میں اور سمجھ سکتے کہ تکمیل فورا بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی آسان ۔

لیکن ہمارا تو پہلا مسلہ ہی یہ ہے کہ ہم مقصد کی تلاش میں ہی عمر گزار دیتے اور تکمیل کو وقت ہی نہیں ملتا تبھی فورا نتیجہ چاہتے۔ ۔ ۔ جسکی بنیادی وجہ یہ کہ ہم زندگی کے مقصد کو ہزاروں دوسری کتابوں و باتوں میں تلاش کرتےرہتے مگر گھر میں موجود غلاف میں لپٹی کتاب کو چومتے، ہل ہل کر خالی لفظوں کو ثواب و اخروی جنت کے لیے تو پڑھتے لیکن اس کے اندر چھپے مقصد حیات کو نہیں ڈھونڈ پاتے اور نہ ہی اس زندگی کو جنت بنا پاتے۔ ۔ ۔ ہم سب آسان سی زندگی چاھتے بس کہ ایک ہی قسم کی آسان نوکری ، کاروبار ھو ، گھر ،شادی ، بچے وغیرہ بس۔ ۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ کمائی، دولت، شادی، اچھا سا پیشہ ہی ہماری منزل نہیں یہ تو صرف حصہ ہے آپکے اپنے مقصد کا۔ لاکھوں لوگ ہیں جو دل سے کام نہیں کرتے صرف مجبوری میں کرتے کمائی کی، اور ایسے لوگ ہی مزید پریشان ہوتے۔

خدارا خود پر غور کریں کہ ہر بندہ ایک خاص کام کی قابلیت لے کر آیا ہے اس دنیا میں اپنے ساتھ ، اسکو ڈھونڈیے پہلے۔ اور ضروری نہیں وہ فورا ملے ،کیا پتا آپکو بہت نوکریاں ، پیشہ بدلنا پڑے، بہت قربانیاں دینی پڑیں پھر کہیں جا کر ملے۔ بہت سی مثالیں ہیں جو پہلے ڈاکٹر وہ استاد بن گۓ ، جو استاد تھے وہ کاروبار میں آ گۓ، جو وکیل تھے وہ لیڈر بن کے قائد اعظم کہلاے اور دنیا کا نقشہ بدل گۓ ، جو ڈاکٹر تھے وہ قومی شاعر بن گۓ۔ ۔ ایسے ہی دوستوجب آپ اپنا وہ والا کام کرتے جس سے آپکی روح ہم آہنگ ہے تبھی آپ تکمیل کر پاتے اپنی اس کائنات و زندگی کے مقصد " اوروں کے کام آنا" کی ۔ کسی نے کوئی ایجاد کر کے اپنا حصہ ڈالا، کسی نے اپنے کام سے، الفاظ سے ، محنت سے، کسی بھی فیلڈ میں جو لوگ ابھر کر سامنے آتے وہ دوسروں کو دینے والے ہوتے اور یہ آپ اور ہم جیسے ہی ہوتے ہیں ، فرق یہ کہ انہوں نے اپنے اس ایک کام کو ڈھونڈھ لیا جو صرف انہی کے لئے بنایا گیا ہوتا. رب بھی پھر ایسے لوگوں کی مدد کرتا اور نئی سوچیں اور راہیں نکال دیتا۔ ۔

اب دیکھیں رب خود کہتا کہ سیر و سفر کیا کرو تاکہ ہم اسکی قدرت و نشانیاں دیکھ کر شکر بھی کریں ہے عبرت بھی پکڑیں ، اب ان گاڑیوں ، جہازوں کے موجد نے کمال نہیں کیا؟ رب کی اس بات پر عمل کرنے کو آسانیاں نہیں دی ؟ اب کیا انسان پوری دنیا نہیں گھوم سکتا ؟رب خود ہی فضل کرتا ان پر جو اپنی تلاش و تکمیل میں غور و فکر کرتے اور پھر عملی کوشش کرتے۔ اور جو لوگ صرف خود کو آسانی و آسائش دینے میں رهتے تو رب انکو پھر روزی و روٹی کے چکر میں ہی گھماے رکھتا اور ان کے پاس سواے شکووں و پچھتاؤں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ تو دوستو خدارا، آپ سب ہمت پکڑیں، رسک لینا سیکھیں، ڈھونڈیں خود کا شوق والا کام اور پھر اس وقت تک بار بار کوشش کریں جب تک جیت کر تکمیل نہ کر دیں۔

آخر میں یہ کہ اپنے مینوئل قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں ، صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار ،دل لگا کر، خود سے بھی غور و فکر کریں نوٹس بنا بنا کر ، جہاں سمجھ نہ آے تو مختلف تفاسیر سے مدد لیں ، ساتھ ساتھ دعا کریں رب سے ماتھا رگڑ رگڑ کر ، آنسو بہا بہا کر ، وہ ضرور آپکو آپکے اس شوق والے کام و مقصد سے آشنا کرے گا جس کو اپنا کر آپ نئی زندگی جینا شروع کریں گۓ اور پھر رب کے اس مقصد کی تکمیل کریں گۓ جسکے لیے آپ کو یہ زندگی عطا ہوئی ہے۔ ۔ ۔ وقت مختصر ہوتا ہے اس لیے فی الحال اتنا ہی، باقی آپ سوال و جواب والے سیشن میں مزید سلجھا سکتے خود کو۔ توجہ سے سماعت کا شکریہ، سپیکر سلمان نے لیکچر ختم کیا تو کچھ دیر پہلے کے خاموش و پرسکوں ھال میں دیر تک بجنے والی تالیوں کی گونج نے ایسا شور مچا دیا جو ہمیشہ سپیکر سلمان کا خاصہ اور ان کی نیک نیتی والی منفرد باتوں کا ثبوت بھی ہوتا۔

ارسل کا نیا شوق و فطری لگاؤ اپنے رنگ دکھا رہا تھا۔ اسکا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا اب۔ پورا دن سارا کے ساتھ میسیجز میں گزر جاتا اور رات دیر تک کال میں مصروف۔ اب تو اسکے پاس بیلنس بھی ختم ھو گیا تھا۔ اسکو سارا نے رات بتایا تھا ایک پیکج کے کروانے کا جس میں کافی فری منٹ بھی ہوتے اور لا تعداد میسیجز بھی ۔ آج اسکا یہی ارادہ تھا کروانے کا تبھی وہ اکیڈمی واپسی پر موبائل شاپ پر گیا۔ اس نے دکاندار کو ہی دو سو کا بیلنس ڈلوا کر مطلوبہ پیکج کرنے کا کہا۔ ۔ تھوڑی دیر کوشش کرنے کے بعد دکاندار نے کہا کہ یہ والا پیکج نہیں ھو رہا کہ آپکا نمبر پوسٹ پیڈ ہے اور یہ پیکج صرف پری پیڈ سم کے لیے ہے۔ ۔ ۔ تب ارسل نے ذرا گھبراتے ہوۓ پوچھا کہ کیا میرا نمبر پوسٹ پیڈ ہے؟۔ ۔ او بھائی یہ تمہارا اپنا موبائل نمبر ہے تو تمہیں خود پتا ہونا چاہے کہ یہ پوسٹ پیڈ ہے، دکان دار نے دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف ہونے کی وجہ سے ذرا جھنجلا کر جواب دیا

ارسل کو تواب پریشان سوچوں نے گھیرے میں لے لیا۔ ابو کو تو پتا چل جانا اب۔ ۔ بل میں تو سارا کا نمبر، راتوں کو ہونے والیں کال کے اوقات ، میسیجز کی اور فون کالز کی تعداد سب کچھ آ جانا ابو کے سامنے۔ ۔ ۔کیا کہوں گا پھر میں ابو کو۔ ۔ ۔ ان سبھی سوچوں کو بار بار سوچتے وہ جب گھر پہنچا تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ گھر سے ہو کر وہ سیدھا مسجد گیا تو نماز میں بھی سوچوں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ ۔ ایک ہی خیال اب کیا ہو گا ۔ ۔ کیا کروں میں۔ ۔ بل تو خیر ابھی آٹھ ، دس دن تک آنا ہو گا مگر آ تو جانا نا، پتا تو چل ہی جانا۔ ۔ ۔ انہی سوچوں کے ساتھ وہ اب مسجد سے گھر کی طرف روانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔

میاں ۔ ۔ ۔ او پتر میاں ۔ ۔ ۔سو گیا ہے کیا۔ ۔ ۔ چاچا جی نے میرے کمرے میں آ کر آواز دی تو میں نے چارپائی سے اٹھ کر جواب دیا ، نہیں چاچا جی بس ویسے ہی لیٹا ہوا تھا، ابھی سکول کا پڑھ کے فارغ ہوا تھا ، آپ بتائیں کوئی کام تھا کیا۔ ۔ ۔ بس پتر یہ دوائی پکڑ اور آنکھ میں ڈال دے میرے، باقی تو سارے ہی سو گے۔ ۔ چاچا جی نے میرے ساتھ والی چارپائی پر لیٹتے ہوۓ کہا۔ ۔ پھر میں نے آنکھوں والی دوائی ڈال دی۔ ۔۔ ۔اور سنا پتر پڑھائی ٹھیک جا رہی تیری ، کوئی مسلہ تو نہیں نا، پیسے وغیرہ چاہیے ہوں تو مجھے بول دیا کر یا چاچی اپنی کو، شرمایا نہ کر پتر اوے، میں تو ویسے ہی آجکل زمینداری میں مصروف ہوں تبھی تم سے ملاقات ہی نہیں ہو پاتی اتنی۔ ۔ چاچا جی نے دوائی پڑی بند آنکھوں سے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔ ۔ نہیں چاچا جی کوئی مسلہ نہیں ، پڑھائی بھی ٹھیک اور چاچی جی روزانہ خرچی بھی دیتی ہے۔ ۔ میں واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا چاچا اور چاچی جی واقعی بہت خیال رکھتے تھے میرا، تبھی میرا دل تھا کہ جلدی سے بڑا ہو کر کمانا شروع کروں اور ان دونوں کی اچھے سے خدمت کروں ۔ ۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ چاچا جی کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز سنائی دی، وہ یہیں سو گے تھے فورا، تھکن کی وجہ سے۔ تب میں بھی بلب بند کر کے اپنی چارپائی کی طرف سونے کے لئے چلا گیا۔

رات گہری ہوتی جا رہی تھی ، ارسل اپنی سوچوں میں گم ابھی تک پریشان تھا اسکا دل تھا سارا کو کال کرنے کا مگر یہ سوچ کہ پھر یہ وقت اور نمبر آ جانا بل پر، ادھر سارا تو کبھی کبھی ہی خود کال کرتی تھی وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے ورنہ ہمیشہ ارسل کو ہی کرنا پڑتی۔ ابھی پھر اس نے سوچ کر سارا کو صرف میسج کیا کہ وہ آج کال کرے چاہئے تھوڑی سی ہی کہ اہم بات کرنی۔ ۔ تھوڑی دیر بعد سارا نے کال کی تو حال احوال کے بعد جب ارسل نے اسے اپنی پریشانی بتائی تو آگے سے سارا کا بھی سن کر حال برا۔ ۔ او ارسل کے بچے مروا دیا تم نے مجھے بھی۔ ۔ عجیب بیوقوف ہو تم۔ ۔ ۔ یہ اور وہ.... پتا نہیں کیا کچھ بول رہی تھی سارا غصے میں ، ارسل تو حیران ہی رہ گیا اس کی باتیں سن کر ، تبھی سارا نے یہ کہہ کر کہ اب کوئی رابطہ نہیں کرنا مجھ سے فون بند کر دیا۔ ۔ ۔ ارسل جہاں پہلے پریشان تھا اب سارا کے رویہ سے اور زیادہ ہو گیا۔ ۔ ادھر سارا بھی پریشان ہوئی تھی اگرچہ وہ صرف ارسل سے ہی رابطہ پر نہیں تھی اور بھی کچھ لڑکے تھے جن سے وہ بات کرتی تھی مگر باقیوں کے پاس مختلف نمبروں کی کافی پری پیڈ سم ہوتی تھی۔ ۔ ارسل کی وجہ سے انکل کو سب پتا چل جانا اب۔ ۔ ۔ خیر اب جو ہونا ہے ہو جائے مگر اس نے دوبارہ ارسل جیسے بدھو سے کبھی بھی بات نہ کرنے کا پکا سوچ لیا تھا اور ساتھ ہی اپنی یہ والی سم بھی بلاک کروانے کا۔ ۔

اگلی صبح کالج میں فری پیریڈ کے دوران کینٹین واپسی پر چپس کھاتی سدرہ نے پوچھا... کیا ہے یار نمرہ ، تم روزانہ ایک ہی رنگ کا حجاب لے کر آتی۔ ۔ تم چلنا میرے ساتھ بازار، بہت ہی منفرد اور سٹائل کے حجاب آے ہوۓ۔ ۔ اسکی بات سن کرنمرہ مسکراتے ہوۓ بولی خیر ایک رنگ کا تو نہیں ہے، تین چار رنگ کے ہیں میرے پاس..... ہاں لیکن سادہ ہوتے رنگ برنگ کے نہیں، جیسے کے تم بتا رہی۔ ۔ تبھی تو کہہ رہی چل میرے ساتھ، میری طرف سے گفٹ ہی سہی، سدرہ نے پیار آفر دیتے ہوۓ کہا تو نمرہ بولی، بہت شکریہ محترمہ، دراصل حجاب اور عبایا مجھے امی ہی لے کر دیتی ہیں اور میری پسند کے ہی۔ ۔ نہ امی جی کو رنگ برنگ والے پسند اور نہ ہی مجھے، امی کہتی ہیں کہ گھر سے باہر لڑکیوں کو پردہ وحجاب وغیرہ ایسا لینا چاہیے جو ہماری زینت و حسن کو چھپا دے نہ کہ ایسا جو دلکشی اور بڑھا دے۔ ان پہناوں کا مقصد خود کو ڈھانپ کر نا محرم مردوں کی نظروں سے خود کو بچا کر رکھنا ہے نہ کہ رنگ برنگ کے پہن کر خود کو نمایاں کرنا۔ ایسے پہناوں سے تو میں اور سب کی نظروں میں آ جاؤں گی تب حجاب و عبایا کا مقصد تو فوت ہو گیا نا ۔ اس سے اچھا پھر میں ان کے بغیر ہی آ جایا کروں

اور تم نے بھی یہ نوٹ کیا ہو گا کہ جب ہم کسی اسٹور میں جاتے کچھ خریدنے، تو ہمیں شوخ ، رنگ برنگ اور سٹائل والی پیکنگ کی چیزیں ہی آنکھوں کو بھاتی ہیں نا ؟ اور پھر اکثر ہم وہی خریدتے چاہے اندر سے وہ اچھی نہ نکلیں۔ ۔ ہاں یہ تو آجکل بیچنے والوں کی مارکٹینگ کا طریقہ کار ہے اور ہر طرف یہی چلن چل رہا، سدرہ نے آگے سے جواب دیا ۔ ۔ تبھی تو سدرہ جی۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ میں اپنے اوپر بھی کوئی ایسی پیکنگ نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی کسی دلکش رپیر کی طرح حجاب و عبایا چڑھانا چاہتی کہ پھر میں بھی سب کی نظروں کو بھاؤں۔ ۔ ۔ میں کوئی نمائش والی چیز تو نہیں اور نہ ہی کوئی بکنے والی کوئی پروڈکٹ کہ ایسے پہناوے پہن کر اپنی مارکیٹنگ کرتی پھروں اور مرد مجھے ہوس بھری نظروں سے جانچتے پھریں ۔ ۔ مجھے تو بس رب کے حکم کے مطابق خود کو ڈھاپنا ہے تو سادہ و سلیقہ والا پہناوا ہی بہترین ہے کہ مجھے اپنی دل کشی، پیارا لگنا اور نظروں کو بھانا وغیرہ صرف اپنے محرم رشتوں خاص کر شوہر کے لئے ہی سنبھال کر رکھنا ہے۔ سمجھ آ گئی میری بات۔ ۔ نمرہ نے بات ختم کی تو سدرہ نے کہا یار پتا نہیں کہاں سے دماغ پایا تم نے ایسا، کون سکھاتا تمہیں ایسی باتیں۔ ۔ ۔ خیر چل چلیں پیریڈ ہونے والا بس اگلا۔ ۔

خیر ہے نا ارسل آج بڑا چپ چپ ہے، کیا ہوا ہے.... اب کیا اور کیسے بتاتا ارسل اپنے دوست کو اپنی پریشانی۔ ۔ اگرچہ وہ کل سے اپنے اندر دبا دبا کر بات کو خود بھی پریشان ہو رہا تھا اور اب اسے کوئی حل چاہیے تھا۔ ۔ تبھی اس نے سوچا کہ ریاض سے ہی مشورہ کر لے تو بہتر ہے۔ تبھی پھر اس نے ساری بات جواب میں بتا دی، تب اسکے دوست نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا یار ارسل وہ تمہیں یاد ہے اک بندہ جس کے ساتھ اکثر میری کینٹین میں بات چیت ہوتی، وہ لمبا سا جو بی اے کا سٹوڈنٹ ہے، اسکا کوئی کزن ہے اسی سم والی کمپنی میں، اس سے بات کر کے دیکھتے ہیں، ابھی بل تو آیا نہیں کیا پتا وہ کوئی ہیرا پھیری کر کے کالز کا ریکارڈ ڈیلیٹ کر دے۔ ۔ ۔ یار وہ بندہ تو مجھے بہت عجیب سا لگتا ہے تبھی میں خود اس سے دور رہتا ذرا۔ ۔ ارسل نے کہا تو ریاض بولا ۔ ۔ ۔ یار کون سا اس نے کھا جانا تمکو، میں ہوں گا نا ساتھ میں، اب یہ مسلہ بھی تو حل کرنا نا ورنہ تیرے باپ کو پتا چلا تو کیا عزت رہ جائے گی تیری بھی اور اس لڑکی کی۔ ۔ ۔ بس تو تیار رہنا کالج کے بعد ملتے اس سے۔ ۔ جواب میں ارسل نے تھوڑے ڈر اور ذرا امید سے سر ہلا کر اچھا کا اشارہ دیا۔ ۔ ۔

فاریہ بیگم گھر کے ضروری کام نبٹا کر اخبار پرھنے میں مصروف تھی کہ باہر بیل ہوئی پھر لان کی طرف سے رفیق چاچا کی آواز آئی، باجی جی ساتھ کے گھر والی باجی سکینہ آئی ہیں۔ ۔ تو فاریہ بیگم نے اٹھ کر اندر لاؤنج کا دروازہ کھول کر اپنی ہمسائی کو اندر بلا لیا۔ ۔ وہ بس ویسے ہی ملنے آئی تھی۔ ۔ چائے پینے کے دوران باتوں باتوں میں وہ کہنے لگی ، فاریہ تمہیں پتا وہ جو پھچلی گلی میں استانی رضیہ رہتی ، اسکی بیٹی کو طلاق ہو گئی ہے، آج صبح سامان واپس آیا لڑکی کا تو پتا چلا۔ ۔ ۔آگے سے فاریہ بیگم بولی ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ۔ اس کی ابھی تو شادی ہوئی تھی چھ مہینے ہی ہوۓ ہوں گے۔ ۔ میں گئی تھی شادی پر۔ ۔ ۔ رب اچھا کرے ان کے ساتھ یہ طلاق ہو جانا بھی بہت پریشانی کی بات ماں باپ کے لئے۔ ۔ ۔ بس فاریہ بہن ایسے تو نہیں ہو جاتی نا طلاق ، کچھ تو ہوا ہے نا ایسا ویسا، سنا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ابھی باجی سکینہ نے اتنی ہی بات کی تھی کہ فاریہ بیگم نے انکی بات درمیان سے ہی کاٹتے ہوۓکہا ۔ ۔ چھوڑیں سکینہ جی سنی سنائی باتوں کو ، لوگ تو پتا نہیں کیا کچھ کہہ دیتے ، ایک کی دو لگا کر بتاتے، ایسے حالات میں خاموشی اچھی ہوتی بس۔ ۔ ۔ رب کسی کی بہن بیٹی کو ایسی حالت میں نہ لاے۔ میں جاؤں گی انکے ہاں ، کیا پتا ان پر کیا بیتی ہو اور ہم یہاں فضول میں سنی سنائی باتوں کے پیچھے لگ کر پہلے سے ہی منفی سوچ پیدا کر لیں۔ ۔ ہماری اپنی بھی اولادیں ہیں سکینہ،رب کسی کو ایسے دکھ نہ دے۔ ۔ اللّه اس گھر کے معاملے آسان فرما کر اس لڑکی کا گھر دوبارہ سے آباد کر دے۔ باجی سکینہ نے آمین کہتے ایک بسکٹ اٹھایا اور اٹھتے ہوۓ کہا، اچھا پھر فاریہ میں چلتی مجھے ذرا مارکیٹ بھی جانا ابھی۔ ۔ فاریہ بیگم نے جہاں انکو خدا حافظ کہہ کراس لڑکی کا سوچتے اداس ہو گئی وہی پر باجی سکینہ کو فاریہ بیگم کو ہمیشہ کی طرح کوئی بات بتا کر مزہ ہی نہیں آیا کہ ذرا اچھے سے غیبت کرنے کا چسکا جو پورا نہیں ہوا یہاں پر، تبھی مارکیٹ کا بہانہ کر کے کسی اور گھر جانے کا سوچا جہاں وہ کسی اور کسے ساتھ اچھی طرح اس موضوع پر بات کر سکے

کالج کے بعد ریاض نے ارسل کو بتایا کہ میں نے اس بندے سے بات کر لی ہے وہ کہتا ہے کوئی مسلہ نہیں ہو جائے گا کام اور وہ اپنے کزن سے بات کر لے گا، تو ایسا کر اکیڈمی کے بعد شام کو میرے پاس آنا پھر اس کے پاس جائیں گے۔ ارسل کو تھوڑا حوصلہ ہوا پھر شام کو اکیڈمی سے جلدی چھٹی لے کر ریاض پاس گیا تاکہ گھر وہ روز والے وقت پر ہی پونہچ سکے. ریاض اسکو ایک نیٹ کیفے لے گیا اس بندے سے ملوانے کہ یہ کیفے بھی اسی بندے کا تھا۔ ۔وہ بندہ بہت پیار سے ارسل کو ملا لیکن ارسل کو دل میں انجانا سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ ارسل ابھی فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا۔ خوش شکل بھی تھا اور معصوم بھی، اسکو دنیا داری کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نا سمجھ اور اپنی فطری لگاؤ کی وجہ سے وہ غلطی پر غلطی کیے جا رہا تھا۔ ۔ ۔

حیات صاحب گھر واپسی پر فرید کی دکان پر چکن لینے کے لئے رک گے ، تب کوئی گاھک بھی نہیں تھا تو فرید جلدی جلدی اپنے کام میں لگ گیا۔ حیات صاحب اسکی پھرتی ، صفائی اور کام کے انداز سے بہت خوش ہوۓ تبھی کہا جوان مجھے پکا یقین کہ تم بہت جلدی ترقی کرو گے انشاءلله، جیسے جیسے تم خود کو تراش رہے ہو جلد ہی ہیرا بن جانا تم نے، اس جمعہ کو تیار رہنا پھر کلاس کے لئے میں لیتا جاؤں گا تم کو اچھا ۔ ۔ ۔ کیوں نہیں سر جی وہ تو میری بہتری کے لئے ہی ہے میں تیار رہوں گا جی مجھے اس دن بھی جا کر بہت حوصلہ ملا دوسرے لوگوں کو مل کر ، مجھے ضرور کامیاب ہونا ہے سر جی انشاءلله ، فرید نے جواب دیا اور تھوڑی دیر بعد ہی انکو مسکرا کر فارغ کر دیا چکن دے کر۔ ۔

ریاض کو نیٹ کیفے کے کاؤنٹر پر بیٹھا کر وہ بندہ ارسل کو کیبن کی طرف یہ کہہ کر چل پڑا کہ اندر بیٹھ کر اطمینان سے بات کرتے ہیں۔ ۔ کیبن میں جا کر بندے نے واہیات قسم کے گانے لگا لئے اور سگریٹ سلگاتے ہوۓ کہا کہ ریاض نے بتائی ہے مجھے تھوڑی سی بات مگر تم بتاؤ اب ذرا کھل کر۔ ۔ پھر ارسل نے بات بتانا شروع کی۔ ۔ پتا نہیں کیوں اندر سے وہ اس بندے سے ڈر بھی رہا تھا، اوپر سے نیٹ کیفے کا عجیب سا ماحول جہاں وہ پہلی بار آیا تھا. اسے لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہونے جا رہا ہے تبھی اس نے جلدی جلدی بات مکمل کر دی تاکہ وہ اٹھ جایے یہاں سے۔ ۔ ۔ ارسل کے بات ختم کرنے پر اس بندے نے کہا کہ کوئی مسلہ نہیں ، ہو جائے گا ریکارڈ ڈیلیٹ کہ میں نے اپنے کزن سے بات کر لی ہے مگر اس بہت مشکل کام کو کروانے کے لئے تمہیں میرا ایک آسان سا کام کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ اس بندے نے جھوٹ بول کر ایک ہاتھ سے سگریٹ کا کش لگاتےاور دوسرے ہاتھ سے ارسل کے گال تھپتپاتے ہوے کہا،.... کیا کام؟ ارسل نے ذرا ہکلاتے ہوے مختصراً پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔

ارسل نے جب وہ آسان کام سنا جو اس بندے نے ذرا قریب ہو کر کہا تو ارسل کے ہوش ہی اڑ گے اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ۔۔ ۔ ۔ میں نہیں کروں گا یہ کام، ارسل یہ کہہ کر اٹھا اور کیبن سے باہر نکلنے لگا تبھی اس بندے نے ارسل کا ہاتھ پکڑا اور بولا، او یار غصہ کیوں ہوتا ہے ، تیرا سارا ڈیٹا بھی ڈیلیٹ ہو جائے گا اور تو اس نیٹ کیفے میں بھی جب مرضی آ ، جتنا مرضی استعمال کر کوئی پیسا نہیں تیرے لئے۔ ۔ ۔ اس بندے نے اپنی گھٹیا غرض پوری کرنے کو لالچ دیا۔ ۔ ۔ مگر ارسل تو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اور بھاگنا چاہتا تھا وہاں سے تبھی اس سے بہانہ بنایا کہ اچھا کل کالج میں بتاؤں گا۔ ۔ ۔ ارے کالج میں کیوں یہ میں مس کال کرتا تیرے نمبر پر ، مجھے مس کال کر دینا بس میں سمجھ جاؤں گا، پھر ذرا اطمینان سے گھر ملیں گے میں خود پک کر لوں گا تمکو۔ ۔ ۔ اس بندے نے ذرا قریب ہو کر مس کال دیتے کہا۔ ۔ ۔ اچھا میں جاتا اب ، ارسل نے کہا ۔ ۔ ۔ لیکن یاد رکھ سالے اگر تم نے انکار کیا تو ، بل آنے سے پہلے ہی میں کال کا ریکارڈ تیرے باپ کو دے دوں گا ،سمجھ آئی ، اس بندے نے جاتے ہوۓ ارسل کو دھمکی بھی کرا دی۔ ۔ ۔ ارسل تو بس مزید نہیں رکا پھر ، کاؤنٹر پر بیٹھے ریاض کو بھی ملے بغیر باہر نکل آیا اور بائیک پر بیٹھ کربڑھی دھڑکن اور مزید پریشانی کے ساتھ گھر روانہ ہو گیا۔ ۔ ۔

چاچا جی میرے دسویں جماعت میں پاس ہونے پر بہت خوش تھے اگرچہ میں سی گریڈ میں ہی پاس ہوا تھا پھر بھی سائنس میں میٹرک کر چکا تھا ۔ ۔ ۔ چاچا جی اپنے سب ملنے والوں کو خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ "میاں" نے میٹرک سائنس میں پاس کیا ہے اور اب کالج میں بھی سائنس میں داخلہ لے گا۔ ۔ ان کے ذہن میں تھا کہ نمبر کم بھی ہوں پھر بھی سائنس والے کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری جلدی اور اچھی ملتی ہے۔ ۔ ۔ پھر کچھ ہفتوں بعد شہر کے گورنمنٹ کالج میں میرا داخلہ ہو گیا FSc میں، کہاں میں سکول دور میں روزانہ کے صرف تین یا چار روپیے لیتا تھا جیب خرچ کے مگر جس دن میرا پہلا دن تھا کالج جانے کا تو چاچا جی نے پاس بلا کر کہا ، یہ لئے میاں تیرے کالج میں پہلے دن کی خوشی میں تیرا انعام ، تب انہوں نے پورے دس روپے کا نوٹ دیا مجھے، جو واقعی تب میرے لئے زیادہ اور خوشی والا انعام تھا۔ ۔ ۔

ارسل نہیں جانتا تھا کہ وہ مزید ایسے پھنستا جائے گا ،اسے افسوس ہو رہا تھا ریاض سے بات کرنا کا ۔ پریشانی مزید بڑھتی جا رہے تھی، سارا کا نمبر بھی بند جا رہا تھا اوپر سے اس بندے کی بلیک میل دھمکی۔ ۔ ۔ پہلی دفعہ ہو رہا تھا اسکے ساتھ یہ سب اوپر نیچے۔ ۔ ۔ اس نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور کمرے میں جا کر سو گیا۔ ۔ سر بھی درد کرنے لگ پڑا تھا اور چہرہ بھی سرخ ہو چکا تھا ۔ ۔پریشان سوچوں کے ساتھ کب نیند آئی پتا ہی نہیں چلا۔ ۔ ۔

حیات صاحب عشا کی نماز ادا کر کے مسجد سے واپس گھر آے تو ارسل کا پوچھا ۔ ۔ فاریہ بیگم نے کہا کہ اکیڈمی سے تھکا ہوا آیا تھا آج، کہہ رہا تھا بھوک نہیں ہے ابھی، پھر ریسٹ کرنے کا کہہ کراپنے کمرے میں چلا گیا تھا ، ٹہریں ذرا میں دیکھتی اس کو اور بلا کر لاتی اگر جاگ رہا ہوا تو ۔ ۔ یہ کہہ کر وہ ارسل کی طرف گیں اور حیات صاحب نمرہ کے ساتھ باتوں میں لگ گئے ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد فاریہ بیگم کی واپسی ہوئی تو کہنے لگی ، سویا ہوا ہے مگر اسکا چہرہ بہت ریڈ اور جسم گرم ہو رہا ، لگتا ہے بخار ہو رہا اسے ۔ ۔ او ہو ۔ ۔ ۔ چلو پھر اٹھاؤ اسکو ، میں بھی چلتا ساتھ ، ابھی وقت ہے ،کلینک کھلے ہوں گے، دوائی لا دوں اسے ، پوری رات پڑی ابھی، یہ کہہ کر سب ہی ارسل کے کمرے کی طرف چل پڑے ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر سے فارغ ہو کر نمرہ اور فاریہ بیگم ارسل کو لے کر گاڑی کی طرف چل پڑے اور حیات صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ وجہ کیا ہوئی اس بخار کی جو اچانک ہی ہوا شام کو ، موسم بھی ایسا کوئی تبدیل نہیں ہو رہا، تب ڈاکٹر صاحب بولے کہ مجھے لگ رہا کہ کوئی دماغی بوجھ ہے اس پر ، جس وجہ سے پہلے سر درد ہوا پھر اسی سے بخار ، آپ ذرا گھر جا کر جب تھوڑا سیٹ ہو جائے تو پوچھئے گا ذرا پیار سے ۔ ۔ اور تو کوئی وجہ نہیں لگتی۔ ۔ ۔ حیات صاحب نے سر ہلاتے ہوۓ اچھا کہا اور سلام کر کے گاڑی کی طرف روانہ ہو گے جہاں بیچارہ ارسل بل میں ریکارڈ کالز ، سارا کا بند نمبر ، بندے کی گھٹیا فرمائش ، اسکا بلیک میل کرنے جیسے پریشان کن باتوں سے اپنے دماغ میں بوجھ لئے بخار میں چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا اور انہی سوچوں میں کہ کیا کرے وہ اب۔ ۔ ۔ کس سے کہے ۔ ۔ ۔ کہاں جائے ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی اسکے رب سے دعا کرتے آنسو بھی نکل آے جس کو فاریہ بیگم نے دیکھ کر پونچھتے اور پیار کرتے کہا، کچھ نہیں ہوا بیٹا ، جلدی اتر جائے گا بخار ، روتے نہیں ہوتے۔ ۔ ۔

رات کا کھانا سے فری ہو کر نمرہ پڑھائی کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی ، فاریہ بیگم کچن سمیٹنے میں لگ گئی ، ارسل نے بھی دوائی کھا لی تھی اور ڈاکٹر کے لگاے انجکشن سے اس کی طبیعت ذرا بہتر تھی اور سر درد بھی ختم ہو گیا تھا ۔ ۔ تبھی حیات صاحب نے ارسل سے کہا ، چل یار اٹھ آج تمھارے کمرے میں تمھارے ساتھ ہی لیٹتا تمہیں جھپی ڈال کر پھر دیکھتا کیسے نہیں اترتا بخار۔ ۔ حیات صاحب نے اٹھ کر ارسل کو بھی کھڑا کرتے کہا ۔ ۔ ۔ فاریہ میری چاے ارسل کے کمرے میں ہی لا دینا۔ ۔ حیات صاحب یہ کہتے ارسل کا ہاتھ پکڑتے اسکے کمرے کی طرف جانے لگے ۔
حیات صاحب نے پڑھائی اور دوسری ادھر ادھر کی باتیں کرتے ارسل سے پوچھا اور تمہارا موبائل کیسا جا رہا ہے ، بیلنس ہے ابھی کہ ختم کر دیا۔ ۔ چونکہ فاریہ بیگم اور خود انہوں نے اسکو موبائل پے مصروف رهتے دیکھا تھا تو تبھی انہوں نے موبائل سے ہی بات شروع کی اسکا دماغی بوجھ جاننے کو کہ ہو سکتا ارسل کسی فطری لگاؤ کا شکار ہو گیا ہو اور اسی وجہ سے یہ حالت ۔ ۔ ۔ جی ابو ، موبائل ٹھیک جا رہا اور بیلنس بھی ہے ، ارسل نے جواب دیا۔ ۔ اسی دوران اسکی امی بھی چائے دینے آ گئی تو حیات صاحب نے اشارے سے انھیں چائے رکھ کر واپس جانے کا کہا کہ وہ ذرا ارسل کو ایسے اکیلے میں ہی اعتماد میں لے کر اندر کی بات پتا کرنا چاھتے تھے۔ ۔ ۔اچھا دیکھ تو میرا بےحد پیارا بیٹا ہے ، بہت پیار کرتا تم سے تبھی تمہاری حالت کا پتا چل جاتا مجھے ، یہ سر درد پھر بخار ایسے ہی نہیں ہوا تمہیں ، چل شاباش بتا کیا بات ہے، حیات صاحب نے اسکے بالوں پے ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھا۔ ۔ ۔ ارسل تو پہلے ہی بہت پریشان تھا مگر اب ابو کے ایسے دوستانہ رویے سے حوصلہ مل رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ابو کو بتا دے سب سچ سچ ۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی اسے حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا۔ ۔ ۔ چل بھی شاباش بتا نا یار۔ ۔ ۔ ، اچھے بیٹے سب کچھ بتا دیتے ہوتے اپنے ابو کو کہ ان سے بہتر کوئی اچھا دوست بھی نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ یہ سن کر ارسل اٹھا اور حیات صاحب کے سینے لگ کر ، جھپی ڈال کر رونا شروع ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فرید اور چچا نعمت ہوٹل سے روٹی کہا کر واپس آ رہے تھے۔ دونوں کا گھر گاؤں میں تھا مگر روزی کے لئے شہر آے ہوے تھے، کھانا پینا باہر سے ہی کھاتے تھے اور رهتے اپنی دکان کے اوپر چوبارے میں ، چچا جی کل عصر کے بعد جانا میں نے حیات صاحب کے ساتھ جہاں پھچلی دفعہ گیا تھا ، فرید نے کہا تو چچا نے بھی کہا، اچھی بات ہے ، چلے جانا ، فایدہ کی بات ہی ہے ، تیرا کام میں دیکھ لوں گا فکر نہ کر ، لیکن جو سیکھ کے آیا کرے تو مجھے بھی بتا دیا کرنا میراکام بھی سیٹ ہو جائے۔ ۔ کیوں نہیں چچا ضرور ، مگر تو انکے بتاے پہلے کام تو کر ، سبزی صفائی سے ترتیب سے سجا سجا کر رکھ ، فرید نہ جواب دیا۔ ۔ ۔ میں صاف تو کر لیتا مگر سجاوٹ نہیں ہوتی ، چچا نے کہا تو فرید بولا ، یہ کون سی مشکل بات ہو چل میں کل بتا دوں تو پھر ویسے ہی کیا کرنا، چل ٹھیک ہے ، چل چابی نکال لے آ گیا اپنا ٹھکانہ ، چچا نعمت نے چوبارے کے قریب آتے ہوے کہا۔ ۔ ۔

ابو جی پلیز مجھ سے ناراض نہ ہونا ، پلیز میں آیندہ کبھی نہیں کروں گا۔ ۔ ارسل روتے روتے یہی بات کہتا جا رہا تھا، اچھا چل بتا نا، پتا تو چلے ہوا کیا ہے۔ ۔ ۔ نہیں کہتا کچھ یار۔ ۔ ۔ حیات صاحب نے اسکی کمر کو تھپکتے ہوے کہا تو ارسل نے آنسو پونچھتے ، نظر نیچی رکھتے بتانا شروع کر دیا، سارا سے رابطہ ، کالز ، میسیجز ، دوست کو بتانا ،اس بندے سے ملاقات ، دھمکی ، سارا کا نمبر بند ملنا، ارسل نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اور کچھ بھی نہیں چھپایا۔ ۔ ۔ حیات صاحب اطمینان سے ساری باتیں سن رہے تھے، جب ارسل نے بات مکمل کر لی وہ کچھ دیر خاموشی سے کچھ سوچتے رہے اور پھر تھوڑی دیر بعد بولے ، اپنے موبائل سے اس بندے کا نمبر ملاؤ جس سے تم نے نیٹ کیفے میں ملاقات کی تھی۔ ۔ ۔ ارسل حیران تو ہوا مگر چپ چاپ اس بندے کے دیے ہوے نمبر کو ملانے لگا۔
دوسری طرف جب اس بندے نے فون اٹھایا تو ارسل نے موبائل فورا ابو کے ہاتھ میں دے دیا ، تبھی وہ بولے ۔ ۔ ۔ جی جناب ،بہت بلیک میل کرنا آتا آپکو ، بہت دھمکاتے معصوم لڑکوں کو اپنے گھٹیا کام کے لئے ، میں ارسل کا ابو بات کر رہا ، اس نے بتا دیا مجھے سب کچھ، اور جو تم کالز کا ریکارڈ ڈیلیٹ کروا سکتے ان سب کا بھی طریقہ خود پوچھنے آؤں گا تمھارے نیٹ کیفے ، صبح ہونے دو ذرا ۔ ۔ ۔ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ آگے سے فون کاٹ دیا گیا۔ ۔ ۔ پھر حیات صاحب ارسل سے گویا ہوے، جی بیٹا جی یہ ایک کام تو ہو گیا ، وہ تمہیں اب تنگ نہیں کرے گا ، اگر کچھ کہے تو مجھے بتانا۔ ۔ چل اب تم آرام کرو ، صبح کالج سے چھٹی کر لینا ، کل ویسے بھی جمعہ ، میں نے بھی گھر ہونا تو باقی باتیں کل صبح انشاللہ ، حیات صاحب یہ کہا کر بیڈ سے اٹھے اور ارسل کو پیار کرتے کمرے سے باہر نکل گے ۔ ۔ ۔ پیچھے ارسل اتنا حیران ہوا ابو کے رویہ سے۔ ۔ کتنا سکوں میں آ گیا تھا اب وہ۔ ۔ ۔ سب ابو کو بتا کر دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔ جتنا مشکل اسے لگ رہا تھا وہ کتنا آسان ہو گیا۔ ۔ ۔ اسے بہت پیار آ رہا تھا ابو پر تبھی اس نےاس تکیہ کو جس پر ابو نے سر رکھا تھا بے اختیار زور سے جھپی
ڈالتے کہا ، آئی لّو یو ابو جی بہت زیادہ ۔ ۔ ۔ ۔


سپیکر سلمان اپنی پڑھائی والے کمرے میں اکیلے تھے اور معمول کی طرح ایک کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر غور و فکر میں مصروف تھے۔ مشکل باتوں کو سادہ الفاظ اور آسان مثالوں سے سمجھانا کچھ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ انکو خوشی تھی کہ آج کے نوجوان بھی سوچتے ہیں اور اچھے سوال کرتے ہیں مگر پھر جواب پانے کے بعد پہلے سوال کو حل کی عملی کوشش کرنے کی بجاے کسی دوسرے سوال کی کھوج میں لگ جاتے ہیں اور یہی وجہ تھی آج کل کے جوان بچوں میں ڈپریشن کی ، راستہ نظر نہ آنے کی، حد سے زیادہ سوچنا ، صرف سوالوں کو کھوجنا ، عملی کوشش نہ کرنا یا جلدی ہار مان لینا، لوگوں کی منفی باتوں میں آ جانا، یہ وہ چند باتیں تھیں جو سپیکر سلمان ہمشہ محسوس کرتے تھے نوجوانوں سے بات چیت کرتے ہوے۔ ۔ وہ چاھتے تھے کہ وہ بتا سکیں کہ ہر کام کا ترتیب و تسلی سے کرنا ، تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتے جانا ہی اچھا جیسے قرآن پاک کو ہر ایک رکوع پڑھ کر رکنا ، اسکا ترجمہ پڑھنا، اسکو سمجھنا ،اس پر عمل کرنا اور پھر اگلے رکوع کی طرف بڑھنا کچھ ایسا چاھتے تھے ہر نوجوان سے سپیکر سلمان۔ ۔ ۔ ۔

ارسل تم ابھی جوان ہو رہے ہو، بہت سی نئی نئی باتوں کا تمکو پتا چلنا ہے،جہاں تمھارے اندر جسمانی تبدیلیاں آنی ہیں وہیں پر تمہاری سوچوں ، احساسات و جذبات میں بھی بدلاؤ آنا۔ ۔ دل کچھ چاہے گا کرنا اور دماغ کچھ کہے گا۔ ایک تجسس پیدا ہو گا ان تمام تبدیلیوں سے۔ ۔ اوپر سے آجکل کے ماحول میں جہاں لڑکا ، لڑکی کا ملنا جلنا عام بنتا جا رہا مخلوط تعلیم و نوکری کی صورت میں ، ڈراموں، فلموں، موبائل یا انٹرنیٹ کی وجہ سے وہاں پر لڑکا لڑکی کا آپس میں فطری لگاؤ عام بات بن گئی ہے۔ ۔۔ حیات صاحب لان بیٹھے ارسل کے ساتھ بات کر رہے تھے۔ ۔ یاد رکھو، تمہارے لئے لڑکی ایک بہن اور ماں کی صورت میں گھر میں موجود ہے۔ اسکے علاوہ جو رشتہ تمہارا کسی لڑکی کے ساتھ ہو گا وہ بیوی کا ہوگا اور پھر بیٹی کا۔ ۔ ۔ تم میں ایک جنسی جذبہ بھی موجود ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ جوان ہوتا ہے اور وہ اظہار مانگتا ہے پہلے سوچوں کی صورت میں، پھر باتوں و خوابوں اور آخر میں عملی صورت میں ۔ ۔ اور اسی جذبے کی تمام خواھشات کو پورا کرنے کو شادی جیسا بندھن موجود ہے۔ ۔ ۔تبھی حیات کے موبائل پر کال آ گئی اور وہ اس میں مصروف ہو گے۔ ۔ ۔

میں کالج میں آ تو گیا لیکن یہاں کا ماحول سکول کے ماحول سے مختلف تھا، لڑکوں کی مرضی پیریڈ لے یا نہ لیں، مختلف سیاسی تنظیمیں بھی موجود تھیں، کبھی کوئی جسلہ کر رہا ، کہیں لڑائی و جھگڑا ، عجیب سے حلیہ کے بدمعاش قسم کے لوگ بھی آتے، کوئی گاڑی میں آتا کوئی بائیک پر کوئی سائیکل پر اور بہت سے میرے جیسے پیدل ، عجیب دی دنیا تھی یہاں، میرے سوچنے اور سیکھنے کو۔ ۔ چاچا جی بھی سمجھایا کرتے تھے کہ میاں ، صرف پڑھائی پر توجہ دینا، کسی تنظیم ، کسی جھگڑے ، گروپ بازی میں نہیں پڑنا۔ ۔ ۔ تمام پیریڈ اٹینڈ کرنا، سیدھا گھر آنا، برے ، بڑی عمر اور بڑی کلاس میں پڑھنے والوں سے دوستی نہیں کرنا ۔ ۔ ۔ میں سب پے عمل کرتا تھا بس مجھے دو چیزوں کی احساس کمتری ہوتا تھا کہ کاش میں بھی بائیک پر ذرا سٹائل کے ساتھ کالج آیا کروں اور دوسرا میرے پاس جیب خرچ زیادہ ہو کہ ہر روز کینٹین پے جا کر کھایا پیا کروں مگر یہ دونوں باتیں کالج کی تعلیم تک کبھی بھی پوری نہیں ہوئی۔ ۔ ۔

کال ختم ہونے پر حیات صاحب پھر مخاطب ہوے ارسل سے ، تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ لڑکا ، لڑکی کو آپس میں پیار، لگاؤ یا کشش محسوس ہونا فطری بات ہے۔ ۔ یہ دبانے سے اور بڑھتی ہے اور کسی کے سمجھانے سے سمجھ نہیں آتی آجکل جب تک چوٹ نہ لگے۔ ۔ ۔ ہمارے دور میں لڑکا لڑکی کا آپس میں اتنا آسان اور آزادانہ رابطہ ممکن نہیں تھا جو آجکل موبائل و انٹرنیٹ سے بہت آسان۔ ۔ ۔ تبھی ہم اس طرح کے فطری لگاؤ کا شکار کم ہوتے یا اس وقت ہوتے جب شادی کی عمربھی ہوتی تو ہمارے والدین پھر شادی بھی اسے سے ہی کر دیتے اور اکثرلڑکا لڑکی دونوں برائی سے بچ کر ایک اچھے رشتے میں بندھ جاتے تھے۔ ۔ تم سے جو ہوا یہ ایک فطری عمل تھا، جس دن سارا کو تم نے پہلی دفعہ دیکھا تھا تب سے میں تمھارے اندر کی تبدیلی کو سمجھ گیا تھا اور موبائل کی بھی اجازت دے دی تھی لیکن خود لا کر دیا وہ بھی پوسٹ پیڈ سم کے ساتھ کہ باپ ہونے کے ناطے تمہاری تربیت کے لئے تم پر کنٹرول رکھنا میری ذمہ داری ہے اور وہ بھی آجکل کے ماڈرن ٹیکنالوجی کے حساب سے۔ ۔ پہلے مجھے خود علم ہونا چاہیے کہ تم کیسے اور کس راہ سے بری لائن پر جا سکتے تبھی میں اچھا قابو پا سکتا تم پر، اگر میں سادہ اور نیے دور کے حساب سے خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھوں گا تو اپنی تمہاری اور نمرہ کی ٹھیک رہنمائی نہیں کر پاؤں گا. . .

خیر جو ہو گیا اسے بھول جاؤ ، تمہاری پہلی نہ سمجھی کی غلطی سمجھ کر ناراض نہیں تم سے ، مگر ذہن میں اچھی طرح بیٹھا کو کہ ایسا دوبارہ نہ ہو، تمکو خود عقل آ جانی چاہیے اب، کیا ملا دوستی کر کے سواے وقت و پڑھائی کا نقصان کر کے ۔ ۔ ایسی دوستی جسکا انجام شادی نہ ہو وہ اکثر برائی کے راستے پر لے جاتی ہے۔ ۔ تم ابھی صرف اچھے سے پڑھو ، لڑکیوں پے توجہ نہیں دینی، کیا تمہیں اچھا لگے گا کہ ایسے ہی کوئی نمرہ سے بھی دوستی کرے یا نمرہ کسی سے ایسے راتوں کو موبائل پر لڑکوں ساتھ باتیں کرے ؟ ارسل کے نہ کے اشارے پر حیات صاحب بولے تو تم بھی ذرا شرم کرنے آگے سے۔ ۔ لڑکیوں کو عزت و احترم دینا اور نظریں جھکا کر رکھنا، اور اگر کبھی بات کرنی پڑ جائے تو دل میں حیا لاتے اچھی نظر سے دیکھنا یہ یاد رکھتے کہ تمہاری بھی ایک بہن ہے اور تم نہیں چاہو گے کہ اسے کوئی بری نظر یا دوستی کے لئے آگے بڑھے ، سمجھ آ گئی ہے نا یہاں تک پتر جی، ارسل نے جب جی ابو کہا تو حیات صاحب نے اٹھتے ہوے اسکے گال تھپتپاتے ہوے کہا ، شاباش بہت پیارا اور سمجدار بیٹا ہے میرا، چل اب جمعہ کی تیاری کرتے ہیں ، باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں ، آج ذرا تمھارے پلے باندھ دوں کام کی باتیں تاکہ میرا بیٹا ابھی سے خود کو مضبوط کردار والا بنا کر میرا فخر بن سکے ۔ ۔

یہ بات نوٹ کر لیں کہ کسی بھی کام، خاص کر دکان داری و کاروبار میں جو چھوٹا ہو یا بڑا، نیا شروع کیا یا پہلے کو بڑھانا، اس میں کامیابی کے تین بہترین و بنیادی اصول ہیں، پہلا ہے ایمان داری.... اپنی محنت میں، اپنے قول و اقرار میں، اپنی دکان کے مال میں ، تول میں مطلب کہ ہر کام کا آغازو اختتام ایمان داری سے ہو۔ ۔ ۔ دوسرا اصول ہے.... کریٹویتی مطلب منفرد پن، آپکی دکان کی آرائش ، آپکا مال ، آپکے مال کی سجاوٹ، چیزوں کی پیکنگ ، آپکی گاہک کے ساتھ لیں دین میں کچھ ایسا اچھا و منفرد ہو جو آپ کو باقی دکان داروں سے ممتاز کرے۔ ۔ ۔ تیسرا اور آخری اصول ہے مارکیٹنگ مطلب آپکے کام، دکان ، مال کی لوگوں کو جانکاری و آگاہی ، جتنا لوگ زیادہ جانے گے اتنی ہی پہچان بنے گی، آجکل کے دور میں جہاں مسابقت بازی بہت ہے وہاں بار بار مارکیٹنگ کی ضرورت ہے اور وہ بھی منفرد انداز میں۔ ۔ ۔ حیات صاحب اپنی اکیڈمی کی کلاس روم میں سامنے بیٹھے ہوے مختلف چھوٹے دکان داروں سے مخاطب تھے۔ ۔ ۔ اب آپ کو غنی صاحب ان تینوں اصولوں کو ہر کسی کے کاروبار کے لحاظ سے مزید سمجھائیں گے تاکہ آپ سب اپنے وسائل میں رہتے ہوے ان کو اپنا سکیں۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہوے حیات صاحب کلاس روم سے باہر آ گے اور موبائل پر کسی سے رابطہ کو نمبر ملانے لگے۔ ۔ ۔

فاریہ بیگم پچھلی گلی والی ہمسائی استانی رضیہ کے گھر موجود تھیں جن کی بیٹی کو ابھی طلاق کا غم سہنا پڑا تھا۔ ۔ رضیہ بی بی کو فاریہ بیگم کی اچھی عادات کا پتا تھا تبھی وہ فاریہ بیگم کو اعتماد سے طلاق کی وجہ سچ سچ بتا رہی تھیں.... بس بہن شادی سے پہلے ہم نے جتنی تحقیق کی تھی اس حساب سے تو سب اچھا تھا مگر شادی کے بعد لڑکے کا پتا چلا کہ اسکے اور لڑکیوں سے تعلقات تھے، اپنی گھر کی بیوی کا کوئی خیال نہیں، نہ اسکو کوئی خرچہ دے نہ ہی توجہ دے، سسرال والے کو بھی سب معلوم مگر اپنے بیٹے کی اچھی کمائی گھر لانے کی وجہ سے اسی کا ساتھ دیتے تھے۔ ۔ بیٹا بجاے اپنی کمائی اپنی بیوی پر لگانے کے دوسری عورتوں پر لٹا دیتا ، پوچھو تو یہی جواب کہ میری مرضی... یا یہ کہ تم خود بھی پڑھی لکھی تو جاؤ کہیں نوکری کر کے اپنا گزارا خود کرو ، بس بہن ہم نے تو لڑکے کی بینک میں اچھی نوکری دیکھی ،اسکا اچھے و بڑے لوگوں ساتھ اٹھنا بیٹھنا دیکھا ، شریف ماں باپ دیکھے مگر فاریہ ایسی بھی کیا شرافت جس میں اپنی اولاد کی تربیت اور کوئی روک ٹوک ہی نہ کی جائے ۔ ۔ بس ایک رات دونوں میاں بیوی کا جھگڑا ہوا تو شوہر نے غصے میں تین الفاظ نکالے اور رشتہ ختم ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں اسی رات کو فون آ گیا تھا۔ ۔ ۔بس ہم اگلے دن چپ چاپ جا کر اپنی بیٹی لے آے۔ ۔ ۔ اب طلاق ہو گئی تو لوگوں کی باتیں ہی نہیں رکتی، کبھی کچھ کہتے اور کبھی میری بیٹی کو ہی الزام دیتے۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہوے استانی رضیہ رو ہی پڑیں تو فاریہ بیگم کے بھی آنسو نکل پڑے۔ ۔ ۔

مجھے ایک دن تب حیرانی ہوئی جب میرے کالج کے ایک کلاس فیلو نے پوچھا. میاں....تیری یاری ہے کسی لڑکی کے ساتھ....تب مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ لڑکی صرف ماں، بہن، بیوی، چاچی یا کوئی کزن ہی نہیں ہوتی بلکہ دوست بھی ہو سکتی ہے...... لیکن میں نے آج تک اس حوالے سے نہ اپنے خاندان میں کسی کو ایسے رشتے میں دیکھا تھا نہ ہی کسی لڑکی کو اس نظر سے دیکھا تھا تبھی میں اس سوال سے حیران بھی تھا اور پریشان بھی....جب کلاس فیلو نے میرا جواب " نہیں" میں سنا تو کہا....مجھے پہلے پتا تھا کہ نہیں ہو گی.... نہ ہی تو اچھا کپڑے پہنتا ہے، نہ ہی سجتا سنورتا ہے تو کیسے پھنسے گی کوئی لڑکی ترے ساتھ... اب یہ سب باتیں نئی تھی میرے لئے، لڑکی....یاری....سجنا و سنورنا....لڑکی کا پھسنا.....یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا مجھے سن کر.... تبھی میرا کلاس فیلو مجھے سوچوں میں دیکھ کر ہنستے ہوے یہ کہتے ہوے اٹھ کر چلا گیا کہ ...جا وے میاں ، تو بھی "بھولوں" ہے بس....

ھال میں مکمل خاموشی کا سماں تھا اور صرف سپیکر سلمان کی گرجدار آواز آ رہی تھی جنہوں نے پانی کا ایک گھونٹ لے کر دوبارہ بات شروع کی کہ۔ ۔ میری التجا ہے آپ سب نوجوانوں سے خدارا اس بات کو سمجھیں کہ اداسی و مایوسی کا ہونا اور ان کا خود پر طاری کر لینا، ان دونوں حالتوں میں فرق ہے۔ ۔ مایوسی ہونا، اداسی ہونا ایک فطری بات ہے اور ہر بندہ کو اس حالت کا بہت دفعہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ہم انسان کمزور ہیں اور یہ والے احساسات آ جانا غیر معمولی نہیں اور یہ بات ہمارے تخلیق کار کو بھی پتا تبھی اس نے کہا کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ ۔ ۔ لیکن ہم کیا کرتے اس فطری احساس کو خود پر خود سے طاری کر لیتے ، خود کو تنہا کر لیتے، اداس گانے سنتے، اداس شاعری پڑھتے، چپ ہو کر سوچوں میں گم ہو جاتے، نیند کی گولیاں کھاتے۔ ۔ ۔ مگر اس حل کی طرف نہیں جاتے جس کو رب نے خود بتایا، ہر پریشانی کا حل کہ " مدد چاہو ساتھ صبر اور نماز کے " مایوسی میں اداسی میں اکیلے ہو کر چپ چاپ ہو جانا اور منفی سوچیں پالتے رہنا مزید مایوس بنا دیتا ہے۔ ۔ آپکو پتا ہے نہ ہم کیا کرتے ہیں نماز میں ۔ ۔ ۔ ؟ ہم اٹھتے ہیں ، حرکت کرتے ہیں، زبان سے ادائیگی کرتے ہیں ، بولتے ہیں، دعا کرتے ہیں، تب ہماری دوسری سوچیں بکھر جاتی ہیں پھر کہ ہم صرف رب کو فوکس کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس سے بات کر رہے ہوتے رو رو کر۔ ۔ ۔ یہ سب عمل ہمیں بتاتا ہے کہ کسی بھی پریشانی ، اداسی یا مایوسی میں ہمیشہ کے لئے بیٹھ نہیں جانا ، ہمت نہیں ہارنی، کھڑے ہونا ہے ، راستہ تلاش کرنے کا ہے ، ٹہرنا نہیں ہے، اس بارش کے صاف برستے پانی کی طرح جب وہ راستوں میں کھڑا ہو جائے تو خراب ، بدبودار ہو جاتا ہے ، تب ہم اٹھتے ہیں اسکو کسی راستے سے نکل دیتے ہیں راستہ صاف کرنے کو اور جو تھوڑا بہت رہ جاتا ہے اسے رب کا نظام ہوا و سورج خشک کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔

اس دنیا میں مایوسی و اداسی کی سب سے بڑی وجہ موت ہوتی ہے ۔ ۔۔چاہے یہ کسی انسان کی صورت میں ہمارے کسی پیارے کی ہو یا ہمارے جسم کے کسی اہم حصے آنکھ ، ہاتھ ، پاؤں ، ٹانگ وغیرہ کےضایع ہونے کی صورت میں ہو۔ ۔ ۔ ان دونوں صورتوں میں مایوسی و اداسی کی حالت بہت شدید ہوتی ہے جو واقعی میں کافی ہمت و وقت کے ساتھ ختم ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام پریشانیوں کی مایوسی و اداسی کی حالت آپکے اپنے ہاتھ میں جتنا مرضی طویل کر لیں۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سپیکر سلمان نے یہ کہہ کر وقفہ لیا ہی تھا کہ انہوں نے دل پے ہاتھ رکھا ، چہرے پر تکلیف کے اثرات ظاہر ہوے اور لڑکھراتے ہوے روسٹروم کے پاس ہی نیچے گر گے ۔ ۔ ۔ پورے ھال میں کھلبلی مچ گئی اور انتظامیہ کے لوگ بھاگ کر انکے پاس اسٹیج پر گے۔ ۔ ۔ ۔

فرید اکیڈمی سے فارغ ہو کر حیات صاحب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اپنی دکان پر جا رہا تھا۔ ۔ ہاں تو نوجوان کیا سیکھا پھر آج کی کلاس میں، کیا بتایا غنی صاحب نے تمھارے کام کے حوالے سے۔ ۔ ۔حیات صاحب کے پوچھنے پر فرید بولا کہ بہت مزہ آیا سر. بہت کام کے طریقے بتاے انہوں نے ، مجھے کہا کہ اپنی چاچا کی دکان ایک ہی سمجھ کر چلاؤ، اسکو بھی اپنا سمجھ کر اچھا کروں، جو چکن لینے آے وہ سبزی بھی ہمیں سے لے ،ساتھ میں انڈے رکھنے کا بھی کہا ، اور مشہوری کے لے پمفلٹ بھی چھپوانے کو کہا جو ہر گاھک کو اور پورے محلے میں بانٹنیں ہیں۔ ۔ ۔ فرید نے بات ختم کی تو حیات صاحب بولے کہ بہت اچھا مشورہ ہے تم حساب لگاؤ کہ کتنا خرچ آنا انڈے رکھنے میں ، پمفلٹ میں جو لکھنا ہے وہ میں بتا دوں گا تمکو، جتنا خرچ ہو گا وہ بھی میں دے دوں گا تم پھر تھوڑا تھوڑا کر کے مجھے واپس کر دینا اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ بہت شکریہ سر جی بہت بہت مہربانی ، میں چاچا جی کی بھی دکان اب اچھے سے سیٹ کرتا۔ ۔ ۔ فرید نے خوش ہوتے ہوے تشکرانہ لہجے میں جواب دیا۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر میں اسکی دکان آ گئی اور حیات صاحب اسے اتار کر اپنے گھر روانہ ہو گے۔ ۔ ۔

اسٹیج پر بہت لوگ جمع تھے، سپیکر سلمان بےہوشی کی حالت میں نیچے پڑے ہوے تھے، پھر کچھ لوگوں نے جب انکو اٹھایا تو سپیکر سلمان کی آواز آے ، چھوڑ دیں مجھے پلیز ۔ ۔ ۔ کھڑا ہونے دیں ۔ ۔ ۔ تب وہ آرام سے کھڑے ہوے اور کپڑے جھاڑتے ہوے اسٹیج پر موجود لوگوں کو جانے کا اشارہ کرتے روسٹروم پر آے اور بولے، پہلے تو شکریہ کہ آپ بھاگم بھاگ میری طرف آے، ایسے خیال کرنے کا شکریہ ۔ ۔ ۔ مجھے آپ سب کو اک بات سمجھانے کو یہ (demonstration) مثال دینی پڑی ہے کہ۔ ۔ ۔ کوئی کیسا بھی ہو ، جہاں بھی ہو، موت آ ہی جانی ہے، موت یہ نہیں دیکھتی کہ یہ امیر ہے غریب ہے ، اچھا ہے برا ہے ، اچھے کاموں میں ہے یا برائی میں مصروف ، خوشی میں ہنس رہا ہے یا اداسی میں رو رہا ہے.... بس ایک بہانہ بننا اور ختم۔ ۔ ۔

اب آپ غور کریں میں مر جاتا تو میرے پاس دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی چانس نہیں تھا ۔ ۔ ۔میرے سوچیں ، باتیں، لکھنا ، بولنا سب ہمیشہ کے لئے ختم ۔ ۔ ۔ آپکو کیا ملتا یہاں ایک مردہ جسم ، میرے کپڑے ، میرے پرس میں موجود چند ہزار روپے، میرا فون بس۔ ۔ ۔ ۔ لوگ مجھے نہلاتے ، جنازہ پڑھتے ، دفناتے اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سمیت سب کے ساتھ ایسا ہونا ۔ ۔ ۔ میرے مرنے سے کس کو فرق پڑنا ۔ ۔ ۔کیا آپ سب کو ؟ میرے خاندان کو ؟ چلو پڑا تو کیا پڑا؟ بھوک نہیں لگے گی ؟ نیند نہیں آے گی ؟ اپنی پڑھائی ، نوکری و کاروبار چھوڑ کر مجھے یاد کرتے گھر بیٹھ جائیں گے ؟ کائنات کا نظام رک جانا کیا؟ کیا کسی کو بھی اداسی ہمیشہ کے لیے ہونی ۔ ۔ ۔ ۔نہیں ، نہیں ، بلکل بھی نہیں ۔ ۔ یقین کریں اگر مرنے سے کسی کی فرق پڑنا تو تو صرف " مجھے" ۔ ۔ ۔ رب نے جو مجھے یہ زندگی دی ، مجھے شعور دیا ، رہنمائی کے لئے قرآن دیا ، سمجھانے کو نبی دیا۔ ۔ تو کیا میں نے ان تمام سے فائدہ اٹھا کر زندگی کا حق ادا کیا یا نہیں۔ ۔ ؟ جب پتا کہ زندگی ایک دفعہ ملتی اور امتحان کے لئے تو میں نے اس کی قدر کرتے ، آزمائش کو امتحان سمجھا کہ نہیں۔ ۔ ! رب نے جو مجھے " احسن تقویم " بہترین ساخت کا بنایا تو کیا ہمت و کوشش ، پریشانی و مشکلات سے نجات ، مایوسی و اداسی میں اس کا بہترین استعمال کیا کہ نہیں۔ ۔ ۔ ؟ خدا کی قسم اگر میں نے رب کی دی ہوئی تمام صلاحیتوں کا استعمال مکمل سے نہیں کیا تو بہت پچھتاؤں گا میں جب قبر میں میرا صرف ڈھانچہ رہ جانا ۔ ۔ جب مجھ سے ان تمام نعمتوں کا پوچھا جائے گا اور تب احساس ہو گا ان تمام بن مانگی عطا کی گئی نعمتوں کا اور تب دنیا کی ہر پریشانی ، اداسی ، مایوسی قطرے جتنی کم لگنی ۔ ۔ ۔ تب مجھ جیسے گنہگار ہی حسرت سے التجا کریں گے یا رب ایک موقع اور ۔ ۔ ۔ صرف ایک اور چانس ، مگر تب صرف وقت حساب ہو گا اور جس نے زرہ برابر بھی نیکی کی اسکو بھی دیکھے گا اور جس نے زرہ برابر بھی برائی کی اسکو بھی ۔ ۔ ۔

میری باتیں توجہ سے سننے کا بہت شکریہ ۔ ۔ پھر صرف یہی کہتے معمول سے ہٹ کر سنجیدہ انداز میں سپیکر سلمان نے لیکچر ختم کیا اور اسٹیج سے نیچے جانے لگے ۔ ۔ تبھی انکی باتوں میں گم لوگوں کو ہوش آیا اور ہمیشہ کی طرح بھرپور تالیوں کی ایک گونج تھی جس میں ایک اضافہ یہ تھا کہ سب کھڑے تھے اور اکثر کی آنکھیں بھی پرنم تھی۔ ۔ ۔

امی جی ایک بات تو بتائیں یہ مرد ہم لڑکیوں کو اتنا گھور کے کیوں دیکھتے ہیں انکی اپنی مائیں ، بہنیں نہیں ہوتی جو ایسے تاڑتے رہتے ہیں، اب تو جو نقاب و حجاب میں ہو اسکو بھی نہیں چھوڑتے ۔ ۔ نمرہ نے کالج واپسی پر گھر لنچ کرتے اپنی امی سے پوچھا تو فاریہ بیگم بولی کہ تمہیں کیسے پتا کہ وہ ایسے گھورتے ہیں تو نمرہ فورا بولی، امی پتا چل ہی جاتا جب کوئی ایسے گھورتے نظر آ جاتا، جب نظریں مل جاتی۔ ۔ ۔ دیکھو نمرہ ٹھیک ہے کہ مرد غلط کرتے یہ سب ، انکو رب کا حکم ہے نظریں جھکا کر رکھنے کا مگر تم یہ بتاؤ کہ تم نے بھی تو نظریں اٹھا کر، سامنے یا ادھر ادھر دیکھا تو مردوں کے اس کام کا پتا چلا نا۔ ۔ ۔ چلو مرد نے برا کیا تو تم نے اپنی نظر کی حفاظت کیوں نہیں کی۔ ۔ ۔دیکھ نمرہ اچانک نظر پر جانا اور بات ہے مگر تم جب ارادتاً ایسے دیکھو گی تو ہر مرد ہی تمہیں ایسے دیکھتے نظر آے گا۔ میں نے خود ایسی کئی لڑکیاں دیکھیں جو کالج ، بازار وغیرہ جاتے رکشہ، وین یا پیدل ادھر ادھر چہرہ گھما کے دیکھتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔کیا کام ایسے بلا وجہ دیکھنے کا۔ ۔ ۔ تم خود آزما کر دیکھ لو اگر تم خود اپنی نظر نیچی رکھو تو تمہیں پتا ہی نہیں چلنا چاہیے کون دیکھ رہا ، گھور رہا...جو مرد ایسا دیکھتا ہے تو یہ اسکا بے ہودگی ہے، کس کس کو روکیں گے، برا بھلا کہیں گے... الله ایسے مردوں کو ہدایت دے بس... تم خود کی نظر کی حفاظت کیا کرو اور اچھے سے ڈھانپ کر نکلا کرو خود کو بس ۔ ۔ سمجھ آ گئی ہو تو چل شاباش یہ برتن اٹھا کر کچن میں رکھ دو اور چائے بنا لو پھر تمہیں ایک چیز دکھاؤں جو تمھارے لئے بازار سے لے کرآئی میں ۔ ۔ ۔ فاریہ بیگم نے بیڈ پر لیٹتے ہوے کہا۔ ۔ ۔

جب میرے کالج فیلو نے لڑکی کے ایک نیے رشتے " دوست" سے متعارف کروایا تو میرے اندر ایک تجسس پیدا ہوا کہ مجھے بھی ایسی دوست بنانا ہے، اسکے لئے مجھے اچھا ، بننا سنوارنا بھی ہے تو میں کرنے کو تیار تھا۔ ۔ ۔ چاچا جی سے کہہ کر دو تین نیے سوٹ سلوا لئے ، ایک اچھی سی جوتی بھی۔ ۔ ۔ اب خیال کہ لڑکی کون ہو سکتی ایسی جس سے دوستی کر سکوں۔ ۔ ۔ ہمسایہ سے لے کر قریب و دور کے تمام رشتے داروں کی لڑکیوں پے غور کیا تو اپنی ایک کزن، ماموں کی بیٹی پر نظر ٹہری جو رہتی بھی قریب کے علاقے میں تھی۔ ۔ ۔ پھر جمعہ کے دن اس کے گھر جانے کا پلان بنایا۔ ۔ جمعہ آنے تک یہی سوچا کہ کیا پہنوں گا ، کیسے ملوں گا ، کیسے بات شروع کروں گا۔ ۔ ۔ خیر جمعہ کو مغرب کے بعد ماموں گھر گیا ، بیل بجائی، تھوڑی دیر بعد اسی کزن کی " کون ہے" کی آواز آئی دروازے کے اندر سے تو میں بولا ۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو انعم ، میں ہوں " میاں"۔ ۔ ۔

فرید نے تو کمال ہی کر دیا تھا چچا نعمت کی دکان ایسے سیٹ کی اور سبزیوں و پھلوں کی ایسی سجاوٹ کی کہ دوسرے دکان دار بھی تعریف کر رہے تھے۔ ۔ ۔خود چچا بھی اب اپنی ، دکان و مال کی صفائی کا خاص خیال رکھنا شروع ہو گے تھے جس کا دونوں دکانوں کو فائدہ ہو رہا تھا اور لوگ بھی چکن ، سبزی و پھل سب ایک ساتھ انہی سے خریدنا شروع ہو گۓ تھے ۔ ۔ ۔ صفائی و معیار تو تھا ہی، قیمت بھی وہی جو گورنمنٹ کی ریٹ لسٹ پر ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ ایمان داری ، صفائی، اچھا معیار اور بہترین اخلاق سب ٹھیک جا رہا تھا تبھی گاھک بھی پکے لگ رہے تھے۔ ۔ ۔ انڈوں کا آرڈر بھی دے چکا تھا وہ، حیات صاحب نے مضمون بنا دیا تھا تو وہ پمفلٹ بھی دے آیا تھا چھپنے کو۔ ۔ ۔ بہت خوش تھے فرید اور چچا نعمت ایسے کاموں سے جن کے کرنے سے انکی ترقی ہو رہی تھی تبھی دونوں ہمیشہ اپنے محسن حیات صاحب کے لئے بہت دعا کرتے تھے خاص کر ہر نماز ادا کرنے کے بعد ۔ ۔۔

دروازہ کھلنے پر میں گھر میں داخل ہو گیا ۔ ۔ آج میں انعم کو صرف ماموں کی بیٹی والی نظر سے نہیں دیکھ رہا تھا تبھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی مجھے آج ۔ ۔ ۔ صحن میں ہی ماموں ومامی بھی چارپائی پر بیٹھے تھے جنہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا آ او میاں ۔ ۔ بہت عرصے بعد آتا تو ملنے ہم سے ۔ ۔ پھر سلام کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع مگر میرا ذہن اسی میں کہ کیسے انعم سے بات کروں میں۔ ۔ ۔ لیکن کوئی موقع نہیں مل رہا تھا ۔ ۔ ۔ مجھے غصہ آنے لگا تھا ۔ ۔ میری ساری تیاری ، سجنا و سنوارنا بیکار جا رہا تھا ، کتنا انتظار کیا تھا میں نے جمعہ کا۔ ۔ ۔ تبھی مجھے ایک آئیڈیا آیا ۔ ۔ میں نے برآمدے میں لگی گھڑی میں وقت دیکھا ۔ ۔ ۔

میں فورا کرسی سے اٹھا اور باہر جانے لگا ، ماموں کو کہا کہ بس تھوڑی دیر تک واپس آتا اور کھانا یہیں کھاؤں گا ، یہ کہتے باہر نکل کر اپنے سائیکل پر بیٹھا ، تیزی سے چلاتے اپنے گھر آیا، اپنے کمرے میں آ کر کاپی لی اور اس پر انعم کو سوچ کر دل کی بات لکھنے لگا۔ ۔ آدھا صفحہ لکھ کر پین بند کیا ، لکھا ہوا خط جیب میں ڈالا اور واپسی ماموں کے گھر ، مگر اب کی بار دھڑکتے دل اور عجیب سی خوشی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ واپس جا کر کھانا کھایا اور ماموں و مامی ساتھ باتوں میں لگ گیا مگر ذہن انعم کی طرف تھا کہ وہ کیا کر رہی، عشا کی اذان ہوئی تو ماموں مسجد اور مامی بھی اٹھ کر نماز کی تیاری میں لگ گئی ۔ ۔ ۔ انعم کچن میں تھی ۔ ۔ ۔اور یہی موقع تھا میرے پاس اب ۔ ۔ ۔ میں فورا انعم کے پاس گیا، خط نکال کر جلدی سے اسے دیا اور کہا یہ تمھارے لئے ہے ، جواب ضرور دینا میں کل پھر آؤں گا ۔ ۔ ۔ اتنا کہہ کر بس ماموں کے گھر سے جلدی سے نکال گیا ۔ ۔ ۔پھر آہستہ آہستہ سائیکل چلاتے، دھڑکتے دل، عجیب سی خوشی کے ساتھ اور گانے گاتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ ۔

آج حیات صاحب کی دکان پر تمام ملازم بہت خوش تھ کہ انکو بونس کے ساتھ ساتھ انکی تنخواہ میں بھی اضافہ ہوا تھا ۔ ۔ ۔پوری مارکیٹ میں مشھور تھا کہ حیات صاحب اپنے کام کرنے والوں کا بہت خیال رکھتے ہیں تبھی انکے ہاں اکثر لوگ کافی سالوں سے کام کر رہے تھے اور بے حد مطمئن، یہی وجہ تھی کہ ہر بندہ دل سے کام کرتا تھا یہاں، کوئی بے ایمانی یا ہیرا پھیری کا تصور بھی نہیں تھا۔ ۔ ۔ جہاں حیات صاحب کاروبار میں اصول پسند اور تھوڑے سخت تھے وہیں پر اپنے ملازمین کے ساتھ بہت نرم دلی سے پیش آتے تھے۔ ۔ ۔روزمرہ کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو پیار سے سمجھا کر اگنور کرتے تھے جس سے کام کرنے والوں پر بہت اچھا اثر پڑتا تھا اور ہر کوئی اپنے اپنے کام سے مخلص بھی تھا اور کسٹمرز کے ساتھ بھی بہت اخلاق سے پیش آتا تھا چاہے کوئی نئی چیز لینے آے یا واپس و تبدیل اور یہی بات حیات صاحب کے کاروبار میں ترقی کا اک راز بھی تھی ۔ ۔

میں نے گھر آ کر عشا کی نماز پڑھی اور چاچا جی ساتھ کچھ باتیں کر کے اپنے کمرے میں پڑھائی کے لئے آ گیا مگر آج دل ہی نہیں لگ رہا تھا بس ایک ہی سوچ کہ انعم نے خط پڑھ لیا ہو گا ۔ ۔ وہ جواب سوچ رہی ہو گی ۔ ۔ ۔پتا نہیں میں کل کیسے اس سے لوں گا جوابی خط ۔ ۔ ۔یہی باتیں سوچتا پڑھائی میں مصروف ہو گیا ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر گزری تو باہر سے اونچی اونچی آوازیں آنا شروع ہو گئیں ۔ ۔ ۔ مجھے لگا جیسے ماموں کی آواز ہو ۔ ۔ میں فورا اپنے کمرے سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ زور سے دروازہ کھلا ، دیکھا تو ماموں ، چاچا ، چچی ، کزنز سب اندر گھس رہے، تبھی ایک زوردار تھپڑ کی آواز آئی جو مجھے پڑا ماموں کے ہاتھوں ، بہت بڑا ہو گیا تو ، کالج جانے لگا تبھی جوانی چڑھ گئی تم کو، یہ کرتوت تیرے کہ تو میرے گھر آ کر ہی انعم کو خط دے ، یہ کہتے ہوے ماموں نے ایک اور تھپڑ جڑ دیا میرے ۔ ۔ ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں ، عزت نفس پر جو حال گزر رہا تھا وہ میں ہی جان سکتا تھا سب لوگوں کے درمیان ۔ ۔ ۔

مجھے نہیں پتا چلا کہ ماموں نے مجھے سب کے سامنے کتنا مارا ، میں تو بس گم سم کھڑا ہی رہا سر جھکا کر ، اتنا اچانک ہوا سب کہ دماغ ہی ماؤف ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ چاچا جی نے ابھی تک مجھے کچھ نہیں کہا تھا پھر ماموں یہ کہتے غصے سے واپس چلے گے کہ اب اگر دوبارہ ایسی حرکت کی ، انعم کے ساتھ یا کسی اور لڑکی ساتھ تو ٹانگیں توڑ دوں گا تیری اور خبردار اب دوبارہ میرے گھر آیا اب تو۔ ۔ ۔ ۔ پھر سب لوگ میرے کمرے سے نکال گے اور پھر میں نے لائٹ بند کر کے کمرے میں اندھیرا کیا اور پھر میں تھا ، میری تنہائی تھی اور ڈھیر سارے آنسو ، بہت رویا میں تب ، بہت زیادہ ، بہت ہی زیادہ ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر بعد چاچا جی کی آواز آئی ۔ ۔ او میاں ۔ ۔ ۔ میاں پتر ۔ ۔ ۔ کہاں ہے تو ۔ ۔ چاچا جی نے اندر آ کر لائٹ جلائی، مجھے روتے ہوے دیکھا تو دوبارہ لائٹ بند کی اور چلتے چلتے میرے پاس چارپائی پے آ کر بیٹھ گۓ ، کمرے میں اندھیرا تو ہم دونوں ایک دوسرے کو نظر نہیں آ رہے تھے ۔ ۔ ۔ رات کا وقت تھا بےحد خاموشی تھی اور رونے کی وجہ سے میری بہتی ناک کی شوں شوں تھی تبھی میں نے چاچا جی کا ہاتھ محسوس کیا ۔ ۔

چاچا جی اپنے ایک ہاتھ سے میرے آنسو پونچھ رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے میرے کمر پر تھپکیاں دے رہے تھے....میں جانتا ہوں پتر تجھے، اپنے ہاتھوں میں بڑا کیا ہے تمہیں، تو غلط نہیں ہو سکتا ہاں بس یہ آج والا کام تجھ سے غلط ہوا ہے...مجھے نہیں پتا کہ تجھے کس نے کہا ، کس سے سیکھا مگر میں یہ جانتا کہ تیری عمر، کالج کے نیے ماحول اور دل و دماغ میں پیدا ہوتی غلط سوچوں نے تجھ سے ایسا کروایا..میاں پتر، تو جانتا ہے نا کہ تیرا ابا، امی کوئی بہن بھائی نہیں ہے...تیرا سب کچھ میں اور تیری چاچی اور ہمارے لئے صرف تو ہے. ہم دونوں تو اب بوڑھے ہو چکے پتا نہیں کب مر کھپ جائیں مگر پتر تیرے سامنے پوری زندگی پڑی ہے.... اندھیرے کمرے اور خاموش رات میں چاچا جی مجھے جو کچھ کہ رہے تھے اس کا ایک ایک لفظ میرے دل و دماغ میں اتر رہا تھا شائد دل ابھی تازہ تازہ ٹوٹا تھا

پتر، دیکھ بندے کو اپنی عزت بناتے بہت وقت لگتا ہے مگر جاتے ہوۓ کوئی وقت نہیں لگتا، تو نے دیکھا ہے نا ابھی کیسے تم سے پیار جتانے والے ماموں نے سب کے سامنے تمکو مارا، بے عزت کیا....دنیا ایسی ہی ہوتی ہے پتر...جو غلط ہوتا ہے اسکو سب غلط ہی کہتے ہیں...اور پھر کوئی ماموں جیسا ملے گا جو سختی سے سمجھاے گا اور کوئی میری طرح سے...دیکھ میاں، تو مجھے اپنے بچوں سے زیادہ پیارا ہے تبھی میں چاہتا کہ تمکو میرے جیسے ہی ملیں پیار کرنے والے، مگر اسکے لئے تمکو بہت اچھا بننا ہے...آج جو ہوا اس سے سبق پکڑ اور بھول کر آگے بڑھ جا...خود کو اتنا اچھا بنا کہ لوگ یقین ہی نہیں کریں کہ تم سے ایسی غلطی ہوئی تھی ....پڑھائی پر توجہ دے ...خود کو قابل بنا میرے پتر...اچھی جگہ نوکری مل جائے تو پھر شادی کرنا اور تیری بیوی ہی صرف تیری دوست ہو گی بس... پتر جنہوں نے زندگی میں قابل بننا ہوتا، اچھی عزت بنانی ہوتی تو وہ ایسے کاموں میں وقت برباد نہیں کرتے

میں چاہتا کہ تو ایک بڑا آدمی بنے، بہت عزت کماے، تو نے پتر " کچھ نہیں سے ، کچھ ہے " کا سفر کرنا ہے اس کے لئے پوری توجہ پڑھائی پے رکھ ، ایسے لڑکوں سے دور رہ جن میں رہ کر تمہیں برے کاموں کی سوچیں آے...شاباش میرا پتر بہت اچھا ہے...میں اب چلتا تو آج رات جتنا رونا رو لے ، فجر ویلے سو کر اٹھے تو ایک نیا میاں ہو تم میں بس ... بڑا آدمی اور ایسی عزت والا بننا کہ سب لوگ تمہیں میاں صاحب ، میاں صاحب کہہ کر پکاریں.....پھر چاچا جی میرا ماتھا چومتے کمرے سے باہر چلے گئے اور پھر میں واقعی میں بہت رویا ساری رات، ماتھا رگڑ کر.... کروٹیں بدل کر....آہیں بھر بھر کر..... مگر صرف آخری بار ۔ ۔ ۔

سورج اور چاند اپنے اپنے مقررہ وقت پر گھوم کر زندگی کے وقت کو آگے بڑھاتے جا رہے تھے...دن ہفتوں اور سالوں میں بدلتے گئے اور ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں گھوم پھر کر زندگی کو گزار رہا تھا...حیات صاحب نے بڑھتے ہوے کام کی وجہ سے دوسری مارکیٹ میں ایک اور دکان کھول لی تھی. فرید کا بھی کام بڑھ گیا تھا تبھی اس نے ساتھ والی دو دکانیں اور لے کر بڑا سیٹ اپ کر لیا تھا اور ہاتھ بٹانے کو دو لڑکے بھی رکھ لئے تھے...مگر وہ آجکل اندر سے بہت بجھا بجھا اور پریشان تھا .... ایک غلطی جو کر بیٹھا تھا.... یکطرفہ محبت کرنے کی.....وہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ، حیات صاحب کی بیٹی نمرہ سے.....

موسم بہت خوشگوار تھا ،ہلکی بوندا باندی میں تھوڑی تیز ٹھنڈی ہوا کے جھونکے شامل تھے، حیات صاحب نے صبح کام پر جاتے فرید کو گھر چکن بھجوانے کا کہہ گئے کہ گھر کے ملازم رفیق چاچا چھٹی پر تھے ، فرید ان دونوں ساتھ لی ہوئی نئی دکانوں کو سیٹ کرنے میں مصروف تھا اور ابھی کوئی ملازم بھی نہیں رکھا تھا ، اس نے پہلے روٹین والے گاہکوں کو فارغ کیا اور حیات صاحب کا آرڈر بنا کر انکے گھر کی طرف چل دیا۔ ۔ ۔نمرہ نے کالج لیٹ جانا تھا کہ فاریہ بیگم ہمسایہ گھر قرآن خوانی میں گئیں ہوئی تھیں۔ ۔ ۔ فرید نے حیات صاحب کے گھر بیل دی تو نمرہ کو ہی آنا پڑا کہ اور کوئی گھر موجود نہیں تھا ۔ ۔ ۔ نمرہ نے دوپٹہ اچھے سے لیا اور گیٹ کی طرف چل دی۔ ۔ ۔

فاریہ بیگم قرآن خوانی میں آ تو گئیں تھی مگر ہمیشہ کی طرح انکو کئی باتوں پر غصہ آ رہا تھا کہ اکثر خواتین سپارہ پڑھنے کی بجاے باتوں میں لگی ہوئی تھیں ، کچھ تلاوت کرتے بیچ بیچ میں ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتی جاتی، فاریہ بیگم کو زیادہ چڑ تب ہوئی تب ایک خاتون نے اونچی آواز میں کہا کہ ، اور کتنی دیر ہے کھانے میں ، صبح کا خالی پیٹ ہی سپارہ پڑھائی جا رہے ، لے آؤ جو بھی ہے ، دعا منگواؤ ہوبہت دفعہ ہو گئی ہے پڑھائی اب۔ ۔ ۔ فاریہ بیگم اس عورت کی عمر کا احترام کرتے چپ رہیں، پھر اپنا سپارہ اٹھایا اور اس گھر والی بی بی کو کہا کہ میں باقی کا گھر جا کر پڑھ دوں گی، آپ شامل کر لیجئے گا دعا میں، پھر وہ اٹھیں اور اپنے گھر کو جانے کو کمرے سے نکلنے لگیں۔ ۔ ۔

جی کون۔ ۔ نمرہ نے پوچھا تو فرید بولا ۔ ۔ یہ گوشت لے لیں، حیات صاحب کہہ کر گئے تھے۔ ۔ ۔ نمرہ نے دوپٹہ سے چہرہ آنکھوں سے نیچے تک ڈھاپنا، ایک ہاتھ سے گیٹ کھولا اور ذرا باہر ہو کر شاپر پکڑنے لگی کہ اسی وقت ہوا کا تیز جھونکا آیا اور دوپٹہ نے ہٹ کر چہرہ عیاں کر دیا۔ ۔۔ ۔ نمرہ نے جلدی سے پھر چہرہ ڈھانپا ، شاپر پکڑا اور اندر ہو کر گیٹ بند کر لیا ۔ ۔ ۔ اگرچہ فرید نے ایک دو بار پہلے بھی دیکھ رکھا تھا نمرہ کو آتے جاتے مگر فرق صرف یہ تھا کہ پہلے دوری سے اور نقاب میں مگر اب نزدیکی میں بے حجابانہ۔ ۔ ۔ تھا تو وہ صرف ایک لمحہ مگر ایسا فوکس ہوا اسکے دل و دماغ میں کہ اسے پتا ہی نہیں چلا دکان تک واپس آ جانے کا ۔ ۔ ۔

ادھر فاریہ بیگم نے سامنے ہمسایہ گھر سے نکلتے ہوے نمرہ کے دوپٹہ کا ڈھلکنا اور فرید کا دیکھنا دیکھ چکی تھیں۔ ۔ ۔وہ پہلے ہی ذرا خراب موڈ کے ساتھ آ رہی تھیں تو اس بات نے اور گرم کر دیا ،اب سارا غصہ نمرہ پر ہی نکلنے والا تھا۔ ۔ ۔انہوں نے اپنی چابی سے گیٹ کھولا اور اندر جاتے ہی نمرہ کو شروع ہو گئیں جو کوئی کتاب کھولے بیٹھی تھی ۔ ۔ ۔ کیا ضرورت تھی تم کو گیٹ کھولنے کی ۔ ۔ ۔ تم سے دوپٹہ کیوں نہیں سنبھالا گیا ۔ ۔ ۔ جان نہیں تھی کیا ہاتھ میں ۔ ۔ ۔ کیوں کیا تم نے چہرہ ننگا غیر بندے سامنے ۔ ۔ ۔ اسکوبولتی گوشت گیٹ کے نیچے سے پکڑا دے یا اوپر سے پکڑتی ۔ ۔ ۔ تم نے گیٹ کیوں کھولا ۔ ۔ ۔ کیوں دکھایا چہرہ اپنا ۔ ۔ ۔ نمرہ تو گھبرا ہی گئی ایسے امی کے اچانک غصے سے ۔ ۔ ۔ اس نے تو کوئی خیال ہی نہیں کیا تھا اس بات پر کہ دوپٹہ خود ہی تیز ہوا کی وجہ اچانک ڈھلک گیا تھا، کسی ذاتی ارادے کے بغیر۔ ۔ ۔ مگر وہ چپ چاپ سنتی رہی کہ ابھی امی غصے میں ہیں۔ ۔ ۔ ۔

اگرچہ اس واقعہ کو کافی عرصہ ہو چکا تھا فرید نےاسکے بعد بھی دوبارہ کئی دفعہ دیکھا نمرہ کو مگر ہمیشہ نقاب میں ہی، مگر وہ والا منظر کبھی نہیں بھلا پایا۔ ۔ ۔فرید ایک شریف و اچھے کردار کا لڑکا تھا اس نے اس بات اور اپنے لگاؤ کا کسی سے بھی تذکرہ نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ پھر وہ انکے محسن کی بیٹی تھی اور محسنوں کے عزت و احترم کی تربیت اسکو گھر سے ملی تھی تبھی بس دل میں چھپا رکھی تھی اس نے اپنی محبت۔ اسی پاک و یکطرفہ محبت کا ہی یہ مثبت اثر تھا کہ وہ اب بہت کامیاب بننا چاہتا تھا، بہت ہی اچھا و عزت والا کہ نمرہ جیسی ہی کوئی خوبصورت ، تعلیم یافتہ و با کردار لڑکی اسکی شریک حیات بنے۔ ۔ ۔نمرہ سے اسکی محبت سوچوں میں بھی معصوم و پاک تھی۔ ۔ ۔ وہ فرق کو جانتا تھا اپنے اور حیات صاحب کے، تبھی نمرہ اسکا مقصد نہیں تھی اور نہ ہی اسے پانے کی خواہش تھی بس وہ تو اسے ایک گڑیا جیسی لگتی تھی اور اسی طرح کی انمول گڑیا وہ اپنے لیے بھی چاہتا تھا تبھی وہ خود کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے تراش رہا تھا۔ ۔ ۔۔

حیات صاحب نےضرورت کی وجہ سے بہترین کمپیوٹر وہ بھی انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ بچوں کو لا دیا تھا۔ جس کو انہوں نے بچوں کے کمرے کی بجاے لاؤنج میں ہی رکھوایا تھا اور پھر جس نے جو کام کرنا ہوتا وہیں پر کرتا تاکہ انکا کام نظر میں رہے ۔ آج چھٹی کا دن تھا اور ارسل کمپیوٹر پر اپنا کام کر رہا تھا ، حیات صاحب اخبار پڑھ رہے تھے ، نمرہ اور اسکی امی اندر کمرے میں کسی کام میں مصروف تھیں ۔ ۔ ۔ حیات صاحب نے اخبار سائیڈ پر رکھتے ارسل سے پوچھا ۔ ۔ ۔ کیا ہو رہا ارسل آج بہت مصروف ، وقت ہی نہیں مجھ سے بات کا ۔ ۔ ۔ ارسل نے بھی مسکراتے ہوے کہا۔ ۔ ۔ چلیں یہ ہوا کام بند اور آپ سے باتیں شروع ۔ ۔ پھر وہ حیات صاحب کے پاس آ کر نیچے بیٹھ گیا اور پوچھا ابو جی یہ تو بتائیں کہ اکثر لوگ صرف اپنی بات کو ہی ٹھیک کیوں سمجھتے ہیں ۔ ۔ میرے کچھ دوست ہیں جب انکو میں کچھ اچھا بتاتا یا کسی بری بات سے ٹوکتا تو آگے سے الٹا ہی جواب دیتے مجھے ۔ ۔ ۔

حیات صاحب، ارسل کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوے بولے ، ایک بات یاد رکھنا ارسل، ہمارے اردگرد کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن پر ہمارے اچھے مشورے کا، اچھی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، چاہے آپ انھیں جتنی مرضی مثبت سوچ کے ساتھ ملیں، بات کریں یا حوصلہ دیں وہ اپنے منفی حصار سے باہر نکل ہی نہیں پاتے اور آپ سے صرف بحث کریں گے اور آپ سے صرف اپنی مرضی کا حل چاہیں گے۔ تو بیٹا جی، آپ نے ان لوگوں پر اپنا وقت ضایع نہیں کرنا نہ ہی انکی منفی باتوں اور نہ ماننے والے رویہ سے خود کو پریشان کرنا ہے کہ کچھ لوگ واقعی رب کے فرمان کے مطابق گونگے ، بہرے ، اندھے ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی اچھی بات اثر نہیں کرتی ۔ اس لئے آپ نے بھی انکی پروا نہ کرتے ہوے بس اپنے اندر کی روشنی کو باہر نکال کر خود کو پر نور بنانا ہے تب ایسے منفی لوگ خود ہی یا تو پھر اس نور سے راستہ پا جائیں گے یا پھر جل جائیں گے۔۔ ۔ سمجھ آ گئی ہے نا ۔ ۔ چل اب اٹھ ذرا مارکیٹ تک چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ حیات صاحب کہتے ہوے اٹھ کھڑے ہوے ۔ ۔

حیات صاحب نے جہاں اپنا کاروبار بڑھا لیا تھا وہیں پر اپنی اکیڈمی کا دائرہ کار بھی بڑھا لیا تھا۔ اب مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اپنا کاروبار کرنے کے متعلق بتایا و سکھایا جانے لگا تھا جس کا انتظام فاریہ بیگم کے ذمہ تھا اور نمرہ بھی کبھی کبھی آ جاتی تھی۔ ۔ اس سےگھر بیٹھ کر کام کرنے والی خواتین بہت فائدہ اٹھا رہی تھیں ۔ کوئی یہاں کپڑے ڈیزائن کرنا سیکھتا ، کوئی لیڈیز بیگز بنانا ، کوئی آرٹیفیشل جیولری وغیرہ۔ ۔ ۔ سب یہاں ایک دوسرے سے کچھ نا کچھ سیکھتے، پھر فاریہ بیگم انکو حیات صاحب کے توسط سے ان چیزوں کو مارکیٹ میں بیچنے اور مارکیٹنگ کے طریقے بتاتی۔ ۔ ۔ اسکے علاوہ حیات صاحب خود بھی ان خواتین کی بنائی ہوئی چیزیں مارکیٹ میں اپنے مختلف جاننے والوں کی دکانوں میں رکھوا دیتے تو ایسے ایک سلسلہ چل پڑتا ان خواتین کا گھر بیٹھے کام کر کے کمائی کا۔ ۔ ۔

میں نے چاچا جی کے سمجھانے کا بہت اثر لیا تھا ۔ ۔ ماموں جی کی مار کے بعد کا کچھ وقت تو بہت مشکل گزرا لوگوں کی باتیں و طعنے سن کر، لیکن چپ چاپ برداشت کرتا رہا پھر وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھولتے گئے ۔ ۔ میرے گریجواشن میں آنے اور ٹیوشن پڑھنے کی وجہ سے میرے اخراجات بڑھنے لگے تھے۔ ۔ چاچا جی جتنا کر سکتے تھا وہ خوشی سے کرتے تھے اور ہمیشہ حوصلہ بڑھتے ہوے کہتے تھے، میاں ، بس تو پڑھتا جا... آگے بڑھتا جا۔ ۔ پیسوں کی فکر نہ کیا کر ، مگر پھر بھی میں نے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی، گھر جا کر بھی اور مختلف سنٹر میں بھی ۔ ۔ اس تمام محنت سے مجھے آرام کا وقت بہت کام ملتا تھا مگر مجھے پتا تھا کہ بیج کو زمین پھاڑ کے باہر نکلنے اور پودا بننے لے لئے لیے بہت گرمی و دباؤ سہنا ہی ہے ۔ ۔ ۔ تبھی میں پوری جان اس لیے لگا رہا تھا کہ مجھے اپنی شناخت بنانی تھی کونپل سے درخت بننا تھا۔ ۔ ۔ تاکہ میں اپنے پھل و چھاؤں سے پہچانا جاؤں ۔ ۔ ۔ اب توعام سے خاص بننا تھا مجھے، ہر حال میں بس! ۔ ۔ ۔

حیات صاحب کے پاس مارکیٹ کے کچھ دکان دار آے ہوے تھے انکو انکم ٹیکس نہ دینے پر راضی کرنے اور احتجاج میں شامل ہونے کے لیے، مگر حیات صاحب کسی صورت نہیں مان رہے تھے ، دیکھیں زاہد صاحب، گورنمنٹ ہمارے ٹیکس کا غلط استعمال کرے ،ہمیں پوری سہولیات نہ دے یا کھا پی جائے یہ انکی فعل ہے، ان افسروں کا اپنا ایمان ہے، لیکن میں ہر صورت میں ٹیکس ادا کروں گا کچھ بھی ہو ۔ یہ دینے کے بعد ہم انکو اپنے مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ ٹیکس ہی نہ دیں ۔ ۔ کیوں نہ دیں بھائی۔ ۔ ۔ صرف آزادی جسی نعمت کو ہی لے لیں جو اس ملک میں نصیب ہے تو یہ ٹیکس تو کچھ بھی نہیں اسکے آگے۔ ۔ ۔ ویسے بھی میں کسی گورنمنٹ کو ٹیکس نہیں دیتا ، میں اپنے پاکستان کو دیتا ہوں، رب کا شکر ادا کرتے خوشی سے دیتا کہ جب اس نے مجھے اتنا قابل بنایا ہے کہ میں ایمان داری و دیانت داری سے اپنا کاروبار کروں تو میں باقی ہر کام اسی طرح کیوں نہ کروں ۔ ۔ ۔ یا تو صاحب قانون نہ بنائیں، اگر بن گیا تو پورا عمل کریں ۔ ۔ ۔ویسے بھی زاہد صاحب جو لوگ قرآن میں رب کے بتاے ہوے قوانین میں سے جب اپنی مرضی و آسانی کے اپنا کر باقی کی پروا نہ کریں تو پھر وہ لوگ دنیا کے بناے قوانین کی کہاں پروا کرتے ہیں ۔ بھائی جو بندہ اپنے پیدا کرنے والے رب کی نافرمانی کرتے بینک سے سود پر قرضہ ، گاڑی وغیرہ لے سکتا ہے تو پھر وہ لوگ بندوں کے بناے قوانین کی نافرمانی کیوں نہ کریں گے ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ حیات صاحب کچھ اور بولنے پر آتے، آے ہوے دکان داروں نے " اچھا جی آپکی مرضی " کہتے ہوے اٹھنے کو ھی بہتر سمجھا ۔ ۔ ۔

خالہ جمیلہ آئی ہوئی تھیں اور فاریہ بیگم ساتھ پھل کھاتے باتوں میں مصروف تھیں ، ارسل بھی کالج سے تھوڑی دیر پہلے ھی آیا تھا اور لنچ کر کے کمپیوٹر کے آگے بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا ۔ ۔ ۔ اچھا خالہ ، وہ سارا کا کیا حال ہے ، کیسی جا رہی اسکی جاب ۔ کوئی اتا پتا ھی نہیں اسکا ۔ ۔ ۔ فاریہ بیگم نے پوچھا تو خالہ بولیں ، بس فاریہ ٹھیک ھی ہے ، کوئی ایک نوکری تھوڑی کی اس نے ، پتا نہیں کتنی کے کر چکی ، ٹکتی ھی نہیں ایک جگہ پر ، پتا نہیں کیا مسلہ اسکے ساتھ ۔ ۔ عجیب سی ھی طبعیت ہو گئی اب تو اسکی، پتا نہیں کیا بنے گا اسکا ، اسکی ماں بھی بہت پریشان رہتی اسکے لیے ۔ ۔ ۔ سارا کا ذکر آیا تو ارسل کے کان بھی لا شعوری طور پر باتیں سننے میں لگ پڑے ۔ ۔ ۔ سب پرانا یاد آ گیا اسے ۔ ۔ ۔ پتا نہیں کیوں زندگی میں کی ہوئی پہلی پہلی باتیں ، یادیں ، لگاؤ ، محبت دوستی ، رشتے ، اچھائی ، برائی وغیرہ کبھی نہیں بھول پاتا بندہ ، کسی نہ کسی موڑ پر یاد آ ھی جاتیں ادھوری باتیں ، ملاقاتیں، کوئی ہسنسی، کوئی ناراضگی، جدائی ۔ ۔ ۔ لیکن پھر ارسل کو ساتھ ھی وہ غلط بندہ، کال ریکارڈز اور ابو کا سمجھانا بھی یاد آ گیا تو اٹھ کر چل ھی دیا اکیڈمی جانے کی تیاری کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔

سر میرا نام فائزہ ہے اور مجھے یہ کہنا ہے کہ، میری امی بیمار ہیں، میرے ابو کا سایہ ہمارے سر پر نہیں ہے، میرے بھائی چھوٹے ہیں، میری اپنی شادی کی عمر ہے لیکن حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی رشتہ نہیں آتا. میری پڑھائی نامکمل ہے تو کہیں اچھی نوکری نہیں ملتی. میں کہاں سے لاؤں حوصلہ، تنگ آ گئی میں آپ کا کب سے لیکچر سن سن کر، مجھے صرف حوصلہ افزا باتیں نہیں چاہیے مجھے حل چاہیے سر، حل ۔ ۔ - سپیکر سلمان کو نہیں پتا تھا کہ سیمینار کے سوال و جواب کے دورانیہ میں بھرے ہال میں موجود کوئی بہت پیچھے بیٹھی باحجاب لڑکی ایسے ان سے مخاطب ہو گی. جہاں لیکچر ختم کرنے کے بعد کی تالیوں کی گونج، ابھی تک ان کے کانوں میں تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک دفعہ پھر وہ اچھا حوصلہ افزا لیکچر دینے میں کامیاب ہو گئے وہیں پر یہ سوال کچھ ایسے اچانک آیا جو انھیں حیران کے ساتھ وقتی پریشان بھی کر گیا. پھر بھی وہ ہمت سے اٹھے ، دماغ میں جواب دینے کو لفظوں کو جلدی جلدی چنتے ہوے روسٹروم کی طرف بڑھے، اسکےقریب جا کر رکے، پھر اچانک رخ موڑ کر اسٹیج سے نیچے اترے اور اپنا سر اٹھا کر ہلکی مسکراہٹ سجائے اس لڑکی کی طرف بڑھنے لگے، وہ محسوس کر رہے تھے کہ ھال میں موجود سب لوگ انھیں چپ چاپ تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں

" آپ اٹھیے اور میرے ساتھ آئیے" سپیکر سلمان جب لڑکی کی جگہ پر آ کر اس سے مخاطب ہوئے تو وہ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اٹھی اور ان ان کے پیچھے پیچھے چلتے اسٹیج پر آئی. سپیکر سلمان نے اسکو پاس کھڑا کر کے اسکو چہرہ ہال میں موجود سب لوگوں کی طرف کرنے کو کہا اور پھر لڑکی کی بات کا جواب دینا شروع کیا سب سے پہلے تو میں چاہوں گا کہ ہال میں موجود تمام لوگ اس لڑکی کے اعتماد اور ایسا سوال کرنے کے حوصلہ کو داد دیتے ہوے تالیاں بجائیں.... اور پھر سپیکر سلمان نے تالیوں کے بعد اپنی بات منفرد لب و لہجے میں دوبارہ کچھ ایسے شروع کی کہ

آپ میں سے بیٹھے ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ جڑا ہوا ہے لیکن جتنی حل کرنے کی شدت وخواہش اس لڑکی میں ہے اورکسی میں نہیں، تبھی اس نے اپنی حالت ایسے سب کے سامنے عیاں کر دی. اسکی حالت جتنی بھی خراب ہے لیکن یہ بات کنفرم ہے کہ یہ لڑکی کمزور نہیں ہے، اسکے علاوہ اسکی جھکی نگاہیں اور با حجاب چہرہ اس کے مضبوط کردار کی ضمانت بھی دے رہا ہے. یہ واقعی بہت پریشان ہے جو ایک فطری کَیفِیَت ہے، لیکن جانتی ہے کہ ایسے حالات میں یہ اکیلی نہیں ہے اور بہت دنیا اسی طرح کے حالات یا اس سے بھی برے حالات میں پس رہی ہے لیکن فرق صرف " سوچ اور عملی اپروچ " کا ہے جو اس لڑکی کو دوسروں سے الگ کرتا ہے. یہ خود کو بدلنا چاہتی ہے اور خوشحالی لانا چاہتی ہے تو آپ سب لوگ میری بات لکھ لیں کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا جب یہی لڑکی جو اس وقت آپ سب کے سامنے اپنے حالات کا رونا رو رہی، یہی لڑکی خود اپنے حالات رب کے فضل سے ایسے بدلے گی کہ یہ خود بھی حیران ہو جائے گی. یاد رکھیں کہ حوصلہ افزا الفاظ چاہیے فوری حل نہ دیتے ہوں لیکن سچے حوصلہ والے الفاظ آپ کے کچھ کر دکھانے اور دنیا بدل دینے کی آگ کو بڑھکا ضرور دیتا ہے

باہر شام سے ڈھلتی رات کے ماحول میں اندر پورے ہال میں مکمل سکوت طاری تھا اور پھرسپیکر نے اپنی منفرد گرجتی ہوئی آواز میں لڑکی کی طرف رخ موڑتے کچھ ایسے کہنا شروع کیا کہ جس نے ہال میں موجود سب کی دلی دھڑکنوں کو بھی بڑھا دیا، اس لیے آپ آج فیصلہ کرو کہ آج سے رونا بند! ، خود پر ترس کھانا بند! ، ایسے، سب لوگوں کو حالات بتانا بند!، اور آج گھر جا کر ایسے ہی بات کرنے والے ہمت و حوصلے سے اپنے رب سے بھی مخاطب ہو انہی باتوں و سوالوں سے، پھر اپنے آپ کو دوبارہ سے سمیٹ کر موجودہ وسائل میں رہ کر خود سے عملی کوشش کرو تو دیکھنا رب بھی آپ کو ایسے ہی، "جیسے میں آپکو پیچھے سے اٹھا کر یہاں سب کے سامنے لے کر آیا جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کچھ اس انداز سے آپ کو جواب دوں گا"، ٹھیک اسی طرح ایک دن رب بھی آپ کو ایسے راستے سے مشکل حالات سے نکال دے گا کہ آپ سوچ بھی نہ سکو. یقین مانیں اپنے مسئلے کی حل کے لئے نہ آپکو میری ضرورت ہے اور نہ اس ہال میں موجود دوسرے لوگوں کی کہ جو ہمت وقابلیت کی روشنی آپ کے اپنے اندر ہے وہ نہ کوئی دوسرا دے سکتا ہے نہ ہی بجھا سکتا ہے . یاد رکھیے ستارے ہمیشہ اندھیری رات میں ہی چمکا کرتے ہیں اور ہم ناکام صرف تب ہوتے جب کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں.اب آپ ہمت سے سر اٹھا کر واپس اپنی سیٹ پر جائیں اس پکی امید کے ساتھ کہ رب نے آج آپکی سن لی ہے اور آج کے بعد آپکا ہر قدم کامیابی کی طرف جائے گا انشاللہ، میری اورہال میں بیٹھے سب دوستوں کی نیک دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.... بات کے اختتام پر تالیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اسی کی گونج میں سپیکر سلمان نے اس لڑکی فائزہ کو آہستہ آواز میں کانفرنس کے بعد ان سے رابطہ کرنے کا کہا

میں ابھی اپنے امتحانات سے فارغ ہوا ہو تھا کہ ایک محترم پروفیسر کے توسط سے اپنے ہی شہر میں موجود ایک کاٹن فیکٹری میں نوکری مل گئی...پہلی نوکری کے ملنے پر جو خوشی تھی وہ سنبھالی نہیں جا رہی...مجھ سے زیادہ خوش میرے چاچا تھے لیکن انہوں سے ساتھ یہ بھی کہا کہ پتر اسکو اپنی منزل نہیں سمجھنا ، یہ سمجھ لے پہلا قدم ہے تمہاری منزل کی طرف، اسی نوکری پر ہی اکتفا نہیں کرنا نہ ہی ابھی یہ سمجھنا کہ پڑھائی ختم...بس پھر انکی رضامندی سے میں نے بعد میں ایم بی اے کی نائٹ کلاسز میں داخلہ لے لیا...ٹیوشن پڑھانا چھوڑ دی تھی کہ مناسب تنخواہ کی وجہ سے فیس کا بندوبست ہو جاتا تھا اور کچھ پیسے چاچا جی بھی دے دیتے تھے. سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا صبح کو نوکری اور شام کو کلاسز....مگر میری زندگی میں پہلا بدلاؤ آیا...چاچا جی اللہ کو پیارے ہو گے....میں پھررویا بہت، بہت زیادہ... بس یہی بات ذہن میں آتی تھی کہ جب میں تھوڑا سا قابل ہوا انکی خدمت شروع کرنے کے تو وہ کیوں چل بسے.... " یہ کس موڑ پے تجھ کو بچھڑنے کی سوجھی ، مدتوں بعد تو دن سنورنے لگے تھے"

فرید کا کام اب دن بدن بڑھتا جا رہا تھا.اپنے چچا نعمت کو اس نے باقاعدہ پارٹنر ہی بنا لیا تھا تو وہ اب دونوں مل کر کاروبار چلا رہے تھے، کہاں صرف ایک چیز سے کام شروع کیا تھا اس نے، مگر اب چکن کے علاوہ پھل ، سبزی ، دودھ اور دہی بھی رکھ لیا تھا... وہ اپنی چیزوں کے معیار ، صفائی اور اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے کامیاب جا رہا تھا...حیات صاحب کی اکیڈمی جانے سے بھی اسے بہت فائدہ ہوتا تھا تبھی ایک اور نیا طریقہ اپنایا اس نے زیادہ گاھک بنانے کا، وہ تھا ہوم ڈیلیوری، جس کا سب سے زیادہ فائدہ گھر بیٹھی خواتین کو ہوا ....مرد و بچے تو گھر سے باہر ہوتے سارا دن، تو گھر کی خواتین فون پر ہی فرید سے چیزیں منگوا لیتی تھیں...اس کام کے لئے فرید نے علحیدہ سے دو لڑکے رکھ لئے تھے تاکہ وقت پر ڈیلیوری ہو سکے...اور اس نیے کام کی وجہ سے اسے واقعی کافی فائدہ ہو رہا تھا

ادھرفاریہ بیگم اپنے شوہر کے رضاکارانہ کام میں بھرپور ساتھ دے رہی تھی اور با قاعدگی سے اکیڈمی میں جا کر خواتین میں آسانیاں فراہم کرنے کا کام کر رہی تھی. انہی دنوں ایک نیی لڑکی " فائزہ" کا اضافہ ہوا تھا جو کہ اپنی عادتوں، باتوں اور حجاب و نقاب والے حلیہ سے بالکل نمرہ جیسی ہی لگتی تھی فاریہ بیگم کو...کچھ دن فائزہ نے دوسری لڑکیوں سے حال احوال لیتے، کچھ اپنے مطابق کا سیکھتے اور حوصلہ پانے میں ہی گزارا پھر سب کے مشورے سے گفٹ پیکنگ کا کام شروع کر دیا...وہ بازار سے مخلتف و منفرد چیزیں خرید کر، انکو اچھی سے منفرد پیکنگ میں تیار کرتی اور مختلف دکانوں میں رکھوا دیتی جس میں حیات صاحب کی جان پہچان کام آتی..کام شروع کرنے کے لئے پیسے اکیڈمی نے ہی دے تھے..فائزہ کو خود بہت اچھا لگا تھا یہاں آ کر اور بہت حوصلہ پایا تھا، اسے نہیں پتا تھا ابھی کہ اسکا یہاں آنا اور یہ شروع میں یہ چھوٹا سا خود کا کام شروع کرنا اسکی آنے والی زندگی و حالات میں کتنی اچھی تبدیلی لانے والا تھا

حیات صاحب کے بڑھتے ہوے کام کی وجہ سے مارکیٹ کے اندر والی دکان چھوٹی پڑتی جا رہی تھی ، اوپر سے اپنی اصول پسندی اور نیک طبیعت کی وجہ سے انکی مارکیٹ میں موجود کچھ لوگوں سے بنتی بھی نہیں تھی، تبھی انہوں نے مارکیٹ سے باہر ایک نئی جگہ پر دکان کو شفٹ کر لیا جہاں پر گارمنٹس کی کوئی اور دکان نہیں تھی اور نئی دکان بھی کافی بڑی تھی. اپنے کماے ہوے نیک نام اور اخلاق کی وجہ سے تمام مستقل گاھک بھی متاثر نہیں ہوے تھے اور بخوشی نئی دکان پر آتے تھے کہ جو مال، قیمت اور سہولتیں حیات صاحب دیتے تھے اور کوئی نہیں دیتا تھا

چاچا جی کے کہنے پر نوکری کے ساتھ میرا ایم بی اے میں داخلہ لینا بہت اچھا ثابت ہوا کہ بہت کچھ نیا و منفرد سیکھنے کو ملا، اس کے علاوہ اپنی صلاحیتوں کا مزید پتا چلا اور خود کو مزید نکھارتے ہوے آگے بڑھتا گیا... پڑھائی کے علاوہ دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے میں یونیورسٹی میں مشہور بھی تھا، مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکیوں سے بھی رابطہ رہتا تھا، مگر کبھی بھی خود کو کسی لڑکی سے دوستی ، فلرٹ کی طرف لے کر نہیں گیا..لڑکیوں سے صرف کام کی حد تک بات کرتا تھا... میں سوچتا تھا کہ ،کہاں بچپن میں ماموں کی مار پڑی تھی اور کہاں اب لڑکیوں تک آسانی سے رسائی تھی جن کے پیار بھرے جملے مجھے اپنی طرف کھینچتے تھے مگر میں نے اپنے چاچا جی کی بات اچھے سی پلے باندھ رکھی تھی کہ صرف بیوی ہی اچھی دوست ہوتی ہے اور میرے کچھ نہیں سے ، کچھ ہے، بننے کے سفر میں لڑکیوں سے دوستی کا کوئی پڑاؤ نہیں تھا بلکہ صرف شادی جیسا پاکیزہ راستہ ہی تھا

ارسل نے بھی گریجوشن مکمل کر لی تھی اور اپنے ابو ساتھ کاروبار میں لگ گیا تھا. مین دکان کو حیات صاحب وقت دیتے تھے اور باقی دو دکانیں ارسل کی نگرانی میں تھیں...نمرہ کی شادی کا ارادہ تھا اب حیات صاحب کا اور انکی نظر اکیڈمی والے اپنے دوست غنی صاحب کے بیٹے پر ٹھہری جو کہ ایک کوکنگ آئل بنانے والی مشہور کمپنی میں اچھے عھدے پر فائز تھا اور حیات صاحب کا اچھا دیکھا بھالا تھا، فاریہ بیگم کو بھی پسند تھا وہ لڑکا اور انہوں نے نمرہ کو بھی تصویر کے علاوہ گھر میں دکھوا کر اس کی راے بھی لے لی تھی..نمرہ کو والدین پر پورا اعتماد تھا تو اس نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کر دی...دونوں خاندانوں کا آپس میں مل بیٹھنا ہوا اور آنے والی چھوٹی عید کے فورا بعد شادی طے پا گئی

فرید نے اپنا کام تو بڑھا لیا تھا مگر دکان کا نام وہی پرانا چلا آ رہا تھا، ایک دن حیات صاحب نے نماز واپسی پر فرید کی دکان پر رکے اور بڑھتے ہوے کام کا اچھی طرح سے جائزہ لیتے کہا کہ جوان اب تمہاری دکان کا نام بھی تبدیل ہونا چاہیے کہ موجودہ نام تمھارے اب کے کام کے ساتھ میل نہیں کھاتا تو فرید نے حیات صاحب کو ہی کوئی اچھا نام رکھنے کا مشورہ دینے کا کہا ....حیات صاحب نے کہا چلو ٹھیک، مگر اس شرط پر کہ میرے بتاے ہوے کا سائن بورڈ بھی میں ہی تحفعتاً بنوا کر دوں گا تو فرید نے مسکراتے ہوے انکی بات مان لی ...پھر کچھ ہی دن کے بعد اسکی بڑی سے دکان کے اوپر حیات صاحب کا لگوایا خوبصورت بورڈ " فوڈ فرینڈز" کے نیے و ماڈرن نام سے دکان کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہا تھا

اپنے ایم بی اے ، مارکیٹنگ کے آخری سیمسٹر میں ہی معروف موبائل کمپنی میں ایک دوست کے توسط سے بہترین نوکری کا سلسلہ لگ گیا جہاں پر میں نے خوب محنت سے نام بنانا شروع کر دیا، جتنا بھی منفرد پڑھا تھا وہ سب یہاں عملی طور پر کیا جسکی وجہ سے جلد ہی ترقی کی منزل کو پاتا گیا...اسی کمپنی میں رہتے ہوے اچھی کمائی بھی کی اور پورا ملک بھی گھوما....اسی کمپنی میں رہتے ہوۓ اپنے جاننے والوں کے توسط سے رشتے آنا شروع ہو گے تو پھر رب پے بھروسہ کر کے ایک رشتہ قبول کر لیا اور اس طرح اپنی بیوی کی صورت میں بہترین دوست بھی مل گیا...اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ میں اپنی بچت سے دوستوں کے ساتھ مل کر کاروبار بھی کرتا رہا جن میں سے اکثر ناکام ہوے، مگر اپنی ناکامیوں سے بہت کچھ سیکھ کر آخر کار نوکری کے ساتھ ساتھ اچھا کاروبار شروع کرنے میں کامیاب ہو گیا پھر جس کو بعد میں ملازمت چھوڑ کر میں نے پورا وقت ہی دینا شروع کر دیا.... مگر پھر بھی کوئی کمی محسوس ہوتی تھی ...مجھے اتنا کامیاب ہوتے ہوے بھی لگ رہا تھا کہ منزل و مقصد حیات ابھی بھی نہیں ملا جسکا مجھے چاچا جی نے کہا تھا ... بہت غور و فکر کیا ، بہت ماتھا رگڑا ، بہت دعائیں کی رب سے...بہت رو رو کر پوچھا رب سے ....اور پھر کچھ عرصے بعد ہی مجھے اپنے مقصد حیات کا پتا چل گیا اور پھر میں نے سکوں میں آ کر دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ اس پر بھی مرکوز کر دی

رمضان کے مہینے کے آخری دن چل رہے تھے. اگرچہ فاریہ بیگم شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں مگر پھر بھی اکیڈمی آنے والی خواتین کو پورا پورا وقت دیتی جہاں پر فائزہ انکی بہت مدد کرتی تھی، اسکا خوبصورت گفٹ پیک بنا کر چیزیں بیچنا والا کام چل پڑا تھا اور اس نے اکیڈمی سے لئے ہوے پیسے بھی واپس کر دیے تھے.. اب وہ لوگوں کی شادیوں ، سال گرہ وغیرہ کے مختلف موقعوں کے حساب سے بھی گفٹ بناتی تھی، ساتھ ہی اس نے ایک ویب سائٹ بھی بنا لی تھی اور فیس بک پر ایک پیج بھی، جہاں اسکے مختلف گفٹ پیک پوری معلومات اور مناسب قیمت کے ساتھ درج تھے، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ اسکا کام ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہروں تک بھی پھیل گیا...مختلف لوگ ویب سائٹ اور پیج پر چیزیں پسند کرتے اور فون پر آرڈر دے دیتے...فون سننے اور آرڈر ڈیلیور کروانے کی ذمہ داری اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے ذمہ لگا دی اور ایسے اسکا کام آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا

آخری روزہ کی افطاری ہو چکی تھی اور آج چاند رات تھی. فاریہ بیگم گھر میں نمرہ کی شادی کی تیاریوں کے سلسلے میں آئی ہوئی کچھ خواتین کے ساتھ مصروف تھیں، حیات صاحب اور ارسل دکانوں میں تھے کہ عید کی خریداری کے سلسلے گاہکوں کا کافی رش ہوتا، تو رمضان میں عشا کے بعد ہی دونوں باپ بیٹا گھر آتے تھے. فاریہ بیگم ایک عورت ساتھ باتوں میں مصروف تھی کہ انکے موبائل پر ارسل کی کال آئی جس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا.... امی جلدی سے تیار ہو جائیں میں گھر آ رہا آپ کو لینے، ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہم
ہسپتال لے کر آئیں ہیں انکو ایمرجنسی وارڈ میں

عید الفطر کا دن اور صبح سویرے کا وقت تھا، مسجد میں فجر کی نماز ادا ہو چکی تھی، تبھی خاموش فضا میں مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے آواز گونجی ، ایک ضروری اعلان سنیے، "مشہور و معروف سپیکر" اور "الف گارمنٹس" کے مالک " میاں سلمان حیات" بقضاءے الہی سے وفات پا گئے ہیں، جن کی نماز جنازہ مرکزی عید گاہ میں عید کی نماز کے فورا بعد ادا کی جائے گی ، نماز جنازہ میں شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں... ایسا ہی اعلان شہر کی تقریباً تمام مساجد سے کروایا گیا...عید کی وجہ سے ویسے بھی بہت رش تھا مگر تمام جاننے والے، چاہے وہ مارکیٹ کے لوگ ہوں، اکیڈمی والے، انکی کانفرنس میں شرکت کرنے والے سٹوڈنٹس ، اساتذہ، عام و خاص لوگ ، غرض کہ جس جس کو بھی پتا چلتا گیا وہ حیرانی و اداسی سے جنازہ میں شریک ہوا، پھر جنازے کے بعد ارسل ، فرید اور دوسرے بہت سارے جاننے و چاہنے والے باری باری انکی میت کو کندھا دیتے قبرستان پہنچے اور میاں سلمان حیات کا جسد خاکی زمین کے سپرد کر کے واپس آ گے...

شروع کے دنوں میں تو گھر کے اندر اداسی و لوگوں کا رش رہا، مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں پھر سے مصروف ہو گیا....اصل فرق پڑا تو صرف فاریہ بیگم اور انکے بچوں کو....بچے تو بہت ہی گم سم ہو گئے تھے اپنے دوست جسے بہترین باپ کے جانے سے، مگر پھر فاریہ بیگم نے ہمت سے کام لیتے ہوے اپنے شوہر کی دی ہوئی تربیت کے مطابق گھر سنبھالنا شروع کر دیا....نمرہ کی شادی آگے کر کے بڑی عید کے بعد طے کر دی گئی اور ارسل نے اپنے آپ کو مکمل طور پر کاروبار میں مصروف کر لیا، اگلے سال اپنے مرحوم شوہر کی خواہش کے مطابق فاریہ بیگم کا اچھا رشتہ تلاش کر کے ارسل کی شادی بھی کر دینے کا ارادہ تھا تاکہ نمرہ کے جانے سے خالی گھر کی کمی کو بہو پورا کر سکے

دوسری طرف باقی لوگوں میں جس نے سب سے زیادہ کمی محسوس کی وہ تھا فرید.... جس نے اب اپنے محسن کے رضاکارانہ بے نام اکیڈمی کو "حیات اکیڈمی" کا نام دیا اور غنی صاحب کے ساتھ مِل کر اپنے محسن کی طرح لوگوں کے حالات بدلنے میں مدد کرنے لگا. اسکی خاموش محبت جیسی لڑکی کا انتظام بھی میاں سلمان حیات اپنی زندگی میں ہی کر گئے تھے اور فرید کی شادی انہوں نے خود ہی طے کر دی تھی اسی لڑکی کے ساتھ جس نے ان سے سیمینار میں سوال کر کے اپنے مسلے کا حل مانگا تھا ، پھرانہوں نے اسکو اپنی اکیڈمی میں فاریہ بیگم کے ذمہ لگایا تھا ، جو آج آن لائن ویب سائٹ کے زریعے مختلف گفٹس کی فروخت کا کامیاب کاروبار کر رہی تھی اور اب وہی لڑکی کچھ عرصے بعد " فائزہ فرید" کہلانے والی تھی

ادھر ارسل بہت کمی محسوس کر رہا تھا اپنے ابو کی، تبھی وہ تقریباً روزانہ ہی آتا تھا قبرستان جہاں اسکے ابو کی قبر کے ساتھ ہی دو اور قبریں بھی تھی، جن میں سے ایک میاں سلمان حیات کے چاچا جی کی اور دوسری انکی امی کی، جہاں پر وہ اپنے بچپن میں آ کر اپنی امی سے بہت باتیں کیا کرتے تھے.... اور اب "کچھ نہیں سے ، کچھ ہے" کا کامیاب سفر طے کرنے کے بعد میاں سلمان حیات اپنی حقیقی منزل کی طرف خالی ہاتھ واپس لوٹ چکے تھے لیکن اپنے پیچھے حقیقی نیک کمائی اپنی باتوں ، کتابوں اور اپنے تربیت یافتہ لوگوں کی صورت میں زندہ چھوڑ گئے تھے.

" .....بے شک ہم نے انسان کو اچھی صورت / ساخت (احسن تقویم) والا بنایا. پھر رفتہ رفتہ اسکو پست سے پست کر دیا. مگر جو لوگ ایمان لاے اور نیک عمل کرتے رہے انکے لئے بے انتہا اجر ہے" . .....(سوره التین - القرآن)

الحمدللہ آج سال 2015 کے آخری دن ناول بھی مکمل ہو گیا ! آپ سب کے پڑھنے و سمجھنے کا بہت بہت شکریہ، جزاک الله خیر

رائیٹر : جمشید
 

Mian Jamshed
About the Author: Mian Jamshed Read More Articles by Mian Jamshed: 111 Articles with 183033 views میاں جمشید مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور اپنی فیلڈ کے علاوہ مثبت طرزِ زندگی کے موضوعات پر بھی آگاہی و رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی Jamshad.. View More