تابوت میں لاش (پانچویں قسط) جاسوسی دنیا

تابوت میں لاش کا قہقہہ(خاص قسط)

سلورایکس کیسنیواس وقت اپنے پورے جوبن پر تھا،ایک بڑے سے ہال میں لاتعداد میزوں پر لاکھوں اربوں کا جواہورہاتھا۔یہاں پرشہرکے مانے ہوئے جواری اپنی قسمت کے سہارے راتوں رات یاتو کنگال ہوجاتے تھے یا پھر ارب پتی بن جاتے تھے۔تاش کے پتوں کی ایجادنویں صدی میں قدیم چین کے شاہی خاندان ٹینگ کے دور میں ہوئی۔قدیم دور میں اس کی شکل کچھ اور ہی تھی پھر رفتہ رفتہ یہ تبدیل ہوتے ہوتے فرانس پہنچی تو یہ موجودہ جدید شکل اختیار کرگئی۔اس کی بہت سی نئی کھیلیں بھی ایجاد ہوئیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ جادوگروں کے لئے انتہائی پرکشش بن گئی۔دنیا کے نمبر ون جادو گر ڈیوڈ بلین نے اس کو سٹریٹ میجک میں استعمال کرکے مشہور کیا تو ان کے بعد آنے والے اس صدی کے بہترین جادوگر کرس اینجل نے تاش کے کلواَپ میجک کو انتہا پرپہنچا دیا۔

خیر بات ہورہی تھی سلور ایکس کیسنیو کی جہاں پر ہر رات کی طرح آج بھی وہی ماحول تھا ،البتہ آج ایک نیاجواری آیا ہوا تھا ۔اس کے ہاتھوں کی پھرتی اور تیزی سے رقمیں جتتے دیکھ کر سب اسے اٹھ کردیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ وہ اس مہارت سے تاش کے پتے پھینٹاتھا کہ سب لوگ اس کی پھرتی پر دانتوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے۔اس کی گہری اور تیز نظریں ایسے معلوم ہوتی تھیں کہ وہ آر پارپتوں کے اندر گھس رہی ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے لاکھوں کے بعد جیتے جیتے پچاس ارب کی رقم جیت لی تھی۔ وہ اس وقت ٹیبل نمبر پندرہ پر بیٹھا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکھٹے ہوکر اسے گھیرے ہوئے تھے۔میز پر کوئی چار افراد تھے اور سب کے سب مانے ہوئے شاپر تھے مگراس نئے مہمان نے تو سب کو ہی حیران کردیا تھا۔کیسنیو کی انتظامیہ پریشان تھی کہ کہیں آج یہ کیسینو کو ہی دیوالیہ نہ کردے۔باون پتوں کی گڈی اس کے ہاتھ میں تھی ہر گیم میں وہ نئے انداز میں شفل یعنی پھینٹتاتھا۔اس کی ہاتھوں کی پھرتی قابل دید تھی۔

ہندو شفل ،رفل شفل اور اوور ہینڈ شفل تو بہت عام ہیں اور یہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔ اوور ہینڈ شفل میں تاش کو تھوڑا سے ترچھاپکڑا جاتا ہے اور اوپر سے پتے ہٹاہٹا کرنیچے ڈالے جاتے ہیں۔ہندو شفل بھی اسی سے ملتی جلتی ہوتی ہے جس میں تاش کے پتوں کو ہاتھوں میں بالکل سیدھا پکڑا جاتا ہے اور پھر انہیں پھینٹا جاتا ہے۔البتہ رفل شفل تھوڑی مختلف ہوتی ہے اس میں تاش کے پتوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے انہیں ایک دوسرے کے اوپر کچھ اس طرح سے گرایا جاتا ہے کہ ایک حصے سے ایک پتہ اور دوسرے حصہ سے دوسرا پتہ یوں پوری تاش کے پتے کو ایک دوسرے کے اوپر گرا کرانہیں مضبوطی سے پکڑکرجب انہیں موڑ کر چھوڑا جاتا ہے تو یہ انتہائی دلکش انداز میں بہت تیزی سے ایک دوسرے کے اوپر گرتے چلتے جاتے ہیں۔رفل شفل کیسینو میں بڑی عام ہوتی ہے۔

لیکن اس مہمان نے آخری گیم میں کیسکیڈ شفل(cascade Shuffle) کیا جس میں تاش کے پتوں کو برابر دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو تھوڑا سا ترچھا کرکے دوسرے حصے میں زبردستی گھسا کرانہیں نہایت خوب صورت انداز میں چھوڑ دیا۔ تاش کے پتے ایک دوسرے کے اوپر نہایت پھرتی سے ایسے گرے جیسے آبشارگرتی ہے۔ یہ گیم پچا س ارب کی لگی ہوئی تھی ، جتنے وہ جیتا تھا اب وہ اتنے ہار بھی سکتا تھا۔یا یہاں سے ڈبل کرکے جاتا۔اس نے نہایت پھرتی سے ہر کھلاڑی کو تین تین پتے بانٹے اور اپنے پتے اپنے سامنے رکھ لئے ۔اس نے اپنے پتے دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔وہ تیزچھپتی ہوئی نظروں سے باقی کھلاڑیوں کو دیکھنے لگا۔ دو کھلاڑی اپنے پتے دیکھتے ہی گیم چھوڑ کر سائیڈ پر ہوگئے،انہیں اپنی ہار نظر آرہی تھی لحاظہ بغیر کھیلے ہی وہ الگ ہوگئے۔اب وہ اور ایک اور شخص بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔سب سے پہلے اس نے شوکہا تو اس کے مخالف کھلاڑی نے دو غلام اور ایک ملکہ کھول کر اسکے سامنے رکھ دی۔اب اس کے باری تھی اس نے گھورتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں ۔ تجسس بڑھتا جارہا تھا،کیونکہ کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کے کون سے پتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس نے خود بھی اپنے پتے نہیں دیکھے تھے۔ بالکل خاموشی چھاگئی ،کیسنیو کی انتظامیہ سخت پزل تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے وہ چند لمحے سب پر انتہائی بھاری ثابت ہورہے تھے۔پھر اس نے بہت آرام سے ایک پتے کو کھنچ کر اپنے پاس کیا اورا س سے زیادہ آہستگی سے ملکہ کھول کر سامنے کردی۔ملکہ دیکھ کر اس کے مخالف کھلاڑی کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آئی اور پھر غائب ہوگئی۔اب باقی دو پتے کھلنے کی باری تھی۔ اس نے انتہائی آہستگی سے دو پتوں کو اپنی طرف کیا اور پھر انتہائی پھرتی سے اپنی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ دو پتے میز پر ایک ادا سے اچھال دیئے۔وہ پتے اڑتے ہوئے فضامیں تین چار دفعہ گھول گھول گھومتے ہوئے ملکہ کے اوپر جاگرے ۔۔۔۔سب لوگ حیر ت سے منہ کھولے ان پتوں کو دیکھ کر سکتے میں آگئے تھے۔کیسنیو انتظامیہ واقعی دیوالہ ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ ایک ارب ہی کسی کوجیتنے دیتے تھے ان کے ماہر شاپرکسی کو بھی اس سے زیادہ جیتنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ملکہ کے اوپر دو بادشاہ رکھے ہوئے تھے۔اس نے انتہائی مہارت سے کیسنیو کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔سب لوگوں نے تالیاں بجاکر اسے داد دی۔اس کا مخالف کھلاڑی میز پر زور سے ہاتھ مارتا ہوا بری بری شکلیں بناتا ہوا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

اس پراسرار مہمان نے مسکراتے ہوئے وہاں سے اٹھتے ہوئے سب لوگو ں کا شکریہ کیا اور کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا۔وہاں پر ایک کاؤنٹر گرل موجود تھی جس نے مسکراتے ہوئے اسے مبارک باد ی اور ساتھ ہی اس نے اتنی بڑی رقم فوری نہ ہونے کے باعث معذرت کی ۔تو اس اجنبی مہمان نے مسکراتے ہوئے ایک کارڈ نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔

"کوئی نہیں اب میں آپ لوگو ں کا مہمان نہیں رہا۔۔۔۔کیسنیو پھر میرا قرض دار رہا۔۔۔۔۔اگر کیسنیو اسی طر ح قائم رہاتومیں آئندہ آکر رقم لے جاؤں گا۔۔ یہ میرا کارڈ آپ رکھ لیں ۔۔۔۔"وہ انتہائی پراسرار لہجے میں کہتے ہوئے پھر وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہواچلاگیا۔ کاؤنٹر گرل نے اسکے سحر سے نکلتے ہوئے جوں ہی کارڈ اٹھا کر دیکھا تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کیونکہ اس پر ایک سیاہ نیولا بنا ہواتھا جبکہ اس کے علاوہ اور کوئی تحریر موجود نہیں تھی۔
********
انور اور رشیدہ جیک اینڈ جل شاپنگ سینٹر سے شاپنگ کرکرکے باہر نکلے ہی تھے کہ انور کو سڑک کے پار ایک آدمی نظر آیا،اتفاق سے اس کی نظر بھی انور پر پڑی اور دونوں کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک روشن ہوئی ہی تھی کہ دوسرے آدمی نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔انور نے پھرتی سے اپنی کار کاپچھلا دروازہ کھولا اور اس میں تمام شاپنگ لفافے پھینکے اور پھر اس نے ٹریفک سے بچتے بچتاتے سڑک پار کی تو دوسرا شخص انتہائی تیزی سے فٹ پاتھ پر اسکی مخالف سمت دوڑ رہاتھا۔دونوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا،اور رش بھی مگر انور کی تیز نظروں نے اسے کھونے نہیں دیا۔وہ شخص تیزی سے ایک گلی میں مڑا جہاں پر زمین پر،دکانوں میں ریڑھیاں پر اور کھوکھے لگائے دکاندار آوازیں لگا لگا کر مختلف چیزیں بیچ رہے تھے۔وہاں پر عورتوں ،مردوں کے کپڑے ،بچوں کے کھلونے ،کتابیں،تلی ہوئی اوردیگر کھانوں کی چیزوں کے علاوہ ڈائی فروٹس بھی مل رہے تھے۔یہ ایک چھوٹی اور متوسط درجے کی مارکیٹ تھی۔وہ شخص دوسرے لوگوں سے بری سے ٹکراتا ہوادوڑ رہاتھا۔انور بھی اسکے پیچھے تھا،وہ بھی تیزی سے اس مارکیٹ میں داخل ہوگیا۔ ایک دم سے دوڑتے دوڑتے اس شخص کے سامنے ایک سائیکل والا آگیا۔ جو گلی کراس کرکے ایک دوسری چھوٹی گلی میں جانے چاہتا تھا کہ اس آدمی کو آتا دیکھ کر وہ ایک دم سے بوکھلا کردرمیان میں رک گیا۔جوں ہی وہ شخص اس کے پاس پہنچا اس نے فوراً سائیکل کے اگلے ٹائرکے اوپر سے جھلانگ لگائی اور اڑتا ہوا وہ ایک گول گپوں کی ریٹرھی کے اوپر جاگرا۔ریڑھی اس کے وزن کی تاب نہ لاسکی اور وہ آدمی اور ریڑھی دونوں ایک ساتھ زمین پر گرے تو ریڑھی پر رکھی ہوئی تمام چیزیں زمین پر گرگئیں ۔دومٹکے بھی گرتے ہی ٹوٹ گئے اور اس میں سے سارا پانی اور کھٹائی نکل کر زمین پر بہہ گئی ۔ریڑھی والا اس اثناء میں زمین سے گر کرکھڑا ہوگیا اور پھر اس نے غصے سے اس آدمی کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیئے ۔پھر اس نے اسے ایک جھٹکے سے کھڑا کیا ہی تھا کہ اس آدمی نے اپنے آپ کو چھڑایا اور پھر وہاں سے تیزی سے دوڑلگا دی ۔ریڑھی والا بھی اپنی ریڑھی چھوڑ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔ اس سارے عمل کو دیکھتے ہی مارکیٹ کے دیگر لوگوں نے بھی اوئے اوئے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ آدمی ایک چھوٹی سی سائیڈ گلی میں مڑا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا اور انور نے کافی دور تک اس کے پیچھے گیا ۔مگر جو لوگ اس کے پیچھے گئے تھے ،وہ بھی کچھ دیر بعد تھک ہار کر اس کا پیچھا چھوڑ کر واپس آگئے ۔ نہ جانے وہ گلی میں گھستے ہی کہا ں غائب ہوگیا تھا۔انور کو شدید مایوسی ہوئی اس نے زور سے زمین پر پڑے ہوئے ایک جوس کے خالی ڈبے پر اپنی لات گھمائی اوروہ اڑتا ہوا دور جاگر ا۔اب بے بسی سے لاتیں مارنے کے سوااور کیا رہ گیا تھا۔
********

"ہارڈ سٹون۔۔۔"
"بی الیون سر۔۔۔۔۔"
"یس۔۔۔۔۔۔۔"
"سرایک بڑی مچھلی کو سیاہ جال میں پھنساکراسے کسی نامعلوم بازار میں فروخت کردیا گیاہے،بہت کوشش کے باوجود بھی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔۔۔۔"
"اوکے ۔۔۔۔تم لوگ ہیروں پر نظر رکھو اور ہوشیار رہو۔۔۔ایسے نہ ہوکہ کوئی سمگلرانہیں لے اڑے۔گڈبائے"
فریدی اس وقت سٹنگ روم میں بیٹھا تھا اور اس کے سامنے حمید ایک صوفے پر بیٹھا ایک جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا کہ فریدی اس سے گویا ہوا۔

"ایک بہت بری خبر ہے کہ قاسم کو دو حبشیوں نے ایک مقامی ہوٹل سے اغوا کرلیا ہے،کچھ فاصلے تک ان کا پیچھا ہوتا رہالیکن پھر وہ پہاڑی علاقے میں جاکر کہیں گم ہوگئے ۔ میرے خیال میں اب شیری کام آئے گا،تم اسے نکال کر لے آؤ میں تب تک قاسم کی کوئی چیزتلاش کرتا ہوں جس کی مدد سے شیری ہمیں قاسم تک پہنچائے گا ،میرے خیال میں اب دو دو ہاتھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔"فریدی نے انتہائی ٹھوس لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر اندرونی کمروں کی جانب بڑھ گیا ۔جبکہ حمید سٹنگ روم سے نکلتے ہوئے ایک راہدری میں آیا اور پھر وہاں سے منسلک وہ ایک اور راہداری میں داخل ہواجہاں پر دائیں بائیں بہت سے دروازے تھے ۔راہداری کے آخر میں ایک بند دروازے کے سامنے وہ رک گیا جسکے اوپر" ڈاگ ہاؤس" لکھا ہوا تھا۔

اس نے دروازہ کھولا تو اس کے سامنے ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ نظر آنے لگا۔ جہاں بہت سے پنجروں میں کتے بندھے ہوا تھے۔جن کی دیکھ بھا ل کے لئے باقاعدہ دس بارہ ملازم ہر وقت موجود رہتے تھے۔ حمید کو دیکھتے ہی سب نے بیک وقت دم ہلا کر اچھل اچھل کر بھونکناشروع کردیا۔ وہ سب کے سب حمید کے بہترین دوست تھے گویا وہ یوں اچھل کودکر کے حمید کو ڈاگ ہاؤس میں خوشامدید کہہ رہے تھے۔ سب کی خواہش تھی کہ حمید ان کے پاس آکر انہیں پیار کرے یاانہیں اپناوقت دے مگر حمید ان سے بے نیاز تیزی سے چلتا ہواشیری کے پنجرے کی جانب بڑھ گیا۔پھر ایک ملازم نے آگے بڑھ کراسکے پنجرے کا دروازے کھول کر اسے پٹاپہنا کراس کے ساتھ زنجیر لگائی اور پھر اسے حمید کے ہاتھ میں تھما دیا۔ شیری جرمن شیفرڈ نسل کا کتاتھااور بہت خوب صورت تھا،فریدی اور حمید دنوں کا پسندیدہ کتاتھا۔اس کی ناک پر مکمل سیاہی تھی جو اس کے جسم کے اوپری حصے تک پھیلی ہوئی تھی البتہ نچلا حصہ اور اس کا سینہ بھورے رنگ کا تھا ۔وہ انتہائی پھرتیلا تھا اور فریدی اور حمید کا ایک بہترین ساتھی بھی جس نے کئی مجرموں کو تنہاہی گرفتا رکروایا تھا۔

پنجرے سے نکلتے ہی وہ اچھل کر باہر نکلا اور تیر کی طرح حمید کی ٹانگوں کے درمیان گھس کر اس کے قدموں میں نچھاور ہوکر حمید سے لاڈ کرنے لگا۔ حمید نے اپنے پنجوں کے بل بیٹھ کر اسے ڈھیر سارا پیار کیا اور پھر اسے لئے وہ تیزی سے وہاں سے نکلتا چلاگیا۔کچھ دیر بعد وہ دونوں سٹنگ روم میں پہنچے تو فریدی دو ریوالور لئے کھڑا تھا ۔ اس کے سامنے رکھی میز پر قاسم کی ایک انگوٹھی اور لائٹر رکھا ہواتھا مگر شیری پوری قوت سے حمید سے اپنی زنجیر چھڑواتا ہوا فریدی کی جانب لپکا فریدی نے فوراً ایک ریوالور حمید کر طرف اچھال دیا اور پھر نیچے جھک کر شیری کوبھرپورانداز پیار کیا اور پھر اٹھ کر اس نے اپنے ریوالور کو کمرکی ایک سائیڈ رپر اپنی پینٹ کے اندر پھنسایا اور پھر اسکے اوپر اس نے اوور کوٹ پہنا اور سر پر فلیٹ ہیٹ پہن کر وہ جو ں ہی فارغ ہواتو شیری اب بھی اسکی ٹانگون سے لپٹا لاڈ کر رہا تھا۔البتہ قاسم بھی اوور کوٹ پہن کر تیار ہوگیا تھا۔فریدی نے شیری کی زنجیر تھامی پھر اس نے میز سے قاسم کی انگوٹھی اورلائٹر اٹھاکر اسے شیری کی ناک سے لگا دیا۔ شیری بہت ہوشیار تھا دیکھتے ہی سمجھے گیا کہ اس سے کون ساکام لیا جارہاہے۔ وہ قاسم سے بھی خوب مانوس تھا لہذاوہ فریدی کو زور زور سے کھینچتا ہوا باہر کی جانب بڑھنے لگا۔وہ تینوں مختلف راہداریوں سے ہوتے ہوئے باہربرآمدے میں نکلے توآسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور تیز بارش ہورہی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ان تینوں کو بہت سے نقاب پوشوں نے چاروں طرف سے گھیرلیا۔ان سب نے ایک ساتھ ملکر فریدی کو سلیوٹ کیااور پھر وہ نقاب پوشوں کے گھیرے میں ایک وسیع و عریض گیراج میں آئے جہاں پر بہت سی سیاہ لمبی لیموزن کارز کھڑی ہوئی تھیں۔ وہ سب کی سب بم پروف تھیں ،ایک نقاب پوش نے آگے بڑھ کر فریدی کے لئے کار کاپچھلا دروازہ کھولا تو سب سے پہلے شیری اچھل کر اندر داخل ہوگیا اور پھرفریدی خود اندر جابیٹھا۔ پھر نقاب پوش نے اس کادروزاہ بند کیا اور حمید کے لیے گھوم کر دوسرے طرف والا دروازہ کھول دیاحمید کے اندر بیٹھتے ہی وہ دروازہ بند ہوا اور پھر وہ سب کچھ دیرمیں دس گاڑیوں کے قافلے میں وہاں سے آگے پیچھے ایک شان سے نکلے اور پھر وہ گاڑیاں مغل آباد کی گیلی سڑکوں پرتیزی سے پھسلتی ہوئی شہرکے مضافاتی علاقے کی جانب بڑھی چلی جارہی تھیں۔ایسے لگ رہاتھا کہ ساگا لینڈ کے صدر صاحب ،صدرہاؤس سے نکل کر کسی سرکاری دورے پر نکلے چلے جارہے ہیں ۔بارش کی شدت میں اضافہ ہورہاتھااور وقفے وقفے سے نہایت خوفناک بجلی کی چمک سے بادلوں کی شدید گھن گرج بھی ہورہی تھی۔

مغل آباد کے مضافاتی علاقے سے ایک راستہ دور بڑے بڑے پہاڑوں کی طرف جاتا تھا ۔سڑک پختہ اور کافی چوڑی تھی ،کوئی پینتالیس منٹ بعد وہ لوگ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گرگئے۔ پھر وہاں پر ایک جگہ شیری نے بری طرح سے بھونکنا شروع کردیا۔فریدی کے ایک اشارے پر سب گاڑیاں ایک ساتھ رک گئیں ۔ایک نقاب پوش نے تیزی سے فریدی کی گاڑی کا فرنٹ دروازہ کھولا اور وہ تقریباً بھاگتا ہوآیا اور پھراس نے فریدی کی سائیڈ کا دروازہ کھولا توفریدی شیری کے ساتھ باہر نکل آیا۔جبکہ حمید اپنا دروازہ خود ہی کھول کرباہر نکلا۔بارش بدسطور اپنی شدت سے جاری تھی۔

سارے نقاب پوشوں نے گاڑیوں سے نکلتے ہی اپنے آتشی اسلحے نکال لئے۔پھر وہ شیری کی قیادت میں دشوار گذار پہاڑی پر چڑھنے لگے۔سڑک سے ہٹتے ہی وہ پہاڑی چٹانوں پر چڑھتے ،اترتے ،پھسلتے ہوئے بڑھے چلے جارہے تھے۔کچھ نقاب پوش اترتے ہی گاڑیوں کے پاس رک گئے تھے البتہ کچھ فریدی،حمید اور شیری کوانتہائی ماہرانہ انداز میں گھیرے میں لئے پہاڑی پر چڑھ رہے تھے۔کوئی پچاس منٹ تک وہ یوں ہی شیری کی قیادت میں آگے بڑھتے رہے پھر شیری نے پہاڑی کے سب سے اوپراپنے پنجے گھاڑے تو انکے سامنے ایک قدیم قلعہ نماعمارت کھڑی ہوئی تھی۔ جو مکمل طور پر اندھیرے سے ڈھکی ہوئی تھی۔شیری نے اسکے آہنی گیٹ کے سامنے جاکر بری طرح سے بھونکنا شروع کردیا۔وہ کچھ دیر بھوکتا اور پھر پلٹتا اور فریدی کی پینٹ کھینچتے ہوئے اسے آہنی دروازے کے پاس لے جانے کی کوشش کرتا اور پھر جاکربری طرح سے دم ہلاتے ہوئے قلعہ کی طرف منہ کرتے ہوئے بھونکنا شروع کردیتا۔گویا فریدی سے چیخ چیخ کر کہہ رہاہوکہ قاسم یہیں ہے اور وہ اسے بچالے۔ قاسم کی کیا حالت ہوئی ہوگی،کہیں قاتل نے اسے بھی قتل نہ کردیا ہو؟ممکن ہے کرنے والا ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فریدی اور حمید کو یہاں بلاکر پھنسایا گیاہو۔ کچھ بھی ممکن تھا، مگر فریدی کبھی بھی موت یا ٹریپ سے ڈر بھاگا نہیں۔اسکے بارے میں مشہورتھا کہ بڑے بڑے پہاڑ اسکے سامنے آکر اپنا راستہ بدل لیتے تھے۔یہ تو پھر ایک معمولی سا قلعہ تھا،اس نے زندگی بھر ایسے کئی قلعے فتح کیئے تھے۔

فریدی نے شیری کی زنجیر ایک سیاہ نقاب پوش کے حوالے کی اور پھر سائیڈ سے ایک اور نقاب پوش جس کے کندھے پر ایک بیگ لٹکا ہواتھا وہ وہ اچانک نمودار ہوا اور پھر اس نے کندھے سے بیگ اتار کراسے ایک گیلی چٹان پر رکھتے ہوئے اسے کھول لیا۔پھر فریدی نے آگے بڑھ کر اس میں سے ایک تین منہ والا ہک نکالاجس کے ساتھ ایک سیاہ،لمبی اور مضبوط رسی بندھی ہوئی تھی۔اس دوران دیگر نقاب پوشوں نے تین اطراف سے قلعے کو گھیرلیا۔ایک سائیڈپر مکمل ڈھلوان تھی اور اس طرف بہت سی جھاڑیاں اور درخت تھے۔اس جانب ایک بہت ہی خوب صورت دریابھی بہتاتھا۔

فریدی اور حمیدایک بہت ہی اونچی دیوارکے سائیڈ پرآگئے اور پھر فریدی نے اپنے ہاتھ میں موجود رسی کو تولااور دو تین دفعہ اسے گول گول گھماتے ہوئے پوری قوت سے اسے اچھال دیا۔ہک پوری طاقت سے اڑتا ہوا دیوار کی دوسری جانب جاکرغائب ہوگیا۔ فریدی نے پھر اسے آہستہ آہستہ اپنی جانب کھنچا تو ہک دیوار کی دوسری طرف اٹک کرپھنس گیا۔اس نے ایک دو دفعہ پوری قوت سے کھنچ کر اسے چیک کیاتو وہ اسی طرح مضبوطی سے پھنسا ہواتھا۔

کچھ دیر بعد فریدی نے قلعے کی دیوار پر رسی کی مدد سے چڑھنا شروع کردیا۔حمید نے اس کی پیروی کی اور وہ دونوں آہستہ آہستہ انتہائی ماہرانہ انداز میں اپنے قدموں کو انتہائی پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے۔بعدازاں سب سے پہلے فریدی اوپر چڑھا اور اس نے انتہائی ہوشیاری سے دیوار کے اوپراپنے پنچوں کے سہارے چلتے ہوئے حمید کے لئے راستہ خالی چھوڑا تو حمید بھی کچھ دیر بعد اوپر چڑھ آیا۔ دیوار کافی چوڑی تھی اور اندر مکمل اندھیرا فریدی ٹارچ روشن کرکے قلعے کے مکینوں کو ہوشیار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اب بارش کی شدت کچھ کم ہوگئی تھی ۔پھر حمید نے ساری رسی کھنچ لی اور بعدازاں اسے اپنے نیچے گرا کرہک کو اتارکر دیوار کی باہروالی سائیڈ پر پھنسایا اور پھر وہ رسی کے سہارے نیچے اترنے لگا اوراس دوران فریدی نے اسے کور کیا۔ اسکے بعد حمید نیچے اتر کر ایک بڑی سی چٹان کے اوٹ میں جاکر بیٹھ گیا اور اب فریدی کو وہ کور کررہاتھا۔تھوری دیر ہوئی فریدی پھرتی سے نیچے اترا اور وہ بھی اس بڑ ی سی چٹان کے پیچھے آکر حمید سے جاملا۔دونوں نے کوڈ لینگوئج میں کچھ طے کیا اور پھر سب سے پہلے حمید اپنی ریوالور لئے تیزی سے چھپتا چھپاتا اندرونی عمارت کی جانب بڑھنے لگا۔اندر جاکر اندھیرے کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔حمید نے اب احتیاط سے جیب سے پنسل ٹارچ نکال کر اس کو جلایا اور پھر دونوں ہاتھوں کو ملا کرایک دوسرے کے اوپر رکھا، ایک ہاتھ میں ریوالور اور دوسرے ہاتھ میں ٹارچ اور اس کی روشنی میں وہ دھیرے دھیرے مختلف راہداریوں سے ہوتا ہوا جب ایک کمرے میں آیا تو ایک دم سے کمرہ تیز روشنی میں نہاگیا۔دوسرے ہی لمحے میں اس کے ہاتھ پر ایک بھرپور لات پڑی اور پھر اس کے ہاتھ سے ریوالور اڑتا ہوا فضا میں اچھلا اور پھر ایک دم سے ایک حبشی نے آگے بڑھ کر اسے کیچ کرلیا۔جبکہ اس دوران ٹارچ بھی اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگری۔

"ہینڈز اَپ مسٹر حمید۔۔۔۔"حبشی نے دہاڑتے ہوئے کہا،جبکہ اس دوران اس کے پیچھے اس کا ساتھی حبشی بھی آگیا۔یہ ایک ہال نما کمرہ تھاجسے دو حصوں میں منقسم کیا گیا تھا۔ایک حصہ وہ تھا جس میں وہ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور یہاں پر ایک قالین بچھا ہوا تھااور چند صوفے رکھے ہوئے تھے البتہ دوسرا حصہ اس حصے سے قدرے بلند تھا اور وہاں پر ایک تابوت رکھا ہوا تھا او راس کے پیچھے ایک بڑی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی جس کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔کمرے کے اس حصے میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی۔

"دیکھوکالے بھائی شکر ہے تم نے روشنی جلادی اور تم نظر آرہے ہو، میں تو سمجھا تھا کہ تم روشنی میں بھی نظر نہیں آؤ گے اور ہاں میں ہاتھ تو بلند کردوں گامگر تم لوگوں نے اس پورے قلعے میں اندھیرا کیوں کیا ہوا تھا۔کیا بات ہے کہیں آپس میں آنکھ مچولی تو نہیں کھیل رہے تھے۔۔۔۔"

"مسٹر حمید تم زیادہ اوٹ پٹانگ حرکتیں نہ کروورنہ قاسم کی طرح تمہیں بھی یہیں ڈھیر کردوں گا۔ وہ دیکھ رہے ہو تابوت ،اس میں اسی کی لاش رکھی ہوئی ہے اور مجھے یہ ریوالور صرف کیچ کرنا نہیں آتا بلکہ میں اس کا استعمال بھی خوب اچھی طرح کرلیتا ہوں۔"اس کی بات سنتے ہی حمید ایک پل کے لئے سکتے میں آیا اور پھر اس نے اپنا منہ سٹی کی طرح گول کیا اور پھر سیٹی بجادی دی دوسرے ہی لمحے ایک اور دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور اس میں سے فریدی اندر داخل ہوا۔دونوں حبشیوں نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر فریدی ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ریوالور تھا اس نے وہ ایک طرف پھینکا اور انہیں اپنی طرف آنے کا اشارہ کرکے خود کسی جمناسٹک کرنے والے کے سے انداز میں اپنے ہاتھوں کے سہارا الٹاکھڑا ہوگیا۔اسکے ہاتھ مضبوطی سے زمین سے لگے ہوئے تھے اور اسکی ٹانگیں فضامیں تھیں ۔اس سے قبل کے دونوں حبشی کچھ سمجھتے دیکھتے ہی دیکھتے فریدی کے جسم میں بجلی عود آئی ۔اس نے پھرتی سے تین قلابازیاں کھائیں اور پھر وہ فضامیں اچھلااور اڑتا ہوا دونوں حبشیوں کے اوپر سے ہوتا ہواانکے پیچھے آیا اور پھر انکی گردنوں میں مضبوطی سے اپنے آہنی ہاتھ جما دئیے۔آن کی آن میں وہ زور بڑھاتا چلاگیا اور دونوں حبشی بری طرح سے پھڑپھڑانے لگے اور قریب تھا کہ فریدی بھرپورجھٹکوں سے انہیں انکی گردنوں سے محروم کردیتا مگر آخری لمحے میں اس نے انہیں چھوڑدیا وہ بری طرح سے اپنی گردنیں مسلتے ہوئے زمین پر گرے اور پھر آہستہ آہستہ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے انکی نظریں اس دفعہ جھکی ہوئی تھیں۔ فریدی کبھی بھی خامخواہ خون خرابہ پسند نہیں کرتاتھااور معاف کردینے کا قائل تھا۔اس کی یہی ادا دونوں حبشیوں کو فدا کرگئی تھی ،دونوں ہاتھ باندھ کرفریدی کے سامنے کھڑے ہوگئے۔

"میرے آقامیرا نام سامبا ہے اور میںآج سے آپ کا غلام ہوں ۔۔۔"یہ کہتے ہی وہ ایک دم سے فریدی کے سامنے سجدے میں گرگیا۔
"میرے آقامیرا نام آگوراہے اور میں بھی آج سے آپ کا غلام ہوں ۔۔۔"یہ کہتے ہی وہ بھی ایک دم سے فریدی کے سامنے سجدے میں گرگیا۔
"نہیں نہیں ایسا نہیں کرتے ۔۔۔۔"یہ کہتے ہی فریدی نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو نیچے سے اٹھاکرکھڑا کیا اور پھر دونوں کو گلے لگا لیا۔
"میں مسلمان ہوں اور میں اپنے خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتااور تم دونوں بھی صرف اسی کو سجدہ کرو گے۔میں کچھ بھی نہیں ہوں وہ اوپر والا سب کچھ ہیے وہی سجدے کے لائق ہے آئندہ یہ عمل نہ کرنا وہی حقیقی معبود برحق ہے۔یہ بتاؤ تم کس کے لئے کام کررہے ہو؟"
" ہم اپنے آقا سیاہ نیولا کے غلام تھے ،انہوں نے ہی ہمیں افریقہ سے بلایا تھا ،یہاں آکر ہمیں قاسم سمیت آپ دونوں کے فوٹو دیئے گئے تھے۔ہمیں آپ کو یہاں بلاکرقتل کرنا تھا۔مگر آپ نے تو پوری بازی ہی بدل ڈالی ہم لوگ مسلمان نہیں جو ہم پربھاری ہوتا ہے وہی ہم دونوں پر حکومت کرتا ہے۔آپ ہمارے تیسرے آقا ہو اس سے قبل سیاہ نیولا نے ہمارے پہلے آقا کوایک فائٹ میں چاروں شانیں چِت کردیاتھا جسکے بعد ہم اس کی غلامی میں چلے گئے تھے ۔مگر آج تک کوئی ایسا آقا نہیں ملا جس نے ہمیں سجدہ کرنے سے روکا ہو۔آپ واقعی بہت عظیم ہوآپ چاہتے تو ہم دونوں کو ہی مارڈالتے پر آپ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔۔یو آر گریٹ باس"آگورا نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا ۔
"تم لوگ آپس میں رابطہ کیسے کرتے ہو؟۔۔۔۔"اس بار حمیدنے آگے بڑھتے ہوئے ان سے سوال کیا۔
"جنگلی کووں سے ۔۔۔۔"
"کیا مطلب اس اکیسویں صدی میں بھی تم لوگ پرانے طریقے پر عمل کرتے ہو۔۔۔۔وہ کیسے ؟ "حمید نے حیرت سے منہ کھولتے ہوئے کہا۔اس کی بات ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ آگورا چلتاہوا تابوت کو کراس کرتا ہوا کھلی ہوئی کھڑکی کے پاس آیا ۔ پھر اس نے ایک مخصوص سیٹی بجائی تو د وجنگلی کوے اڑتے ہوئے کھڑکی پر آکر بیٹھ گئے۔وہ اپنی جسامت کے اعتبار سے عام کتوں سے زیادہ بڑے تھے اور انکی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی ۔اس کے بعد وہ وہاں سے اڑے اور پھر وہ آگورا کے کندھوں پر آکر بیٹھ گئے۔
" کاغذپر تحریر لکھ کران کے سینوں پر دھاگے کے ذریعے باندھ دی جاتی ہے تو پھر یہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ جاتے ہیں۔بس اتنا سا طریقہ ہے۔ ان جنگلی کووں کو خصوصی ٹرینگ دی ہوئی ہے ۔۔۔۔"ابھی آگورا کی بات ادھوری تھی کہ اچانک تابوت میں سے ایک انتہائی خوفناک قہقہہ بلند ہوا۔حیرت انگیز طور پر تابوت میں سے لاش کا قہقہہ بلند ہوتے ہی سب لوگ حیرت سے منہ کھولے تابوت کی جانب دیکھنے لگے ۔اتنے میں تابوت کا کور کھلااور اس میں سے قاسم کی لاش منہ پر ہاتھ رکھے بری طر ح سے ہنستی ہوئی باہر نکلی اور پھر اس نے حمید کے سامنے جاکر چٹکی بجاتے ہوئے حمید کواپنی پہلی انگلی کااشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"ہی ہی ہی ۔۔۔۔دیکھا ڈر گئے ناں۔۔۔۔۔ہی ہی ہی کیوں کیسا۔۔۔پھر گھماکے رکھ دیاناں سب کو۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔"

*********
(جاری ہے)

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61295 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More