نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے

تمام ترنیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ ر اقم کی طرف سے پوری دنیا کے انسانوں خاص طور اہل پاکستان کو نیا سال مبارک ہو۔زندہ دل قومیں آنے والوں کو خوش دلی کے ساتھ خوش آمدید اورجانے والوں کورخصت کیاکرتیں ہیں ۔سال 2015ء کی آخری شام کی دہلیز پرکھڑے لاکھوں تکالیف سینے میں چھپائے آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے سال2016ء کواس اُمیدکے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں کہ نیاسال خو شیوں کا پیغام لائیگااورچاروں طرف پھیلی بداعمالیاں،بے ایمانیاں، وحشت ناک بدامنی،ناانصافی ،دہشتگردی،مہنگائی،بے روزگاری،بھوک ،ناپ تول میں کمی کارجحان اوردیگرمسائل کاخاتمہ آئندہ سال ممکن ہوگا۔دنیا تیزی کے ساتھ تیسری جنگ عظیم کی طرف گامزن ہے،ہرطرف جنگی اتحاد قائم ہورہے ہیں کوئی بھی انسانی اتحادقائم کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا حتیٰ کہ اسلام کے مرکزسعودی عرب سے بھی عسکری اتحاد کا نعرہ بلند ہوچکاہے ۔خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ بہت تیزہوچکی ہے ،انسانوں کے منہ سے نوالہ چھین کرحکمران ایٹم بم بنانے پرخرچ کررہے ہیں ۔جس رفتار کے ساتھ غربت میں اضافہ ہورہاہے اُسے دیکھ کراُمیدکی جاسکتی ہے کہ کسی کوبھی ایٹمی ہتھیار چلانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ،دنیابھرمیں لوگ بھوک اوربیمایوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے ۔جس جنگی جنون میں انسان مبتلاہوچکا ہے واپسی ممکن نہیں پھربھی اُمیدکا دامن ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہئے ۔جناب چوہدری عبدالخالق صاحب نے خوشی،اُمید،عدل وانصاف کے جذبے،صحت وتعلیم کی اہمیت اورمستقبل میں محنت اورلگن کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کو اپنے اندازمیں بیان کیاہے۔وہ کہتے ہیں
’’سال نوکوخوش آمدید کہتے ہیں
نویدِ مسرت ہمیں جو سنائے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے
غریبی کا رونا کوئی بھی نہ روئے
کوئی بھی بشر رات بھوکا نہ سوئے
پریشانی کوئی کسی کو نہ آئے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے
یہاں سر چھپانے کو اپنا مکاں ہو
یہاں روزگاری کا ملنا آساں ہو
بیکاری کسی کو کبھی نہ ستائے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے
یہاں ہر باشندہ بڑا محترم ہو
یہاں ایک جیسا سبھی کا بھرم ہو
امیری غریبی کوئی نہ جتائے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے
ملے سب کو تعلیم یکساں معیاری
ترقی کی راہ پہ چلے قوم ساری
پڑھائی میں پیچھے کوئی رہ نہ جائے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے
صبح شام محنت کریں بندے سارے
تو جاگیں گے سوئے مقدر ہمارے
محبت کے نغمے ہر ایک شخص گائے
نیا سال خوشیوں کا پیغام لائے‘‘

غورطلب بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سی بلا ہے جس نے ماضی اورحال میں انسان کے دل محبت کے جذبے کونکال نفرت کے بیج بوئے اورپھراُسے کھاد پانی بھی مہیاء کئے ؟کائنات میں اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں تخلیق فرماکرہمارے لئے زندگی کا بہترین سامان پیداکیااورہم دنیابھر کے وسائل اپنے دامن میں سمیٹ کرآرام وسکون حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی سوچ نے انسان کو بے حد ظالم بنادیاہوگاجوآج دنیا پرحکمران بن چکے ہیں۔ راقم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں کی طرح سال2015ء میں بھی دنیا کی حکمرانی ظلم پسند ذہنیت کے نرخے میں رہی۔ظالم حکمران کہاں سے آتے ہیں ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت کسی بھی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھاکہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران مسلط ہوں گے۔ ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جو ہمیں مسلمان ثابت کرتے ہیں پرہم ان کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اعمال بھی کرتے ہیں جن کے کرنے سے ہمارے وہ اعمال ضائع ہوجاتے ہیں جو ہمیں قدرتی آفات ،ذلزلوں،وباؤں یعنی بیماریوں،قحط و مصیبت ،ظالم حکمرانوں،غیر مسلم دشمنوں، آپسی لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ایسے حالات میں بیٹھ کرحکمرانوں کو بُرابھلا کہنے یا صرف یہ سوچنے سے کہ ظالم حکمران کہاں سے آتے مصیبتوں سے جان نہیں چھوٹتی ۔کیونکہ ظالم حکمران نہ تو آسمان سے گرتے ہیں ،نہ زمین کھود کر نکالے جاتے ہیں ،نہ سمندروں کی گہرایوں سے دریافت ہوتے ہیں،نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اُگتے ہیں اور نہ ہی کوئی خلائی مخلوق ہیں ۔یہ ظالم حکمران بھی ہماری طرح ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور یہ پیدائشی ظالم بھی نہیں ہوتے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ظالم کس طرح بن جاتے ہیں؟کیاکوئی سکول ،کالج یا یونیورسٹی ہے جو ظلم و جبر کی تربیت دیتی ہے ان کو ؟ ناقص عقل سے ان سوالات کے جوابات مانگیں گے تو ان سوالات کے جوابات ملنے کی بجائے بہت سے اور سوالات جنم لیں گے جو ہمیں گمراہی کی طرف بھی مائل کرسکتے ہیں ۔اس لیے بہتر یہی ہے مسلمان اپنے دین اسلام سے ان سوالات کے جوابات مانگ لیں ۔کوئی غیر مسلم بھی اسلام سے کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے تواسے بھی کھلی چھٹی ہے ۔وہ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدؐ کودوجہانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ہے اور اسلام نہ صرف انسانوں بلکہ کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے حقوق کا نگہبان ہے۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور وہ تمام اعمال بھی باقائدگی کے ساتھ دہراتے رہیں جن سے میرے اور آپ کے پیارے نبی حضرت محمد ؐ نے پناہ مانگی تو پھر ہم صرف نام کے مسلمان رہ جاتے ہیں۔حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے رویت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا میں پناہ مانگتا ہوں پانچ چیزوں سے کہ تم ان کو پاؤ۔جب کسی قوم میں فحاشی ( یعنی شراب نوشی بدکاری ناچ گانا وغیرہ)اعلانیہ ہوں گے تو وہ طاعون یعنی وباؤں اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوگی جوان سے پہلے لوگوں میں کبھی نہ ہوئی تھیں۔جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی(یعنی تجارتی بدعنوانیاں ،چوربازای وغیرہ)کرے گی توان میں قحط مصیبت اور ظلم ہوگا۔جوکوئی قوم ذکواۃنہیں دیتی تو اﷲ تعالیٰ ان پر بارانِ رحمت روک دیتا ہے، جانور نہ ہوں تو کبھی ان پربارش نہ ہوتی۔جب کوئی قوم اﷲ اور اس کے رسولؐ سے عہد شکنی کرتی ہے تو اﷲ تعالیٰ غیر قوم سے ان کے دشمن کو ان پرمسلط کردیتا ہے جوان کے مال (یعنی دولت ،تجارت اور زرعت وغیرہ )کوزبردستی چھین لیتا ہے۔جب مسلمان حاکم اﷲ کی کتاب(یعنی قرآن کریم)پر عمل نہیں کرتے اور جو اﷲ نے نازل کیا ہے اس کواختیار نہیں کرتے(شریعت نافذ نہیں کرتے )تواﷲ تعالیٰ ان میں لڑائی کرادیتا ہے (یہاں تک کہ خانہ جنگی ہوجائے)قارئین محترم غور کریں تو یہ تمام برائیاں آج ہمارے معاشرے موجود ہیں اور وہ تمام مشکلات بھی موجود ہیں جن کے بارے میں اﷲ اور اُس کے رسول ؐنے پہلے ہی خبر دے دی تھی۔ ہم ان مشکلات (یعنی عذاب الٰہی )سے بچنا چاہتے ہیں توپھر نئے سال کوغیر اسلامی طریقوں کی بجائے اﷲ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوکرخوش آمدید کہنا چاہے ۔کم از کم مسلمانوں کو ہیپی نیوائیرنائٹ زنا،ناچ گانا،شراب نوشی ،ہوائی فائرنگ اور نشے کی حالت میں اپنے ہی قومی اثاثوں کی توڑ پھوڑکرکے نہیں منانی چاہے ۔اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اﷲ اور اُس کے رسولؐسے عہد شکنی نہیں کریں گے۔ بقول فیض احمد فیض
’’اے نئے سال بتا، تْجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

یقیناً نئے سال میں کوئی بات بھی نئی بات نہیں ،ہرصبح سورج نکلے گااورشام کوڈوب جائے گا،ہرسال کی طرح ہی 2016ء میں بھی کوئی پیداہوگااورکوئی رخصت ہوجائے گا،پھر بھی ہم اﷲ تعالیٰ کے بارگاہ میں دُعاگوہیں کہ نیا سال انسانیت کیلئے خوشیوں کا پیغام لائے اورانسان جنگوں کا سامان جمع کرنے بجائے امن وسکون کی تلاش میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرزندگی گزارنے کی کوشش کریں،سودی نظام کے حامیوں پراﷲ کی لعنت برسے اورذاکواۃ کا نظام رائج ہو
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.