کل ایک عمر رسیدہ خاتون میرے گھر کے سامنے سے گذر رہی
تھیں ۔ مجھے دیکھا اور رُک کر کہا اﷲ کے نام پر دس روپے یا کھانا کھلا دو
بیٹا۔
میں نے ادب سے ان کو اندر آنے کو کہاتو انہوں نے اندر آنے سے معذرت کی اور
کہا میری بیساکھیاں مجھے اندر آنے سے روک رہیں ہیں میں بیٹا اندر نہیں آ
سکتی۔بیٹا آپ میر ی مدد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ان کا لہجہ دھیما آواز کانپ
رہی تھی اور آنکھوں میں ہزاروں سوال میں نے کرسی باہر منگوائی اور اُن کو
بیٹھا دیا۔ تازہ کھانا کھلایا جب وہ کھانا کھا چُکیں تو میں نے نرم اور
دھیمے لہجے میں عرض کی ماں جی اگر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں۔ آپ پیشہ
ور بھیکاری نہیں لگ رہیں ابھی اتنا ہی کہا تو ان کی آنکھوں سے موٹے موٹے
آنسو جاری ہو گئے ۔ میں نے معذرت کی اور کہا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں
اور معافی چاہتا ہوں آپ کو بُرا لگا۔ تو انہوں نے کہا بیٹا میں سچ میں کوئی
پیشہ ور بھیکاری نہیں ہوں وقت اور حالات کی ماری ہوں، درد بھر ے لہجے میں
ٹھنڈی آہ بھر ی اور کہا ایک وقت تھا جب میں خود لوگوں کو خیرات صدقات اور
زکوٰۃ دیا کرتی تھی اور آج ایک بھیکارن۔
وہ بتاتی ہیں ان کے شوہر کی اپنی وین (گاڑی)ہوا کرتی تھی اپنا گھر تھا ایک
حصہ کرائے پر دیا ہواتھا۔ پھر ان کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ علیل ہو
گیا، علاج معالجہ میں ان کی وین بک گئی گھر گروی رکھ کر علاج کروایا مگر
قدرت کو کچھ اور ہی منظورتھا، ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے دو بیٹے
تھے جو نشے میں لگ گئے اور دن بدن فاقوں نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیئے غربت
اپنے عروج پر آگئی تو بوڑھی ماں جی کی ٹانگیں کام کرنا چھوڑ گیئں بیساکھیاں
مقدر بن گییں ٹانگوں کا علاج کروایا چلنا پھرنا شروع ہو گییں کہ ایک دن ایک
ون ویلر موٹر سایئکل والے نے ٹکر ماردی جس سے ان کے آپریشن پر گہرا ثر پڑا
اور وہ پھر بیساکھیوں پر آگیئں۔ آج وہ کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہیں۔ ایک
قدم بھی چلنا دشوار ہو گیا ہے ، میں شائد یقین نہ کرتا مگر سامنے والے گھر
کی ایک بوڑھی خاتون نے اسکی کی اس کہا نی کی تصدیق کر دی اور کہا بیٹا قدرت
کے کیا کرشمے ہیں، چاہے تو بادشاہ کو فقیر اورفقیر کو بادشاہ بنا دے اس کے
بھی آنسو جاری ہو گئے
میں یہ سب آ پ تک اس لیے نہیں پہنچا رہا کہ میں نے کوئی نیکی کی بلکہ اس
لیئے کہ ہمارے معاشرے کتنے ایسے لوگ موجود ہیں اور ہمارے پاس ان کی بات
سننے کے لیئے وقت نہیں ۔ ہم کتنے بے حس ہو گئے ہیں مدد کرنے کی بجائے
تصویریں بنا رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ ہم نے سٹییٹس اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے۔
ہمارے حکمران بہت اچھے پراجیکٹ کرتے ہیں عوامی فلاحی منصوبے ان کی اولین
ترجییح گردانے جاتے ہیں مگر عملی طور پر ایسے کئی لوگ ہیں جن کے پاس بنیادی
ضروریاتِ زندگی بھی نہیں میٹرو بس یا ٹریں کوئی غلط منصوبہ نہیں لیکین
اگرحکومتیں ایسی جماعت تشکیل دیں جو مختلف علاقوں میں دن رات گشت کریں اور
اس خاتوں جیسے ضرورت مند لوگوں کی مد د کریں اور ایماندارلوگوں کو ایسی
جماعتوں میں نمائندگی دی جائے جو ایمانداری سے اس فرض کو ادا کریں مکمل چیک
اینڈ بیلنس ہونا چاہیے مگر اکثر دیکھا گیا ہے ایسے منصوبے اخباروں او ر
میڈیا کی زینت تو بنتے ہیں مگر ضرورت مند اس سے استفادہ حاصل کرنے سے قاصر
نظر آتے ہیں اور خوشامدی لوگوں کو ہی صر ف نوازہ جاتا ہے ۔
کبھی ہم نے سوچا ہمارے پاس سب کچھ ہوتا ہے اور ہماری زبان نا شکری کے الفاظ
بولتے تھکتی نہیں ۔ اتنی نعمتیں ہونے کے باوجود اگر کوئی حکومتیں پُل بناتی
ہیں ، میٹرو چلاتی ہیں اور اس جیسے کئی منصوبوں کے لیئے اربوں روپووں کے
فنڈ زجاری کرتی ہیں مگر ہسپتالوں میں جہاں لوگوں کو علاج معلاجے میں آسانی
چاہیے وہ نظر نہیں آتی ، کئی ایسے ہسپتال ہیں جہاں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے
اس کے لیئے فنڈز کی کمی ہے ، پنجاب کے ایسے کئی سکول ہیں جن کے پاس بیٹھنے
کے لیئے فرنیچر نہیں ،چار دیواری تک نہیں سردی اور گرمی کی سختی بچے زمین
پر اور نیلے آسمان کی چھت کے تلے گذارا کرتے ہیں۔ حکومت سے التجا ہے میٹرو
بے شک ایک بہت اچھا منصوبہ ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کے لیئے ضروری ہے
وہاں کی ٹریفک میں روانی ہونی چاہیے انٹرنیشنل طریقے کے مطابق سڑکیں ہونی
چاہیں لیکن اسے سے کہیں زیادو ضروری ہسپتالوں کی تو سیع ہے، ہسپتالوں میں
جدید طرزکی مشینری کی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ وہاں کے عملے کے رویے
کو درست کرناضروری ہے، تعلیم کا یکساں نظام ضروری ہے ۔ تمام اداروں پر کڑی
نظر رکھنی ضروری ہے ۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ایک حاملہ خاتون کے
ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کر کہ اسے ہسپتال سے نکالا گیا اگر ایسا کسی
امیر کے ساتھ کیا جاتا تو عین ممکن تھا وہ ہسپتال کو آگ لگا دیتا مگر وہ
غریت خاتوں اپنی ماں کے ساتھ روتی اور ظلیل ہوتی ہوئی اور بد دعایں دیتی
ہسپتال سے باہر گئی۔حکومتِ وقت کی یہ اولیں ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ ایسے
اقدامات کرے کہ حکومتی پالیسیوں کا ثمر اک عام شہری تک پہنچے۔اگر ہم بطور
انسان رات کو سوتے ہوئے اپنا احتساب کرلیں کہ آج کا دن کیسا گذرا ، میں نے
کیا کھویا کیا پایا ؟ کیا میں نے آخرت کے لیئے اپنا کوئی فرض ادا کیا تو
بہت سی پریشانیاں خود بخود ختم ہو جائیں۔
بُرے بندے نوں لبھن ٹُریا پر بُر لبھا نا کوئی
جد میں اندر جھاتی پائی تے میتھوں بُرا نہ کوئی
اگر ہماری ایک خواہش پوری نہ ہوتو ہم معاذاﷲ کفریا الفاظ تک بول جاتے ہیں ۔
میری تو قسمت ہی خراب ہے، کبھی خود پہ ہی غور کر لیں، ہاتھ پاؤں آنکھ ناک
کان اورزبان سب اﷲ کی نعمتیں ہیں اگر ان کا شکر بجا لائیں تو ہماری آخرت
اور دنیا دونوں سنور جائیں۔
اور اس اماں جی کا حوصلہ دیکھیں ، بیٹا میں اس کی رضا پر خوش ہوں، وہ میرا
اﷲ ہے میرا مالک ہے میں تو اس کا نا چیز بندہ ٹھہری ، شکر ہے رب ذولجلال کا
جس نے مجھے یاد رکھا ۔
آے اﷲ ہم سب کو اپنا شکرگذاربندہ بنا دے آمین۔
﴿محمد طاہر تبسم درانی﴾
|