سول افسران کسی بھی ریاست کا نظام و انصرام چلاتے ہیں اور
یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ یہی افسران ریاست کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں
،برصغیر کی تاریخ میں سول سروس کی تجویز برطانوی سامراج کے دور میں دی گئی
جسے تاج برطانیہ نے قیام کے وقت آئی سی ایس ( امیپریل سول سروس ) کا نام
دیا گیا ،پھر یہی انڈین سول سروس کے نام سے مقبول ہوئی ،قیام پاکستان کے
بعد بھارت میں اس نے بطور آئی سی ایس ہی کام کرنا جاری رکھا ،جبکہ وطن عزیز
میں یہ’’ سی ایس پی‘‘ کے نام سے وجود میں آئی،سول سروس آف پاکستان اپنے
قیام سے ہی تجربات کے مراحل سے گزرتی رہی ،ایک آمر جنرل ایوب خان کے دل میں
آیا تو انہوں نے راتوں رات سول سروس میں ہنگامی ریفارمز کرنے کا اعلان کیا
۔۔۔مگر سلسلہ یہیں نہیں تھما۔۔۔جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جی
میں آیا تو انہوں نے 12سروس گروپ متعارف کروا دیا اور 1973ء سے پہلے کامن
کا آغاز ہوا،ملک میں آنے والی ہر حکومت نے سول سروس ریفارمز کے نام پر
سیاست کے اس اہم ڈھانچے کو چھیڑنے کی کوشش تو کی مگر آج تک کوئی حکمران بھی
اس معاملے کو کنارے نہیں لگا سکا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ملک پر 8سال تک غیر آئنیی و غیر
قانونی طریقے سے حکمرانی کرنے والے آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے مشیر
خاص دانیال عزیز کے ذریعے سول سروس کے برسوں پرانے نظام کو خوب ہلایا
،’’نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو‘‘ میں دانیال عزیز نے لوکل گورنمنٹ کو مضبوط
اور طاقتور کرنے کے نام پر ’’سول سروس‘‘ کا پورا ڈھانچہ تباہ کر کے رکھ دیا
ہے ،آج بھی پاکستان میں جمہوری حکومت ہے ،جس کی چند اولین ترجیحات میں سے
ایک سول سروس ریفارمز بھی ہیں ،گزشتہ کئی ماہ سے ملک بھر سے میرے دوست سول
سروس افسران سے ہونے وا لی بات چیت کے بعد راقم نے سوچا کہ اس نازک معاملے
پر ’’حقائق‘‘ قارئین کے گوش گزار کروں،وطن عزیز میں ہمیشہ ہی غیر سنجیدہ
انداز میں سول سروس ریفارمز کے باب کو کھولا گیا ہے جس کے نتائج پھر سب نے
دیکھے ہیں ، ملک میں پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کی بات ہو یا وزیر اعظم کی
گڈ گورننس کی پالیسی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا انقلاب کا
نعرہ،ریاستی اداروں کا کرپشن فری نعرہ ہو ان تمام معاملات کو واقعی عملی
جامہ پہنانا ہے تو صرف بیورو کریسی کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہے جبکہ پاکستان
کے بااثر بیورو کریٹ ہمیشہ ہر معاملے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں
۔۔۔۔۔۔مگر حقائق اس کے برعکس ہیں تحصیل، ضلع،ڈویثرن،محکمہ، صوبہ اور پھر
وفاق تک ،سب سے زیادہ با اختیار کردار بیورو کریسی کا ہوتا ہے ،سیکرٹری
صحت،تعلیم کی سیٹ ہمیشہ ’’ڈی ایم جی‘‘یا پھر صوبائی سروس افسران کے حصے میں
آتی ہیں ،کبھی نہیں سن گیا کہ کوئی استاد اور ڈاکٹر ترقی پا کر اپنے محکمے
کا سیکرٹری لگا ہو ۔۔۔مگر الزام ہمیشہ استاد اور ڈاکٹر پر ہی عائد کیا جاتا
ہے ،عالم یہ ہے کہ ’’مروت‘‘ میں ’’اے سی آر‘‘ لکھوائی جاتی ہے اوردنیا بھر
میں پر وموشن کو (Earn) کیا جاتا ہے ،اصول ہے کہ گریڈ 22 میں جانا سب کا حق
نہیں ہے بلکہ آپ کی قابلیت پر منحصر ہے ،ملک میں عالم یہ ہے کہ تمام سول
افسران کا ’’پے اسکیل‘‘ ایک جیسا ہے تنخواہ ،مراعات سہولتیں سب ایک جیسی
ہیں مگر ’’رول‘‘ بالکل مختلف ہے،ملک میں ’’ڈی سی او‘‘ ریونیو افسر ،ڈی پی
او اور پوسٹ ماسٹر سمیت تمام لوگ اپنے اسکیل کے مطابق ایک ہی تنخواہ لیتے
ہیں ،حالانکہ ہونا تو یہ چائیے کہ ہر افسر کو اس کے کام کی نوعیت اور محکمے
کی کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہ دی جائے ،سال میں ہر سول افسر کی انکریمنٹ
لگتی ہے اور ہر بار لگتی ہے ۔۔۔مگر کارکردگی کی بنیاد پر کیوں نہیں لگائی
جاتی۔۔۔؟ پاکستان کا حال یہ ہے کہ لوگ سرکاری اسکول،سرکاری اہسپتال،بس سروس
سمیت کسی ادارے کو ترجیح نہیں دیتے مگر ’’نوکری‘‘ سرکاری کرنا چاہتے ہیں
۔۔۔؟کیونکہ وہاں پر بنا کام کے تنخواہ حاصل ہو جاتی ہے ،محکموں میں غیر
منصفانہ نظام کا یہ عالم ہے کہ ایک افسر اسلام آباد کے ایف 6کی چار کنال کی
کوٹھی میں رہتا ہے جبکہ دوسرے افسر کو ریاست 14ہزار روپے تھما کر کہتی ہے
کہ خود رہائش کا بندوبست کرلیں ۔۔۔؟مونی ٹائزیشن پالیسی کے نام پر ایک لاکھ
روپے تک دئیے جاتے ہیں،اور یہ افسران سرکاری گاڑی بھی استعمال کرتے ہیں
،اجارہ داری کا یہ عالم ہے گریڈ 20کے افسر کو (Monetization)پالیسی کے تحت
65ہزار روپے بھی دئیے جاتے ہیں اور وہ سرکاری گاڑی بھی استعمال کرتے ہیں ،
جبکہ دوسری طرف گریڈ 19کے افسر کو بغیر گاڑی کی سہولت کے صرف 5ہزار روپے
تھما دئیے جاتے ہیں ۔۔۔۔آپ کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ آپ ریاست کے ٹریننگ
انسٹی ٹیوٹ میں اچھے اور ایماندار افسران لگائیں تا کہ وہ ان سرکاری افسران
کی بہتر ٹریننگ کر سیکں ۔۔۔مگر چن چن کر ایسے افسران کو لگا یا جاتا ہے جو
یا تو سزا یافتہ ہوتے ہیں یا پھر قومی تحققیاتی اداروں کو مطلوب۔۔۔۔؟
مارکیٹ کے مطابق تنخواہ دنیا وقت کی اہم ضرورت ہے آج گریڈ 17یا 18کا
افسراپنے بچوں کا اچھے اہسپتال میں علاج اور اچھے اسکول میں نہیں پڑھا سکتا
۔۔۔مگر اختیارات ایسے دئیے گئے ہیں کہ وہ ارب پتی لوگوں کا احتساب کرتا ہے
۔۔۔۔جب ایسی صورتحال ہوتی ہے تو وہ پھر اپنے اختیارات کو Translate))کر کے
اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے ۔۔۔۔کیا کبھی ہم سوچا ہے کہ میرا ملک
ان سول افسران کو کم تنخوائیں دینے کی کیا ادا کر رہے ہیں ۔۔۔؟ افسران کی
جانب سے ریاست کو کھربوں روپے کا ’’ٹیکا لگانا‘‘ معمول بن چکا ہے۔۔۔اس ملک
میں سول سروس افسران کی ایک بڑی تعداد ہے جو کرپشن اپنی ضرورت کے لئے کرتے
ہیں ۔۔۔اچھی تنخوائیں دی جائیں تو شاہد یہ سلسلہ تھم جائے ،مگر اس کے برعکس
ایسی تعداد بھی ہے جو کرپشن اپنی Greed))کومٹانے کے لئے کرتے ہیں ۔۔۔کیونکہ
انہیں تنخوائیں زیادہ بھی دیں تو انہوں نے ’’باز‘‘ نہیں آنا ،ان کو صرف بے
رحمانہ احتساب سے ہی روکا جا سکتا ہے ،آج بھی آپ دیکھ لیں ایک گریڈ 17کے
’’اے سی‘‘ اور گریڈ 18کے ’’ڈی سی او‘‘ کے پاس سرکاری بنگلے کئی کئی ایکڑ پر
میحط ہیں ،جب کہ ایک گریڈ 17کے زرعی آفیسر یا محکمہ تعلیم کے تحصیل آفیسر
،یا کوئی بھی تحصیل افسر یا ضلعی افسر کے پاس رہنے کو سرکاری رہائش گاہ
نہیں ہوتی بلکہ کئی ایک کے دفاتر بھی ’’کرائے‘‘ کی عمارتوں میں ہیں ۔۔۔سب
سے اہم بات کہ 1964ء کے سول سروس کے Conduct &Rulesپڑھ رہا تھا کہ جس میں
سول افسران کی دیانت Intergrityکے حوالے سے قوانین ہیں مگر افسوس ان پر آج
تک عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔؟ یہ لمحہ فکریہ ہے ۔۔۔؟ہر سال Declaration
Form Assetجمع کروانا سول سروس افسران کے لئے لازمی ہے مگر بااثر ترین بیور
و کریٹ اس سے بھی مبرا ہیں ۔۔۔۔ وزیر اعظم صرف اتنا کر لیں کہ بورڈ ممبران
سے پوچھا جائے کہ ’’اثاثوں ‘‘ کے فارم کے بغیر افسران کو کیسے ترقی دی گئی
۔۔۔؟ بیور کریسی میں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ آتے ہیں مگر صرف
10,12سالوں کی نوکری کے بعد بیرونی دوروں ،عالی شان کوٹھیاں ،لگثرری گاڑیاں
کی ریل پیل ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔اس کا جائزہ کون لے گا ۔۔۔۔۔؟ایک سیکرٹری کس طرح
دوسرے کا احتساب کر سکتا ہے ۔۔۔۔؟ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب ۔۔۔آج قوم
آپ سے تقاضا کرتی ہے کہ بامقصد اور منصفانہ سول سروس ریفارمز متعارف کرائیں
۔۔۔ |