کراچی میں بلاول زرداری کی سیکورٹی اور پرو ٹوکول کے باعث
دس ماہ کی بچی بسمہ کی موت صرف پی پی پی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام
حکمرانوں (ڈکٹیٹر یا سیاستدان کیلئے)اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خطرے کی گھنٹی ہے
کہ وہ سنبھل جائیں ۔ اﷲ تعالیٰ کے ہا ں دیر ہے اندھیر نہیں۔وہ اپنی مخلوق
پر زیا دہ عرصہ تک ظلم ہوتا دیکھ نہیں سکتا ۔ کسی بھی مظلوم کی آہ و بکا
فریاد اﷲ کے عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔جس VIPکلچر کا شکار فیصل کی اکلوتی
بیٹی ہوئی ہے۔ اس کلچر کا شکار پاکستان کا ہر حکمران ہے کوئی کم ہے اور
کوئی زیا دہ ۔ ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ جنکے باعث وہ
اندرون و بیرون ملک خطرات کا شکار رہے ہیں، اور رہیں گے۔ انہوں نے عوام کی
نہ تو کبھی سنی ہے اور نہ ہی کبھی ان سے کوئی امید ہے۔ کہ وہ سنیں گے۔ وہ
اپنے غیر ملکی آقاؤں مغربی قوتوں اور انکے سودی مالیاتی اداروں کے غلام ہیں۔
وہ انکی مان کر چند ٹکوں کی خاطرچل رہے ہیں۔ اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں
کوتباہ کر رہے ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی دکھ درد ہی نہیں ہے صرف نمود و
نمائش ، دکھلاوا۔جعلی منصوبوں کے افتتاح ان کی سیاست اور طرز حکمرانی کا
وطیرہ ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے سرمائے کو وہ بے دردی سے گزشتہ
68سالوں سے گدھ کی طرح نوچ نوچ کر سانڈوں کی طرح پل کر موٹے ہو گئے ہیں
لیکن بنیادی ضروریات زندگی ، روزگار ، امن ، میرٹ ، عدل وانصاف، تعلیم ،
صحت سے محروم 20کروڑ عوام کی حالت زار پر انہیں کوئی رحم نہیں آتا ۔ کراچی
میں ٹرامانسٹر کے افتتاح کے موقع پر پروٹوکول اور سیکورٹی کے باعثٖ جو
ناگہانی موت بچی کی واقع ہوئی اس طرح کے واقعات ہمارے دیہاتوں، شہروں میں
آئے روز کا معمول ہیں ۔ ہمارے ہسپتال مذبحہ خانہ بنے ہوئے ہیں ۔ دیہاتوں
میں BHUسینٹر اور تحصیلوں میں چھوٹے ہسپتال قائم کئے گئے ہیں جہاں ڈاکٹر،
ادویات، عملے نام کی کوئی چیز نظر آنا مشکل ہے۔ آئے روز اموات بروقت طبعی
سہولت نہ ملنے کے باعث ہوتی رہتی ہیں ۔ بڑے شہروں میں ڈاکٹر مریض کو بھاری
فیس کے بغیر ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوتے ۔ ہسپتالوں میں عام زچگی کے کیس
کو آپریشن کا کیس بتا کر مریضوں سے بھاری رقم بٹورنا معمول بن گیا ہے۔
ادویات کے ڈسٹری بیوٹر ڈاکٹر ز خود بنے ہوئے ہیں۔ اگر فیصل اپنی بچی کو
ہسپتال لے کر پہنچ بھی جاتا تو اسے ایمرجنسی وارڈ پر کیا ملنا تھا۔ لیکن
امید پہ دنیا قائم ہے اب اسکی وہ درد بھری گفتگو جو اس نے بچی کی وفات کے
بعد میڈیا کے نمائندوں سے کی، اس ملک میں غریب کی بچی کی جان کی کوئی حیثیت
نہیں ہے۔ میں 20سے 25منٹ ہسپتال کے اندر داخل ہونے کے لئے ادھر سے ادھر
بھٹکتا رہا لیکن میری کسی نے نہ سنی ۔ بلاول کی جان کی حیثیت ہے اور غریب
بچی کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ مجھے ملک میں انصاف کی کوئی امید نہیں
ہے ۔ میرے ساتھ زیادتی کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروائی جائے یعنی یہ
طمانچہ جو بچی کے باپ نے ہماری عدالتوں، سیاست دانوں اور حکمرانوں کے منہ
پہ مارا ہے یہ صرف اسکا نہیں ہے بلکہ پاکستان کی20کروڑ عوام کا طمانچہ
ہمارے حکمرانوں کے منہ پر ہے جنکے خیالات حکمرانوں کے بارے میں ایسے ہیں
اوپر سے ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھیں کہ سندھ حکومت کا کوئی وزیر ، مشیر ،
وزیر اعلیٰ اپنی اس قبیح حرکت پر شرمندہ ہونے کو یا معذرت تک کرنے کو تیار
نہیں ہے الٹا الیکٹرانک چینل پہ آ کر اپنی صفائیان پیش کی جا رہی ہیں ۔
نثار کھوڈو کے اس بیان نے جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں تو بلاول بھٹو کی
جان زیادہ عزیز ہے ان کے لئے سیکورٹی ضروری تھی نے پی پی پی کے تابوت میں
آخری کیل ٹھونک دی انکا بیا ن انکی جماعت کی گرتی ہوئی ساکھ کو زندہ درگور
کرنے کے مترادف ہے ۔ اگر سندھ حکومت فوری معذرت کر لیتی اور بچی کے لواحقین
کے ساتھ اظہار ہمدردی اور انکی مالی و اخلاقی کفایت کا اعلان کرتی تو شاید
ان کی جماعت کی طرف توپوں کا رخ اتنا زیادہ نہ ہوتا جتنا اب ہے۔ لیکن سائیں
اور انکے وزیروں سے اچھائی کی امید کرنا دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔
وہ آئے روز ایسے فیصلے اوراقدامات کر رہی ہے جس سے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ
کہیں وہ اپنے واحد صوبہ سے بھی محروم نہ ہو جائیں۔ بسمہ کی موت کا واقع
ہمارے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ بلاول بھٹو کی سیکورٹی
پروٹوکول والی صورتحال ہر صوبے میں موجود ہے۔ سندھ میں کچھ زیادہ ہے۔
VIPموومنٹ نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کچھ سال قبل کوئٹہ میں
VIPموومنٹ کے باعث ٹریفک جام ہوا اور ایک ماں نے بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے
کے باعث رکشے کے اندر ہی بچے کو جنم دیا۔ پاکستان بھر میں ایسی کتنی اموات
اس موومنٹ کے باعث ہو چکی ہیں لیکن ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں اندھے
ہوچکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ہر بڑے شہر کو سیکورٹی فورسز خصوصاً پولیس کی
نفری کی کمی کا سامنا ہے لیکن جو نفری انہیں دستیاب ہے اس میں سے آدھی
VIP's کی سیکورٹی پر مامور ہوتی ہے جس کے باعث معا شرے میں جرائم پیشہ
لوگوں اور جرائم کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آتا ہے۔ حکمران جو کہ عوام
کی جان و مال کے محافظ ہوتے ہیں لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہ رہی ہے ۔
عوام حکمرانوں کے باعث زیر عتاب ہیں۔ بسمہ کی ماں کا یہ کہنا کہ آ ج ہماری
بچی مری ہے کل کو کسی اور کے ساتھ ایسا ہوگا۔ کیا ہماری بچی کا حق نہیں تھا
کہ اسکا علاج ہوتا؟ بالکل نہیں ، پاکستان کے کرپٹ کلچر میں کسی غریب کو یہ
حق حاصل نہیں ہے کہ اسے صحت کی سہولیات ، پینے کا صاف پانی ، بجلی ، گیس،
تعلیم ، عدل و انصاف، اور میرٹ ملے۔ یہ سب کچھ تو حکمرانوں کے لئے ہیں۔ جن
کے گرد اب انشاء اﷲ اﷲ کی جانب سے اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی گھیرا تنگ
ہونے والا ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمران اﷲ کے ساتھ سودی اور ناانصافی کے نظام
کے باعث حالت جنگ میں ہیں۔ ابھی بھی موقع ہے کہ حکمران توبہ کریں اور سادگی،
ایمانداری ، خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کریں، بصورت دیگر اپنے انجام کے
لئے تیار ہو جائیں۔ پھر انکی خزانوں سے بھری تجوریاں ملیں ، ہوٹل ، پلازے
ان کے کچھ کام نہ آئیں گے-
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جو اندھیر نگری ، چوپٹ راج ہے وہ دنیا میں کہیں
بھی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے حکمران ووٹ کی خاطر اپنے ووٹروں کی خوش آمد
منتیں ، سماجتیں کرتے ہیں انکو سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں ۔ لیکن طمع پورا
ہونے کے بعد وہ ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عوام میں
گھلنا ملنا انکی داد رسی مشکلات کو سننا کے بارے میں وہ سوچتے بھی نہیں اور
نہ ہی اس پر کوئی توجہ دیتے ہیں۔ جب کہ اقوام عالم کے بیشتر حکمرانوں نے
ہمارے اسلاف کے اچھے طریقوں کو اپنے طرز سیاست و حکمرانی کا وطیرہ بنا لیا
ہے جس کے باعث وہ کا میاب و کامران ہیں۔وہاں کسی بھی VIPموومنٹ کا عوام کو
احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ وہاں حکمرانوں کی آمد پر نہ تو کوئی روڈ بند
ہوتی ہے اور نہ ہی سینکڑوں گاڑیاں پروٹوکول کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ انہوں
نے عاجزی، انکساری، انصاف، اعتدال، میانہ روی کو اپنایا ہوا ہے ۔ وہ عوام
کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ جب کہ ہمارے حکمران اپنے منتخب اسمبلی کے اراکین تک
کو اپنا دیدار نہیں کرواتے ، عوام کو کیا منہ دکھائیں گے۔ سرکاری دوروں پر
سرکاری خزانے سے اپنے سینکڑوں درباریوں کے ہمراہ قومی سرمائے کو برباد کیا
جاتا ہے ۔ مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام اور لوموزین گاڑیوں میں گھوما
جاتا ہے۔ اور میڈیا پر اپنی جھوٹی مشتہری کے لئے سرکاری خزانے سے کروڑو ں
کی رقم برباد کی جاتی ہے اپنی اولادوں ، عزیزوں ، رشتہ داروں ، دوستوں کو
بڑے بڑے عہدوں پر فائزکر کے اپنے سرمائے کو ملٹی پلائی کیا جاتا ہے۔ کھربوں
کے قرضے لے کر معاف کروا لئے جاتے ہیں۔ علاج بیرون ملک سرکاری پیسے سے کیا
جاتا ہے۔ حتیٰ کے حج و عمرہ جیسی مذہبی عبادت جو اپنی جیب سے کرنے کا حکم
ہے پر بھی سرکاری خزانے کو چونا لگایاجاتا ہے۔ لیکن نہ تو ہماری کوئی عدالت
حرکت میں آتی ہے۔ اور نہ ہی ہمارا نظام اور احتسابی ادارے کیونکہ سب کے سب
اﷲ کے خوف سے عاری ہیں۔ اور مال کے حرص کی دوڑ میں پیش پیش ہیں لیکن ایک
عدالت ایسی ہے جہاں پر نہ تو کوئی سفارش چل سکے گی اور نہ ہی کوئی رشوت ۔
وہ ہے اﷲ تعالیٰ کی عدالت ۔ اس عدالت میں حکمرانوں سے حساب کتاب سخت لیا
جائے گا اور جسکا حساب شروع ہو گیا وہ کا م سے گیا۔ ہمارے حکمران ڈریں اس
دن سے اور VIPکلچر کو کسی اور معصوم جان کی ہلاکت سے پہلے دفن کر کے اسلام
کے ذریں اصولوں کی سیاست کو اپنائیں ۔ ورنہ آج سندھ حکومت نشانے پہ ہے کل
کو کوئی اور بھی آ سکتا ہے کیونکہ سب ایک ہی نظام کلچر کے پروردہ اور
Followers ہیں۔ |