1400سال قبل اﷲ کے آخری پیغمبر ؐنے کہہ دیا ’’کاروبار
حکمرانوں کا کام نہیں‘‘پھر خلفائے راشدین کا طرز حکومت بھی ہم سب کے سامنے
ہے حضرت عثمان نے خلافت کا منصب سنبھالا تو کپڑے کا کاروبار ترک کر کے ایک
مزدور کے برابر اپنی اجرت مقرر کئی سو سالوں بعد ابن خلدون نے جب اپنی
تنصیف’’مقدمہ‘‘ میں ایک مثالی ریاست کو پیش کیا تو واضح طور پر لکھ دیا کہ
’’جس ملک یا قوم کے کے تاجر حکمران بن جائیں اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا
سکتا ‘‘اسکے باوجود ہم ہیں کہ مستقبل کے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک کے طور
پر دیکھ رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ تاجر کو محبت پیسے سے ہوتی ہے گاہک سے نہیں
اور جس معاشرے میں انسان کی قدر نہ ہو وہاں ہر روز نامعلوم کتنی بسما ئیں
زندگی سے ہاتھ دہو بیٹھتی ہیں جس دن کراچی میں بسمہ پروٹوکول کی نذر ہوئی
اسی رات ملتان کا رہائشی اشفاق اپنے چار بچوں اور بیوی سمیت غربت کی نظر ہو
گیا ‘ہمارے معاشرے کی پستی کی انتہا ء دیکھئے جنھیں عوام کے تحفظ کی ذمہ
داری سونپی گئی تھی ان بد دیانت لوگوں نے اپنے تحفظ کیلئے عوام کا خون
بہانا شروع کر دیا اور بے حسی کی حد تو یہ ہے اس پر یہ شرمسار بھی نہیں
انکے قریب یہ معمولی واقع ہے‘نثار کھوڑو کے بیان نے قوم کا سر شرم سے جھکا
دیا ‘بلاول زرداری کی جان کو سب سے اہم قرار دینے والے کھوڑوشاید بے خبر
ہیں کہ جس ملک کے وہ وزیر ہیں اس کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی اور اسلام کی
بنیادمساوات ہے صوبائی وزیر تعلیم اگر زیادہ مطالعے کے شوقین نہیں تو کم از
کم ایک بار خطبہ حجتہ الوداع کا مطالعہ کر کے قوم پر احسان فر ما دیں نبی
کریمؐ نے فرمایا’’جو تم میں غریب ہیں انہیں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہووہی
پہناؤ جو تم پہنتے ہو سب کو اﷲ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ تم سے تمہارے
اعمال کا حساب لے گا‘تم سب آدم کی اولاد ہواور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جسے
اﷲ کا خوف ہے ہر مسلمان دوسرے مسلما ن کا بھائی ہے مسلمانوں میں رنگ نسل
اور قبیلے کا کوئی امتیاز نہیں کوئی مسلمان کسی دوسرے کے مال پر ناجائز
تصرف نہیں کرے گا ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائیگا‘‘ میں جانتا ہوں کہ
نثار کھوڑو کے اس بیان کا مقصد وزارت پکی کرنے سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں
سکتالیکن موصوف کا یہ بیان عام آدمی کیلئے کسی صدمے سے کم نہیں تھا‘ پھر
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پروٹوکول محض گاڑ یوں کا قافلہ نہیں بلکہ یہ عام
آدمی کی سر عام تذلیل ہے ایک ایماندار آدمی کو جب بندوق کی نوک دکھا کر بیچ
چوراہے گھنٹوں کھڑے رہنے پرمجبور کیا جاتا ہے تو ہر لمحہ اس کیلئے کس قدر
درد ناک ہو تا ہے اسکا اندازہ مردہ ضمیر ٹولے کو ہر گز نہیں ہوسکتا ‘ہم
جنہیں اپنا لیڈر بنا کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اگر وہ گیڈر بن جائیں تو
عوام کیلئے اس سے بڑی ذلت اور کیا ہوگی ․․․؟اس نظام کی بنیادوں میں بے
گناہوں کا خون ہے یہ نظام عوام دوست ہو ہی نہیں ہو سکتا یہ نظام صرف ایک
مخصوص طبقے کیلئے فائدہ مند ہے اور وہ طبقہ اس کی بقاء کیلئے ہر حد تک جانے
کو تیار ہیں عقل حیران ہے کہ 30سالوں سے دو خاندان اس ملک کو لوٹ رہے ہیں
دونوں جماعتیں بذات خود بھی ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتی آئی ہیں
لیکن اس کے باوجود انھیں یہ گلہ رہتا ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا
گیادوسری طرف عوام کی بے حسی بھی انتہا کو چھو رہی ہے ایک مدت سے یہ عوام
اس نظام کو ووٹ کی صورت میں ایندھن فراہم کر رہے ہیں ‘ان دو خاندانوں کے
مقاصد سمجھنے کیلئے ارسطو یا سقراط جیسی ذہانت کی ضرورت نہیں ان دونوں
جماعتوں کے طرز حکومت پر سر سری نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی
ہے دونوں بڑے اپنے پیٹ اور اکاؤنٹ بھر نے میں مصروف ہیں کسی نے نندی پور
پراجیکٹ کی آڑ میں قومی خزانے کو ہڑپء کیا تو کسی نے بجلی کے کرائے گھروں
میں گھپلا کیا ‘کسی نے قومی خزانہ میڑو بس کی نذر کر دیا تو کسی نے سرکاری
زمینوں پر قبضے کر نیوالوں کے سر پر ہاتھ رکھا ‘کبھی شیر آٹا کھا گیا تو کو
ئی مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوا ‘چھوٹے موٹے چوروں کو وزارتوں پر رضا مند کر
لیا گیااس سب کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ملک کی خدمت کی انہوں
نے جمہوریت کیلئے قر با نیاں دیں جب کہ حقیقت سب کے سامنے ہے انہوں نے اس
ملک کو چرا گاہ بنا کر رکھ دیا بلوچستان کی صورتحال ایک کھلی کتا ب ہے اڑھا
ئی سال تک ایک فرد نے اس پر حکومت کی اور اب دوسرے فرد کو بلوچوں کا حاکم
بنا دیا گیا ان دو بڑوں کی بیڈ گورننس آج انہیں یہاں تک لے آئی کہ اب ایک
کے ہاتھ میں بھٹو کی تصویر ہے اور دوسرا آمریت کیخلاف اپنی جدوجہد گنواتا
ہے دیکھنا مگر یہ ہے کہ عوام کب تک ان کا بوجھ اٹھا رکھتے کب تک بسمائیں ان
کے راستے کی گرد بنتی ہیں ‘کب تک ان بسماؤں کہ والد نوکری کے عوض بیٹیوں کے
قاتلوں کو معاف کرتے ہیں اور بسماؤں کے خون پر تعمیر یہ حکومتی قلعے آخر کب
تک قائم رہتے ہیں ․․․! |